تمہید:

جمعۃ المبارک ایک عظیم دن اور سب دنوں کا سردار ہے۔ اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب کے صدقے ہمیں جمعۃ المبارک کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔

امام غزالی فرماتے ہیں کہ اس کے ذریعے اللہ پاک نے اسلام کو عزت بخشی اور اسے مسلمانوں کے ساتھ خاص کیا، اس کی اہمیت اس بات سے مزید اجاگر ہوتی ہے کہ اللہ کریم نے جمعہ کے متعلق پوری سورۃ الجمعۃ قرآن کریم میں نازل فرمائی، آیت نمبر 9 میں ارشاد ہوتا ہے؛ ترجمہ کنز الایمان جب نماز کی اذان ہو جمعہ کےدن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو

اس آیت کے تحت امام غزالی فرماتے ہیں اللہ پاک نے دنیوی امور میں مشغول ہونے اور ہر اس کام کو حرام ٹھہرایا جو جمعہ کی طرف کوشش سے روکتا ہو (احیاء العلوم ج 1 ص 550)

تاریخی پس منظر:

نماز جمعہ ہجرت کے بعد شروع ہوئی، حضور صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم م 12 ربیع الاول، 622ء بروزپیر شریف مسجد قبا تشریف لائے، قیام فرمایا اور مسجد کی بنیاد رکھی، پھر جمعہ کے روز مدینہ منورہ کا عزم فرمایا، بنی سالم کے بطن وادی میں جمعہ کا وقت آیا تو سید عالم صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے وہاں سب سے پہلا جمعہ ادا فرمایا اور خطبہ دیا۔ (خزائن العرفان ص 884)

حدیث پاک میں ہے بے شک توریت و انجیل والوں کو جمعہ کا دن عطا کیا گیا تو انہوں نے اس میں اختلاف کیا اور منہ موڑلیا تو اللہ پاک اسے اس امن کیلئے مؤخر کیا اور اسے ان کے لیے عید بنایا، بس یہ امت سب لوگوں سے سبقت والی ہے۔(مفھوماً) (صحیح بخاری، کتاب الجمعۃ، باب فرض الجمعۃ، الحدیث: 876، ج 2، ص 303)

جمعہ کے متعلق فرامین آخری:

(1) الجمعۃ حج المساکین یعنی جمعہ کی نماز مساکین کا حج ہے۔ (جمع الجوامع للسیوطی ج 4 ص 84 حدیث 11108)

(2) بلاشبہ تمہارے لئے ہر جمعہ کے دن میں ایک حج اور ایک عمرہ موجود ہے، لہٰذا جمعہ کی نمازکیلئے جلدی نکلنا حج ہے اور جمعہ کی نماز کے بعد عصر کی نماز کیلئے انتظار کرنا عمرہ ہے (السنن الکبرٰی للبیھقی ج 3 ص 342 حدیث 5950)

امام غزالی فرماتے ہیں کہ (نماز جمعہ کے بعد ) عصر کی نماز تک مسجد میں رہے اور اگر نماز جمعہ تک ٹھہرے تو افضل ہے، کہا جاتا ہے کہ اگر عصر تک ٹھہرے تو حج کا ثواب اور اگر مغرب تک ٹھہرے تو حج و عمرے کا ثواب ہے۔ (احیاء العلوم ج 1 ص 249) مکتبہ دار صادر بیروت

(3) جمعہ میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ اگر کوئی مسلمان اسے پاکر اس وقت اللہ سے کچھ مانگے تو اللہ اس کو ضرور دے گا اور وہ گھڑی مختصرہے۔ (صحیح مسلم ص 424 حدیث 852)

(4) جمعہ کے دن جس ساعت کی خواہش کی جاتی ہے اسے عصر کے بعد سے غروب آفتاب تک تلاش کرو۔ (سنن ترمذی ج 2 ص 30 حدیث 489)

مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رات میں روزانہ قبولیتِ دعا کی ساعت آتی ہے مگر دنوں میں صرف جمعہ کے دن۔ (فیضان جمعہ المدینۃ العلمیہ: ص 10)

(5) بے شک اللہ پاک نے تم پر اس دن اور اس مقام پر جمعہ فرض فرمایا۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوۃ، باب فرض الجمعۃ، الحدیث 1081، ج 2، ص 5، بتقدیم و تاخر)

جمعہ فرض عین ہے اور اس کی فرضیت ظہر سے زیادہ مؤکد ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔ (در مختار ج 3 ص 5، بہار شریعت ج 1 ص 762)

روایت میں ہے کہ جس نے بلاعذر تین جمعے ترک کئے اللہ پاک اسکے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ (المسند للامام احمد بن حنبل ، مسند المکیین، الحدیث 15498، ج 5 ص 280)

لہٰذا مسلمان کو چاہیے اپنے رب کا حکم بجا لاتے ہوئے دیگر نمازوں کے ساتھ ساتھ نماز جمعہ بھی پابندی سے ادا کرے۔ اللہ کریم عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

(مواد احیاء العلوم اور فیضانِ جمعہ المدینۃ العلمیہ سے لیا گیا ہے)