
اللہ
پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتاہے ترجمۂ
کنزالایمان: بیشک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ (النحل:
23) خود کو افضل، دوسروں کو حقیر جاننے کو تکبّر کہتے ہیں۔ (تکبر،ص 16) تکبّر بہت ہی تباہ
کن باطنی بیمار ی ہے کہ اگر کسی کو لاحق
ہو جائے تو بندے کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ کردیتی ہے۔یہ اعلیٰ سے اعلیٰ ، نیک
، عبادت گزار شخص کوہمیشہ کے لیئے مردوداور ذلیل و خوار کرتی اور عذاب نار کا حقدار ٹہراتی ہے۔جیسےابلیس نےتکبر کیا حضرت آدم علیہ السلام کواپنے
سے حقیر جانا اور سجدہ نہ کیا اور اسی سبب ہمیشہ کےلیئےمردود
ہوا۔ اللہ پاک نے اس کے تکبر کے سبب اس کو
لعنت کا طوق پہنا کر اس کو جنت سے نکال دیا ۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
تکبّر کو انتہائی ناپسند فرماتے ہوئےمتعدد مواقع پر اس کی شدید مذمت بھی فرمائی۔چنانچہ
ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ: ’’ جس کے دل میں
رائی کے دانے جتنا بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘ (المسلم،کتاب الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ،ح: 265،ص 697) ایک اور حدیث میں انکے ٹھکانے کے بارےمیں بیان فرمایاکہ
’’ بے شک جہنم میں ایک وادی ہے جسے ہبہب
کہتے ہیں ، اللّٰہ پاک کا فیصلہ ہے کہ وہ اس میں تمام تکبر کرنے والوں کو ٹھہرائے
گا۔‘‘ (مسند ابو یعلی، حدیث ابی موسی الاشعری، 6/ 207، ح: 7213)۔ متکبرین کے
خاتمہ کے حوالے سے ایک حدیث میں یوں فرمایا
کہ آدمی اپنے نفس کے متعلق بڑائی بیان کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے جبار (سرکش ) لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے پھر اسے بھی
وہی کچھ پہنچتا ہے جو اُن کو پہنچتا ہے۔ (ترمذی، 3/403، ح 2007..احیاء العلوم،3/991) اسی طرح ایک اور حدیث میں تکبر کی مذمت کرتے ہوئے یوں فرمایا کہ جو غرور کرتا ہے اللہ تعالٰی اسے نیچا کردیتا ہے تو وہ لوگوں کی نگاہ میں
چھوٹا ہوتا ہے اور اپنے دل میں بڑا۔حتی کہ وہ لوگوں کے نزدیک کتے اور سور سے زیادہ
ذلیل ہوتا ہے۔ (مرآة المناجيح،ج 6،ص 449،ح 4486،مطبوعہ قادری پبلیشرز) اور متکبر شخص کے قیامت کے
احوال حدیث میں کچھ اسطرح بیان ہوئےکہ’’
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قیامت کے دن تین شخصوں
سے نہ کلام فرمائے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ہی ان پر نظرِ رحمت فرمائے گا
بلکہ ان کے لئے درد ناک عذاب ہو گا اور وہ تین یہ ہیں، بوڑھا زانی، جھوٹا بادشاہ،
اور متکبر فقیر۔ ( المسلم ،کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم …الخ،ح: 296،ص 696) یہ مذموم صفت عقل
کو زائل کر تی حتیٰ کہ بندہ کسی کی نصیحت قبول نہیں کرتا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس قبیح
بیماری سے بچیں اور اللہ پاک کی محبوب صفت عاجزی کو اختیار کریں اور تکبر سے بچنے
کے لیئے اس کے اسباب یعنی کثرت علم و مال،حسب ،نسب ، حسن جمال وغیرہ کی طرف غور کریں
اور اپنے آپکو یہ یاد دلائیں کہ یہ سب اللہ کی عطا ہے۔ اپنا کمال کچھ نہیں ،وہ جب
چاہے جسکو چاہے عطا اور جس کو چاہے محروم کرے۔ہمیں اللہ پاک کی خُفیہ تدبیر سے
ڈرنا چا ہیے ۔اللہ پاک ہمیں تکبر سے پناہ اور عاجزی اختیا ر کرنے کی توفیق عطا ء فرمائے۔آمین۔

اللہ
پاک نے اس کائنات کو پیدا فرمایا انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطاء کیا ساتھ ہی
اسے یہ بھی بتادیا گیا کہ اللہ پاک نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا
ہے۔اب بندہ حقیقی معنوں میں عبادت گزار اس وقت بن سکتا ہے جب وہ اپنے آ پکو ظاہری
گناہوں کے ساتھ ساتھ باطنی گناہوں سے بچانے کی کوشش کرے۔باطنی گناہوں میں سے ایک
گناہ تکبر بھی ہے جو کہ انتہائی ہلاک کردینے والا گناہ ہے۔ آئیے سمجھتے ہیں تکبر
کسے کہتے ہیں۔ *تکبر کی تعریف* خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔ ( کتاب تکبر صفحہ16) *تکبر کے نقصانات* تکبر کے
چند نقصانات یہ ہیں 1 تکبر کرنے والا ہر برے کام کرنے کی طرف مجبور ہوجاتا ہے تاکہ
اس سے اپنی عزت کی حفاظت کرسکے صفحہ(1013 احیاء العلوم جلد 3
2 )متکبر شخص منافقین کا سا (جیسا) طریقہ اپناتا ہے (1022 احیاء العلوم جلد 3 3
)تکبر انسان کو وعظ و نصیحت قبول کرنے سے بھی روک دیتا ہے (1023 احیاء العلوم جلد 3 ت 4) تکبر
کے باعث جہالت کے اندھیرے میں بھٹکتا رہتا ہے (احیاء
العلوم جلد 3 5 ) لوگوں
پر تکبر کرنا اللہ پاک کے حکم پر تکبر کی طرف لے جاتا (
احیاء علوم جلد 3) تکبر دوسروں کی خامیاں نکالنےان کی
برائیاں کرنے پر ابھارتا ہے ( احیاء علوم جلد 3 /1041
صفحہ) *تکبر کی مذمّت احادیث مبارکہ کی روشنی میں* نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا! جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا
وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔۔۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں جنت میں داخل نہ ہونے سے
مراد یہ کہ وہ تکبر کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہوگا بلکہ تکبر اور دیگر برائیوں کے
عذاب کو بھگتنے یا اللہ سے معافی طلب کرنے
کے بعد پاک و صاف ہوکر داخل جنت ہوگا۔ (تکبر صفحہ7 )آ دمی اپنے نفس کے بارے میں
بڑائی بیان کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جباریں(سرکش)لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا اللہ پاک اسے اوندھے منہ
جہنم میں ڈالے گا۔ (احیاء العلوم جلد 3 صفحہ 990/991) جو تکبر کی وجہ سے اپنا
تہبند لٹکائے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظر رحمت نہ فرمائے گا۔ (کتاب تکبر صفحہ 6) نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں اللہ پاک
کے بدترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ بد اخلاق اور متکبر ہے (کتاب تکبر صفحہ6) *نہ اٹھ سکے گا قیامت تلک خدا کی قسم* *جس کو تو نے نظر سے گرا کے
چھوڑ دیا* *حرف آ خر* لہذا ایک مسلمان کو
چاہئے کہ دیگر گناہوں سے بچنے کے ساتھ بالخصوص اپنے آ پکو تکبر سے بچانے کی کوشش
کرے .عاجزی اپنائے ہر ایک کو اپنے سے اعلی تصور کرے اس کی برکت سے اللہ پاک ایسے
شخص کو دونوں جہاں میں بلندی عطا فرمادیگا۔
*مٹادے اپنی ہستی کو گر کچھ مرتبہ چاہے* *کہ دانہ خاک میں مل کر گل
گلزار ہوتا ہے *

تکبر
کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تکبر ایک باطنی گناہ ہے۔ اس کا علم سیکھنا
فرض ہے۔ یہ اس قدر خطرناک گناہ ہے کہ ابلیس نے مُعَلمُ
المَلکوت کا رُتبہ پانے کے بعد تکبر کیا تو مردود ٹھہرا۔آئیے تکبر کے بارے میں
تفصیل سے جانتے ہیں۔ خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔ آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حَقیر جاننے کا نام ہے۔
تکبر تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک اللہ پاک کے مقابلے میں تکبر کرنا؛ جیسے
فرعون،نمرود کا تکبر،یہ کُفر ہے۔ دوسرا رسولوں کے مقابلے میں تکبر کرنا؛ یعنی
جہالت اور بغض وعداوت کی وجہ سے رسول کی پیروی نہ کرنا،یہ بھی کفر ہے۔تیسرا بندوں
کے مقابلے میں تکبر کرنا؛ یعنی خود کو بہتر اور دوسروں کو حقیر سمجھنا، تکبر کی یہ
قسم اگرچہ کمتر ہے،لیکن یہ بھی بڑا گناہ ہے۔ تکبر کرنے کے دنیا و آخرت میں بے شمار نقصانات ہیں؛چند یہاں ذکر کیے جاتے ہیں۔ * تکبر کرنے والے کو اللہ پاک اور مکی مَدَنی
آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ناپسند فرماتے ہیں۔ * تکبر
کرنے والے کی قیامت کے دن رسوائی ہو گی اور وہ جنّت میں داخل نہ ہو گا۔ * تکبر
کرنے والا بد ترین شخص ہے؛ اللّه پاک بروزِ حشر اس پر نظرِ رحمت نہیں فرمائے
گا۔ پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
تکبر کی مذمت فرمائی،فرامین مُبارک ملاحظہ ہوں۔ * رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص آگ میں داخل نہ ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانہ
کے برابر ایمان ہو اور وہ شخص جنّت میں داخل نہ ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانہ
کے برابر غرور ہو۔(مسلم) (مرات ج 6,ص510,511,حدیث5107) *
رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا کہ جنّت میں وہ نہ جاوے گا جس کے دل میں ذرہ برابر غرور
ہو۔ تو ایک شخص نے عرض کیا کہ کوئی شخص چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اس کا
جوتا اچھا ہو۔ فرمایا کہ اللّه پاک جمیل
ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے۔ غرور حق کو جھٹلانا لوگوں کو ذلیل سمجھنا ہے۔(مسلم) حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: خیال رہے آگ میں
کِبر و غرور ہے خاک میں عِجز و اِنکسَاری؛ دیکھ لو باغ کھیت خاک میں لگتے ہیں آگ میں
نہیں لگتے، ایسے ہی ایمان و عِرفان کا باغ خاک جیسے عاجز ومُنکسر دِل میں لگتے ہیں
آگ جیسے متکبر دل میں نہیں لگتے۔ متکبر وہ ہے جو کسی انسان کی حق بات کو اس لیے
جھٹلائے کہ یہ اس آدمی کے منہ سے نکلی ہے اور مَساکین کو ذَلیل سمجھے۔ (مرات ج 6، ص 511، حدیث 5108) *رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا: الله پاک نے فرمایا ہے کہ بڑائی میری چادر ہے اور عظمت میرا تہبند ہے جو
ان دونوں میں سے ایک مجھ سے چھیننا چاہے گا میں اسے آگ میں داخل کروں گا اور ایک
روایت میں ہے میں اسے آگ میں پھینک دوں گا۔ (مسلم)
کِبر سے مُراد ذاتی بَڑائی ہے اور عظمت سے مراد صِفاتی بَڑائی۔چادر
اور تِہبَند فرمانا ہم کو سمجھانے کے لیے ہے کہ جیسےایک چادر ایک تہبند دو آدمی نہیں
پہن سکتے یوں ہی عظمت و کبریائی سوائے میرے دوسرے کے لیے نہیں ہو سکتی۔ (مرات ج6,ص512,513,حدیث5110) * رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا کہ آدمی اپنے آپ کو اونچا لے جاتا رہتا ہے حتی کہ وہ جَبارین
میں لکھ دیا جاتا ہے تو اسے وہ ہی عذاب پہنچتا ہے جو جبارین کو پہنچتا ہے۔ (ترمذی) یعنی اس کا نام متکبرین و جبارین کے
دفتر میں لکھ دیا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ رب کے دفتر الگ الگ ہیں۔نیکوں کے صدہادفتر
بدوں کے ہزارہا دفتر۔جو دنیوی اوراخروی عذاب،ذلت و رسوائی،فرعون،ہامان،قارون کو
پہنچی ہے یا پہنچے گی وہ اسے بھی ملے گی۔ انہیں قیامت والے اپنے پاؤں تلے روندیں
گے۔ (مرات ج6,ص513,حدیث5111) * روایت ہے حضرت
عمر رضی الله عنہ سے آپ نے منبر پر فرمایا اے لوگو! انکساری اختیار کرو کیوں کہ میں نے
رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا کہ جو الله پاک کے لیے اِنکسَار و عِجز کرتا ہے الله
اسے اونچا کر دیتا ہے تو وہ اپنے دل کا چھوٹا ہوتا ہے اور لوگوں کی نگاہ میں بڑا
اور جو غرور کرتا ہے الله پاک اسے نیچا کر دیتا ہے تو وہ لوگوں کی نِگاہ میں چھوٹا
ہوتا ہے اور اپنے دل میں بڑا حتی کہ وہ لوگوں کے نزدیک کُتے اور سُور سے زیادہ ذلیل
ہوتا ہے۔ حضرت احمد یار خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: یہ قاعدہ بہت ہی مجرب ہے۔ جو کوئی اپنے کو رضائے الہی کے
لیے مسلمانوں کے لیے نرم کر دے، ان کے سامنے انکسار سے پیش آئے تو الله پاک لوگوں
کے دلوں میں اس کی عزت پیدا فرما دیتا ہے اور اسے بڑی بلندی بخشتا ہے۔ (مرات ج6,ص518,519,حدیث5119) محترم قارئین! تکبر
ایسا مُہلک باطنی مرض ہے جو کئی اچھائیوں سے آدمی کو محروم کر دیتا
ہے۔عِلم،عِبادت، حُسن،طاقت، مال و دولت،حَسب و نَسب،عہدہ و منصب کی وجہ سے آدمی
تکبر جیسے مرض میں مُبتلا ہو جاتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے عیبوں پر نظر رکھیں،
عاجزی کریں، ہر وقت الله پاک کی خُفیہ تدبیر سے ڈرتے رہیں۔ الله پاک کی بارگاہ میں
دعا ہے کہ ہمیں تکبر اور دیگر باطنی امراض سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین بجاہ خَاتم
النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم۔ (اس
مضمون کی تیاری میں رسالے تکبر سے مدد لی گئی)

حق بات کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام تکبر
ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر
وبیانہ، ص 60، الحدیث: 147(91)) تکبر
ایک ایسی بری صفت ہے جو دینی و دنیاوی دونوں اعتبار سے مذموم ہے۔ متکبر انسان نہ
صرف دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھتا اور ان کے ساتھ حقارت بھرا سلوک کرتا ہے بلکہ
اپنا بھرم رکھنے کیلئے ہر برائی کرنے پر مجبور اور ہر اچھے کام کو کرنے سے عاجز
ہوجاتا ہے۔ (تکبر ص 37) اسلام میں تکبر کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ آیات طیبہ اور
احادیث مبارکہ میں صراحتاً تکبر کی مذمت کا بیان موجود ہے۔ تکبر کی مذمت پر مشتمل
5 فرامینِ آخری نبی صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم ملاحظہ کیجئے
اور اس گناہِ کبیرہ سے بچنے کا ذہن بنائیے۔
1۔کیا
میں تمہیں اللہ پاک کے بدترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ بداخلاق اور متکبر
ہے۔ (المسند للامام احمد بن حنبل، الحدیث 23517،
ج 9، ص 120)
2۔ہر
سخت مزاج، اترا کر چلنے والا، متکبر، خوب مال جمع کرنے والا اور دوسروں کو نہ دینے
والا جہنمی ہے جبکہ اہلِ جنت کمزور اور کم مال والے ہیں۔ (المسند للامام احمد بن حنبل، مسند عبد اللہ بن عمرو بن
العاص، 672/2، حدیث 7030)
3۔آخرت
میں تم میں سے وہ لوگ مجھے زیادہ محبوب اور میرے زیادہ قریب ہوں گے جن کے اخلاق
اچھے ہوں گے اور وہ لوگ مجھے زیادہ ناپسند اور مجھ سے زیادہ دور ہوں گے جو زیادہ
بولنے والے، منہ پھٹ اور مُتفیْہِقُون ہوں گے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! ہم زیادہ بولنے والے اور منہ پھٹ کو تو جانتے ہیں لیکن
یہ مُتفیْہِقُون کون ہیں؟ ارشاد فرمایا: تکبر کرنے والے۔ (سنن الترمذی، کتاب البر و الصلة، باب ما
جاء فی معالی الاخلاق، 409/3، حدیث 2025 بتقدم و تاخر)
4۔تکبر
کرنے والے لوگ قیامت کے دن انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی طرح جمع کیے جائیں گے اور
ہر جگہ سے ان پر ذلت چھا جائے گی ،پھر انہیں جہنم کے ایک بُوْلَسْ نامی قید خانہ
کی طرف ہانکا جائے گا، ان پر آگوں کی آگ چھا جائے گی اور انہیں طِیْنَۃُ الْخَبَّالْ یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 47- باب، 4 / 221،
الحدیث: 2500)
5۔قیامت
کے دن تکبر کرنے والوں کو چیونٹیوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا اور لوگ ان کو
روندیں گے کیوں کہ اللہ پاک کے ہاں ان کی کوئی قدر نہیں ہوگی۔ (رسائل ابن ابی دنیا، التواضع والخمول، 2 / 578،
الحدیث: 224) الامان و الحفیظ۔

ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر اللہ و رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے احکامات پر عمل کرنا اور گناہوں سے بچنا
لازم ہے۔ بنیادی طور پر بعض گناہ ظاہری ہوتے ہیں جیسے قتل جبکہ بعض باطنی جیساکہ
تکبر۔ اس پرفتن دور میں اول تو گناہوں سے بچنے کا رجحان بہت ہی کم ہے اور جو خوش
نصیب گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے بھی ہیں تو باطنی گناہوں کی طرف عموماً ان کی
بھی توجہ نہیں ہوتی۔ حالانکہ یہ ظاہری گناہوں کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہوتے ہیں
کیونکہ ایک باطنی گناہ بہت سے ظاہری گناہوں کا سبب بن سکتا ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 9 ملتقطا) یہی وجہ ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی، محمدِ
عربی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ظاہری گناہوں کے ساتھ ساتھ باطنی گناہوں
کی بھی مذمت فرمائی، ان سے بچنے کا حکم ارشاد فرمایا اور عذابات سے ڈرایا۔
باطنی گناہوں میں سے ایک ہلاکت خیز گناہ تکبر بھی ہے۔
خود کو افضل اور دوسروں کو حقیر سمجھنا تکبر ہے۔ (تکبر، ص 16) اسی تکبر کے سبب شیطان مردود نے حضرت آدم علیہ السلام سجدہ تعظیمی کرنے کے حکمِ الہی پر عمل کرنے
سے انکار کیا اور ہمیشہ کیلئے مردود ہوگیا۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ تکبر سے بچتے ہوئے
رِضائے الہی کیلئے عاجزی کرتے رہیں کیونکہ تکبر کرنا دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی
کا سبب ہے جبکہ رضائے الہی کیلئے عاجزی کرنے میں دونوں جہاں کی بھلائی ہے۔
تکبر کی مذمت پر پانچ فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ، جن میں عاجزی کی فضیلت کا بیان بھی ہے،
درج ذیل ہیں:
1۔جو
اللہ پاک کیلئے عاجزی اختیار کرے اللہ پاک اسے بلندی عطا فرمائے گا، پس وہ خود کو
کمزور سمجھے گا مگر لوگوں کی نظروں میں عظیم ہوگا اور جو تکبر کرے اللہ پاک اسے
ذلیل کردے گا، پس وہ لوگوں کی نظروں میں چھوٹا ہوگا مگر خود کو بڑا سمجھتا ہوگا
یہاں تک کہ وہ لوگوں کے نزدیک کتے اور خنزیر سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔
2۔ہر
انسان کے سر میں ایک لگام ہوتی ہے جو ایک فرشتے کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ جب بندہ
تواضع کرتا ہے تو اس لگام کے ذریعے اسے بلندی عطا کی جاتی ہے اور فرشتہ کہتا ہے:
بلند ہوجا! اللہ پاک تجھے بلند فرمائے۔ اور اگر وہ اپنے آپ کو (تکبر سے) خود ہی بلند کرتا ہے تو وہ اسے زمین کی جانب پست (یعنی نیچا) کرکے کہتا ہے: پست (یعنی نیچا) ہوجا! اللہ پاک تجھے پست کرے۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، باب التواضع، الحدیث 5741، ج 3، ص
50)
3۔جو
شخص اللہ پاک کی رضا کیلئے جس درجے کی عاجزی کرتا ہے، اللہ پاک اسے اسی درجے بلند
فرمادیتا ہے یہاں تک کہ اسے اعلیٰ
عِلِّیِّیْن (سب سے بلند درجے) میں
کردیتا ہے اور جو شخص اللہ پاک کے مقابلے میں جس درجے کا تکبر کرتا ہے، اللہ پاک
اسے اسی درجے میں گرادیتا ہے حتیٰ کہ اسے اسْفلُ السّافلین (سب سے نچلے درجے) میں کردیتا ہے۔ (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الحظر و الاباحة،
باب التوضع۔۔۔الخ، 457/7، حدیث 5649)
4۔جو
اپنے مسلمان بھائی کے سامنے عاجزی اختیار کرے گا، اللہ پاک اسے بلندی عطا فرمائے
گا اور جو اس کے سامنے اپنی بڑائی کا اظہار کرے گا، اللہ پاک اسے رسوا کردے گا۔ (معجم اوسط، باب الف، 390/5، حدیث 7711)
5۔جو
شخص عاجزی کرتا ہے، اللہ پاک اسے بلندی عطا فرماتا ہے اور جو تکبر کرتا ہے، اللہ
پاک اسے ذلیل کرتا ہے۔ (موسوعة
الامام ابن ابی الدنیا، کتاب التواضع و الخمول، 552/3، حدیث 77)
قرآنِ کریم میں راہ خدا میں خرچ نہ کرنے کے نقصانات
از ام سلمہ مدنیہ، کراچی

اللہ
پاک کی رضا کیلئے اس کی راہ میں مال خرچ کرنے کو اِنْفاق فِیْ
سبِیْلِ اللہ کہتے ہیں۔ نیکی کی تمام صورتوں میں خرچ کرنا راہِ خدا میں خرچ کرنا
ہے، خواہ وہ خرچ کرنا واجب ہو یا نفل۔ خواہ کسی غریب کو کھانا کھلانا ہو یا کسی کو
کپڑے پہنانا، کسی کو دوائی وغیرہ لے کر دینا ہو یا راشن دلانا، کوئی شِفا خانہ
بنانا ہو یا یتیموں کی کفالت کرنا، اسی طرح طلبہ، علماء اور مساجد و مدارس وغیرہا
کو دینا نیز اولیاء کرام یا فوت شدگان کے ایصالِ ثواب کیلئے جو مال خرچ کیا جاتا
ہے وہ بھی انفاق فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔ (صراط الجنان، البقرة، تحت الآیة 3 + 261، ملتقطاً)
خیال
رہے کہ اللہ پاک کو لوگوں کے مال کی حاجت نہیں بلکہ راہِ خدا میں خرچ کرنے میں
بندوں کا ہی دینی اور دنیوی فائدہ ہے۔ دینی فائدہ تو یہ ہے کہ مال خرچ کرنے کی
صورت میں وہ ثواب کے حقدار ٹھہریں اور (واجب ہونے کی صورت
میں) خرچ نہ کرنے کے وبال سے بچ جائیں گے، جبکہ دنیوی فائدہ یہ ہے کہ غریب
اور مَفْلُوکُ الحال لوگوں کو معاشی سکون نصیب
ہو گا اور معاشرے سے غربت اور محتاجی کا خاتمہ ہوگا۔ (صراط
الجنان، محمد، تحت الآیة 38، ملتقطاً)
جس
طرح راہِ خدا میں خرچ کرنا دینی و دنیاوی فوائد کے حصول کا ذریعہ ہے، اسی طرح خرچ
نہ کرنا دنیا و آخرت میں نقصانات کا سبب ہے۔ جیساکہ قرآن کریم میں ارشادِ باری ہے:
•
”اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں خودکو ہلاکت میں نہ ڈالو۔“ (البقرة 198)
یعنی
راہ ِ خدا میں خرچ کرنا بند کرکے یا کم کرکے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ (صراط الجنان، البقرة، تحت الآیۃ 198)
•
”اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کررکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں
کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔“ (التوبۃ 34)
اس
سے مراد یہ ہے کہ وہ بخل کرتے ہیں، مال کے حقوق ادا نہیں کرتے اور زکوٰۃ نہیں دیتے۔
(صراط الجنان، التوبة، تحت الآیۃ 34، ملتقطاً)
•
”ہاں ہاں یہ تم ہوجو بلائے جاتے ہو تاکہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں کوئی
بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے اور اللہ بے نیاز ہے
اور تم سب محتاج ہو۔“ (محمد 38)
ارشاد
فرمایا کہ جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے کیونکہ وہ خرچ کرنے کے ثواب
سے محروم ہو جائے گا اور بخل کرنے کا نقصان اٹھائے گا۔ (صراط
الجنان، محمد، تحت الآیة 38)
•
”تو وہ چلے اور آپس میں آہستہ آہستہ کہتے جاتے تھے۔ کہ ہرگز آج کوئی مسکین تمہارے
پاس باغ میں آنے نہ پائے۔ اور وہ خود کو روکنے پر قادرسمجھتے ہوئے صبح سویرے چلے۔
پھر جب انہوں نے اس باغ کو دیکھا توکہنے لگے:بیشک ہم ضرور راستہ بھٹک گئے ہیں۔
بلکہ ہم محروم ہوگئے ہیں۔“ (القلم 23۔27)
اس
آیت میں ایک باغ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جس کا مالک ایک نیک مرد تھا اور وہ باغ
کے پھل کثرت سے فُقراء کو دیتا تھا، اس کے انتقال کے بعد اس کے تین بیٹوں نے باہم
مشورہ کیا کہ اگر والد کی طرح ہم بھی خیرات جاری رکھیں تو تنگ دست ہوجائیں گے۔
چنانچہ انہوں نے آپس میں مل کر قسمیں کھائیں کہ صبح سویرے لوگوں کے اٹھنے سے پہلے
ہی باغ میں چل کر پھل توڑ لیں گے تاکہ مسکینوں کو خبر نہ ہو۔ لیکن جب وہ باغ کے قریب
پہنچے تو دیکھا کہ وہ جل چکا ہے اور اس میں پھل کا نام ونشان نہیں۔ اس پر وہ بولے:
بیشک ہم کسی اور باغ پر پہنچ گئے ہیں کیونکہ ہمارا باغ تو بہت پھل دار ہے۔ پھر جب
غور کیا اور اس کے درو دیوار کو دیکھا اور پہچان لیا کہ یہ اپنا ہی باغ ہے تو کہنے
لگے: ہم راستہ نہیں بھولے بلکہ حق دار مسکینوں کو روکنے کی نیت کر کے ہم خوداس کے
پھل سے محروم ہوگئے ہیں۔ (صراط الجنان، القلم، تحت
الآیة 17۔32، مختصراً)
•
”اور جب وہ ہلاکت میں پڑے گا تو اس کا مال اسے کام نہ آئے گا۔“ (اللیل 11)
یعنی
جو شخص اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے بخل کر رہا ہے وہ جب مر کر قبر میں جائے
گا یا جہنم کی گہرائی میں پہنچے گا تواس کا مال اللہ پاک کے عذاب سے بچانے میں اسے
کچھ کام نہ آئے گا۔ (صراط الجنان، اللیل، تحت الآیة 11)
ہمیں
چاہئے کہ اللہ پاک کے عطا کیے ہوئے مال میں سے دل کھول کر اس کی راہ میں خرچ کریں
بالخصوص زکوٰة، فطرہ، عشر اور دیگر صدقاتِ واجبہ کی ادائیگی میں ہر گز کوتاہی نہ
کریں۔ اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلّم
قرآنِ کریم میں راہ خدا میں خرچ نہ کرنے کے نقصانات
از بنت منیر حسین، سیالکوٹ

تمہید:
اَلْمَالُ
وَالْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا۔
والبقیت
الصلحت خیر عند ربک ثوابا و خیر املا۔
ترجمہ
کنز الایمان:"مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی رونق ہیں اور باقی رہنے والی اچھی
باتیں تیرے ربّ کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے زیادہ بہتر اور امید کے اعتبار سے زیادہ
اچھی ہیں۔" (پارہ 15، سورۃ الکہف، آیت نمبر 46)
تفسیر
صراط الجنان میں ہے کہ مال اور اولاد فی نفسہ تو اگرچہ دنیا ہیں، لیکن یہی دو چیزیں
آخرت کے لئے عظیم زادِ راہ بھی بن سکتی ہیں، کیونکہ اگر مال کو راہِ خدا میں خرچ کیا
جائے، خصوصاً کوئی صدقہ جاریہ کیا تو یہی مال نجات کا ذریعہ بنے گا اور باعثِ ثواب
ہوگا۔
انفاق فی سبیل اللہ میں معاشرے کا کردار:
حضور
صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلّم نے فرمایا: "بے شک مؤمن کے لئے مؤمن مثلِ عمارت کے ہے، بعض بعض
کو تقویت دیتا ہے۔" (صحیح بخاری، کتاب الصلوۃ،
حدیث نمبر 481، جلد اول، صفحہ نمبر 181)
جب کوئی شخص راہِ خدا میں اپنا مال خرچ کرتا ہے
تو یہ مال جب ضرورت مند تک پہنچے تو اسے معاشرے میں سر اُٹھا کر جینے کا حوصلہ مہیا
کرتا ہے اور یہ شخص اس کے مال میں برکت کے لئے دعاگو رہتا ہے۔ بھائی چارہ مضبوط ہوتا ہے، اسلامی
معاشرے میں اجتماعیت کو فروغ ملتا ہے، معاشرہ خوشحال ہوجاتا ہے۔
انفاق نہ کرنے کے قرآنی آیات و تفسیر کی روشنی میں نقصانات:
راہِ
خدا میں خرچ کرنے کے بے شمار فضائل و برکات ہیں، مثلاً رضائے الہی کا حصول، مال میں
برکت، بلائیں کافور، اجرو ثواب وغیرہ، اس کے ساتھ ساتھ خرچ نہ کرنے کی ہلاکت خیزیاں
بھی ہیں، اس متعلق کچھ آیات، مختصر وضاحت
کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں۔
مختلف آیات کا ترجمہ کنزالایمان مع تفسیر:
1۔اور
اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔ (پارہ1،
سورہ البقرہ، آیت نمبر 195)
اس
آیت کا مطلب ہے کہ اللہ پاک کی فرمانبرداری اور رضا میں اپنے مال و جان کو صرف
کرو، راہِ خدا میں خرچ کرنا بند یا کم
کرکے خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، معلوم ہوا کہ راہِ خدا میں خرچ کرنا ترک کر دینا
ہلاکت کا باعث ہے۔ (صراط الجنان)
2۔
تم ہرگز بھلائی کونہ پہنچو گے، جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو۔ (پ3،سورۃ آل عمران، آیت نمبر 92)
یہاں
بھلائی سے مراد تقویٰ اور فرمانبرداری ہے، گویا اگر کوئی راہِ خدا میں اپنی پسندیدہ
چیز خرچ نہ کرے گا تو وہ اپنے مالک کا فرماں بردار نہیں کہلائے گا۔
3۔
وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں خوشخبری سناؤ دردناک عذاب کی۔ (پارہ
نمبر 9، سورہ التوبہ:34)
اس
سے مراد یہ ہے کہ وہ بخل کر تے ہیں، مال کے حقوق ادا نہیں کرتے اور زکوٰۃ نہیں دیتے،
سونا چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں، راہِ خدا میں خرچ نہیں کرتے، ان کے لئے دردناک
عذاب ہے۔ (صراط الجنان)
اس
مال کو بروزِ قیامت جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، یہاں تک کہ شدتِ حرارت سے سفید
ہو جائے گا، پھر اس سے زکوۃ نہ دینے والوں کے پہلوؤں، پیشانیوں اور پشتوں کو داغا
جائے گا۔ (صراط الجنان)
لہٰذا
مسلمان کو چاہئے کہ اللہ پاک کی دی ہوئی نعمتوں میں سے خرچ کرے، کبھی بھی تنگی مال
کا خوف نہ رکھے، بلکہ حدیث پاک کے مطابق راہِ خدا میں خرچ کرنے سے مال بڑھ جاتا ہے
،اس پریقین رکھیں اور اپنی دنیا کی زندگی میں اپنے لئے صدقہ جاریہ کے کام کر جائیں،تاکہ
اس کے قبر و حشر میں نجات کا باعث بن سکیں۔
نماز جمعہ
کی فضیلت و اہمیت پر 5 فرامین مصطفے از بنت عبد الرؤوف عطاریہ، امریکہ

جمعہ کے فضائل دین اسلام میں جمعہ
کا دن خصوصی اہمیت کا حامل ہے کائنات کی
ابتداء سے اب تک تاریخ اسلام کے کئی اہم ترین واقعات روز جمعہ کو پیش آئےاحادیث کے
مطابق حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت اور وفات اسی دن ہوئی،اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن قیامت
قائم ہو گی، اسی دن حشر ہو گا ، اسی دن حساب ہوگا ۔ شرح صحیح مسلم کتاب الجمعہ ج2 ص 621 جمعہ نام کی
وجہ و تاریخی پسِ منظر اسلام سے پہلے اہل
عرب اس دن کو عروبہ کہتے تھے۔ علامہ ثعلب کے مطابق سب سے پہلے اس دن کو جمعہ کا نام دینے والے سید
الانبیاء صلی اللہُ علیہ
و اٰلہ وسلم کے جد امجد کعب بن لوَی ہیں،آپ اس دن لوگوں کو جمع فرما کر
ان سے خطاب فرماتے اور انہیں اپنی اولاد میں مبعوث ہونےوالےآخری نبی حضور نبی کریم
صلی اللہُ علیہ
و اٰلہ وسلم کی آمد کی خبردیتے اور ان پر ایمان لانے اور اتباع
کی تلقین کرتے، سبحان اللہ وبحمدہ یعنی محفل میلاد کرتے تھے کہ میلاد یا مولود کی محافل میں بھی یہی ہوتا
ہے۔ اس دن میں مسلمان ایک جگہ جمع ہو کر
نماز جمعہ ادا کرتے ہیں اس لیے اسے یوم جمعہ کہا جاتا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ جمعہ کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس روز
حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی کو مختلف رنگوں اور مختلف اقسام کی مٹیوں کو لے کر جمع کیا گیا اسی
لیے اس دن کو جمعہ کہتے ہیں۔ (شرح صحیح
مسلم کتاب الجمعہ ج2 ص 621بحوالہ لسان العرب ازعلامہ ابن منظور افریقی
ج8ص58059,مطبوعہ نشر ادب الحوذقم ایران)

تمہید:
جمعۃ
المبارک ایک عظیم دن اور سب دنوں کا سردار ہے۔ اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب کے
صدقے ہمیں جمعۃ المبارک کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔
امام غزالی فرماتے ہیں کہ اس کے ذریعے اللہ پاک نے اسلام کو عزت بخشی
اور اسے مسلمانوں کے ساتھ خاص کیا، اس کی اہمیت اس بات سے مزید اجاگر ہوتی ہے کہ
اللہ کریم نے جمعہ کے متعلق پوری سورۃ الجمعۃ قرآن کریم میں نازل فرمائی، آیت
نمبر 9 میں ارشاد ہوتا ہے؛ ترجمہ کنز الایمان جب نماز کی اذان ہو جمعہ کےدن تو
اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو
اس آیت کے تحت امام غزالی فرماتے ہیں اللہ پاک نے دنیوی امور میں
مشغول ہونے اور ہر اس کام کو حرام ٹھہرایا جو جمعہ کی طرف کوشش سے روکتا ہو (احیاء العلوم ج 1 ص 550)
تاریخی پس منظر:
نماز جمعہ ہجرت کے
بعد شروع ہوئی، حضور صلی
اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم م 12 ربیع الاول، 622ء بروزپیر شریف
مسجد قبا تشریف لائے، قیام فرمایا اور مسجد کی بنیاد رکھی، پھر جمعہ کے روز مدینہ
منورہ کا عزم فرمایا، بنی سالم کے بطن وادی میں جمعہ کا وقت آیا تو سید عالم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے
وہاں سب سے پہلا جمعہ ادا فرمایا اور خطبہ دیا۔ (خزائن العرفان ص 884)
حدیث پاک میں ہے
بے شک توریت و انجیل والوں کو جمعہ کا دن عطا کیا گیا تو انہوں نے اس میں اختلاف
کیا اور منہ موڑلیا تو اللہ پاک اسے اس امن کیلئے مؤخر کیا اور اسے ان کے لیے عید
بنایا، بس یہ امت سب لوگوں سے سبقت والی ہے۔(مفھوماً)
(صحیح بخاری، کتاب الجمعۃ، باب فرض الجمعۃ، الحدیث: 876، ج 2، ص 303)
جمعہ کے متعلق فرامین آخری:
(1) الجمعۃ حج المساکین یعنی
جمعہ کی نماز مساکین کا حج ہے۔ (جمع الجوامع للسیوطی ج 4
ص 84 حدیث 11108)
(2) بلاشبہ تمہارے لئے ہر جمعہ کے دن میں ایک حج اور ایک عمرہ موجود ہے،
لہٰذا جمعہ کی نمازکیلئے جلدی نکلنا حج ہے اور جمعہ کی نماز کے بعد عصر کی نماز
کیلئے انتظار کرنا عمرہ ہے (السنن الکبرٰی للبیھقی ج
3 ص 342 حدیث 5950)
امام غزالی فرماتے
ہیں کہ (نماز جمعہ کے بعد ) عصر کی نماز تک مسجد میں رہے
اور اگر نماز جمعہ تک ٹھہرے تو افضل ہے، کہا جاتا ہے کہ اگر عصر تک ٹھہرے تو حج کا
ثواب اور اگر مغرب تک ٹھہرے تو حج و عمرے کا ثواب ہے۔ (احیاء
العلوم ج 1 ص 249) مکتبہ دار صادر بیروت
(3) جمعہ میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ اگر کوئی مسلمان اسے پاکر اس وقت
اللہ سے کچھ مانگے تو اللہ اس کو ضرور دے گا اور وہ گھڑی مختصرہے۔ (صحیح مسلم ص 424 حدیث 852)
(4) جمعہ کے دن جس ساعت کی خواہش کی جاتی ہے اسے عصر کے بعد سے غروب
آفتاب تک تلاش کرو۔ (سنن ترمذی ج 2 ص 30 حدیث 489)
مفتی احمد یار خان
رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے
ہیں کہ رات میں روزانہ قبولیتِ دعا کی ساعت آتی ہے مگر دنوں میں صرف جمعہ کے دن۔ (فیضان جمعہ المدینۃ العلمیہ: ص 10)
(5) بے شک اللہ پاک نے تم پر اس دن اور اس مقام پر جمعہ فرض فرمایا۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوۃ، باب فرض الجمعۃ، الحدیث 1081، ج
2، ص 5، بتقدیم و تاخر)
جمعہ فرض عین ہے
اور اس کی فرضیت ظہر سے زیادہ مؤکد ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔ (در مختار ج 3 ص 5، بہار شریعت ج 1 ص 762)
روایت میں ہے کہ
جس نے بلاعذر تین جمعے ترک کئے اللہ پاک اسکے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ (المسند للامام احمد بن حنبل ، مسند المکیین، الحدیث 15498، ج 5 ص
280)
لہٰذا مسلمان کو
چاہیے اپنے رب کا حکم بجا لاتے ہوئے دیگر نمازوں کے ساتھ ساتھ نماز جمعہ بھی
پابندی سے ادا کرے۔ اللہ کریم عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
نماز جمعہ
کی فضیلت و اہمیت پر 5 فرامین مصطفے از بنت ناظم حسین، سیالکوٹ

ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ
و اٰلہ وسلم کے صدقے ہمیں جمعۃ المبارک کی نعمت سے سرفراز فرمایا، افسوس! ہم ناقدرے جمعہ کو بھی عام دنوں کی طرح
غفلت میں گزارتے ہیں، حالانکہ جمعہ یومِ عید ہے اور سب دنوں کا سردار ہے، جمعہ کے
روز جہنم کی آگ نہیں سلگائی جاتی، جمعہ کی رات دوزخ کے دروازے نہیں کھلتے، جمعہ کے
روز مرنے والا مسلمان شہید کارتبہ پاتا اور عذابِ قبر سے محفوظ ہو جاتا، جمعہ کی ایک
نیکی کا ثواب ستر گنا ہے، جمعہ کے روز گناہ کا عذاب بھی ستر گنا ہے، جمعہ کوحج ہو
تو اس کا ثواب ستر ( 70) حج کے برابر ہے۔
جمعہ کے معنی:
حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی اس دن جمع ہوئی، نیز اس دن لوگ جمع ہوکر نماز جمعہ ادا کرتے ہیں، ان
وجوہ (reasons) سے اسے
جمعہ کہتے ہیں، اسلام سے پہلے اہلِ عرب
اسے عروبہ کہتے تھے۔ (مرآة المنا جیح،ج2، ص
317، ملخصا)
حدیث نمبر 1:حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، سلطانِ دوجہاں صلی اللہُ علیہ
و اٰلہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے:جو شخص جمعہ کے دن نہائے اور طہارت(یعنی پاکیزگی) کی
استطاعت (یعنی طاقت) ہو کرے
اور تیل لگائے اور گھر میں جو خوشبو ہو ملے، پھر نماز کو نکلے اور دو شخصوں میں
جدائی نہ کرے یعنی دو شخص بیٹھے ہوئے ہوں، انہیں ہٹا کر بیچ میں نہ بیٹھے اور
جونماز اس کے لئے لکھی گئی ہے، پڑھے اور امام جب خطبہ پڑھے توچپ رہے، اس کے لئے ان گناہوں کی جو اس جمعہ اور دوسرے
جمعہ کے درمیان ہیں، مغفرت ہو جائے گی۔ (بخاری،
ج1،ص 306، حدیث 883)
حدیث نمبر 2:تاجدارِ مدینہ منورہ ،سلطانِ مکہ مکرمہ صلی اللہُ علیہ
و اٰلہ وسلم نے ارشاد فر مایا: جو روزِ جمعہ یاشبِ جمعہ ( یعنی جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب)مرے گا، عذابِ قبر سے بچا لیا جائے گا اور قیامت کے دن
اس طرح آئے گا کہ اس پر شہیدوں کی مہر ہوگی۔ (حلية الاولياء، ج3،ص181، ح 3629)
حديث نمبر3:اللہ پاک کے آخری رسول صلی اللہُ علیہ
و اٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بلا شبہ تمہارے لئے ہر جمعہ کے دن میں ایک
حج اور ایک عمرہ موجود ہے، لہذا جمعہ کی نماز کے لئے جلدی نکلناحج ہے اور جمعہ کی
نماز کے بعد عصر کی نماز کے لئے انتظار کرنا عمرہ ہے۔ (السنن الکبری للبہیقی، ج3،ص342، ح5950)
حدیث نمبر 4:نبی کریم صلی اللہُ علیہ
و اٰلہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے:جمعہ کا دن عام دنوں کا سردار ہے
اور اللہ پاک کے نزدیک سب سے بڑا ہے اور وہ اللہ پاک کے نزدیک عید الا ضحٰى اور عید
الفطر سے بڑا ہے، اس میں پانچ خصوصیتیں ہیں،(1)اللہ پاک نے اسی میں آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ( 2)اس میں زمین
پر انہیں اتارا اور ( 3) اس میں انہیں وفات دی اور ( 4 ) اسی میں ایک ساعت ( یعنی گھڑی) ایسی
ہے کہ بندہ اس وقت جس چیز کا سوال کرے گا، وہ اسے دے گا، جب تک حرام سوال نہ کرے
اور ( 5)اسی دن میں قیامت قائم ہوگی، کوئی مقرب فرشتہ و آسمان وزمین اور ہوا و پہاڑ
اور دریا ایسا نہیں کے جمعہ کے دن سے ڈرتا نہ ہو۔ (ابن ماجہ، ج2،ص8، حدیث1084)

تمہید:
نماز اسلام کا اہم رکن ہے، مسلمان پردن رات مىں پانچ نمازیں فرض ہیں، با جماعت نماز مسلمانوں کو اخوت اور برابری کا درس دیتی
ہے، پانچ نمازوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں پرنمازِ جمعہ بھی فرض ہے، قرآن و حدیث میں نماز جمعہ کی بڑی اہمیت بیان کی گئی
ہے، ارشادِباری تعالی:
يایها
الذین آمنواذا نوديَ للصلوة من یوم الجمعۃ فاسعواالی ذکر اللہ وذرو البیع ذلکم خیرکم
ان کنتم تعلمون۔ (سورة
الجمعہ:9)
جمعہ کی فضلیت پر حدیث مبارکہ:
1۔حضور پرنور صلی اللہُ علیہ
و اٰلہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے: جمعہ کےدن جس ساعت(یعنی گھڑی) کی
خواہش کی جاتی ہے، اسے عصر کے بعد سے غروبِ آفتاب تک تلاش کرو۔ (ترمذی، ج2، ص30، حدیث 489)
2۔حضور صلی اللہُ علیہ
و اٰلہ وسلم نے فرمایا:کہ
تمہارے دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا ہے، اس دن کثرت سے درود پڑھا کرو، کیوں کہ
تمہارا درود مجھے پہنچایا جاتا ہے۔(مسند احمد: 16162)
3۔نبی کریم صلی اللہُ علیہ
و اٰلہ وسلم کا ارشادِ گرامی
ہے:جس شخص کے پاؤں نمازِ جمعہ کے لئے جاتے
ہوئے گرد آلود ہوئے، اللہ پاک اس پر دوزخ
کی آگ کو حرام کر دے گا۔ (صحیح بخاری:
907)
4۔آپ صلی اللہُ علیہ
و اٰلہ وسلم کافرمان عالیشان
ہے:جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور جس قدر ممکن ہوپاکی حاصل، پھرتیل یا خوشبو
استعمال کیا، پھر نماز جمعہ کے لئے روانہ ہوگیا اور (وہاں پہنچ کر دو آدمیوں کے درمیان گھس کر) تفریق نہ کی، جتنی نماز اس کی قسمت میں تھی اداکی، پھر جب امام (خطبہ دینے کے لئے) باہر آیا، تو خاموشی اختیار کئے رکھی، تو اس شخص کے اس جمعہ سے لے کر دوسرے
جمعہ تک تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ (بخاری:
883)
5۔نبی کریم صلی اللہُ علیہ
و اٰلہ وسلم نے فرمایا:کہ
جمعہ کا دن سب دنوں سے افضل ہے اور اللہ
پاک کے نزدیک اس کا مرتبہ تمام دنوں سے بڑھ کر ہے، جمعہ کے اوقات میں ایک لمحہ دعا
کی قبولیت کے لئے رکھا گیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ: 1085)
خلاصہ:
جمعہ کا دن مسلمانوں کے لئے اتفاق واتحاد اور یک جہتی کا
دن ہے، اس دن تمام مسلمان جامع مسجد میں جمع ہوتے ہیں، نماز جمعہ میں شرکت کرنے سے
ایک دوسرے کے احوال سے باخبر رہنے کا موقع بھی ملتا ہے، ہمیں چاہئے کہ جمعہ کے دن
اذان کے ساتھ ہی تیار ہوکر مسجد جائیں، پہلی صف میں امام صاحب کے قریب بیٹھیں اور
خطبہ غور سے سن کر تمام باتوں پر عمل کریں۔

تمہید:
قرآن کی روشنی میں، اللہ پاک فرماتا ہے:
ترجمہ کنزالایمان:اے
ایمان والو! جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و
فروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو، پھر جب نماز ہو چکے تو زمین میں
پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو بہت یاد کرو، اس امید پر کہ
تم فلاح پاؤ۔ (سورۃ الجمعہ، آیات9تا 10)
جمعہ کا تاریخی پسِ منظر :
علامہ ثعلب بیان کرتے ہیں:جمعہ کو جمعہ اس لئے کہا جاتا
ہے کہ اس دن قریش دارالندوہ میں جمع ہوتے تھے، علامہ عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ
عروبہ کا نام جمعہ اسلام میں مقبول ہوا۔ (علامہ
ابن منظور افریقی، لسان العرب، جلد 8، صفحہ58۔59)
احادیث کی روشنی میں:
1۔حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
حضور نبی اکرم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے فرمایا:جو آدمی جمعہ کے روز غسل کرے اور حسبِ استطاعت
طہارت کرے، تیل لگائے اور خوشبو لگائے، پھر اپنے گھر سے نماز جمعہ کے لئے نکلے اور
دو آدمیوں کے درمیان نہ گھسے، پھر نماز پڑھے جو اس پر فرض کی گئی ہے، پھر جب امام
خطبہ دے تو خاموش رہے، اس کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔
(البخاری فی الصحیح، کتاب الجمعہ، باب الدھن
للجمعہ1/301، رقم843)
2۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے جمعہ کے روز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:اس میں ایک ساعت
ہے، جو بندہ مسلمان اسے پائے اور کھڑا ہو کر نماز پڑھ رہا ہو تو اللہ پاک سے جو چیز مانگے گا، وہی عطا فرما دی
جائے گی اور ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ وہ قلیل وقت ہے۔ (البخاری فی الصحیح، کتاب الجمعہ، باب الساعۃفی یوم الجمعہ1/316، رقم893)
3۔حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ
و اٰلہ وسلم فرمایا کرتے تھے: کہ پانچ نمازیں اور ایک جمعہ سے لے کر
دوسرا جمعہ پڑھنا، اور ایک رمضان کے روزوں کے بعد دوسرے رمضان کے روزے رکھنا، ان
کے درمیان واقع ہونے والے گناہوں کےلئے کفارہ بن جاتا ہے، جب تک گناہِ کبیرہ کا
ارتکاب نہ کرے۔ (امام مسلم، الصلوۃ، باب ما جاء فی فضل الصلوات
الخمس1/418، الرقم214)
4۔حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہُ علیہ
و اٰلہ وسلم نے فرمایا:جس شخص نے اچھی طرح سے وضو کیا، پھر جمعہ
پڑھنے آیا اور خاموشی کے ساتھ غور سے خطبہ سنا، اس کے اس جمعہ سے لے کر گزشتہ جمعہ
تک اور تین دن زائد کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور فرمایاجس نے کنکریاں چھوئیں،
اس نے لغو کام کیا۔ (مسلم فی الصحیح، کتاب
الجمعہ، باب فضل من اسمتع وانعت فی الخطبۃ2/588،
رقم857)
5۔حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہُ علیہ
و اٰلہ وسلم نے فرمایا:سب سے بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے،
جمعہ کا دن ہے ،اس دن حضرت آدم علیہ السلام جنت میں داخل کئے گئے اور اسی دن وہ جنت سے اتارے گئے۔ (مسلم فی الصحیح، کتاب الجمعہ، باب فضل یوم الجمعہ
2/585، رقم854)
جمعہ کی پابندی
کا درس:
نبی کریم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے فرمایا:بلا شبہ تمہارے لئے ہر جمعہ کے دن میں ایک حج
اور ایک عمرہ موجود ہے، لہذا جمعہ کی نماز کے لئے جلدی نکلناحج ہے اور جمعہ کی
نماز کے بعد عصر کی نماز کے لئے انتظار کرنا عمرہ ہے۔ (السنن الکبری للبہیقی، ج3،ص342، ح5980 دارالکتب علمیہ)
جمعہ کی پابندی کرنا ہر مسلمان کے لئے فرضِ عین ہے،
لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے کے لئے اور سنتِ رسول کی ادائیگی
کے لئے اس فرض کو ادا کریں۔