قتل ناحق کی مذمت از بنت محمد نواز، فیضان ام عطار
شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
قتل ناحق کے معنی بغیر کسی غلطی کے کسی شخص کو قتل کر دینا
ہے یعنی اس شخص کی غلطی بھی نہ ہو تو اس کو قتل کر دینا قتل ناحق کہلاتا ہے۔
کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنا سخت ترین کبیرہ
گناہ ہے شریعت میں قتل عمد کی سزا دنیا میں فقط قصاص ہے یعنی یہ متعین ہے۔ ہاں !
اگر اولیاء مقتول معاف کر دیں ورنہ قاتل سے مال لے کر مصالحت کر لے تو یہ بھی ہو
سکتا ہے۔ ( ظاہری گناہوں کی معلومات: ص78 )
قتل ناحق کی مذمت کرتے ہوئے رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ
خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا
عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
احادیث مبارکہ:
1۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے
بڑھ کر ہے۔(ترمذی، 3/98، حدیث: 1400)
2۔ اس ذات کی قسم کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! بے شک ایک
مومن کا قتل کیا جانا اللہ کے نزدیک دنیا کے تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے۔ (ظاہری
گناہوں کی معلومات، ص 78)
پہلا ناحق قتل: قابیل و ہابیل دونوں حضرت آدم علیہ اسلام کے فرزند تھے حضرت حواء کے ہر حمل
میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوتے تھے قابیل کے ساتھ اقلیمااور ہابیل کے ساتھ لےوذا
پیدا ہوئی اس وقت یہ دستور تھا ایک حمل کے لڑکے کا دوسرے حمل کی لڑکی کے ساتھ نکاح
کیا جاتا تھا چنانچہ حضرت آدم نے ہابیل کا نکاح اقلیما سے کرنا چاہا مگر قابیل اس
پر راضی نہ ہوا کیونکہ اقلیما زیادہ خوبصورت تھی اس لیے وہ اس کا طلب گار ہوا حضرت
آدم علیہ السلام نے اسے سمجھایا کہ اقلیما تیرے ساتھ پیدا ہوئی ہے۔ اس لیے وہ تیری
بہن ہے تیرا اس سے نکاح نہیں ہوسکتا مگر قابیل اپنی ضد پر اڑا رہا بلآخر حضرت آدم علیہ
اسلام نے حکم دیا کہ تم دونوں اللہ کی بارگاہ میں اپنی اپنی قربانیاں پیش کرو جس
کی قربانی مقبول ہو گی وہی اقلیما کا حق دار ہو گا اس زمانے میں قربانی کی مقبولیت
کی نشانی تھی کہ آسمان سے ایک آگ اترتی اور اسے جلاڈالتی چنانچہ قابیل نے گیہوں کی
کچھ بالے اور ہابیل نے ایک بکری قربانی کے لئے پیش کی آسمانی آگ نے ہابیل کی
قربانی کو کھا لیا اور قابیل کے گہیوں کو چھوڑ دیا اس پر قابیل کے دل میں بعض وحسد
پیدا ہو گیا اور اس نے ہابیل کو قتل کر لینے کی ٹھان لی اور ہابیل سے کہا کہ میں
تجھے قتل کر دوں گا ہابیل نے کہا کہ قربانی قبول کرنا اللہ کا کام ہے اور وہ اپنے
بندوں ہی قربانی قبول کرتا ہے اگر تو متقی ہوتا تو ضرور تیری قربانی قبول ہوتی
ساتھ ہی حضرت ہابیل نے کہا کہ اگر تو میرے قتل کے لیے ہاتھ بڑھائے گا تو میں تجھ
پر اپنا ہاتھ نہیں اٹھاوں گا کیونکہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ میرا
اور تیرا گناہ تجھ پر ہی پرے اور تو ہی جہنمی ہو کیونکہ بے انصافوں کی یہی سزا ہے
آخر قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا بوقت قتل ان کی عمر 20 برس تھی اور
قتل کا حادثہ مکہ مکرمہ میں جبل ثور کے پاس، جبل حرا کی گھاٹی میں ہوا بعض کا قول
ہے کہ شہر بعرہ میں جس جگہ مسجد اعظم بنی ہوئی ہے وہاں بروز منگل سانحہ رونما ہوا۔
(روح البیان، 2/379)