ہم سب کو اپنے حصّہ کی زندگی گزار کر سفرِ آخرت پر روانہ ہونا ہے، اس سفر کے نازک مراحل سے گزر کر انسان اپنے اعمال کے مطابق ربّ تعالیٰ کی مشیت سے جنت و دوزخ کا حقدار قرار پاتا ہے اور افسوس! جن کا ٹھکانہ دوزخ ہے، وہ ان کے اپنے گناہوں کے سبب سے ہے، گناہ ظاہر اور باطنہ بھی ہوتے ہیں، انسان کی ظاہری گناہ سے بچنے پر توجہ ہوتی ہے، ایسے میں باطنی گناہوں کا علاج نہیں ہوپاتا اور اکثر باطنی گناہوں کے باعث انسان ہلاکت میں پڑ جاتا ہے، اس طرح یہ تکبر  بھی ایک باطنی اور مہلک مرض ہے۔

تکبر:

خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے، چنانچہ رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تکبر کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:الکبر بطر الحق وغظ الناستکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہےاور جس شخص کے دل میں تکبر پایا جائے، اسے متکبر کہتے ہیں۔

تکبر کی مذمت پر ایک آیت مبارکہ:

انه لا يحب المتكبرين۔ (پ14، النحل:23) ترجمہ کنزالایمان:بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔

تکبر کی تین اقسام ہیں:

1۔ربّ پاک کے مقابلے میں تکبر،

2۔اللہ پاک کے رسولوں کے مقابلے میں تکبر،

3۔بندوں کے مقابلے میں تکبر، ان میں پہلی دو صورتیں کفر اور تیسری اگرچہ ان سے کم، مگر حرام ہے۔

تکبر کی مذمت کے بارے میں 5 فرامین مصطفی:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:کہ قیامت کے دن اللہ پاک تین قسم کے آدمیوں سے بات نہیں کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف نظر رحمت فرمائے گا اور ان کو دردناک عذاب ہوگا،1۔بوڑھا ہونے کے باوجود زنا کرنے والا، 2۔جھوٹ بولنے والا بادشاہ، 3۔اور تکبر کرنے والا۔

حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھايا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کی بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اوربہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غا لب آ جائے گی، انہیں طينة الخبال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (ترمذی، ج4، ص221، ح2500)

فرمانِ رسول اکرم، نور مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا،تو وہ ہرگز جنت میں داخل نہیں ہو گا ۔

ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تین لوگوں سے ربّ تعالیٰ قیامت کے دن نہ کلام فرمائے گا اور نہ ان کی طرف نظر فرمائے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ہی ان کے لئے دردناک عذاب ہے، پھر رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی، حضرت ابو ذر نے عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم وہ کون نا مراد ہیں؟ فرمایاتکبر کے سبب اپنا تہبند لٹکانے والا، احسان جتانے والا، جھوٹی قسموں کے ذریعے اپنا مال بیچنے والا۔ (رواہ مسلم:104)

خاتم النبین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اپنے فوت شدہ آباؤاجداد پر فخر کرنے والی قوموں کو باز آنا چاہئے، کیونکہ وہی جہنم کا کوئلہ ہیں یا وہ قومیں اللہ پاک کے نزدیک گندگی کے ان کیڑوں سے بھی حقیر ہو جائیں گی، جو اپنی ناک سے گندگی کو کُریدتے ہیں، اللہ پاک نے تم سے جاہلیت کا تکبر اور ان کا اپنے آباؤ اجداد پر فخر کرنا ختم فرما دیا ہے، اب آدمی متقی و مؤمن ہو گا یا بد بخت و بد کار، سب لوگ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ (ترمذی،جلد 5، صفحہ497، حدیث3981)

تکبر کی مذمت سے حاصل ہونے والا درس یہ ہے کہ ہمیں کسی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہئے، تکبر سے بچنے کے لئے اس کے اسباب پر غور کریں، تکبر سے حفاظت کا علاج کرنا چاہئے، کیونکہ تکبر صرف صرف دولت اور حسن کی ہی وجہ سے نہیں، بلکہ بعض اوقات کثرتِ علم، عبادت اور ریاضت، حسب نسب، کامیابی اور کامرانی وغیرہ سے بھی ہوتا ہے تو غور کیجئے کہ کل بروز خدا نخواستہ اس تکبر کی وجہ سے شدید آگ کا عذاب نہ دے دیا جائے، ہاں  ہم کیسے برداشت کریں گے؟ تکبر جیسے موذی مرض سے ربّ کی پناہ مانگیں اور ربّ سے عرض کیجئے کہ اس دنیا سے ایمان سلامت لے کر جائیں اور مکتبۃالمدینہ کا رسالہ تکبر کا مطالعہ فرمائیں۔