تکبر کے متعلق خدا  پاک پارہ نمبر 14، سورہ نحل کی آیت نمبر 23 میں مغروروں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

انه لا يحب المتكبرين۔ (پ14، النحل:23)ترجمہ کنزالایمان:بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔

تکبر انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا، جیسا کہ ابلیس(شیطان) جس کا پہلا نام عزازیل تھا، بڑا ہی نیک، عبادت گزار، علم و حکمت کی معلومات رکھنے والا اور اللہ پاک کا قرب یافتہ تھا، اس کے علم و معلومات کی وجہ سے اسے معلم الملکوت یعنی فرشتوں کا استاد بنایا گیا اور اس لقب سے سرفراز کیا گیا، لیکن حضرت آدم علیہ السلام کو حقارت کی نگاہ سے دیکھ کر اور خود کو افضل جانتے ہوئے تکبر کے نشے میں عقل کھو بیٹھا اور اللہ پاک کے حکم کو انکار کرتے ہوئے کہنے لگا:

انا خیر منہ۔خلقتنی من نار وخلقتہ من طین۔ ترجمہ: میں اس سے بہتر ہوں کہ تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے پیدا کیا۔

اس کے اس مغرور بات پر ربّ پاک نے ارشاد فرمایا:فاخرج منہا وانک رحیم۔وان علیک لعنتی الی یوم الدین۔ (پارہ 23،ص77،78) ترجمہ کنزالایمان:تو جنت سے نکل جا کہ تو راندھا(لعنت کیا) گیا اور بے شک تجھ پر میری لعنت ہے قیامت تک۔

عزازیل کی مغروریت کی وجہ سے اسے جنت سے نکال دیا گیا، جہاں وہ معلم الملکوت کے لقب سے جانا جاتا تھا، اب وہ ابلیس(یعنی شیطان) کے نام سے معلوم ہونے لگا۔

تکبر کی تعریف:

خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے، چنانچہ فرمانِ رسول اکرم، نور مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا: اَلْکِبَرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیرجاننے کا نام ہے۔ (صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، ص61،حدیث 91)

امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ (مفردات الفاظ القرآن، صفحہ 697)

تکبر کے نقصانات:

تکبر کرنے والے کو مغرور کہتے ہیں اور مغرور ہمیشہ خسارہ (یعنی نقصان) میں رہتا ہے، چنانچہ تکبر کے نقصان کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن ذلت و رسوائی کا سامنا ہو گا، چنانچہ دو جہاں کے تاجدار، رحمت اللعالمین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان عالیشان ہے:قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھايا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کی بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اوربہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غا لب آ جائے گی، انہیں طينة الخبال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ (جامع ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ج4، ص221، ح2500)

تکبر کی مذمت پر پانچ فرامین مصطفی مندرجہ ذیل ہیں:

1۔حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:کہ جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا(یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، ص60، حدیث47)

حضرت علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:جنت میں داخل نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ تکبر کے ساتھ کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا، بلکہ تکبر اور اور ہر بُری خصلت سے عذاب بھگتنے کے ذریعے یااللہ پاک کے عفو و کرم سے پاک و صاف ہو کر جنت میں داخل ہو گا۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 8، صفحہ 828،829)

2۔نبی اکرم، نور مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا نے ارشاد فرمایا:کبریائی میری چادر ہے، لہذا جو میری چادر کے معاملے میں مجھ سے جھگڑے گا، میں اسے پاش پاش کر دوں گا۔ (المستدرک للحاکم، جلد 1، صفحہ 235، ح21)

ربّ پاک کا کبریائی کو اپنی چادر فرمانا ہمیں سمجھانے کے لئے ہے کہ جیسے ایک چادر کو دو نہیں اوڑھ سکتے، یوں ہی عظمت و کبریائی سوائے میرے دوسرے کے لئے نہیں ہو سکتی۔ (ماخوذ از مراۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 659)

3۔سید المرسلین، خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا کا فرمانِ عبرت نشان ہے:جس کی یہ خوشی ہو کہ لوگ میری تعظیم کیلئے کھڑے رہیں، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا ئے۔ (جامع ترمذی، کتاب الادب، جلد 4، صفحہ 347، ح2864)

4۔شہنشاہِ خوش خصال صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ عبرت نشان ہے:اللہ پاک متکبرین (یعنی مغروروں)اور اِترا کر چلنے والوں کو نا پسند فرماتا ہے۔ (کنزالعمال، جلد 3، صفحہ 21، حدیث 7727)

5۔اللہ کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اپنے فوت شدہ آباؤاجداد پر فخر کرنے والی قوموں کو باز آنا چاہئے، کیونکہ وہی جہنم کا کوئلہ ہیں یا وہ قومیں اللہ پاک کے نزدیک گندگی کے ان کیڑوں سے بھی حقیر ہو جائیں گی، جو اپنی ناک سے گندگی کو کُریدیتے ہیں، اللہ پاک نے تم سے جاہلیت کا تکبر اور ان کا اپنے آباؤ اجداد پر فخر کرنا ختم فرما دیا ہے، اب آدمی متقی و مؤمن ہو گا یا بد بخت و بد کار، سب لوگ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ (ترمذی،جلد 5، صفحہ97، حدیث3981)

درس:

پیارے پیارے اور میٹھے میٹھے مسلمانوں! ذرا غور و فکر سے اس زندگی کو دیکھ کر بتائیے، اس تکبر سے ہمیں کیا حاصل ہوگا، صرف لذتِ نفس اور دنیا کے سامنے جھوٹی شان و شوکت اور اس کے نقصان میں آخرت کی بربادی، نیکیوں سے خالی اور گناہوں سے بھرا ہوا اعمال نامہ اور سزا میں دوزخ کی تڑپتی، کڑکتی اور بھڑکتی آگ ہے، جس کا ایندھن انسان ہے۔

ذرا سوچیں اور اپنے اعمال کا محاسبہ کریں، یہ دنیاوی زندگی کتنی ہے اور جس اور جن خوبیوں (دولت، نعمت، خوشحالحانی، علم وغیرہ) کے گھمنڈ میں، میں تکبر کرتا ہوں اور دوسروں کو حقیر جانتا ہوں تو یہ سب خوبیاں تو اللہ پاک کی عطا کردہ ہیں اور اس تکبر کے چکر میں، میں اپنا دین و ایمان تو داؤ میں نہیں لگا رہا، ذرا سوچیں دنیا کی عارضی عیش و عشرت اور تکبر میں زندگی بسر کرنے والے ذرا سوچیں، آخرت میں جو دائمی زندگی ہے، اس میں ہمارا کیا حال ہو گا۔

اللہ پاک ہمیں تکبر جیسی اور اس کے ساتھ ساتھ تمام باطنی و اُخروی اور نقصان دہ بیماریوں سے بچائے۔آمین