قتل ناحق کی مذمت از بنت محمد نواز بھنڈر، فیضان ام
عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
ناحق قتل کے مقابلے میں پوری دنیا کا مٹنا آسان:
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی
کریم ﷺ نے فرمایا: کسی مسلمان کے ناحق قتل ہونے سے پوری دنیا کا تباہ ہوجانا اللہ تعالیٰ
کے ہاں معمولی حیثیت رکھتا ہے۔ (ترمذی، 3/98، حدیث: 1400)
حقوق العباد میں پہلا سوال: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی
کریم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کےمابین سب سے پہلے خون خرابے قتل و قتال کا
فیصلہ سنایا جائے گا۔ (مسلم، ص711، حدیث: 4381)
ناحق قتل کے سب شرکاء جہنمی: رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: اگر بالفرض تمام آسمان اور زمین
والے کسی ایک مومن کے قتل میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں ڈال
دے۔ (ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)
قاتلوں کے سہولت کار: جو شخص کسی مسلمان کے ناحق قتل میں سہولت کار بنا اگرچہ وہ معاونت بالکل
معمولی درجے کی(ایک بات کی حد تک) بھی ہو تو وہ شخص (قیامت والے دن ) اللہ تعالیٰ
سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر ) لکھا ہوا ہوگا کہ یہ
شخص اللہ کی رحمت سے مایوس رہے گا۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)
ناحق قتل کرنا شریعت میں حرام ہے اگر کوئی شخص شرعا ً ناحق
قتل کو حلال سمجھتا ہے تو فقہاء کرام رحمہم اللہ کی تصریحات کے مطابق کافر ہو جاتا
ہے۔
ناحق قتل کی چار سزائیں دائمی جہنم، اللہ کا غضب، اللہ کی
لعنت اور سخت ترین عذاب کی صورت میں قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ ایک ناحق قتل پوری
انسانیت کو قتل کرنے کے برابر گناہ ہے۔ اللہ کےنیک بندوں کی صفت یہ ہے کہ وہ ناحق
قتل نہیں کرتے، اربابِ اقتدار کےلیےقتل کی تین صورتیں جائز ہیں: رجم، قصاص،
ارتداد۔
کسی بھی انسان کو قتل کرنا تو درکنار، ہم کسی بھی حال میں
کسی بھی انسان کے قتل میں کسی بھی نوعیت سے معاون ثابت نہ ہوں تاکہ ہم آخرت میں
دردناک عذاب سے محفوظ رہیں۔ اگر کسی نے کوئی قتل کیا ہے تو حکومت وقت ہی کو اسے
قصاصاً قتل کرنے کا حق حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تمام گناہوں سے محفوظ رہ کر یہ
دنیاوی فانی زندگی گزارنے والا بنائے اور ہمیں دونوں جہاں میں کامیابی عطا
فرمائے۔۔اللہ تعالیٰ ہمارے پورےمعاشرے کوبالخصوص وطن عزیز پاکستان کو دہشت گردی،
قتل وقتال اور فتنہ و فساد جیسی لعنت سے محفوظ فرمائے۔ آمین