قرآن کی روشنی میں تکبر کی مذمت:

اور لوگوں سے( غرور کے ساتھ) اپنا رُخ نہ پھیر اور زمین پر اکڑ کر مت چل، بے شک اللہ ہر متکبر اترا کر چلنے والے کو ناپسند فرماتا ہے۔(سورۃ لقمان، آیت 18)

تکبر کے معنی:

اپنی ذات و صفات کو اچھا اور دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔

اچھا تکبر:

مسلمان کا اپنے آپ کو کفار سے اچھا جاننا اچھا تکبر ہے۔ (مراۃالمناجیح،ج6، باب الکبر)

فرامینِ مصطفی:

1۔حدیث پاک:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشاد ہے:جس کسی کے دل میں رائی برابر ایمان ہوگا، وہ جہنم میں نہیں جائے گا اور جس کسی کے دل میں رائی برا بر تکبر ہوگا، وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ ( سنن ابن ماجہ، باب طہارت و مسائل، حدیث 59)

2۔ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو خبر دی امام مالک نے، انہیں ابو زناد نے، انہیں اعرج نے، انہیں ابوہریرہ نے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو شخص اپنا تہبند غرور کی وجہ سے گھسیٹتا ہے، اللہ پاک قیامت کے دن اس کی طرف دیکھے گا نہیں۔ (بخاری، باب لباس کا بیان، ح5788)

3۔ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا، وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تخریم الکبر)

4۔روایت ہے عمر بن شعب سے، وہ اپنے والد، وہ اپنے دادا سے راوی، وہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ متکبر لوگ قیامت کے دن چیونٹیوں کی طرح جمع کئے جائیں گے، مردوں کی صورت میں جنہیں ہر جگہ سے ذلت چھا جائے گی، ہانکے جائیں گے، دوزخ کے ایک قید خانہ کی طرف جسے بولس کہا جاتا ہے، ان پر آگوں کی آگ چھا جائے گی، جہنمیوں کی پیپ طینہ سے پلائے جائیں گے۔ (ترمذی، شعب الایمان، باب الکبر)

5۔حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:کہ قیامت کے دن اللہ پاک تین شخص ایسے ہیں، جن سے کلام نہ فرمائے گا، نہ ہی پاک کرے گا، ان کے لئے دردناک عذاب ہے، بڈھا زانی، جھوٹا بادشاہ ، غروراور تکبر والا فقر۔ (مرآۃ المناجیح، حدیث، صحیح مسلم)