
تکبر ایک بہت قبیح و مذموم
صفت ہے، قرآن و حدیث میں اس کی بہت مذمت وارد ہوئی، اللہ پاک نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:انه لا يحب المتكبرين۔
ترجمہ کنزالایمان:بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔
مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 96 صفحات پر مشتمل کتاب
تکبر کے صفحہ 16 پر ہے:خود کو افضل اور دوسروں کو حقیر جانے کا نام تکبر ہے،
چنانچہ رسول پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے ارشاد فرمایا:تکبر حق کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ (مسلم،
کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص61)
تکبر
کے گناہ میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب ہیں:
٭مال
و دولت،٭عہدہ و منصب، ٭علم، ٭حسب نسب، ٭حسن و جمال، ٭طاقت و قوت، ٭خود پسندی، ٭بغض
وکینہ (گناہوں
کے عذابات، صفحہ82)
آئیے اب تکبر کی مذمت پر احادیث مبارکہ ملاحظہ کیجئے۔
1۔حضور
نبی کریم، رؤف الرحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
ارشاد فرمایا:قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھايا
جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کی بولس نامی قید خانے کی
طرف ہانکا جائے گا اوربہت بڑی آگ انہیں
اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غا لب آ جائے گی، انہیں طينة الخبال
یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ج4، ص221، ح2500)
2۔حضرت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں:جس شخص کے دل میں رائی کے
دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا ۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب
تحریم الکبر وبیانہ، ص175)
3۔حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان
کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک فرماتا ہے، کبریائی
میری چادر ہےاور عظمت میرا راز ہے، جو کوئی ان میں سے کسی ایک کے حوالے سے میرا مقابلہ کرنے کی کوشش کرے گا، میں اسے جہنم
میں ڈال دوں گا۔ (سنن
ابی داؤد،4084)
4۔حضرت
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی
اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں، جو شخص اللہ پاک کے لئے تواضع کا ایک درجہ اختیار کرے گا،
اللہ پاک اس کے عوض میں اس کا ایک درجہ بلند کرے گا اور جو شخص اللہ پاک کے مقابلے میں ایک درجہ تکبر اختیار کرے گا،
اللہ تعالیٰ اس کو ایک درجہ پست کر دے گا، یہاں تک کہ اسے اسفل سافلین میں ڈال دے
گا۔ (سنن
ابن ماجہ، کتاب الزھد،77)
5۔جو
شخص تکبر سے اپنے کپڑے گھسیٹے گا، اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا۔
(صحیح
مسلم، حدیث5455)
ہمیں
چاہئے کہ خود کو تکبر سے بچانے کی کوشش کریں کہ اللہ پاک تکبر کو ناپسند فرماتا ہے اور عاجزی کو پسند
فرماتا ہے، اگر ہمیں اللہ کا پسندیدہ بندہ بننا ہے، تو تکبر کو چھوڑ کر عاجزی
اپنانی چاہئے، تکبر سے بچنے کے لئے اپنے عیبوں پر نظر رکھئے اور سلام و مصافحہ میں
پہل کیجئے کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہسلام میں پہل کرنے والا تکبر سے دور ہو جاتا ہے۔
(شعب
الایمان، صفحہ433/8786)
علم
کی پہچان عاجزی اور جہالت کی پہچان تکبر ہے۔
اللہ
پاک ہمیں تکبر سے محفوظ رکھے اور عاجزی و
انکساری کا پیکر بنائے۔آمین یا رب العالمین

ہم سب کو اپنے حصّہ کی
زندگی گزار کر سفرِ آخرت پر روانہ ہونا ہے، اس سفر کے نازک مراحل سے گزر کر انسان
اپنے اعمال کے مطابق ربّ تعالیٰ کی مشیت سے جنت و دوزخ کا حقدار قرار پاتا ہے اور
افسوس! جن کا ٹھکانہ دوزخ ہے، وہ ان کے اپنے گناہوں کے سبب سے ہے، گناہ ظاہر اور باطنہ
بھی ہوتے ہیں، انسان کی ظاہری گناہ سے بچنے پر توجہ ہوتی ہے، ایسے میں باطنی گناہوں
کا علاج نہیں ہوپاتا اور اکثر باطنی گناہوں کے باعث انسان ہلاکت میں پڑ جاتا ہے،
اس طرح یہ تکبر بھی ایک باطنی اور مہلک مرض ہے۔
تکبر:
خود
کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے، چنانچہ رسول اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تکبر کی تعریف کرتے ہوئے
فرماتے ہیں:الکبر بطر الحق وغظ الناستکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا
نام ہےاور جس شخص کے دل میں تکبر پایا جائے، اسے متکبر کہتے ہیں۔
تکبر
کی مذمت پر ایک آیت مبارکہ:
انه لا يحب المتكبرين۔
(پ14،
النحل:23)
ترجمہ کنزالایمان:بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔
تکبر
کی تین اقسام ہیں:
1۔ربّ
پاک کے مقابلے میں تکبر،
2۔اللہ پاک کے رسولوں کے مقابلے میں تکبر،
3۔بندوں کے مقابلے میں تکبر، ان میں پہلی دو
صورتیں کفر اور تیسری اگرچہ ان سے کم، مگر حرام ہے۔
تکبر
کی مذمت کے بارے میں 5 فرامین مصطفی:
حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے فرمایا:کہ قیامت کے دن اللہ پاک تین
قسم کے آدمیوں سے بات نہیں کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف نظر رحمت فرمائے گا اور ان
کو دردناک عذاب ہوگا،1۔بوڑھا ہونے کے باوجود زنا کرنے والا، 2۔جھوٹ بولنے والا بادشاہ، 3۔اور تکبر کرنے والا۔
حضور نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے
دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھايا جائے گا، ہر جانب سے ان
پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کی بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اوربہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں
لے کر ان پر غا لب آ جائے گی، انہیں طينة الخبال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔
(ترمذی،
ج4، ص221، ح2500)
فرمانِ
رسول اکرم، نور مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:جس
کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر
ہوگا،تو وہ ہرگز جنت میں داخل نہیں ہو گا ۔
ابو
ذر رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے فرمایا:تین لوگوں سے ربّ تعالیٰ قیامت کے دن نہ کلام فرمائے گا اور نہ ان کی طرف نظر فرمائے گا، نہ انہیں پاک کرے گا
اور نہ ہی ان کے لئے دردناک عذاب ہے، پھر رسول اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی، حضرت ابو ذر نے عرض کیا:یا
رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم وہ کون نا مراد ہیں؟ فرمایاتکبر کے سبب اپنا تہبند
لٹکانے والا، احسان جتانے والا، جھوٹی قسموں کے ذریعے اپنا مال بیچنے والا۔ (رواہ
مسلم:104)
خاتم
النبین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اپنے فوت شدہ آباؤاجداد پر فخر کرنے والی
قوموں کو باز آنا چاہئے، کیونکہ وہی جہنم کا کوئلہ ہیں یا وہ قومیں اللہ پاک کے نزدیک گندگی کے ان کیڑوں سے بھی حقیر ہو
جائیں گی، جو اپنی ناک سے گندگی کو کُریدتے ہیں، اللہ پاک نے تم سے جاہلیت کا تکبر اور ان کا اپنے
آباؤ اجداد پر فخر کرنا ختم فرما دیا ہے، اب آدمی متقی و مؤمن ہو گا یا بد بخت و
بد کار، سب لوگ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور حضرت
آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا
ہے۔ (ترمذی،جلد
5، صفحہ497، حدیث3981)

تکبر کے متعلق خدا پاک پارہ نمبر 14، سورہ نحل کی آیت نمبر 23 میں
مغروروں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
انه لا يحب المتكبرين۔
(پ14،
النحل:23)ترجمہ
کنزالایمان:بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔
تکبر
انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا، جیسا کہ ابلیس(شیطان) جس
کا پہلا نام عزازیل تھا، بڑا ہی نیک، عبادت گزار، علم و حکمت کی معلومات رکھنے
والا اور اللہ پاک کا قرب یافتہ تھا، اس
کے علم و معلومات کی وجہ سے اسے معلم الملکوت یعنی فرشتوں کا استاد بنایا گیا اور
اس لقب سے سرفراز کیا گیا، لیکن حضرت آدم علیہ السلام کو حقارت کی نگاہ سے دیکھ
کر اور خود کو افضل جانتے ہوئے تکبر کے نشے میں عقل کھو بیٹھا اور اللہ پاک کے حکم کو انکار کرتے ہوئے کہنے لگا:
انا خیر منہ۔خلقتنی من نار وخلقتہ من طین۔
ترجمہ: میں اس سے بہتر ہوں کہ تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے پیدا کیا۔
اس
کے اس مغرور بات پر ربّ پاک نے ارشاد فرمایا:فاخرج منہا وانک رحیم۔وان علیک لعنتی الی یوم
الدین۔
(پارہ 23،ص77،78)
ترجمہ کنزالایمان:تو جنت سے نکل جا کہ تو راندھا(لعنت کیا) گیا
اور بے شک تجھ پر میری لعنت ہے قیامت تک۔
عزازیل
کی مغروریت کی وجہ سے اسے جنت سے نکال دیا گیا، جہاں وہ معلم الملکوت کے لقب سے
جانا جاتا تھا، اب وہ ابلیس(یعنی شیطان) کے
نام سے معلوم ہونے لگا۔
تکبر
کی تعریف:
خود
کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے، چنانچہ فرمانِ رسول اکرم، نور مجسم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا: اَلْکِبَرُ بَطَرُ
الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ یعنی تکبر حق کی مخالفت اور
لوگوں کو حقیرجاننے کا نام ہے۔ (صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، ص61،حدیث
91)
امام
راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: تکبر یہ ہے کہ
انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ (مفردات الفاظ القرآن، صفحہ 697)
تکبر
کے نقصانات:
تکبر
کرنے والے کو مغرور کہتے ہیں اور مغرور ہمیشہ خسارہ (یعنی نقصان) میں
رہتا ہے، چنانچہ تکبر کے نقصان کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ تکبر کرنے والوں کو
قیامت کے دن ذلت و رسوائی کا سامنا ہو گا، چنانچہ دو جہاں کے تاجدار، رحمت اللعالمین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان عالیشان ہے:قیامت کے دن متکبرین کو انسانی
شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھايا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی،
انہیں جہنم کی بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اوربہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غا لب آ جائے
گی، انہیں طينة الخبال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (جامع ترمذی، کتاب صفۃ
القیامۃ، ج4، ص221، ح2500)
تکبر
کی مذمت پر پانچ فرامین مصطفی مندرجہ ذیل ہیں:
1۔حضرت
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت
کرتے ہیں، تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
کا فرمانِ عبرت نشان ہے:کہ جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا(یعنی تھوڑا سا) بھی
تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، ص60، حدیث47)
حضرت
علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:جنت میں داخل
نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ تکبر کے ساتھ کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا، بلکہ تکبر
اور اور ہر بُری خصلت سے عذاب بھگتنے کے ذریعے یااللہ پاک کے عفو و کرم سے پاک و صاف ہو کر جنت میں
داخل ہو گا۔ (مرقاۃ
المفاتیح، جلد 8، صفحہ 828،829)
2۔نبی
اکرم، نور مجسم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا نے ارشاد فرمایا:کبریائی میری چادر ہے، لہذا جو میری
چادر کے معاملے میں مجھ سے جھگڑے گا، میں اسے پاش پاش کر دوں گا۔ (المستدرک
للحاکم، جلد 1، صفحہ 235، ح21)
ربّ
پاک کا کبریائی کو اپنی چادر فرمانا ہمیں
سمجھانے کے لئے ہے کہ جیسے ایک چادر کو دو نہیں اوڑھ سکتے، یوں ہی عظمت و کبریائی
سوائے میرے دوسرے کے لئے نہیں ہو سکتی۔ (ماخوذ از مراۃ المناجیح، جلد 6،
صفحہ 659)
3۔سید
المرسلین، خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا
کا فرمانِ عبرت نشان ہے:جس کی یہ خوشی ہو کہ لوگ میری تعظیم کیلئے کھڑے رہیں، وہ
اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا ئے۔ (جامع ترمذی، کتاب الادب، جلد 4،
صفحہ 347، ح2864)
4۔شہنشاہِ
خوش خصال صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ عبرت نشان ہے:اللہ پاک متکبرین (یعنی مغروروں)اور اِترا کر چلنے
والوں کو نا پسند فرماتا ہے۔ (کنزالعمال، جلد 3، صفحہ 21، حدیث
7727)
5۔اللہ
کے رسول صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اپنے فوت شدہ آباؤاجداد پر فخر
کرنے والی قوموں کو باز آنا چاہئے، کیونکہ وہی جہنم کا کوئلہ ہیں یا وہ قومیں اللہ
پاک کے نزدیک گندگی کے ان کیڑوں سے بھی حقیر
ہو جائیں گی، جو اپنی ناک سے گندگی کو کُریدیتے ہیں، اللہ پاک نے تم سے جاہلیت کا تکبر اور ان کا اپنے
آباؤ اجداد پر فخر کرنا ختم فرما دیا ہے، اب آدمی متقی و مؤمن ہو گا یا بد بخت و
بد کار، سب لوگ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور حضرت
آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا
ہے۔ (ترمذی،جلد
5، صفحہ97، حدیث3981)
درس:
پیارے
پیارے اور میٹھے میٹھے مسلمانوں! ذرا غور و فکر سے اس زندگی کو دیکھ کر بتائیے، اس
تکبر سے ہمیں کیا حاصل ہوگا، صرف لذتِ نفس اور دنیا کے سامنے جھوٹی شان و شوکت اور
اس کے نقصان میں آخرت کی بربادی، نیکیوں سے خالی اور گناہوں سے بھرا ہوا اعمال
نامہ اور سزا میں دوزخ کی تڑپتی، کڑکتی اور بھڑکتی آگ ہے، جس کا ایندھن انسان ہے۔
ذرا
سوچیں اور اپنے اعمال کا محاسبہ کریں، یہ دنیاوی زندگی کتنی ہے اور جس اور جن خوبیوں
(دولت،
نعمت، خوشحالحانی، علم وغیرہ) کے گھمنڈ میں، میں تکبر کرتا ہوں
اور دوسروں کو حقیر جانتا ہوں تو یہ سب خوبیاں تو اللہ پاک کی عطا کردہ ہیں اور اس تکبر کے چکر میں،
میں اپنا دین و ایمان تو داؤ میں نہیں لگا رہا، ذرا سوچیں دنیا کی عارضی عیش و
عشرت اور تکبر میں زندگی بسر کرنے والے ذرا سوچیں، آخرت میں جو دائمی زندگی ہے، اس
میں ہمارا کیا حال ہو گا۔
اللہ
پاک ہمیں تکبر جیسی اور اس کے ساتھ ساتھ تمام باطنی و اُخروی اور نقصان دہ بیماریوں
سے بچائے۔آمین

اِسلام خوبصورت دین ہے،
جہاں کسی بھی عربی کو عجمی پر، امیر کو غریب پر، گورے کو کالے پر، کوئی فضیلت حاصل
نہیں، بلکہ اسلام میں تمام لوگ برابر ہیں، مگر بدقسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں ایک
بیماری بہت عام ہو گئی ہے، جو دین میں خرابی کا سبب بن رہی ہے اور وہ بیماری تکبر
ہے۔
تکبرکی
تعریف:
دوسروں
کے مقابلے میں خود کو بڑے مرتبے والا سمجھنا اور دوسروں کو حقیر جاننا تکبر کہلاتا
ہے۔ (احياء
العلوم،ج3، ص 1012)
تکبر
ایک ایسی بیماری ہے، جو اچھائیوں کو سَلب اور برائیوں کو پیدا کرتی ہے، تکبر نصیحت
سننے اور ادب اور اخلاق کی تعلیم قبول کرنے سے روک دیتا ہے، تکبر ایسا مرض ہے، جو
بغض و عناد پیدا کرتا ہے اور دل جوئی سے روکتا ہے، ہمارے پیارے آقا محمد مصطفی صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بھی تکبر کی بہت سی مذمت بیان فرمائی ہیں۔
1۔سرورِکائنات،
شاہِ موجودات صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:مفہوم،جس
کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (معجم
کبیر، جلد 7، صفحہ 153، حدیث6668)
2۔ایک
اور جگہ پیارے آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بدتر ہے وہ شخص جو تکبر کرے اور حد
سے بڑھے اور سب سے بڑے جبّار پاک کو بھول
جائے، بدتر ہے وہ شخص، جو سرکشی کرے اور سب سے بلند اور بڑائی والی ذات کو بھول
جائے، بدتر ہے وہ شخص، جو غافل ہو کھیل کود میں پڑھا رہے اور قبر اور اس میں
بوسیدہ ہونے کو بھول جائے۔ (سنن ترمذی، جلد 4، صفحہ 203،
ح2456)
3۔محبوبِ
خدا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:بے شک جہنم میں ایک مکان ہے، جس میں
متکبرین کو ڈال کر اوپر سے بند کر دیا جائے گا۔ (مساوی الاخلاق للخراطی،
صفحہ 234،ح577)
4۔اللہ
پاک ارشاد فرماتا ہے:بڑائی میری چادر اور
عظمت میرا تہبند ہے، تو جو کوئی ان دونوں کے بارے میں مجھ سے جھگڑے
گا، تو میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا
اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ (سنن ابن ماجہ، ج4، ص5174)
5۔سرورِکونین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ارشاد فرمایا:قیامت کے دن متکبرین کو چیونٹیوں کی
صورت میں اٹھایا جائے گا اور اللہ پاک کے
ہاں ان کی قدر و قیمت نہ ہونے کے سبب لوگ انہیں اپنے قدموں تلے روندتے ہوں گے۔ (موسوعۃ
الامام ابن ابی دنیا، جلد 3، حدیث 224) ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا
کہ تکبر عمل کی بربادی اور دین کی خرابی کا سبب ہے، اس سے بچنا بہت ضروری ہے، کیوں
کہ تکبر انسان کے دل میں جس قدر داخل ہوتا ہے، اسی قدر اس کی عقل کم ہو جاتی ہے۔
تکبر
سے بچنے کا طریقہ:
علماء
نے تکبر کے علاج میں سے ایک علاج یہ بیان فرمایا، اگر آپ چاہتے ہیں عاجزی اختیار
ہو جائے، تکبر دور ہو جائے، فرمایاجس کو جانے یا نہ جانے، سلام میں پہل کرے، سب کو سلام کریں، ان شاء اللہ
پاک دل سے تکبر دور ہو جائے گا۔
اللہ
کریم ہمیں تکبر جیسی مہلک بیماری سے محفوظ فرما کر عاجزی کی دولت سے مالا مال فرمائے۔آمین

تکبر ایک مذموم صفت ہے،
تکبر حق کی مخالفت اور دوسروں کو حقیر جاننے کا نام ہے، کسی کے پاس اگر معلومات زیادہ
آجاتی ہیں تو یہ بھی اسے تکبر کی تاریک وادی میں دھکیل سکتی ہیں، بعض اوقات کثرتِ
علم کی وجہ سے بھی انسان تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے، قرآن پاک میں بھی تکبر کی
مذمت پر آیات آئی ہیں، قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ
کنزالعرفان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ ( پ 14، النحل، 23)
حدیث
پاک میں ہے:تکبر حق بات کو جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔ (مسلم،
کتاب الایمان، باب تحریم الکبر و بیانہ، صفحہ 60)
ایک
حدیث پاک میں ہے، آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے ارشاد فرمایا:تکبر کرنے والے لوگ قیامت کے دن مردوں کی صورت میں، چیونٹیوں کی
طرح جمع کئے جائیں گے اور ہر جگہ سے ان پر ذلت چھا جائے گی، پھر انہیں جہنم کے بولس
نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا، ان پر آگوں کی آگ چھا جائے گی اور وہ دوزخیوں
کی پیپ طینۃ الخبال سے پلائے جائیں
گے۔
(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 471، باب4/221، حدیث2500)
ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:کیا میں
تمہیں اہلِ جہنم کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہر بد زبان، بد دماغ متکبر شخص (جہنمی)
ہے۔
(بخاری،
مسلم، ترمذی، ابن ماجہ)
نبی
کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:کہ قیامت کے دن اللہ پاک اس کی طرف نظرِ رحمت نہیں کرے گا، جو تکبر
کے طور پر اپنے تہبند کو گھسیٹ کر چلے گا۔ (بخاری5791)
ایک
شخص نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس بیٹھ کر بائیں ہاتھ سے کھانے لگا، تو نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اس نے عرض کی:میں
نہیں کر سکتا، آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تم کر بھی نہیں سکو گے، اس نے تکبر کی
وجہ سے انکار کیا تھا، راوی بیان کرتے ہیں، وہ شخص اپنا دایاں ہاتھ پھر منہ تک نہیں
لے جا سکا۔ (طبرانی6235)
آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک جہنم میں ایک وادی ہے، جسے ہب
ہب کہتے ہیں، اللہ پاک کا فیصلہ ہے کہ وہ
اس میں تمام تکبر کرنے والوں کو ٹھہرائے گا۔ (مسند ابو یعلی، حدیث ابی
موسی الاشعری6/207، حدیث7213)
حضرت
سیّدنا حاتم اصم نے اپنے ارشاد میں تین حالتوں پر مرنے سے بچنے کا فرمایا، ان میں
سے ایک تکبر بھی ہے، تکبر کرنے والے کو اللہ پاک اس وقت تک موت نہیں دیتا، جب تک
وہ اپنے گھر والوں اور نوکروں میں سب سے
کم تر شخص کے ہاتھوں ذلیل نہ ہو جائے۔ (منہاج العابدین، صفحہ168)
تکبر
خطرناک باطنی مرض ہے، اس لئے جو اپنے اندر تکبر پائے، اس سے بچنے کی خوب کوشش کرے،
احادیث مبارکہ میں تکبر کے جو علاج بیان کئے گئے ہیں، ان میں سے دو درج ذیل ہیں،
ارشاد فرمایا:جس نے اپنا سامان خود اٹھایا، وہ تکبر سے بری ہو گیا۔
اور
ایک یہ بیان کیا گیا ہے کہ عاجزی اختیار کرنا اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھنا۔
مزید
معلومات کے لئے باطنی بیماریوں کی معلومات کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔

قرآن
کی روشنی میں تکبر کی مذمت:
اور لوگوں سے(
غرور کے ساتھ) اپنا
رُخ نہ پھیر اور زمین پر اکڑ کر مت چل، بے شک اللہ ہر متکبر اترا کر چلنے والے کو
ناپسند فرماتا ہے۔(سورۃ
لقمان، آیت 18)
تکبر
کے معنی:
اپنی ذات و صفات کو اچھا اور
دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔
اچھا
تکبر:
مسلمان کا اپنے آپ کو کفار
سے اچھا جاننا اچھا تکبر ہے۔ (مراۃالمناجیح،ج6، باب الکبر)
فرامینِ
مصطفی:
1۔حدیث
پاک:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشاد ہے:جس کسی کے دل میں رائی برابر ایمان
ہوگا، وہ جہنم میں نہیں جائے گا اور جس کسی کے دل میں رائی برا بر تکبر ہوگا، وہ
جنت میں نہیں جائے گا۔ ( سنن ابن ماجہ، باب طہارت و مسائل، حدیث 59)
2۔ہم
سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو خبر دی امام مالک نے، انہیں ابو زناد
نے، انہیں اعرج نے، انہیں ابوہریرہ نے، رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو شخص اپنا تہبند غرور کی وجہ سے گھسیٹتا
ہے، اللہ پاک قیامت کے دن اس کی طرف دیکھے
گا نہیں۔ (بخاری،
باب لباس کا بیان، ح5788)
3۔
رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے فرمایا:جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا، وہ جنت میں نہیں جائے گا۔
(صحیح
مسلم، کتاب الایمان، باب تخریم الکبر)
4۔روایت
ہے عمر بن شعب سے، وہ اپنے والد، وہ اپنے دادا سے راوی، وہ رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ متکبر لوگ قیامت کے دن چیونٹیوں
کی طرح جمع کئے جائیں گے، مردوں کی صورت میں جنہیں ہر جگہ سے ذلت چھا جائے گی،
ہانکے جائیں گے، دوزخ کے ایک قید خانہ کی طرف جسے بولس کہا جاتا ہے، ان پر آگوں کی
آگ چھا جائے گی، جہنمیوں کی پیپ طینہ سے پلائے جائیں گے۔ (ترمذی، شعب الایمان، باب
الکبر)
5۔حضرت
ابو ہریرہ نے فرمایا، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:کہ قیامت کے دن اللہ پاک تین شخص ایسے
ہیں، جن سے کلام نہ فرمائے گا، نہ ہی پاک کرے گا، ان کے لئے دردناک عذاب ہے، بڈھا
زانی، جھوٹا بادشاہ ، غروراور تکبر والا فقر۔ (مرآۃ المناجیح، حدیث، صحیح
مسلم)

تمام تعریفیں اللہ پاک کیلئے
ہیں، جو عزت و عظمت و بڑائی والا ہے، ایسا جبار ہے کہ ہر سرکش اس کے سامنے ذلیل
ورسوا ہے، ایسا غالب ہے کہ کوئی ا سے اس کا ارادہ پورا کرنے سے روک نہیں سکتا، ہر متکبر
اس کی بارگاہِ عزت میں مسکین اور عاجز ہے، انسان کی پیدائش بدبودار نطفے سے ہوتی ہے
اور انجامِ کار سڑا ہوا مردہ ہے، اس کے باوجود انسان تکبر جیسی باطنی بیماری میں
پڑا ہوا ہے۔
تکبر
کسے کہتے ہیں؟
خود کو افضل دوسروں کو حقیر
جاننے کا نام تکبر ہے، چنانچہ فرمانِ آخری
نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:
اَلْکِبَرُ
بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِیعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں
کو حقیرجاننے کا نام ہے۔
تکبر انسان کیلئے صرف اور صرف نقصان اور ہلاکت ہی
کا باعث ہے، ارشادِ باری پاک ہے :اللہ یوں
ہی مہر کر دیتا ہے، متکبر سرکش کے سارے دل پر۔ (پ 24، المؤمن: 35)
بے
شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ ( پ 14، النحل، 23)
تکبر
کی مذمت پر 5 فرامین مصطفی:
(1)بڑائی
اللہ کی چادر ہے:
حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا
فرمان ہے،اللہ پاک ارشادفرماتا ہے:بڑائی میری چادر اور عظمت میرا تہبند ہے، جو کوئی
ان میں کسی ایک کے بارے میں مجھ سے جھگڑے گا، میں اسے تباہ کردوں گا۔
مفتی احمد یارخان علیہ
الرحمۃ اس
کے تحت فرماتے ہیں:چادر اور تہبند فرمانا ہم کو سمجھانے کیلئے ہے کہ جیسے ایک چادر،
ایک تہبند دو آدمی نہیں پہن سکتے، یونہی عظمت وکبریائی سوائے میرے دوسرے کیلئے نہیں
ہو سکتی۔
(02
) جس کے دل میں رائی کے دانے برابر تکبر ہو ۔۔۔؟
فرمایا: جس شخص کے دل میں
رائی کے دانے برابر بھی تکبر ہوگا، وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ (مسلم
، کتاب الایمان ، حدیث 91)
(03
)جنت میں داخل نہیں ہوں گے:
فرمايا:لا يدخل الجنة بخيل
ولاجبار ولا سيئ الملكةیعنی بخیل سرکش اور بد اخلاق جنت میں داخل نہیں ہوں
گے۔ (مساوی
الاخلاق للخرائطی، ح 361، احیاءالعلوم، جلد 3 ، ص 992)
(04)کیا متکبر کے پیچھے موت نہیں ۔۔۔
؟
بارگاہِ رسالت میں عرض کی
گئی:یا رسول الله صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم!
فلاں شخص کتنا بڑا متکبر ہے، فرمایا:کیا اس کے پیچھے موت نہیں ہے۔(شعب
الايمان، حديث 8209)
(03
)متکبرین کو چیونٹیوں کی صورت میں اٹھایا جائے گا:
فرمایا: قیامت کے دن
متکبرین کو چیونٹیوں کی صورت میں اٹهایا جائیگا اور اللہ پاک کے ہاں ان کی قدر و قیمت نہ ہونے کےسبب لوگ
انہیں قدموں تلے روندتے ہوں گے۔ (احياء العلوم، ج3، ص 993، موسوعة
الامام، حدیث 224)
يقیناً
تکبر ایک بہت ہی بری خصلت ہے، جس میں اللہ پاک اور نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نافرمانی ہے، ہمیں خود کو تکبر و خود پسندی جیسی
عادات سے نکال کے عاجزی کرنے والے آقائے کریم محمد مصطفی صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنت یعنی عاجزی کو اپنانا اور اللہ پاک کی خفيہ تدبیر سے ہردم ڈرنا چاہئے۔
اللہ
پاک توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاه خاتم النبيين صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

درود
شریف کی فضیلت:
پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
ارشاد فرمایا:جس نے مجھ پر دن میں ایک ہزار مرتبہ درود پاک پڑھا، وہ مرے گا نہیں،
جب تک جنت میں اپنا ٹھکانہ نہ دیکھ لے۔ ( الترغيب والترهيب، ج 2، ص 338،
حدیث 22، فیضان سنت، فيضان ليلة القدر،ص
292)
الله
پاک ارشاد فرماتا ہے:
واذ قلنا للملکۃ اسجدو لاٰدم فسجدوا الا ابليس ابٰى واستكبر وكان من
الکفرین۔(پ
1، البقره: 34) ترجمہ
کنز الایمان: اور (یاد
کرو ) جب
ہم نےفرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے کہ
منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہو گیا۔
پس جس نے بھی ابلیس کی طرح حق کے مقابل تکبر کیا،
اسے اس کے ایمان نے نفع نہ دیا، تکبرسچی بات کو جھٹلانے اور لوگوں کو حقیر جاننے
کا نام ہے۔
جب سب فرشتوں کو سجدہ کا
حکم ہوا تو ابلیس نے انکار کر دیا اور بطورِ تکبر خود کو حضرت آدم علیہ السلام سے افضل جانا اور اس جیسے
انتہائی عبادت گزار، فرشتوں کے استاد اور مقربِ بارگاہِ الہی کو سجدہ کا حکم دینا
حکمت کے خلاف ہے، اپنے اس باطل عقیدے، حکمِ الہی سے انکار اور تعظیمِ نبی صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے تکبر کی وجہ سے وہ کافر ہو گیا۔
تکبر
حق کو جھٹلانے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔
معلوم ہوا کہ جب تکبر سےاتنا مقربِ الہی شیطان
مردود قرار پا گیا، حالانکہ وہ فرشتوں کا استاد تها، تو یہ تکبرکس قدر نقصان کا
باعث ہے کہ انسان کو جہنم میں لے جانے کا سبب بن سکتا ہے،احادیث مبارکہ میں بھی
تکبر کی مذمت بیان کی گئی۔
1۔رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے
ہیں، اللہ پاک فرماتا ہے :عظمت میراتہبند ہے اور کبر یائی میری چادر ہے تو جو ان
دو بارے میں مجھ وسے جھگڑے گا، میں اسے آگ میں ڈال دوں گا۔
امام مسلم رحمة
اللہ علیہ نے
روایت کیا ہے، حدیث میں مذكورہ لفظ منازعہ بمعنی چھیننا ہے۔
2۔رسول کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا میں
تمہیں جہنمیوں کے بارے میں خبرنہ دوں، ہر ناحق جھگڑا کرنے والا، اکڑ کر چلنے والا
اور تکبر کرنے والا جہنمی ہے۔ (مسلم، کتاب الجنة، باب النارید
خلھا الجبارون، ص1527، حدیث 2853)
3۔ایک مرد اپنی دو چادروں
میں فخر و غرور سے اکڑتا ہوا چلا جا رہا تھا کہ اللہ پاک نے اسے زمین میں دھنسا دیا،
پس وہ قیامت تک زمین میں دھنستا رہے گا۔ (مسلم، کتاب اللباس والزينة، باب
تحريم التبخثر، ص 1156، حدیث 2088)
4۔ظلم کرنے والوں اور تکبر
کرنے والوں کو بروزِ قیامت چیونٹیوں کی مثل اٹھایا جائے گا، لوگ انہیں روندتے ہوں
گے۔ (موسوعة
ابن ابى الدنيا، كتاب التواضع والخمول 3/578،
حدیث 224)
یعنی تکبر کرنے والے اپنے
چہرے اور قدو قامت کے اعتبار سے چھوٹے اور حقیر ہونے میں چیونٹیوں کی طرح ہوں گے۔ (مرقاة
المفاتیح 833/8،تحت الحديث 5112)
ایک بزرگ فرماتے ہیں: پہلا
گناہ جس کے سبب اللہ پاک کی نافرمانی کی گئی، تکبر ہے۔
5۔سب سے پہلے تین لوگ
جہنم میں داخل ہوں گے:
٭(ظلم
وجور کے ساتھ) زبردستی
حاکم بننے والا۔
٭وہ
مال دار جو زکوۃ ادا نہ کرتا ہو
٭متکبر
فقیر۔ (مسند
احمد، مسند ابی هریرہ 3/522، حدیث 10209)
بد
ترین متکبر:
بد ترین متکبر وہ ہے، جو
ا پنے علم کے سبب لوگوں پر تکبر کرے اور علمی فضیلت کے سبب اپنے آپ کو دل میں بڑا
جانے، بلاشبہ ایسے شخص کو اس کا علم نفع نہیں دیتا اور جو شخص آخرت کے لئے علم
حاصل کرتا ہے تو اس کا علم اس کی نفس کُشی کرتا ہے، اس کے دل کو خاشع(
انکساری کرنے والا) اور نفس کو عاجزی کرنے والا بنا دیتا ہے، ایسا ہر
شخص ہر وقت اپنے نفس کی تاک میں رہتا ہے، نفس سے دھوکا نہیں کھاتا، بلکہ ہر آن نفس
کا محاسبہ کرتا اور اس کو عیوب سے پاک کرنے میں لگا رہتا ہے اور اگر بندہ نفس کی
چالوں سے غافل ہو جائے تو یہ اسے صراط مستقیم سے ہٹا دے گا اور ہلاکت میں مبتلا کر
دے گا۔
جو شخص اظہارِ فخر اور
لوگوں پر بڑائی جتانے کے لئے علم سیکھے، نیز علمی فضیلت کی وجہ سے دیگر مسلمانوں
کو بنظرِ حقارت دیکھے اور ان سے احمقانہ سلوک کرے اور انہیں ادنٰی تصور کرے تو ایسا
شخص عظیم ترین تکبر کا شکار ہے اور جس شخص کے دل میں ذرہّ برابر بھی تکبر ہو گا،
وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (76 کبیرہ گناہ ، ص 71)

تکبر
کی تعریف:
تکبر ایک باطنی مرض ہے،
جس کا تعلق انسان کے باطن سے ہے، تکبریہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل
سمجھے،جس کے دل میں تکبر پایا جائے، اسے متکبر اور مغرور کہتے ہیں۔ (باطنی
بیماریوں کی معلومات، ص 276، 275)
اللہ کریم قرآن کریم میں
ارشاد فرماتا ہے: انه
لا يحب المتكبرين۔
(پ1،
النحل:23)
ترجمہ کنزالایمان:بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔
تکبر
تین طرح کا ہوتا ہے۔
(1)اللہ کے مقابلے میں تکبر:
تکبر کی یہ قسم کفر ہے،
جیسے فرعون کا کفر کہ اس نے کہا تھا:
انا ربكم الاعلى۔فأخذه
الله نکال الاٰخرة والاولٰى۔(پ
30، النٰزعات:24۔25) ترجمہ
کنزالایمان:میں تمہارا سب سے اونچا ربّ ہوں تو اللہ نے اسے دنیا و آخرت دونوں کے عذاب
میں پکڑا۔
(2)الله کے رسولوں کے مقابلے میں تکبر:
تکبرکی یہ قسم بھی کفر ہے
کہ تکبر جہالت اور بغض و عداوت کی بنا پر رسول کی پیروی نہ کرنا۔
(3)بندوں کے مقابلے میں تکبر:
یعنی اللہ و رسول کے
علاوہ مخلوق میں سے کسی پر تکبر کرنا کہ اپنے آپ کو بہتر اور دوسرے کو حقیر جان کرا
س پر بڑانی چاہنا، یہ صورت اگرچہ پہلی دوصورتوں سے کم تر ہے، مگر یہ بھی حرام ہے
اور اس کا گناہ بھی بہت بڑا ہے۔
تکبر
کے نقصانات:
تکبر انسان کو کئی اچھائیوں
سے محروم کر دیتا ہے، متکبر شخص عاجزی پر
قادر نہیں ہوتا، جو تقوی و پرہیزگاری کی
جڑہے، متکبر انسان کینہ میں مبتلا ہوتا، اپنی عزت بچانے کے لئے جھوٹ بولتا، غصہ کرتا، حسد کرتا، دوسروں کی نصیحت قبول کرنے سے محروم
رہتا ہے، تکبر اللہ و رسول کی ناراضگی، میدانِ محشر کی رسوائی، اللہ کریم کی رحمت
اور انعاماتِ جنت سے محرومی اور جہنم کا رہا ئشی بننے جیسے بڑے بڑے نقصانات کا سبب
ہے۔
تکبر
کی مذمت پر 5 احادیث مبارکہ:
(1)متکبر
کا ذلت آمیز انجام:
چنانچہ حضور نبی کریم، رؤف
الرحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھايا جائے
گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کی بولس نامی قید خانے کی
طرف ہانکا جائے گا اوربہت بڑی آگ انہیں
اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غا لب آ جائے گی، انہیں طينة الخبال
یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص
276، 277)
(2)جنتیوں
اور جہنمیوں کی خبر بزبان مصطفی:
چنانچہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
ارشاد فرمایا:میں تم کو جنت والوں کی خبر نہ دوں، وہ ضعیف ہیں، جن کو لوگ ضعیف وحقیر جانتے ہیں(مگریہ ہے کہ)اگر
اللہ پاک پر قسم کھا بیٹھتے ہیں تو اللہ اس کو سچا کر دے اور کیا جہنم والوں کی
خبر نہ دوں، وہ سخت گو، سخت خو ، تکبرکرنے والے ہیں۔ (صحيح البخاری، الحديث 4918،
ج3، ص363، بہار شریعت، ج 3
، حصہ16، ص546،
حدیث نمبر 11)
(3)رائی
کے برابر ایمان اور رائی کے برابر تکبر:
چنانچہ حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا
ارشاد ہے: جس کسی کے دل میں رائی برابر ایمان ہوگا، وہ جہنم میں نہیں جائے گا اور
جس کسی کے دل میں رائی برا بر تکبر ہوگا، وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (صحیح
مسلم ، کتاب الایمان ، ح 148، ص 61،
بہار شریعت، ج 3، حصہ 16،
ص546، حدیث 12)
(4)اللہ
پاک جن سے قیامت کے دن کلام نہ کرے گا:
چنانچہ آقائے دو جہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا
فرمان ہے: تین شخص ایسے ہیں، جن سے قیامت کے دن نہ تو اللہ پاک کلام کرے گا، نہ ان
لوگوں کو پاک کرے گا، نہ ان کی طرف نظر فرمائے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے (١)بوڑھا
زناکار (٢) بادشاه کذاب اور (٣)محتاج متکبر۔ (مسلم، المرجع السابق،
الحديث 172، ص 68، بہار شریعت، ج 3، حصہ16، ص546 ، ح13)
(5)جبارین
میں لکھ دیا جاتاہے:
چنانچہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
ارشادفرمایا: آدمی اپنے آپ کو (اپنے مرتبے سے اونچے مرتبہ کی
طرف)
لے جا تارہتا ہے، یہاں تک کہ جبارین میں لکھ دیا جاتا ہے، پھر جو انہیں پہنچے گا،
اسے بھی پہنچے گا۔ (سنن ترمذی، کتاب البر والصلة، الحديث 2007، ج 3، ص 403،
بہار شریعت، ج 3، حصہ16، ص547 ، ح15)
تکبر
سے بچنے کا درس:
دنیا میں سب سے پہلا
متکبر شیطان ہوا ہے، جو معلم الملكوت کے منصب تک پہنچ چکا تها، مگراسے تکبر کے نتیجے
میں قیامت تک ذلت و رسوائی ملی، متکبرانسان شیطان کے طریقے پر ہوتا ہے، تکبر سے
بچنے کے لئے اپنی پیدائش کو یاد کیجئے، جوکہ بدبودارنطفے سے ہوئی ہے اور انجام سڑا
ہوا مردہ ہے، متکبرین کے عذابات اور وعیدوں پر نظر رکھی جائے۔
تکبرایک باطنی بیماری ہے،
لہذا اس کا علاج کیجئے، ایک علاج حدیث مبارکه کی روسے پیشِ خدمت ہے، چنانچہ آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان عالیشان ہے:پہلے
سلام کرنے والا تکبر سے بری ہے۔ (شعب الايمان، باب فی مقاربة، حدیث
8786، ج 6، ص 433)
ایک ورد بهی حاضر خدمت
ہے: روزانہ 10 بار تعوذ (اعوذ بالله من الشيطان الرجيم)پڑھنے والے پر الله کریم
شیطان سے حفاظت کے لئے ایک فرشتہ مقرر فرما دیتا ہے۔

تکبر اور اپنے آپ کو بڑا
ماننا ایک نہایت مذموم عادت ہے اور درحقیقت اللہ پاک کے ساتھ دشمنی کرنا ہے، کبریائی
اور عظمت اسی کو زیبا ہے، یہی وجہ ہے کہ جبار اور متکبر کی قرآن پاک میں بہت مذمت
بیان کی گئی ہے، چنانچہ ارشاد باری ہے:
انه لا يحب المتكبرين۔
(پ14،
النحل:23)ترجمہ
کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔
کافر
متکبرین کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
فادخلوا ابواب جہنم خلدین
فیہا فلبئس مقوی المتکبرین۔(پ14، النحل:29) ترجمہ
کنزالایمان: اب جہنّم کے دروازوں میں جاؤ کہ ہمیشہ اس میں رہو تو کیا ہی برا
ٹھکانہ ہے مغروروں کا۔
تکبر نہایت بری عادت ہے
اور اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی خود کو دوسرے سے بہتر جانے اور اس وجہ سے خوش ہو کر
پھولے نہ سمائے، تو جو شے اسے پھلاتی ہے، اسے تکبر کہتے ہیں، تکبر ہلاکت میں ڈالنے
والی باطنی بیماری ہے ۔
حضرت
سلیمان علیہ السلام کا فرمان:
حضرت سلیمان علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تکبر ایسا
گناہ ہے کہ کوئی عبادت اس متکبر کو نفع نہیں دے گی۔ (کیمیائے سعادت اصل نسیم،
صفحہ 583)
تکبر
کی تعریف:
تبلیغ قرآن و سنت کی
عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبہ المدینہ کی مطبوعہ 96
صفحات پر مشتمل کتاب تکبر صفحہ16 پر ہے:خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام
تکبر ہے چنانچہ رسول پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: تکبر حق
کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب
تحریم الکبر وبیانہ، ص61، حدیث147)
امام
اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: تکبر یہ ہے کہ
انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ (مفردات الفاظ القرآن، صفحہ 697)
جس کے دل میں تکبر پایا جائے اسے متکبر اور
مغرور کہتے ہیں۔
تکبر
کا نقصان:
قرآن پاک میں تکبر کرنے والوں
کا بہت برا انجام بیان کیا گیا ہے، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
ان لذین یستکبرون عن عبادتی
سیدخلون جہنم دٰخرین۔(سورہ مؤمن:60) ترجمہ
کنزالعرفان: بے شک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں، عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں
جائیں گے۔
تکبرایک خطرناک باطنی مرض
ہے، اس کے نقصانات بے شمار ہیں، سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ بعض اوقات انسان تکبر کے
سبب ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، اگر اس مرض کو اپنے اندر پائے تو اس کا علاج
کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، ورنہ ایسا نہ ہو کہ صرف پچھتاوا رہ جائے، آئیے تکبر کے
نقصان سے متعلق ایک حکایت پڑھ کر عبرت حاصل کرتے ہیں۔
بنی اسرائیل کا ایک شخص
بہت گناہگار تھا، ایک مرتبہ بہت بڑے عبادت گزار کے پاس سے گزرا، جس کے سر پر بادل
سایہ کرتے تھے، گنہگار شخص نے اپنے دل میں سوچا، میں گنہگار ہوں، یہ عبادت گزار،
اگر میں ان کے پاس بیٹھوں گا تو امید ہے کہ اللہ پاک مجھ پر بھی رحم فرما دے، یہ
سوچ کر وہ اس عابد کے پاس بیٹھ گیا، عابد کو اس کا بیٹھنا برا لگا، اس نے دل میں
کہا، کہاں مجھ جیسا عبادت گزار، کہاں یہ بڑے درجے کا گناہ گار!
یہ میرے پاس کیسے بیٹھا
ہے، چنانچہ اس عابد نے گناہ گار شخص سے کہا ،یہاں سے اٹھ جاؤ، اس پر اللہ پاک نے
اس زمانے کے نبی علیہ السلام پر وحی بھیجی کہ ان دونوں
سے فرمائیے کہ وہ اپنے عمل نئے سرے سے شروع کریں، میں نے اس گناہ گار کو (اس
کے حسن ظن کے سبب)
بخش دیا اور عبادت گزار کے عمل (اس کے تکبر کے باعث)
ضائع کر دیئے۔ (احياء
العلوم، کتاب ذم الکبر والعجب بیان مابہ التکبر،ج3، ص 429، باطنی بیماریوں کی
معلومات، صفحہ 279)
تکبر
کی تعریف و نقصان و مذمت سے متعلق پانچ احادیث مبارکہ:
1۔حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
ارشاد فرمایا: جس شخص کے دل میں رائی برابر بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہیں
ہو گا اور جو شخص جہنم میں نہیں جائے گا، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی
ایمان ہوگا۔ (مسلم،
کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص61، حدیث91، احیاء العلوم، ج3، ص1073)
2۔حضور نبی کریم، رؤف
الرحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
ارشاد فرمایا: قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھايا
جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کی بولس نامی قید خانے کی
طرف ہانکا جائے گا اوربہت بڑی آگ انہیں
اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غا لب آ جائے گی، انہیں طينة الخبال
یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ج4،
ص221، ح2500،باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 277)
3۔ حضرت سیدنا محمد بن
واسع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں امیر
بصرہ بلال بن ابوبُردہ کے پاس آیا اور اس سے کہا، اے بلال! مجھے تمہارے والد محترم
نے تمہارے دادا کے حوالے سے یہ حدیث بیان فرمائی ہے کہ رحمت عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا
فرمان عالیشان ہے: کہ جہنم میں ایک وادی ہے، جسے ہب ہب کہا جاتا ہے، اللہ پاک کا فیصلہ
ہے کہ ہر جابر و ظالم انسان کو اس میں ڈالے گا، لہٰذا اے بلال!تم اس کے مکین بننے
سے بچنا۔ (مسند
ابی یعلی،الحدیث ابی موسی الشعری6/207،ح7213، احیاء العلوم، ج3، ص1073)
4۔حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے
ہیں کہ حق پاک جل شانہ ایسے شخص پر جو
تکبر سے اپنے لباس کو زمین پر کھینچتا چلا جائے، نظر نہیں فرماتا ، حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے
منقول ہے کہ ایک شخص فاخرہ لباس پہن کر تکبر سے چلتا اور اپنے آپ کو دیکھتا تھا،
حق تعالیٰ نے اس کو زمین میں دھنسا دیا اور وہ قیامت تک اسی طرح دھنستا رہے گا، (کیمیائےسعادت،
صفحہ 583)
5۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:تم میں سے وہ لوگ مجھے زیادہ محبوب اور میرے زیادہ قریب ہوں گے، جن کے اخلاق
اچھے ہوں گے اور وہ لوگ مجھے زیادہ ناپسند اور مجھ سے زیادہ دور ہوں گے، جو زیادہ
بولنے والے، منہ پھٹ اور متفیھقون ہوں گے، صحابہ کرام علیہم
الرضوان نے
عرض کی:یارسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہم زیادہ بولنے والے اور
منہ پھٹ کو تو جانتے ہیں، لیکن یہ متفیھقون کون ہیں؟ ارشاد فرمایاتکبر کرنے
والے۔ (سنن
ترمذی، کتاب البر والصلۃ باب ما جاء فی معالی الاخلاق3/709، حدیث2025،بتقدم وتاخر،
احیاء العلوم، ج3، ص1078)
کسی بزرگ کا قول ہے کہ آدمی بہشت کی خوشبو سونگھنا
چاہتا ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو
ہر ایک انسان سے کمتر سمجھے۔
اللہ
پاک ہمیں بھی اس مہکتے ہوئے قول پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
رسول
پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ
پاک سے دعا مانگتے تھے:اعوذبک من نفحۃِ الکبر۔اے
اللہ میں کبر کی ہوا سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔
جب
آدمی میں غرور پیدا ہوجائے تو وہ دوسروں کو اپنے آپ سے کمتر سمجھتا ہے، اللہ پاک
ہمیں غرور و تکبر سے بچا کر ایسا بندہ بنا دے، جیسا وہ ہمیں دیکھنا چاہتا ہے، شیطان
بھی تکبر کے سبب جنت سے بے دخل کیا گیا، اس تکبر نے ابلیس کو ایسا تباہ و برباد کر
دیا کہ اس نے خدا پاک کی نافرمانی کی اور
آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کر کے ہمیشہ
کے لئے ملعون ہو گیا۔

حکایت:
منقول ہے کہ بنی اسرائیل
میں ایک آدمی کو خلیع بنی اسرائیل(یعنی اسرائیل کا اوباش) کہا جاتا تھا، اس لئے کہ
وہ بہت فسادی آدمی تھا، ایک روز دوسرے آدمی کے پاس سے گزرا، جس کو بنی اسرائیل کا
عابد کہا جاتا تھا، عابد کے سر پر بادل سایہ کئے ہوئے تھا۔
جب یہ اوباش وہاں سے گزرا
تو خلیع(اوباش)
نے
اپنے دل میں کہا، میں بنی اسرائیل میں سے ایک اوباش آدمی ہوں اور یہ آدمی عبادت
گزار ہے، اگر میں اس کے بعد بیٹھ جاؤں تو شاید اللہ پاک مجھ پر رحم کر دے، وہ اس
کے پاس بیٹھ گیا،عابد نے کہایہ میرے پاس کیسے بیٹھ سکتا ہے؟
اس نے اس سے نفرت کی اور
کہا کہ مجھ سے دور ہو جاؤ، اللہ پاک نے اس زمانے کے نبی علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی، ان
دونوں سے کہہ دو کہ دوبارہ آغازِ عمل شروع کرو، میں نے اس اوباش کو معاف کر دیا
اور عابد کا سارا عمل باطل کر دیا۔
قارئین کرام! دیکھا آپ نے
کہ کس طرح سے ایک تکبرجیسے کبیرہ گناہ کی وجہ سے عابد کی ساری عبادات، نیک اعمال
ضائع ہوگئے اور عاجزی اپناتے ہوئے اللہ کی رحمت پر نظر رکھتے ہوئے کس طرح سے ایک اوباش
کے گناہ معاف ہو گئے۔
ہمیں بھی تکبر جیسے کبیرہ
گناہ سے بچنا چاہئے، کیونکہ اسی تکبر نے ابلیس کو حضرت آدم علیہ السلام کے آگے سجدہ کرنے سے روکا
تھا اور اسے کفر تک پہنچا دیا۔
تکبر ایک ایسا خطرناک عمل
ہے کہ جو بندے کو کفر تک پہنچا دیتا ہے اور نیکیاں برباد کر دیتا ہے، آیئے ہمارے
آخری نبی محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی
پانچ احادیث مبارکہ تکبر کے بارے میں پڑھتے ہیں اور نیت کرتے ہیں کہ ان شاءاللہ اس
سے بچنے کی کوشش کریں گے۔
1۔حضرت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:تکبر حق
کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب
تحریم الکبر وبیانہ، ص61، حدیث147(91))
2۔حضرت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ حضور اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: تکبر سے
بچتے رہو، کیونکہ اسی تکبر نے شیطان کو اس بات پر ابھارا تھا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرے۔ (ابن
عساکر، زحرف القاف، ذکر من اسمہ قابیل 49 /40)
3۔
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے فرمایا: آدمی دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اپنی ذات کو بلند سمجھتا رہتا ہے، یہاں
تک کہ اسے تکبر کرنے والوں میں لکھ دیا جاتا ہے، پھر اسے وہی عذاب پہنچے گا، جو
تکبر کرنے والوں کو پہنچا۔ (ترمذی، کتاب البرو الفلہ، باب ما
جاء فی الکبر،3/403، حدیث2007)
4۔حضرت
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ رسول اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جس کے دل میں
رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا، وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا اور جس کے دل میں
رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (مشکوۃ)
5۔
حضرت سیدنا عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ نے
فرمایا کہ رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: تکبر کرنے
والے قیامت کے دن میدانِ محشر میں چیونٹیوں کی مثل لائے جائیں گے، مگر ان کی صورتیں
آدمی کی ہوں گی اور ہر طرف سے ان پر ذلت کا گھیرا ہوگا اور وہ گھسٹ کر جہنم سے اس
قید خانے میں ڈالے جائیں گے، جس کا نام بولس ہوگا۔ (مشکوۃ)

یاد
رہے خود کو افضل اور دوسروں کو حقیر جاننے
کا نام تکبر ہے (کتاب تکبر، ص 16) آخری نبی صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اَلْکِبْرُ بَطَرُ
الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے (صحیح مسلم، کتاب الایمان باب تحریم الکبروبیانہ الحدیث :91 ص 61)امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے
ہیں:ذٰلِکَ اَنْ یَّرَی الْاِنْسَانُ نَفْسَہٗ اَکْبَرَ مِنْ غَیْرِہِ یعنی تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے (المفردات للراغب ص 697) تکبر ہی وہ گناہ عظیم
ہے جس نے 80 ہزار سال کے عبادت گزار فرشتوں کے استاد کو ہمیشہ کیلیئے مردود ٹھہرا
دیا،اور یہی مہلک مرض نمرود کی مچھر کے ذریعے دردناک موت کا ضامن ہے،اسی غلیظ بیماری
نے فرعون کو سمندر میں غرق کیا تکبر کے کئی نقصانات بھی ہیں جو درج ذیل ہیں جس میں سرِ فہرست ہے رب کی ناپسندیدگی چنانچہ سورة النحل میں ارشاد ہوتا ہے اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ
الْمُسْتَكْبِرِیْن (سورة
النحل آیت نمبر 23) ترجمہ کنز الایمان: بیشک وہ مغروروں
کو پسند نہیں فرماتا۔قرآن عظیم میں ارشاد ہوتا ہے کہ فَلَبِئْسَ مَثْوَى
الْمُتَكَبِّرِیْنَ (سورة
النحل آیت نمبر 29) ترجمہ کنزالایمان:تو کیا ہی
برا ٹھکانا مغروروں کا۔ علاوہ ازیں متکبر
شخص رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا بھی ناپسندیدہ بندہ بن جاتا ہے ، متکبر تکبر کے ذریعے آخرت کی رسوائی کا سامان اکھٹا کرتا،جب یہ
بدبودار نطفے سے بنا انسان اپنے اندر کسی
کمال کی بُو پاتا ہے تو تکبر کی راہ جاتا ہے اور آخرت کی خواری کماتا ہے اور یوں یہ
تکبر متکبر کی نیکیوں کو دیمک کی طرح کھا جاتا ہے حضورِ اکرم نورِ مجسم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تکبر سے بچنے کا بارہا درس عطا
فرمایا ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کے دل میں رائی کے دانے کے جتنا(یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں
داخل نا ہو گا ( صحیح مسلم کتاب الایمان،باب
التحریم الکبروبیانہ،الحدیث 147 ص 60)
گر تکبر ہو دل میں ذرہ بھر
سن لو جنت حرام ہوتی ہے (وسائل بخشش)
1۔ دوجہاں کے تاجور سلطان بحر و بر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا: قیامت
کے دن متکبرین کو چیونٹیوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا اور اللہ پاک کے ہاں انکی
قدر و قیمت نا ہونے کے سبب لوگ انہیں اپنے قدموں تلے روندتے ہونگے (موسوعۃ الامام ابن
ابی الدنیا، کتاب التواضع و الخمول 3/578 حدیث: 224)
2۔
ارشاد فرمایا: آدمی اپنے نفس کے متعلق بڑائی بیان کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے جبّار(سرکش) لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے پھر اسے بھی
وہی عذاب پہنچتا ہے جو ان کو پہنچتا ہے ( سنن ترمذی کتاب البر و الصلة، باب ما جاء فی الکبر٣/٤٠٣ حدیث ٨١٥٤)
3۔ نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ پاک فرماتا ہے: بڑائی میری چادر اور عظمت میرا
تہبند ہےجو کوئی ان میں کسی ایک کے بارے میں مجھ سے جھگڑے گا تو میں اسے جہنم میں
ڈال دوں گا اور مجھے اسکی کوئی پرواہ نہیں (سنن ابن ماجہ،
کتاب الزھد ،کتاب البراءة من الکبر الخ...4 /457 حدیث:٥١٧٤ دون قول ولا ابالی)
4۔
ارشاد فرمایا: بے شک جہنم میں ایک مکان ہے جس میں متکبرین کو ڈال کر اوپر سے بند
کر دیا جائے گا (المسند
لابی یعلی، حدیث ابی موسیٰ الاشعری ٦/٢٠٧ حدیث:٧٢١٣)
اب ذرا غور کیجیے کہ جب کوئی بیماری ہماری جانب رخ کرے تو مہنگے سے مہنگے اور
تجربہ کار ڈاکٹرز سے علاج معالجے کیلئے لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں مگر کیا اپنے
اندر کی اس پوشیدہ خطرناک باطنی بیماری کے علاج کیلیئے آپ کوشاں ہیں؟ اگر جواب نفی
میں ہے تو آج ہی مکتبہ المدینہ کی کتاب تکبر کا مطالعہ فرمائیں۔