قتل ناحق کی مذمت از ہمشیرہ علی حسن، فیضان ام عطار
شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
اسلام میں کسی انسانی جان کی حرمت کا اندازہ یہاں سے لگایا
جا سکتا ہے کہ ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت قتل کے برابر قرار دیا گیا ہے ارشاد
باری تعالی ہے جو کوئی کسی کو قتل کرے جبکہ یہ خطرناک کسی اور جان کا بدلہ لینے کے
لیے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو تو یہ ایسا ہے جیسے اس
نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جو شخص کسی کی جان بچائے تو یہ ایسا ہے جیسے اس
نے تمام انسانوں کے کی جان بچائی
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: مَنْ
قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ
النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ
کنز الایمان: جس
نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں
کو قتل کیا۔
مومن کا قتل پوری دنیا کی تباہی سے بھی ہولناک ہے کسی
مسلمان کا جان بوجھ کر قتل کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ احادیث مبارکہ میں اس کی مذمت کی
گئی ہے۔
احادیث مبارکہ:
1۔ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ
رہیں۔ (بخاری، 1/15، حديث: 10)
2۔ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ مسلمان کو ناحق قتل
کرنا ہے۔(بخاری، 4/358، حدیث: 6871)
3۔ کسی مسلمان کو
ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہوگا۔
4۔ اگر زمین اور آسمان والے کسی مسلمان کو قتل کرنے پر جمع
ہو جائے تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ (ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)
5۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بے شک
ایک مسلمان کا قتل کیا جانا اللہ کے نزدیک دنیا کے تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے۔
(ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 78)
6۔ جس نے کسی مسلمان کے قتل پر ایک حرف جتنی مدد کی تو وہ
قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں اس طرح آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان
لکھا ہوگا کہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)