قتل ناحق کی مذمت از ہمشیرہ علی حسنین، فیضان ام
عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
کسی مسلمان کا دوسرے مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا حرام
ہے اس کی وعید قرآن وحدیث سے ثابت ہے جیسے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ
خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا
عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
درج ذیل احادیث مبارکہ میں اس کی مذمت بیان کی گئی ہے:
چنانچہ
1۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ناحق حرام خون
بہانا ہلاک کرنے والے ان امور میں ہے جن سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں۔ (بخاری، 4/357، حدیث:6863)
2۔ کسی مسلمان کو قتل کرنے میں اگر زمین وآسمان والے شریک
ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب جہنم میں دھکیل دے۔ (ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)
3۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کا ختم ہو جانا ایک مسلمان کے
ظلما قتل سے زیادہ سہل ہے۔ (ابن ماجہ، 3/261، حدیث: 2619)
4۔ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو ناحق قتلِ کرنا
ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث: 6871)
افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہو گیا ہے چھوٹی
چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی ڈکیتی خاندانی لڑائی تعصب
والی لڑائیاں عام ہیں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے گروپ اور جتھے
اور عسکری ونگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل وغار تگری کرنا ہے
مسلمان کو ناحق قتل کرنا کیسا ہے؟ اگر مسلمانوں کے قتل کو
حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے
گا اور قتلِ کو حرام سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور
ایسا شخص مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ناحق قتل کرنے سے بچنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین