یاد رہے  خود کو افضل اور دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے (کتاب تکبر، ص 16) آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے (صحیح مسلم، کتاب الایمان باب تحریم الکبروبیانہ الحدیث :91 ص 61)امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:ذٰلِکَ اَنْ یَّرَی الْاِنْسَانُ نَفْسَہٗ اَکْبَرَ مِنْ غَیْرِہِ یعنی تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے (المفردات للراغب ص 697) تکبر ہی وہ گناہ عظیم ہے جس نے 80 ہزار سال کے عبادت گزار فرشتوں کے استاد کو ہمیشہ کیلیئے مردود ٹھہرا دیا،اور یہی مہلک مرض نمرود کی مچھر کے ذریعے دردناک موت کا ضامن ہے،اسی غلیظ بیماری نے فرعون کو سمندر میں غرق کیا تکبر کے کئی نقصانات بھی ہیں جو درج ذیل ہیں جس میں سرِ فہرست ہے رب کی ناپسندیدگی چنانچہ سورة النحل میں ارشاد ہوتا ہے اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْن (سورة النحل آیت نمبر 23) ترجمہ کنز الایمان: بیشک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔قرآن عظیم میں ارشاد ہوتا ہے کہ فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِیْنَ (سورة النحل آیت نمبر 29) ترجمہ کنزالایمان:تو کیا ہی برا ٹھکانا مغروروں کا۔ علاوہ ازیں متکبر شخص رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا بھی ناپسندیدہ بندہ بن جاتا ہے ، متکبر تکبر کے ذریعے آخرت کی رسوائی کا سامان اکھٹا کرتا،جب یہ بدبودار نطفے سے بنا انسان اپنے اندر کسی کمال کی بُو پاتا ہے تو تکبر کی راہ جاتا ہے اور آخرت کی خواری کماتا ہے اور یوں یہ تکبر متکبر کی نیکیوں کو دیمک کی طرح کھا جاتا ہے حضورِ اکرم نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تکبر سے بچنے کا بارہا درس عطا فرمایا ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کے دل میں رائی کے دانے کے جتنا(یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نا ہو گا ( صحیح مسلم کتاب الایمان،باب التحریم الکبروبیانہ،الحدیث 147 ص 60)

گر تکبر ہو دل میں ذرہ بھر

سن لو جنت حرام ہوتی ہے (وسائل بخشش)

1۔ دوجہاں کے تاجور سلطان بحر و بر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا: قیامت کے دن متکبرین کو چیونٹیوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا اور اللہ پاک کے ہاں انکی قدر و قیمت نا ہونے کے سبب لوگ انہیں اپنے قدموں تلے روندتے ہونگے (موسوعۃ الامام ابن ابی الدنیا، کتاب التواضع و الخمول 3/578 حدیث: 224)

2۔ ارشاد فرمایا: آدمی اپنے نفس کے متعلق بڑائی بیان کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے جبّار(سرکش) لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے پھر اسے بھی وہی عذاب پہنچتا ہے جو ان کو پہنچتا ہے ( سنن ترمذی کتاب البر و الصلة، باب ما جاء فی الکبر٣/٤٠٣ حدیث ٨١٥٤)

3۔ نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ پاک فرماتا ہے: بڑائی میری چادر اور عظمت میرا تہبند ہےجو کوئی ان میں کسی ایک کے بارے میں مجھ سے جھگڑے گا تو میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا اور مجھے اسکی کوئی پرواہ نہیں (سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد ،کتاب البراءة من الکبر الخ...4 /457 حدیث:٥١٧٤ دون قول ولا ابالی)

4۔ ارشاد فرمایا: بے شک جہنم میں ایک مکان ہے جس میں متکبرین کو ڈال کر اوپر سے بند کر دیا جائے گا (المسند لابی یعلی، حدیث ابی موسیٰ الاشعری ٦/٢٠٧ حدیث:٧٢١٣) اب ذرا غور کیجیے کہ جب کوئی بیماری ہماری جانب رخ کرے تو مہنگے سے مہنگے اور تجربہ کار ڈاکٹرز سے علاج معالجے کیلئے لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں مگر کیا اپنے اندر کی اس پوشیدہ خطرناک باطنی بیماری کے علاج کیلیئے آپ کوشاں ہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے تو آج ہی مکتبہ المدینہ کی کتاب تکبر کا مطالعہ فرمائیں۔