ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر اللہ و رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے احکامات پر عمل کرنا اور گناہوں سے بچنا
لازم ہے۔ بنیادی طور پر بعض گناہ ظاہری ہوتے ہیں جیسے قتل جبکہ بعض باطنی جیساکہ
تکبر۔ اس پرفتن دور میں اول تو گناہوں سے بچنے کا رجحان بہت ہی کم ہے اور جو خوش
نصیب گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے بھی ہیں تو باطنی گناہوں کی طرف عموماً ان کی
بھی توجہ نہیں ہوتی۔ حالانکہ یہ ظاہری گناہوں کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہوتے ہیں
کیونکہ ایک باطنی گناہ بہت سے ظاہری گناہوں کا سبب بن سکتا ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 9 ملتقطا) یہی وجہ ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی، محمدِ
عربی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ظاہری گناہوں کے ساتھ ساتھ باطنی گناہوں
کی بھی مذمت فرمائی، ان سے بچنے کا حکم ارشاد فرمایا اور عذابات سے ڈرایا۔
باطنی گناہوں میں سے ایک ہلاکت خیز گناہ تکبر بھی ہے۔
خود کو افضل اور دوسروں کو حقیر سمجھنا تکبر ہے۔ (تکبر، ص 16) اسی تکبر کے سبب شیطان مردود نے حضرت آدم علیہ السلام سجدہ تعظیمی کرنے کے حکمِ الہی پر عمل کرنے
سے انکار کیا اور ہمیشہ کیلئے مردود ہوگیا۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ تکبر سے بچتے ہوئے
رِضائے الہی کیلئے عاجزی کرتے رہیں کیونکہ تکبر کرنا دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی
کا سبب ہے جبکہ رضائے الہی کیلئے عاجزی کرنے میں دونوں جہاں کی بھلائی ہے۔
تکبر کی مذمت پر پانچ فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ، جن میں عاجزی کی فضیلت کا بیان بھی ہے،
درج ذیل ہیں:
1۔جو
اللہ پاک کیلئے عاجزی اختیار کرے اللہ پاک اسے بلندی عطا فرمائے گا، پس وہ خود کو
کمزور سمجھے گا مگر لوگوں کی نظروں میں عظیم ہوگا اور جو تکبر کرے اللہ پاک اسے
ذلیل کردے گا، پس وہ لوگوں کی نظروں میں چھوٹا ہوگا مگر خود کو بڑا سمجھتا ہوگا
یہاں تک کہ وہ لوگوں کے نزدیک کتے اور خنزیر سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔
2۔ہر
انسان کے سر میں ایک لگام ہوتی ہے جو ایک فرشتے کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ جب بندہ
تواضع کرتا ہے تو اس لگام کے ذریعے اسے بلندی عطا کی جاتی ہے اور فرشتہ کہتا ہے:
بلند ہوجا! اللہ پاک تجھے بلند فرمائے۔ اور اگر وہ اپنے آپ کو (تکبر سے) خود ہی بلند کرتا ہے تو وہ اسے زمین کی جانب پست (یعنی نیچا) کرکے کہتا ہے: پست (یعنی نیچا) ہوجا! اللہ پاک تجھے پست کرے۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، باب التواضع، الحدیث 5741، ج 3، ص
50)
3۔جو
شخص اللہ پاک کی رضا کیلئے جس درجے کی عاجزی کرتا ہے، اللہ پاک اسے اسی درجے بلند
فرمادیتا ہے یہاں تک کہ اسے اعلیٰ
عِلِّیِّیْن (سب سے بلند درجے) میں
کردیتا ہے اور جو شخص اللہ پاک کے مقابلے میں جس درجے کا تکبر کرتا ہے، اللہ پاک
اسے اسی درجے میں گرادیتا ہے حتیٰ کہ اسے اسْفلُ السّافلین (سب سے نچلے درجے) میں کردیتا ہے۔ (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الحظر و الاباحة،
باب التوضع۔۔۔الخ، 457/7، حدیث 5649)
4۔جو
اپنے مسلمان بھائی کے سامنے عاجزی اختیار کرے گا، اللہ پاک اسے بلندی عطا فرمائے
گا اور جو اس کے سامنے اپنی بڑائی کا اظہار کرے گا، اللہ پاک اسے رسوا کردے گا۔ (معجم اوسط، باب الف، 390/5، حدیث 7711)
5۔جو
شخص عاجزی کرتا ہے، اللہ پاک اسے بلندی عطا فرماتا ہے اور جو تکبر کرتا ہے، اللہ
پاک اسے ذلیل کرتا ہے۔ (موسوعة
الامام ابن ابی الدنیا، کتاب التواضع و الخمول، 552/3، حدیث 77)