تکبر اور اپنے آپ کو بڑا ماننا ایک نہایت مذموم عادت ہے اور درحقیقت اللہ پاک کے ساتھ دشمنی کرنا ہے، کبریائی اور عظمت اسی کو زیبا ہے، یہی وجہ ہے کہ جبار اور متکبر کی قرآن پاک میں بہت مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ ارشاد باری ہے:

انه لا يحب المتكبرين۔ (پ14، النحل:23)ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔

کافر متکبرین کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

فادخلوا ابواب جہنم خلدین فیہا فلبئس مقوی المتکبرین۔(پ14، النحل:29) ترجمہ کنزالایمان: اب جہنّم کے دروازوں میں جاؤ کہ ہمیشہ اس میں رہو تو کیا ہی برا ٹھکانہ ہے مغروروں کا۔

تکبر نہایت بری عادت ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی خود کو دوسرے سے بہتر جانے اور اس وجہ سے خوش ہو کر پھولے نہ سمائے، تو جو شے اسے پھلاتی ہے، اسے تکبر کہتے ہیں، تکبر ہلاکت میں ڈالنے والی باطنی بیماری ہے ۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کا فرمان:

حضرت سلیمان علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تکبر ایسا گناہ ہے کہ کوئی عبادت اس متکبر کو نفع نہیں دے گی۔ (کیمیائے سعادت اصل نسیم، صفحہ 583)

تکبر کی تعریف:

تبلیغ قرآن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبہ المدینہ کی مطبوعہ 96 صفحات پر مشتمل کتاب تکبر صفحہ16 پر ہے:خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے چنانچہ رسول پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: تکبر حق کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص61، حدیث147)

امام اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ (مفردات الفاظ القرآن، صفحہ 697)

جس کے دل میں تکبر پایا جائے اسے متکبر اور مغرور کہتے ہیں۔

تکبر کا نقصان:

قرآن پاک میں تکبر کرنے والوں کا بہت برا انجام بیان کیا گیا ہے، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

ان لذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جہنم دٰخرین۔(سورہ مؤمن:60) ترجمہ کنزالعرفان: بے شک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں، عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں جائیں گے۔

تکبرایک خطرناک باطنی مرض ہے، اس کے نقصانات بے شمار ہیں، سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ بعض اوقات انسان تکبر کے سبب ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، اگر اس مرض کو اپنے اندر پائے تو اس کا علاج کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، ورنہ ایسا نہ ہو کہ صرف پچھتاوا رہ جائے، آئیے تکبر کے نقصان سے متعلق ایک حکایت پڑھ کر عبرت حاصل کرتے ہیں۔

بنی اسرائیل کا ایک شخص بہت گناہگار تھا، ایک مرتبہ بہت بڑے عبادت گزار کے پاس سے گزرا، جس کے سر پر بادل سایہ کرتے تھے، گنہگار شخص نے اپنے دل میں سوچا، میں گنہگار ہوں، یہ عبادت گزار، اگر میں ان کے پاس بیٹھوں گا تو امید ہے کہ اللہ پاک مجھ پر بھی رحم فرما دے، یہ سوچ کر وہ اس عابد کے پاس بیٹھ گیا، عابد کو اس کا بیٹھنا برا لگا، اس نے دل میں کہا، کہاں مجھ جیسا عبادت گزار، کہاں یہ بڑے درجے کا گناہ گار!

یہ میرے پاس کیسے بیٹھا ہے، چنانچہ اس عابد نے گناہ گار شخص سے کہا ،یہاں سے اٹھ جاؤ، اس پر اللہ پاک نے اس زمانے کے نبی علیہ السلام پر وحی بھیجی کہ ان دونوں سے فرمائیے کہ وہ اپنے عمل نئے سرے سے شروع کریں، میں نے اس گناہ گار کو (اس کے حسن ظن کے سبب) بخش دیا اور عبادت گزار کے عمل (اس کے تکبر کے باعث) ضائع کر دیئے۔ (احياء العلوم، کتاب ذم الکبر والعجب بیان مابہ التکبر،ج3، ص 429، باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ 279)

تکبر کی تعریف و نقصان و مذمت سے متعلق پانچ احادیث مبارکہ:

1۔حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے دل میں رائی برابر بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا اور جو شخص جہنم میں نہیں جائے گا، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص61، حدیث91، احیاء العلوم، ج3، ص1073)

2۔حضور نبی کریم، رؤف الرحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھايا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کی بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اوربہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غا لب آ جائے گی، انہیں طينة الخبال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ج4، ص221، ح2500،باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 277)

3۔ حضرت سیدنا محمد بن واسع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں امیر بصرہ بلال بن ابوبُردہ کے پاس آیا اور اس سے کہا، اے بلال! مجھے تمہارے والد محترم نے تمہارے دادا کے حوالے سے یہ حدیث بیان فرمائی ہے کہ رحمت عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: کہ جہنم میں ایک وادی ہے، جسے ہب ہب کہا جاتا ہے، اللہ پاک کا فیصلہ ہے کہ ہر جابر و ظالم انسان کو اس میں ڈالے گا، لہٰذا اے بلال!تم اس کے مکین بننے سے بچنا۔ (مسند ابی یعلی،الحدیث ابی موسی الشعری6/207،ح7213، احیاء العلوم، ج3، ص1073)

4۔حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ حق پاک جل شانہ ایسے شخص پر جو تکبر سے اپنے لباس کو زمین پر کھینچتا چلا جائے، نظر نہیں فرماتا ، حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے منقول ہے کہ ایک شخص فاخرہ لباس پہن کر تکبر سے چلتا اور اپنے آپ کو دیکھتا تھا، حق تعالیٰ نے اس کو زمین میں دھنسا دیا اور وہ قیامت تک اسی طرح دھنستا رہے گا، (کیمیائےسعادت، صفحہ 583)

5۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تم میں سے وہ لوگ مجھے زیادہ محبوب اور میرے زیادہ قریب ہوں گے، جن کے اخلاق اچھے ہوں گے اور وہ لوگ مجھے زیادہ ناپسند اور مجھ سے زیادہ دور ہوں گے، جو زیادہ بولنے والے، منہ پھٹ اور متفیھقون ہوں گے، صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہم زیادہ بولنے والے اور منہ پھٹ کو تو جانتے ہیں، لیکن یہ متفیھقون کون ہیں؟ ارشاد فرمایاتکبر کرنے والے۔ (سنن ترمذی، کتاب البر والصلۃ باب ما جاء فی معالی الاخلاق3/709، حدیث2025،بتقدم وتاخر، احیاء العلوم، ج3، ص1078)

کسی بزرگ کا قول ہے کہ آدمی بہشت کی خوشبو سونگھنا چاہتا ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو ہر ایک انسان سے کمتر سمجھے۔

اللہ پاک ہمیں بھی اس مہکتے ہوئے قول پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

رسول پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک سے دعا مانگتے تھے:اعوذبک من نفحۃِ الکبر۔اے اللہ میں کبر کی ہوا سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔

جب آدمی میں غرور پیدا ہوجائے تو وہ دوسروں کو اپنے آپ سے کمتر سمجھتا ہے، اللہ پاک ہمیں غرور و تکبر سے بچا کر ایسا بندہ بنا دے، جیسا وہ ہمیں دیکھنا چاہتا ہے، شیطان بھی تکبر کے سبب جنت سے بے دخل کیا گیا، اس تکبر نے ابلیس کو ایسا تباہ و برباد کر دیا کہ اس نے خدا پاک کی نافرمانی کی اور آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کر کے ہمیشہ کے لئے ملعون ہو گیا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عاجزی و انکساری کا پیکر بنا دے، غرور تکبر سے بچا لے، ہم دنیا و آخرت میں اللہ کے فضل وکرم کے ذریعے اس سے درگزر کا سوال کرتے ہیں، کیونکہ تکبر کرنا سراسر نادانی ہے، یہی وجہ ہے کہ علمائے عظام اور مشائخِ کبار نے ہمیشہ عاجزی و انکساری کو اپنایا ہے۔