اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتاہے  ترجمۂ کنزالایمان: بیشک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ (النحل: 23) خود کو افضل، دوسروں کو حقیر جاننے کو تکبّر کہتے ہیں۔ (تکبر،ص 16) تکبّر بہت ہی تباہ کن باطنی بیمار ی ہے کہ اگر کسی کو لاحق ہو جائے تو بندے کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ کردیتی ہے۔یہ اعلیٰ سے اعلیٰ ، نیک ، عبادت گزار شخص کوہمیشہ کے لیئے مردوداور ذلیل و خوار کرتی اور عذاب نار کا حقدار ٹہراتی ہے۔جیسےابلیس نےتکبر کیا حضرت آدم علیہ السلام کواپنے سے حقیر جانا اور سجدہ نہ کیا اور اسی سبب ہمیشہ کےلیئےمردود ہوا۔ اللہ پاک نے اس کے تکبر کے سبب اس کو لعنت کا طوق پہنا کر اس کو جنت سے نکال دیا ۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تکبّر کو انتہائی ناپسند فرماتے ہوئےمتعدد مواقع پر اس کی شدید مذمت بھی فرمائی۔چنانچہ ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ: ’’ جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘ (المسلم،کتاب الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ،ح: 265،ص 697) ایک اور حدیث میں انکے ٹھکانے کے بارےمیں بیان فرمایاکہ ’’ بے شک جہنم میں ایک وادی ہے جسے ہبہب کہتے ہیں ، اللّٰہ پاک کا فیصلہ ہے کہ وہ اس میں تمام تکبر کرنے والوں کو ٹھہرائے گا۔‘‘ (مسند ابو یعلی، حدیث ابی موسی الاشعری، 6/ 207، ح: 7213)۔ متکبرین کے خاتمہ کے حوالے سے ایک حدیث میں یوں فرمایا کہ آدمی اپنے نفس کے متعلق بڑائی بیان کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے جبار (سرکش ) لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے پھر اسے بھی وہی کچھ پہنچتا ہے جو اُن کو پہنچتا ہے۔ (ترمذی، 3/403، ح 2007..احیاء العلوم،3/991) اسی طرح ایک اور حدیث میں تکبر کی مذمت کرتے ہوئے یوں فرمایا کہ جو غرور کرتا ہے اللہ تعالٰی اسے نیچا کردیتا ہے تو وہ لوگوں کی نگاہ میں چھوٹا ہوتا ہے اور اپنے دل میں بڑا۔حتی کہ وہ لوگوں کے نزدیک کتے اور سور سے زیادہ ذلیل ہوتا ہے۔ (مرآة المناجيح،ج 6،ص 449،ح 4486،مطبوعہ قادری پبلیشرز) اور متکبر شخص کے قیامت کے احوال حدیث میں کچھ اسطرح بیان ہوئےکہ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّ قیامت کے دن تین شخصوں سے نہ کلام فرمائے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ہی ان پر نظرِ رحمت فرمائے گا بلکہ ان کے لئے درد ناک عذاب ہو گا اور وہ تین یہ ہیں، بوڑھا زانی، جھوٹا بادشاہ، اور متکبر فقیر۔ ( المسلم ،کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم …الخ،ح: 296،ص 696) یہ مذموم صفت عقل کو زائل کر تی حتیٰ کہ بندہ کسی کی نصیحت قبول نہیں کرتا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس قبیح بیماری سے بچیں اور اللہ پاک کی محبوب صفت عاجزی کو اختیار کریں اور تکبر سے بچنے کے لیئے اس کے اسباب یعنی کثرت علم و مال،حسب ،نسب ، حسن جمال وغیرہ کی طرف غور کریں اور اپنے آپکو یہ یاد دلائیں کہ یہ سب اللہ کی عطا ہے۔ اپنا کمال کچھ نہیں ،وہ جب چاہے جسکو چاہے عطا اور جس کو چاہے محروم کرے۔ہمیں اللہ پاک کی خُفیہ تدبیر سے ڈرنا چا ہیے ۔اللہ پاک ہمیں تکبر سے پناہ اور عاجزی اختیا ر کرنے کی توفیق عطا ء فرمائے۔آمین۔