حق بات کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام تکبر
ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر
وبیانہ، ص 60، الحدیث: 147(91)) تکبر
ایک ایسی بری صفت ہے جو دینی و دنیاوی دونوں اعتبار سے مذموم ہے۔ متکبر انسان نہ
صرف دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھتا اور ان کے ساتھ حقارت بھرا سلوک کرتا ہے بلکہ
اپنا بھرم رکھنے کیلئے ہر برائی کرنے پر مجبور اور ہر اچھے کام کو کرنے سے عاجز
ہوجاتا ہے۔ (تکبر ص 37) اسلام میں تکبر کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ آیات طیبہ اور
احادیث مبارکہ میں صراحتاً تکبر کی مذمت کا بیان موجود ہے۔ تکبر کی مذمت پر مشتمل
5 فرامینِ آخری نبی صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم ملاحظہ کیجئے
اور اس گناہِ کبیرہ سے بچنے کا ذہن بنائیے۔
1۔کیا
میں تمہیں اللہ پاک کے بدترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ بداخلاق اور متکبر
ہے۔ (المسند للامام احمد بن حنبل، الحدیث 23517،
ج 9، ص 120)
2۔ہر
سخت مزاج، اترا کر چلنے والا، متکبر، خوب مال جمع کرنے والا اور دوسروں کو نہ دینے
والا جہنمی ہے جبکہ اہلِ جنت کمزور اور کم مال والے ہیں۔ (المسند للامام احمد بن حنبل، مسند عبد اللہ بن عمرو بن
العاص، 672/2، حدیث 7030)
3۔آخرت
میں تم میں سے وہ لوگ مجھے زیادہ محبوب اور میرے زیادہ قریب ہوں گے جن کے اخلاق
اچھے ہوں گے اور وہ لوگ مجھے زیادہ ناپسند اور مجھ سے زیادہ دور ہوں گے جو زیادہ
بولنے والے، منہ پھٹ اور مُتفیْہِقُون ہوں گے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! ہم زیادہ بولنے والے اور منہ پھٹ کو تو جانتے ہیں لیکن
یہ مُتفیْہِقُون کون ہیں؟ ارشاد فرمایا: تکبر کرنے والے۔ (سنن الترمذی، کتاب البر و الصلة، باب ما
جاء فی معالی الاخلاق، 409/3، حدیث 2025 بتقدم و تاخر)
4۔تکبر
کرنے والے لوگ قیامت کے دن انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی طرح جمع کیے جائیں گے اور
ہر جگہ سے ان پر ذلت چھا جائے گی ،پھر انہیں جہنم کے ایک بُوْلَسْ نامی قید خانہ
کی طرف ہانکا جائے گا، ان پر آگوں کی آگ چھا جائے گی اور انہیں طِیْنَۃُ الْخَبَّالْ یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 47- باب، 4 / 221،
الحدیث: 2500)
5۔قیامت
کے دن تکبر کرنے والوں کو چیونٹیوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا اور لوگ ان کو
روندیں گے کیوں کہ اللہ پاک کے ہاں ان کی کوئی قدر نہیں ہوگی۔ (رسائل ابن ابی دنیا، التواضع والخمول، 2 / 578،
الحدیث: 224) الامان و الحفیظ۔