تکبر ایک باطنی مرض ہے، جس کی وجہ سے انسان بہت ساری برائیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اچھائیوں سے محروم ہوجاتا ہے، تکبر کی وجہ سے معلم الملکوت (یعنی فرشتوں کے استاد) کا رتبہ پانے والے ابلیس نے خدا رحمن کی نافرمانی کی اور اپنے مقام و منصب سے محروم ہو کر جہنمی قرار دیا۔

تکبر کی تعریف:

تکبر کے لغوی معنی بڑائی چاہنا، اصطلاح میں تکبر سے مراد خود کو افضل، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔

امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ (المفردات الراغب، 698)

تکبرکا نقصان:

تکبر لذّتِ نفس وہ بھی چند لمحوں کے لئے، جب کہ انسان اس کے نتیجے میں اللہ اور رسول پاک و صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ناراضگی، مخلوق کی بیزاری، میدانِ محشر میں ذلت و رسوائی ہے، ربّ پاک کی رحمت اور انعاماتِ جنت سے محرومی اور جہنم کا رہائشی بننے جیسے بڑے بڑے نقصانات کا سامنا ہے۔

اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ چند لمحوں کی لذت چاہئے یا ہمیشہ کے لئے جنت، میدانِ محشر میں عزت چاہئے یا ذلت، یقیناً ہم خسارے میں نہیں رہنا چاہیں گے تو ہم کو چاہئے کہ ہم اس مرض کو اندر سے ختم کریں، اس مرض کو ختم کرنے کے لئے کوشاں رہیں، اس مرض کو ختم کرنے کے لئے اپنا محاسبہ کریں۔

تکبر کے مرض پر ابھارنے والے اسباب:

اس مرض پر ابھارنے والے آٹھ ا سباب ایسے ہیں، جو اس کو تکبر پر ابھارتے ہیں، ٭ علم، ٭عبادت، ٭مال و دولت، ٭حسب و نسب، ٭عہدہ و منصب، ٭کامیابیاں، ٭حسن و جمال، ٭طاقت و قوت۔

تکبر کی مذمت پر 5 فرامین مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:

1۔ حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہ روایت فرماتے ہیں، حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص60، حدیث148)

2۔شہنشاہِ خوش خصال، پیکرِ حسن و جمال صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:اللہ پاک متکبرین کی طرح چلنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔ (کنزالعمال الاخلاق، قسم الاقوال، جلد 3، صفحہ 210، حدیث8828)

3۔اللہ کے محبوب دانائے غیوب منزہ عن ا لعیوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا، اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا۔ (صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب من جرثوبہ من الخیلاء، جلد 4، صفحہ 46، حدیث 5788)

4۔سیّد المرسلین، خاتم النبیین، جناب رحمۃ اللعالمین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:جس کو یہ خوشی ہو کہ لوگ میری تعظیم کیلئے کھڑے رہیں، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔ (جامع ترمذی، کتاب الادب، ج4، ص348، حدیث2864)

5۔ نبی اکرم، نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نےفرمایا:ربّ پاک فرماتا ہے ہے کہ کبریائی میری چادر ہے، لہٰذا جو میری چادر کے معاملے میں مجھ سے جھگڑا کرے گا، میں اسے پاش پاش کر دوں گا۔ (مرآۃ المناجیح، ج6، ص659)

اس حدیث مبارکہ میں ربّ تعالیٰ کا کبریائی کو اپنی چادر فرمانا، ہمیں سمجھانے کے لئے ہے کہ جیسے ایک چادر کو دو نہیں اوڑھ سکتے، یوں ہی عظمت و کبریائی سوائے میرے دوسرے کے لئے نہیں ہوسکتی۔

اس باطنی مرض سے بچنے کے لئے اپنا محاسبہ کیجئے کہ کل جب حشر ہوگا اور ہر ایک اپنے کئے کا حساب دے گا تو مجھے بھی حساب اپنے ربّ پاک کی بارگاہ میں اپنے اعمال کا دینا پڑے گا، اس وقت میں انتہائی عجز، ذلت اور بے بسی کی جگہ پر ہوں گا، اگر میرا ربّ مجھ سے ناراض ہوا تو میرا کیا ہوگا، اگر تکبر کے سبب مجھے جہنم میں پھینک دیا گیا تو وہ ہولناک عذاب کیوں کر برداشت کر پاؤں گا؟

اس طرح تصور میں عذاب کو یاد کرنے کی وجہ سے انکساری پیدا ہوگی، ان تمام باتوں کو سوچ کر ان شاءاللہ تکبر دور ہو جائے گا اور بندہ خود کو اللہ پاک کی بارگاہ میں فقیر اور عاجز خیال کرے گا۔

گناہوں کی عادت چھڑا یا الہی

مجھے نیک انسان بنا یا الہی

اللہ پاک ہمیں اس مرض سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

تکبر بہت ہی بُری اور قبیح چیز ہے، جو کوئی کسی سے تکبر کرتا ہے تو اس وجہ سے کرتا ہےکہ خود کو دوسرے سے بہتر اور کمال کی صفت سے موصوف سمجھتا ہے، تکبر انسان کو ذلیل و رُسوا کردیتا ہے اور دنیا والوں کی نظروں میں متکبر کا کوئی مقام و مرتبہ نہیں رہتا۔

نفس کی بلندی اور برتری کے خیال کو کِبْر کہتے ہیں اور اسی سے تکبر پیدا ہوتا ہے، یعنی تکبر کے معنی یہ ہیں کہ انسان خود کو دوسروں سے بہتر اور فائق سمجھے اور اس خیال سے اس کے دل میں غرور پیدا ہو، اسی غرور کا نام تکبر ہے۔

یہ غرور آدمی میں پیدا ہوتا ہے تو دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھتا ہے اور ان کو چشمِ حقارت سے دیکھتا ہے، بلکہ ان کو اپنی خدمت کے لائق بھی نہیں سمجھتا، رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک سے دعا فرماتے:اَعُوْذُبِک من نفحۃ الکبر۔ الہی میں تکبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں! اللہ پاک کے بندوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا، ان کو کم تر جاننا، تو بات کو نہ ماننا ہی تکبر ہے، اس ضمن میں 5 فرامین مصطفےٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم درج ذیل ہیں:

1۔حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:سرکش اور متکبروں کو قیامت کے دن چیونٹیوں جیسی جسامت میں پیدا کیا جائے گا، اللہ پاک کے یہاں ناقدری کی وجہ سے لوگ انہیں روند رہے ہوں گے۔ (مکاشفۃ القلوب، باب 42، ص(325

وضاحت: تکبر کرنے والے اپنے چہرے اور قد قامت کے اعتبار سے چھوٹے اور حقیر ہونے میں چیونٹیوں کی طرح ہوں گے۔

2۔ حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:کہ دوزخ میں ایک غار ہے اس غار کو ہب ہب کہتے ہیں ، اللہ پاک مغروروں اور متکبروں کو اس میں ڈالے گا۔ (کیمیائے سعادت، اول نہم، ص653)

3۔رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:عظمت میرا تہبند ہے اور کبریائی میری چادر ہے، تو جو ان دونوں کے بارے میں مجھ سے جھگڑے، میں اسے آگ میں ڈال دوں گا۔ (مسلم، کتاب البروالصلہ، باب تخریم الکبر، ص1412)

وضاحت: یہ اوصاف اللہ پاک کے ہیں، جیسا کہ بندوں کے لئے تہبند اور چادر ہیں، پس جو کوئی ان دو وصفوں میں اللہ پاک سے جھگڑے، اس طرح کہ اپنی ذات میں تکبر کرے یا اللہ پاک کے ساتھ اس کی ذات و صفات میں کسی طرح شرکت کی کوشش کرے تو اللہ پاک اسے آگ میں داخل فرمائے گا۔

4۔حضور نبی پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کے دل میں زرہ برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (مسلم کتاب الایمان، باب تخریم الکبر، ص(60

5۔فرمان نبوی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:کہ جو اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور اِترا کر چلتا ہے، وہ اللہ پاک سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ اللہ پاک اس پر ناراض ہوگا۔ (مکاشفۃ القلوب، باب 42، ص331)

ہمیں چاہئے کہ ہم خود پر غور کریں، کیونکہ دنیا میں شاید ہی کوئی شخص ہو جو تکبر سے بچا ہوا ہو، کہیں نہ کہیں سے تکبر دل میں آہی جاتا ہے، لیکن جب ان فرامینِ مصطفےٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر غور کریں تو ان میں متکبرین کی مذمت اور سزائیں بیان کی گئی ہیں، جب ان پر غور کرتے ہوئے اپنا محاسبہ کریں تو تکبر سے بچا جاسکتا ہے جس میں تکبر کی عادت ہو اسے چاہئے کہ اللہ پاک کو پہچانے، تاکہ اس کو معلوم ہو کہ بزرگی و عظمت صرف اس کی صفات ہیں، پھر خود کو پہچانے، تاکہ ظاہر ہو جائے کہ اس سے زیادہ ذلیل و خوار اور کمینہ کوئی دوسرا نہیں، ان شاءاللہ پاک یہ طریقہ اس بیماری کی جڑ کو باطن سے نکال باہر کرے گا، ہم سب کو خود پر 1 بار غور ضرور کرنا چاہئے!

اللہ پاک ہمیں تکبر جیسی آفت سے محفوظ فرمائے اور کبھی یہ بیماری ہمارے قریب بھی نہ آئے، جو اس میں مبتلا ہیں انہیں راہِ ہدایت عطا فرمائے۔ آمین 

خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے، چنانچہ رسولِ اکرم نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:الکبر بطرالحق وغمط الناس یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، الحدیث 91، ص61)

امام راغب اصفہانی علیہ رحمۃ اللہ الغنی لکھتے ہیں:ذلک ان یری الانسان نفسہ اکبر من غیرہ۔ یعنی تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ (المفردات للراغب، ص697)

تکبر کی تعریف کے بعد اب آئیے، تکبر کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ملاحظہ کیجئے:

1۔سرکار مدینہ، راحتِ قلب و سینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک قیامت کے دن تم میں سے میرے سب سے نزدیک اور پسندیدہ شخص وہ ہوگا، جو تم میں سے اَخلاق میں سب سے زیادہ اچھا ہوگا اور قیامت کے دن میرے نزدیک سب سے قابلِ نفرت اور میری مجلس سے دور وہ لوگ ہوں گے، جو واہیات بکنے والے، لوگوں کا مذاق اڑانے والے اور متفیہق ہیں، صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! بے ہودہ بکواس بکنے والوں اور لوگوں کا مذاق اڑانے والوں کو توہم نے جان لیا، مگر یہ متفیہق کون ہیں؟ تو آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس سے مراد ہر تکبر کرنے والا شخص ہے۔ (جامع ترمذی، الحدیث 2025، ج3، ص410)

نہ اٹھ سکے گا قیامت تلک خدا کی قسم

کہ جس کو تُو نے نظر سے گِرا کے چھوڑ دیا

2۔ اللہ پاک کے محبوب دانائے غیوب، منزہ عن العیوب پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا، اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظرِ رحمت نہ فرمائے گا۔ (صحیح بخاری، حدیث5788، ج4، ص46)

3۔ہمارے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا(یعنی تھوڑا سا (بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (صحیح مسلم، حدیث147، ص60)

4۔ پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ایک شخص تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند زمین سے گھسیٹتا ہوا جارہا تھا کہ اسے زمین میں دھنسا دیا اور اب وہ قیامت تک یوں ہی زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔ (صحیح بخاری، حدیث3485)

5۔حضرت حارثہ بن وہب کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے سنا ہے، فرماتے ہیں کہ میں تمہیں جنت والوں کی خبر نہ دوں، صحابہ کرام نے عرض کیا، جی ہاں فرمائیے، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایاہر کمزور آدمی جسے کمزور سمجھا جاتا ہے، اگر وہ اللہ پر قسم کھالے تو اللہ پاک اس کی قسم پوری فرما دے، پھر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں دوزخ والوں کی خبر نہ دوں، صحابہ کرام نے عرض کیا: جی ہاں ضرور فرمائیے، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا ہر جاہل، اَکھڑا مزاج تکبر کرنے والا دوزخی ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث 7177)

اللہ پاک ہمیں تکبر جیسی صفتِ مذمومہ سے محفوظ فرمائے اور ہمیں عاجزی کا پیکر بنائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


مسجد الحرام مکہ مکرمہ میں غسل کعبہ کی سالانہ رسم گزشتہ رات  (15اگست 2022ء)پیر کو ادا کی گئی۔اسلامی ملکوں کے سفارتکاروں نے شرکت کی۔

غسلِ کعبہ عرقِ گلاب اور اعلیٰ درجے کے عود سے معطر آبِ زمزم سے دیا گیا۔ کعبہ کی اندرونی دیواروں کو کپڑے سے صاف کیا گیا۔

یاد رہے کہ غسل کعبہ کی رسم میں 45 لٹر آب زمزم استعمال کیا جاتا ہے جبکہ طائف کے گلاب کا عرق 50 تولہ اور اعلیٰ درجے کا عود آب زمزم میں ملاکر استعمال کیا جاتا ہے۔

مسجد الحرام میں صفائی کے اداروں کے مطابق غسل کعبہ میں استعمال ہونے والی تمام اشیا پر چاندی کی پرت چڑھی ہوتی ہے۔ اس کام کے لیے چاندی کے داندانوں والی 4 جھاڑو استعمال ہوتی ہیں۔ غسلِ کعبہ سے قبل جھاڑو سے خانہ کعبہ کی گرد صاف کی جاتی ہے۔


خود کو افضل اور دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْ خُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاْخِرِیْنَ۔(سورۃ غافر، آیت20) ترجمہ:جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں، جلد ہی وہ رسوا ہوکر دوزخ میں داخل ہوں گے۔

فرامینِ مصطفےٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:

1۔ بدترین شخص:

تکبر کرنے والے کو بد ترین شخص قرار دیا گیا، چنانچہ حضرت سیدنا حذیفہ رضی الله عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم حضور اکرم ،نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھے کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:کیا تمہیں اللہ پاک کے بدترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ بد اخلاق اور متکبر ہے۔ (المسند الامام احمد بن حنبل، الحدیث 23517، ج9، ص120)

2۔قیامت میں رسوائی:

تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن ذلت و رسوائی کا سامنا ہوگا، چنانچہ حضور اکرم، نور مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہوگی، انہیں جہنم بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا، انہیں طِیْنَۃُ الَخبَال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (جامع الترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی شدۃ الخ، الحدیث250، ج4، ص221)

3۔ مدنی آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا متکبر کے لئے اظہارِنفرت:

سرکار مدینہ، راحتِ قلب و سینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک قیامت کے دن میرے نزدیک سب سے قابلِ نفرت اور میری مجلس سے دور وہ لوگ ہوں گے، جو واہیات بکنے والے، لوگوں کا مذاق اڑانے والے اور مُتَفَیْھِقْ ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم بے ہودہ بکواس بکنے والوں اور لوگوں کا مذاق اڑانے والوں کو تو ہم نے جان لیا، مگر یہ مُتَفَیْھِقْ کون ہیں؟ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس سے مراد ہر تکبر کرنے والا شخص ہے۔ (جامع الترمذی، ابواب البر والصلۃ، الحدیث 2020، ج3، ص410)

4۔ جنت میں داخل نہ ہو سکے گا:

حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ تاجدارِ رسالت، شمع بزمِ ہدایت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا )یعنی تھوڑا سا (بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبرو بیانه، الحدیث 147، ص60)

5۔آباء و اجداد پر فخر مت کرو:

تاجدارِرسالت، شہنشاہِ نبوت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: اپنے آباء و اجداد پر فخر کرنے والی قوموں کو باز آجانا چاہئے، کیونکہ وہی جہنم کا کوئلہ ہیں یا وہ قومیں اللہ پاک کے نزدیک گندگی کے ان کیڑوں سے بھی حقیر ہو جائیں گی، جو اپنی ناک سے گندگی کو کریدتے ہیں، اللہ پاک نے تم سے جاہلیت کا تکبر اور ان کا اپنے آباء پر فخر کرنا ختم فرما دیا ہے، اب آدمی متقی و مؤمن ہوگا یا بدبخت و بدکار، سب لوگ حضرت آدم علیہ الصلٰوۃ و السلام کی اولاد ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ (جامع الترمذی، الحدیث 3981، ج5، ص497)

صرف لفظ ”مَیں“ ہی تکبر کی علامت نہیں، بلکہ کئی نشانیاں ہیں، امیر کا غریب کو حقیر جاننا امیر کے دل میں تکبر لاتا ہے، اعلیٰ شخصیت کا عام آدمی کو اپنے سے کم تر سمجھنا، اعلیٰ شخصیت میں تکبر لاتا ہے، اللہ پاک ہمیں تکبر جیسی بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور زیادہ سے زیادہ عاجزی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


تکبر ایک ہلاک کر دینے والی باطنی بیماری ہے شیطان جو راندۂ درگاہ الہی ہوا اس کا ایک اہم سبب تکبر ہے، تکبر کہتے کسے ہیں  چنانچہ آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:

تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔

تکبر کے نقصانات قرآن و حدیث میں ذکر کیے گئے ہیں، چھ فرامین مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ذکر کیے جاتے ہیں

(1) کبریائی رب کی چادر: نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا

رب پاک ارشاد فرماتا ہے: کبریائی میری چادر ہے لہٰذا جو میری چادر کے معاملے میں مجھ سے جھگڑے گا میں اسے پاش پاش کر دوں گا۔ (المستدرک للحاکم کتاب الایمان باب اہل الجنۃ ۔۔۔الخ الحدیث 210، ج 1، ص 235)

رب تعالیٰ کا کبریائی کو اپنی چادر فرمانا ہمیں سمجھانے کے لیے ہے جیسے ایک چادر کو دو نہیں اوڑھ سکتے یونہی عظمت و کبریائی سوائے میرے دوسرے کے لیے نہیں ہو سکتی۔ (ماخوذ از مراۃ المناجیح ج 4، ص 459)

(2) اللہ پاک کا نا پسندیدہ بندہ:حدیث مبارکہ میں ہے

اللہ پاک متکبرین اور اترا کر چلنے والوں کو نا پسند فرماتا ہے (کنز العمال کتاب الاخلاق قسم الاقوال الحدیث 7727 ج 3 ص 210)

(3) قیامت میں رسوائی: تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن ذلت و رسوائی کا سامنا ہوگا۔۔۔ فرمان آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھایا جائے گا ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہوگی انہیں جہنم کے بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گااور بہت آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آجائے گ۔ انہیں طینۃ الخبال پلائی جائے گی (جامع الترمذی کتاب القیامۃ باب ماجاء فی شدہ۔۔۔الخ الحدیث 2500 ج 4 ص 221)

(4) جنت میں داخل نہ ہو سکے گا: فرمان مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا (صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریمۃ الکبر و بیانہ الحدیث 147 ص 60)

اس سے مراد یہ کہ تکبر کے ساتھ کوئی جنت میں داخل نہ ہوگابلکہ تکبر اور ہر بری خصلت سے عذاب بھگتنے کے ذریعے یا اللہ پاک کے عفو و کرم پاک و صاف ہو کر جنت میں داخل ہوگا (مرقاۃ المفاتیح ج 8 ص 829)

(5) رب تعالیٰ نظر رحمت نہیں فرمائے گا: فرمان آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظر رحمت نہ فرمائے گا۔ (صحیح البخاری، کتاب اللباس الحدیث 5788، ج ۔۔۔)

تکبر کی کچھ علامات بھی ہیں جیسے کسی کی نصیحت قبول نہ کرنا۔۔۔ دوسروں کو حقیر جان کر حقوق پورے نہ کرنا۔۔۔ سلام میں پہل نہ کرنا وغیرہ۔

تکبر سے چھٹکارا پانے کے لیے انسان اپنی کمزوری اور رب تعالیٰ کی قدرت پر غور کرے ان شاء اللہ چھٹکارا ملے گا۔

مزید معلومات کے لیے تکبر پڑھیے۔

تکبر کی تعریف:

رسول اکرم، نور مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اَلْکِبْرُ بَطَرْالْحَقِ وَغَمْطْ النَّاسِ۔ یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبرو بیانہ، ص61، حدیث 147)

امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے، جس کے دل میں تکبر پایا جائے اسے متکبر اور مغرور کہتے ہیں۔ (مفردات الفاظ القرآن، کبر، ص697، باطنی بیماریوں کی معلومات)

1۔ حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہوگی، انہیں جہنم کے بُوْلَس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آ جائے گی، انہیں طِیْنَۃُ الْخَبَّال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ج4، ص 221، حدیث 2500)

2۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اپنے فوت شدہ آباء و اَجْدَاد پہ فخر کرنے والی قوموں کو باز آجانا چاہئے کیونکہ وہی جہنم کا کوئلہ ہیں یا وہ قومیں اللہ پاک کے نزدیک گندگی کے ان کیڑوں سے بھی حقیر ہوجائیں گی، جو اپنی ناک سے گندگی کریدتے ہیں، اللہ پاک نے تم سے جاہلیت کا تکبر اور ان کا اپنے آباء پر فخر کرنا ختم فرما دیا ہے، اب آدمی متقی و مؤمن ہوگا یا بدبخت وبدکار، سب لوگ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل الشام والیمن، ج5، ص497، حدیث 3981)

3۔ مخزنِ جودو سخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:جو شخص تکبر، خیانت اور دَین(یعنی قرض وغیرہ) سے بری ہوکر مرے گا، وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (جامع الترمذی، کتاب السیر، باب ماجاء فی الفلول، الحدیث158، ج3، ص208)

4۔ تکبر کرنے والے کی مثال ایسی ہے، جیسے کہ کوئی غلام بغیر اجازت بادشاہ کا تاج پہن کر اس کے شاہی تخت پر بیٹھ جائے، تو جس طرح یہ غلام بادشاہ کی طرف سے سخت سزا پائے گا بالکل اسی طرح صفت کبر میں شرکت کی مذموم کوشش کرنے والا شخص اللہ پاک کی جانب سے سزا کا مستحق ہوگا، چنانچہ نبی اکرم، نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:ربّ پاک فرماتا ہے:کبریائی میری چادر ہے، لہذا جو میری چادر کے معاملے میں مجھ سے جھگڑے گا، میں اُسے پاش پاش کر دوں گا۔ (المستدرک للحاکم، کتاب الایمان، باب اھل الجنۃ لمفلورون ۔۔ الخ، الحدیث 210، ج1، ص235)

ربّ پاک کا کبریائی کو اپنی چادر فرمانا، ہمیں سمجھانے کے لئے ہے کہ جیسے ایک چادر کو دو نہیں اوڑھ سکتے، یونہی عظمت و کبریائی سوائے میرے دوسرے کے لئے نہیں ہوسکتی۔ (ماخوذ اَز مراۃ المناجیح، ج6، ص659)

ربّ کائنات تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا،جیسا کہ سورہ نحل میں ارشاد ہوتا ہے:اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْنَ۔ (پ14، النحل: 23) ترجمہ:بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔

تکبر کا نقصان:

شہنشاہ ِخوش خصال، پیکر حُسن و جمال صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:اللہ پاک متکبرین (یعنی مغروروں) اور اترا کر چلنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔ (کنزالعمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الحدیث 7727، ج3، ص210)

5۔ رحمتِ الٰہی سے محروم:

رحمت الٰہی سے محروم ہونے والوں میں متکبر بھی شامل ہوگا، جیساکہ اللہ پاک کے محبوب، دانائے غیوب، منزہ عن العیوب پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے، اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظرِ رحمت نہ فرمائے گا۔ (صحیح البخاری، کتاب اللباس، باب من الخیلائی، الحدیث 5788، ج4، ص46)

تکبر اور اس جیسی دیگر باطنی بیماریوں سے بچنا نہایت ضروری، بلکہ فرض ہے۔ (فتاویٰ رضویہ مخرجہ، ج23، ص624)

اس لئے ہر اسلامی بھائی/بہن کو چاہئے کہ پہلے تکبر کی تعریف، تباہ کاریاں، اقسام، اسباب، علامات، علاج وغیرہ کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرکے دیانتداری کے ساتھ محاسبہ کرے، پھر اگر اس باطنی گناہ میں گرفتار ہونے کا احساس ہوتو ہاتھوں ہاتھ اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ کرے اور علاج کے لئے بھرپور کوشش شروع کردے۔

اللہ پاک ہمیں تکبر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

تکبر ایک بہت بُری عادت ہے، جو نیکیوں کو برباد کردیتی ہے، اس سے بچنا ازحد ضروری ہے، تکبر سے بچنے کے لئے اولاً تو تکبر کی پہچان ہونی چاہئے، کیا ہے تکبر؟ تو تکبر کی علامت یہ ہے کہ اپنا قُصور ہوتے ہوئے بھی اپنی غلطی تسلیم نہ کرنا اور معافی مانگنے کے لئے تیار نہ ہونا تکبر ہے۔

تکبر چاہے دولت کا ہو، طاقت کا ہو، رتبے کا ہو، حیثیت کا ہو، حُسن کا ہو، حسب و نسب کا ہو، حتیٰ کہ تقویٰ کا ہی کیوں نہ ہو، انسان کو رُسوا کرکے ہی چھوڑتا ہے، اب تکبر کی مذمت پر احادیث مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں:

01۔ فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:جو شخص تکبر سے اپنے کپڑے گھسیٹے گا، اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظر رحمت نہ فرمائے گا۔ (صحیح مسلم،5455)

02۔فرمان مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم: جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (صحیح مسلم، ح147)

03۔غرور و تکبر کا انجام:

حضرت عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو غرور و تکبر کرتا ہے، اللہ پاک اُسے ذلیل کردیتا ہے (جس کے نتیجے میں) وہ اپنے آپ کو تو بہت بڑا سمجھتا ہے، لیکن لوگوں کی نگاہوں میں چھوٹا اور ذلیل ہوجاتا ہے، حتیٰ کہ کتے اور خنزیر سے بھی بدتر لگنے لگتا ہے۔ (مشکاۃ المصابیح، ح5119)

04۔ تکبر کی چال کا انجام:

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ایک شخص دو دھاری دار کپڑوں میں ملبوس اِتراہٹ اور اکڑ کے ساتھ چل رہا تھا، نیز (وہ اپنے کپڑوں کو اتنا نفیس اور برتر سمجھ رہا تھا کہ اُس کے نفس نے اُس کو غرور و خود بینی میں مبتلا کردیا تھا) اُس کا انجام یہ ہوا کہ زمین نے اُس شخص کو نگل لیا، چنانچہ وہ قیامت کے دن تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔ (بخاری شریف)

05۔حضرت جابر رضی الله عنہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن خدا کچھ لوگوں کو چیونٹیوں کی شکل میں اُٹھائے گا، لوگ انہیں اپنے قدموں سے روندے گے، پوچھا جائے گا، یہ چیونٹیوں کی شکل میں کون لوگ ہیں؟ انہیں بتایا جائے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جو تکبر کرتے تھے۔ (ترغیب و ترہیب، بحوالہ بزار)

نہ اُٹھ سکے گا قیامت تلک خدا کی قسم

کہ جس کو تُو نے نظر سے گِرا کر چھوڑدیا

اللہ پاک تکبر کرنے والے کو ناپسند فرماتا ہے اور عاجزی کرنے والے کو پسند فرماتا ہے، اگر آپ اللہ پاک کا پسندیدہ بننا چاہتے ہیں، تو تکبر چھوڑ کر عاجزی کا پیکر بن جائیے، اگر اپنے اندر سے تکبر کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو اپنے کام خود کریں اور اِس میں شرم محسوس نہ کریں۔

تکبر کا علاج:

فرمانِ حبیبِ پروردگار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:سلام میں پہل کرنے والا تکبر سے دور ہوجاتا ہے۔ (شعب الایمان، ح8786، ص433)

جس نے ربّ کے لئے جُھکنا سیکھ لیا، وہی علم والا ہے، کیونکہ علم کی پہچان عاجزی اور جاہل کی پہچان تکبر ہے۔

اللہ پاک ہمیں تکبر سے بچائے رکھے اور عاجزی و انکساری کا پیکر بنائے۔ آمین 


ظاہری اعمال کا باطنی اوصاف کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے، اگر باطن خراب ہوتو ظاہری اعمال بھی خراب ہوں گے اور اگر باطن حسد، ریا اور تکبر وغیرہ عیوب سے پاک ہوتو ظاہری اعمال بھی درست ہوتے ہیں، باطنی گناہوں کا تعلق عموماً دل سے ہوتا ہے، لہٰذا دل کی اصلاح ضروری ہے، باطنی گناہوں میں تکبر بھی ہے، جس کی مذمت قرآن و حدیث سے ثابت ہے، جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

تکبر کی تعریف:

خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے، رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کانام ہے۔ جس کے دل میں تکبر پایا جائے اسے متکبّر اور مغرور کہتے ہیں۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 275)

آیتِ قرآنیہ:

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْنْ۔ ترجمہ کنزالایمان:بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص276)

تکبر کی مذمت پر احادیث مبارکہ:

حدیث نمبر1۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہوگی، انہیں جہنم کی بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آجائے گی، انہیں طینۃُالخبال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص276_277)

حدیث نمبر2۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو آدمی مرجائے اور تکبر اور خیانت اور قرض سے پاک ہو، وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (جامع ترمذی، باب جہاد: 1572)

شرح: اس حدیث مبارکہ سے یہ معلوم ہوا کہ جو تکبر سے پاک ہوگا، وہ جنت میں داخل ہوگا، لیکن جو تکبر سے پاک نہ ہوگا، وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔

حدیث نمبر3۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:عزت میری ازار ہے اور کبریائی میری رداء ہے، جو مجھ سے ان صفات کو چھیننے کی کوشش کرے گا، میں اس کو عذاب دوں گا۔ (مسلم شریف، کتاب البروالصلہ)

حدیث نمبر4۔رسول پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن اللہ پاک تین قسم کے آدمیوں سے کلام نہیں فرمائے گا اور نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کرے گا، نہ ہی ان کی طرف نظرِ رحمت فرمائے گا اور ان کو درد ناک عذاب دے گا ،1:بوڑھا زنا کرنے والا، 2:جھوٹ بولنے والا، 3: تکبر کرنے والا فقیر ۔ (مسلم شریف، کتاب الایمان)

حدیث نمبر5۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک نے مجھ پر وحی فرمائی کہ عاجزی اختیار کرو، کوئی شخص فخر نہ کرے اور کوئی شخص دوسرے پر زیادتی نہ کرے۔ (مسلم شریف، باب جہنم)

درس:

ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تکبر کرنے والا عذاب کا حق دار ہے، ہر مسلمان پر ظاہری گناہوں کے ساتھ ساتھ باطنی گناہوں کے علاج پر بھی بھرپور توجہ دینا لازم ہے، تاکہ ہم اپنے دارِ آخرت کو ان کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھ سکیں، باطنی گناہوں کا علم حاصل کرنا بھی فرض ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر باطنی بیماریوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کا علم حاصل کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین

خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے،  چنانچہ رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیرجاننے کا نام ہے۔ (صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، باب تخریم الکبر، ص 61، حدیث 51)

جس کے دل میں تکبر پایا جائے، اس کو متکبر کہتے ہیں، یعنی تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔

تکبر ایسا مہلک مرض ہے کہ اپنے ساتھ دیگر کئی برائیوں کو لاتا ہے اور کئیں اچھائیوں سے آدمی کو محروم کر دیتا ہے، بنیادی طور پر دل میں تکبر اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب انسان خود کو بڑا سمجھے اور اپنے آپ کو وہی بڑا سمجھتا ہے، جو اپنے اندر کسی کمال کی بُو پاتا ہے، پھر وہ کمال یا تو دینی ہوتا ہے، جیسے علم و عمل وغیرہ اور کبھی دنیاوی مثلا مال و دولت اور طاقت منصب وغیرہ۔

جیسا کہ حدیث پاک میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تین آدمی ہیں کہ ان سے اللہ قیامت کے دن نہ کلام فرمائے گا، نہ انہیں ستھرا کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف نظر ِرحمت فرمائے گا، ان کے لئے دردناک عذاب ہے، بوڑھا زناکار، جھوٹا بادشاہ اور متکبر فقیر۔ (صحیح مسلم، باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار والمن باالعطیہ،ج1،ص72، رقم359)

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک قیامت کے دن اس کی طرف نظرِ عنایت نہ فرمائے گا، جو اپنی چادر کو تکبر سے ٹخنوں کے نیچے گھسٹتا ہوا چلے۔ (صحیح بخاری، باب من جرثوبہ من الخیلاء، جلد 7، صفحہ 141، رقم 5788)

حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جس کسی کے دل میں رائی کے دانے جتنا(یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں نہیں داخل ہو گا۔ (صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، باب تخریم الکبرو بیانہ، ص 60، حدیث 147)

حضرت علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: جنت میں داخل نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ تکبر کے ساتھ کوئی جنت میں داخل نہ ہو گا، بلکہ تکبر اور ہر بری خصلت سے عذاب بھگتنے کے ذریعے یا اللہ پاک کے عفو و کرم سے پاک و صاف ہو کر جنت میں داخل ہو گا۔ (مرقاۃ المفاتیح)

تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن ذلت و رسوائی کا سامنا ہوگا، چنانچہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھايا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کی بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اوربہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غا لب آ جائے گی، انہیں طينة الخبال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (جامع ترمذی ، کتاب صفۃ القیامۃ ، باب ما جاء فی شدۃ۔۔الخ، ج4،ص 22، حدیث 2500)

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک قیامت کے دن تم میں سے میرے سب سے زیادہ نزدیک اور پسندیدہ شخص وہ ہوگا، جو تم میں سے اخلاق میں سب سے زیادہ اچھا ہوگا اور قیامت کے لئے میرے نزدیک سب سے قابلِ نفرت اور میری مجلس سے دور وہ لوگ ہوں گے، جو واہیات بکنے والے، لوگوں کا مذاق اڑانے والے اور متفیھق ہیں، صحابہ کرام نے عرض کی، یارسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم بیہودہ بکواس بکنے والوں اور لوگوں کا مذاق اڑانے والوں کو تو ہم نے جان لیا، مگر یہ کون ہے؟ تو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایااس سے مراد ہر تکبر کرنے والا شخص ہے۔ (جامع ترمذی، ابواب البر والصلۃ،ج3،ص410،ح2025)

اللہ پاک تکبر سے محفوظ فرمائے۔آمین

نہ اٹھ سکے گا قیامت تلک خدا کی قسم

کہ جس کو تو نے نظر سے گرا کے چھوڑ دیا


جہنم میں لے جانے والے گناہوں میں سے ایک تکبر بھی ہے، جس کا علم سیکھنا فرض ہے، خود کو افضل، دوسروں کو حقیر جانے کا نام تکبر ہے، حضور علیہ السلام نے فرمایا:تکبرحق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، حدیث91،تکبر، ص16)

جس کے دل میں تکبر پایا جائے، اسے متکبر کہتے ہیں، تکبر کی 3 قسمیں ہیں:

1۔اللہ پاک کے مقابلے میں تکبر،

2۔اللہ پاک کے رسولوں کے مقابلے میں تکبر، یہ بھی کفر ہے،

3۔بندوں کے مقابلے میں تکبر، یہ گناہ ہے۔

تکبر ایک مذموم صفت ہے اور اللہ کریم کو سخت ناپسند ہے۔

1۔حضور علیہ السلام نے فرمایا:جس کی یہ خوشی ہو کہ لوگ میری تعظیم کے لئے کھڑے رہیں، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔ (جامع الترمذی، كتاب الادب، حديث 2764،تکبر ص27)

2۔حضور علیہ السلام فرمایا:الله پاک متکبرین( یعنی مغروروں)اور اترا کر چلنے والوں کو کو ناپسند فرماتا ہے۔ (کنز العمال، كتاب الاخلاق، ص 210، حدیث 7727 ، تکبر، ص 22)

3۔حضور علیہ السلام نے فرمایا:قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھايا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کی بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اوربہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غا لب آ جائے گی، انہیں طينة الخبال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (جامع ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ح2500،تکبر، ص 24)

4۔حضور علیہ السلام نے فرمایا:جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا، اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظرِرحمت نہ فرمائے گا۔ (صحیح بخاری، کتاب اللباس ،حدیث5788، تكبر،ص 24 )

5۔حضور علیہ السلام نے فرمایا:جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا(یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔ ( صحیح مسلم، کتاب الایمان، حدیث147، تکبر، ص25)

اے عاشقانِ رسول! محبت تو یہ ہے کہ محبوب جس کا حکم دے، وہ کرے اور جس سے روکے، اس سے رک جائے اور جوبات محبوب کو پسند نہ ہو، اس سے بہت دور رہے۔

ہاں جس آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ہم محبت کرتے ہیں، وہ تکبر کی مذمتیں بیان فرمار ہے ہیں، کتنے مہربان ہیں ہمارے محبوب آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم عذابات بیان فرما فرما کر اپنے امتیوں کو بچار ہے ہیں، کتنا اچھا ہے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کاوه امتی، جو کہے لبیک وسعدیک يارسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم۔

ارے گنا ہوں سے بچنے کی نیت و کوشش تو کرو، پھر دیکھو کہ وہ راہیں تمھارے لئے کھول دی جائیں گی اور جنت کا راستہ تمھارے لئے آسان ہو جائے گا، چاہتے ہو نا کہ جنت میں محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا پڑوس ملے؟

توبس اُن کے احکام پر عمل کر لو، با مراد ہو جاؤ گے۔۔

تکبر یعنی خود کو دوسروں سے افضل سمجھنا ایسی باطنی بیماری ہے، جو انسان کو سیدھا جہنم کی طرف لے جاتی ہے، بزرگی اور برتری صرف ربّ  پاک کی ذاتِ گرامی کیلئے ہے، اس کے آگے سب نیست، تمام عزتیں اس کے آگے پست، جسے چاہے عزت دے، اب جسے عزت دی، وہ بجائے اس کے حضور عاجزی کرنے اور شکر گزار بننے کے خود کو افضل اور دوسروں کو حقیر سمجھنے لگ جائے تو یہ کہاں کا انصاف ؟؟

کیا متکبروں کو یہ معلوم نہیں کہ جب والی کونین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فتحِ مکہ کے موقع پر شہر میں داخل ہوئے تو سیاہ عمامہ سجائے، سر انور اونٹنی کے کجاوے تک جھکا ہوا تھا، تو ان متکبرین کی کیا اوقات اور انہیں کس بات کا غرور ؟؟

فرامینِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:

1۔کبریائی اللہ کی چادر ہے:

اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نےفرما یا:اللہ پاک فرماتا ہے، بڑائی میری چادر اور عظمت میرا تہبند ہے، جو کوئی ان میں کسی ایک کے بارے میں جھگڑے گا، میں اسے تباہ کر دوں گا۔ ( سنن ابى داؤد، كتاب اللباس،4/81، الحدیث 4090)

رائی کے دانے برابر تکبر:

رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی تکبر ہوگا، اللہ پاک اسے اوندھے منہ جہنم میں ڈالے گا۔ (شعب الايمان، باب فی حسن الخلق، 6/280،ح 8154)

3۔بد ترین شخص:

حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:کیا میں تمہیں اللہ پاک کے بدترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ بد اخلاق اور متکبر ہے۔ (المسند الامام احمد بن حنبل، 9/130، الحديث 23517)

جہنم کا حقدار:

آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ہر سخت مزاج، اترا کر چلنے والا، متکبر، خوب مال جمع کرنے والا اور دوسروں کو نہ دینے والا جہنمی ہے، جبکہ اہلِ جنت کمزور اور کم مال والے ہیں۔ (المسند للام احمد بن حنبل، 2/972 ، حدیث 7030)

وادی ہب ہب کا حقدار:

مصطفی جانِ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جہنم میں ایک وادی ہے، جسے ہب ہب کہا جاتا ہے، اللہ پاک کا فیصلہ ہے کہ ہر جا برو ظالم کو اس میں ڈالے گا۔ (المسند لا بی یعلى ، حديث ابوموسی العشری 6/207، حدیث7213)

الامان والحفیظ! اللہ پاک تکبر اور ہربری خصلت و گناہ سے بچائے، معلوم ہوا کہ تکبر میں تباہی ہی تباہی ہے، نجات اللہ ربّ العزت کی رضا، عاجزی اور انکساری میں ہے، اسی میں عافیت اور عاجز لوگ ہی جنت کے وارث ہیں، ہمیں چاہئے کہ خود پر غور اور خوب فکر کر لیں، کہ کہیں اس بیماری میں ہم بھی تو شامل نہیں؟