صحابہ کرام کے فضائل

Wed, 2 Sep , 2020
3 years ago

صحابی کی تعریف:

علماء متقدمین ومتاخرین نے صحابی کی تعریف میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر اس صاحب ایمان شخص کو صحابی کہا جائے گا جس نے ایمان کی حالت میں خاتم النّبیین محمد عربی صلى اللہ عليه وسلم سے شرف ملاقات حاصل کیا اور اسی ایمان کے ساتھ وفات پائی،اور ظاہر ہے کہ وہ نابینا حضرات یا صحابہ کے نومولود بچے جو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی خدمت مبارکہ میں لائے گئے ان سب کو ملاقات حاصل ہے لہٰذا بلا تردد جماعت صحابہ میں ان کا شمار ہوگا۔

اس طرح کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کا پاکیزہ گروہ اس زمرہ میں شما رکیا جاتا ہے جس کے بارے میں علماء اہل سنت والجماعت اور ائمہ سلف کا بالاتفاق قول ہے کہ سب کے سب نجوم ہدایت ہیں کیونکہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے: اَصْحَابی کالنُّجوم بأیہم اقتدیتم اہتدیتم. (ترمذی)

گروہ صحابہ کا وجود، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے معجزات میں سے ایک عظیم الشان معجزہ ہے جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ومحبوب صلى الله عليه وسلم کے عالمگیر پیغام رسالت کو خطہٴ ارضی کے ہرگوشہ تک اس کی حقیقی روح کے ساتھ پھیلایا اور اس طرح آنحضور صلى الله عليه وسلم کا رحمة للعالمین ہونا بھی ثابت کردیا اور وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ (سورہ فاطر:۲۴) کی تفسیر بھی دنیا کے سامنے پیش کردی گئی۔

حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پاکیزہ برگزیدہ جماعت کے ذریعہ اسلام کا تعارف بھی کرادیاگیا اور رسول عربی صلى الله عليه وسلم کی سیرتِ طیبہ اور سنت کو عام کیاگیا اگر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو الگ رکھ کر ان کوعام انسانوں کی طرح خاطی و عاصی تصور کرکے غیر معتبر قرار دیا جائے گا تو اسلام کی پوری عمارت ہی منہدم ہوجائے گی نہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی رسالت معتبر رہے گی نہ قرآن اور اس کی تفسیر اور حدیث کا اعتبار باقی رہے گا کیونکہ اللہ کے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے جو کچھ من جانب اللہ ہم کو عطاء کیا ہے وہ ہم تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کی معرفت پہنچا ہے خود معلم انسانیت محمد عربی نے اپنے جاں نثار اطاعت شعار صحابہ کی تربیت فرمائی تھی۔ صحابہ کرام نے اوّل، زبان رسالت سے آیات اللہ کو ادا ہوتے سنا تھااور کلام رسول کی سماعت کی تھی پھر دونوں کو دیانت وامانت کے ساتھ اسی لب ولہجہ اور مفہوم ومعانی کے ساتھ محفوظ رکھا اور بحکم رسول عربی صلى الله عليه وسلم اس کو دوسروں تک پہنچایا کیونکہ حجة الوداع کے موقع پر آنحضور صلى الله عليه وسلم نے ان کو تبلیغ کا مکلف بنایا تھا... بَلِّغُوْ عَنِّی وَلَوْ آیةً . میری جانب سے لوگوں کو پہنچادو اگرچہ ایک آیت ہی ہو۔(بخاری ومسلم)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو درسگاہ نبوت میں حاضری کا مکلف ایک خاص حکم کے ذریعہ بنایا تھا کہ ہر وقت ایک معتدبہ جماعت اللہ کے رسول کی خدمت میں اسلام سیکھنے کیلئے حاضر رہے اس لئے کہ کب کوئی آسمانی حکم اور شریعت کا کوئی قانون عطا کیا جائے، لہٰذا ایک جماعت کی آپ کی خدمت میں حاضری لازمی تھی اور ان کو بھی حکم تھا کہ جو حضرات خدمت رسالت میں موجود نہیں ہیں ان تک ان نئے احکام اور آیات کو پہنچائیں۔

وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةًؕ-فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىٕفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ۠(۱۲۲)

تَرجَمۂ کنز الایمان:اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکلیں تو کیوں نہ ہو ا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیں اس امید پر کہ وہ بچیں

حقیقت تو یہ ہے کہ صحابہ کرام سے محبت وعقیدت کے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت نہیں ہوسکتی اور صحابہ کرام کی پیروی کئے بغیر آنحضور صلى الله عليه وسلم کی پیروی کا تصور محال ہے۔ کیونکہ صحابہ کرام نے جس انداز میں زندگی گزاری ہے وہ عین اسلام اور اتباع سنت ہے اور ان کے ایمان کے کمال وجمال، عقیدہ کی پختگی، اعمال کی صحت و اچھائی اور صلاح وتقویٰ کی عمدگی کی سند خود رب العالمین نے ان کو عطا کی ہے اور معلم انسانیت صلى الله عليه وسلم نے اپنے قولِ پاک سے اپنے جاں نثاروں کی تعریف وتوصیف اور ان کی پیروی کو ہدایت وسعادت قرار دیا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی انسان تھے ان سے بھی بہت سے مواقع پر بشری تقاضوں کے تحت لغزشیں ہوئی ہیں لیکن لغزشوں، خطاؤں، گناہوں کو معاف کرنے والی ذات اللہ کی ہے اس نے صحابہ کرام کی اضطراری، اجتہادی خطاؤں کو صرف معاف ہی نہیں کیا بلکہ اس معافی نامہ کو قرآن کریم کی آیات میں نازل فرماکر قیامت تک کیلئے ان نفوس قدسیہ پر تنقید و تبصرہ اور جرح و تعدیل کا دروازہ بند کردیا اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے ایمان کی صداقت اور اپنی پسندیدگی کی سند بھی بخشی ہے اس کے بعد بھی اگر کوئی فرد یا جماعت صحابہ کرام پر نقد و تبصرہ کی مرتکب ہوتی ہے تواس کو علماء حق نے نفس پرست اور گمراہ قرار دیا ہے ایسے افراد اور جماعت سے قطع تعلق ہی میں خیر اورایمان کی حفاظت ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پوری جماعت (خواہ کبار صحابہ ہوں یا صغار صحابہ) عدول ہے اس پر ہمارے ائمہ سلف اور علماء خلف کا یقین و ایمان ہے۔ قرآن کریم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق آیات پر ایک نظر ڈالئے پھر ان کے مقام ومرتبہ کی بلندیوں کا اندازہ لگائیے اس کے بعد بھی اگرکسی نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنقیص کی جرأت کی ہے تواس کی بدبختی پر کفِ افسوس ملئے ۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں