محمد اشفاق رضا عطّاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان عطار نیپال گنج نیپال)
پیارے اسلامی بھائیوں! سود کی مذمت پر بے شمار احادیث طیبہ
موجود ہے۔ ان میں سب سے بڑھ کر یہی ہے کہ اس نے اپنی ماں سے زنا کیا۔ سود لینے،
دینے، اس پر گواہ مقرر کرنے اور کتابت کرنے والے سبھی پر لعنت فرمائی۔ صرف حدیث ہی
میں نہیں بلکہ قراٰن مقدس بھی میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے: اَلَّذِیْنَ
یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ
یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا
الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ
الرِّبٰواؕ-فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا
سَلَفَؕ-وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِؕ-وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ
النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۷۵)ترجمۂ کنز الایمان: وہ جو
سُود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے
چھو کر مخبوط بنا دیاہویہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سُود ہی کے مانند ہے
اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سُود تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی
اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور
جو اَب ایسی حرکت کرے گا تووہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں گے۔(پ3،البقرة : 275)تفسیر
صراط الجنان: گزشتہ آیات میں مال خرچ کرکے رضائے الٰہی اور جنت کمانے والوں کا
بیان تھا، اب اسی مال کے ذریعے اللہ پاک کا غضب اور جہنم کمانے والوں کا
بیان ہے، چنانچہ ان لوگوں کے ایک بڑے طبقے یعنی سود خوروں کا بیان اور انجام اس
آیت میں بیان کیا گیا ہے۔
سود کو حرام کئے جانے
کی حکمتیں : سود کو حرام فرمانے میں بہت سی حکمتیں ہیں ، ان میں
سے بعض یہ ہیں کہ سود میں جو زیادتی لی جاتی ہے وہ مالی معاوضے والی
چیزوں میں بغیر کسی عوض کے مال لیا جاتا ہے اور یہ صریح ناانصافی ہے ۔سود کی حرمت
میں دوسری حکمت یہ ہے کہ سود کا رواج تجارتوں کو خراب کرتا ہے کہ سود
خور کو بے محنت مال کا حاصل ہونا ،تجارت کی مشقتوں اور خطروں سے کہیں زیادہ آسان
معلوم ہوتا ہے اور تجارتوں کی کمی انسانی معاشرت کو ضرر پہنچاتی ہے۔ تیسری
حکمت یہ ہے کہ سود کے رواج سے باہمی محبت کے سلوک کو نقصان پہنچتا ہے کہ جب
آدمی سود کا عادی ہوا تو وہ کسی کو قرض حَسن سے امداد پہنچانا گوارا نہیں کرتا۔ چوتھی
حکمت یہ ہے کہ سود سے انسان کی طبیعت میں درندوں سے زیادہ بے رحمی پیدا ہوتی
ہے اور سود خور اپنے مقروض کی تباہی و بربادی کا خواہش مند رہتا ہے۔ اس کے علاوہ
بھی سود میں اور بڑے بڑے نقصان ہیں اور شریعت کی سود سے ممانعت عین حکمت ہے ۔مسلم
شریف کی حدیث میں ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود دینے
والے، لینے والے، اس کے کاغذات تیار کرنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی
اور فرمایا کہ وہ سب گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم،کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب لعن
آکل الربا ومؤکلہ، ص862، حدیث: 106)
سود خور قیامت میں ایسے مَخبوطُ
الحَواس ہوں گے اور ایسے گرتے پڑتے کھڑے ہوں گے ، جیسے دنیا میں وہ
شخص جس پر بھوت سوار ہو کیونکہ سود خور دنیا میں لوگوں کے لئے بھوت بنا ہوا تھا۔
آج کل سودی قرضہ لینے دینے کا ابتدائی انداز تو بڑا مُہذب ہوتا ہے۔ اچھے اچھے
ناموں سے اور خوش کُن ترغیبات سے دیا جاتا ہے لیکن کچھ ہی عرصے بعد قرض دینے والوں
کی خوش اخلاقی، ملنساری اور چہرے کی مسکراہٹ سب رخصت ہوجاتی ہے اور اصل چہرہ بے
نقاب ہوجاتا ہے جو گالیاں دے رہا ہوتا ہے، غنڈے بھیج رہا ہوتا ہے، گھر کے باہر
کھڑے ہو کر ذلیل و رسوا کررہا ہوتا ہے، دکان، مکان، فیکٹری سب پر قبضہ کر کے فقیر
و کنگال اور محتاج و قَلّاش کر کے بے گھر اور بے زر کر رہا ہوتا ہے۔
اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا: تجارت سود ہی کی طرح ہے۔ یہاں سود خوروں کا وہ شبہ بیان کیا جا رہا ہے
جو زمانۂ اسلام سے پہلے سے لے کر آج تک چلا آرہا ہے۔ وہ یہ کہ تجارت اور سود
میں کیا فرق ہے؟ دونوں ایک جیسے تو ہیں۔ تجارت میں کوئی سامان دے کر نفع حاصل کیا
جاتا ہے اور سود میں رقم دے کر نفع حاصل کیا جاتا ہے حالانکہ دونوں میں زمین و
آسمان کا فرق ہے ۔غور کریں کہ تجارت کرنے سے حسنِ سلوک میں فرق نہیں آتا، آدمی
سست، کاہل اور مشقت سے جی چرانے والا نہیں بنتا، اپنے مال کو خطرے پر پیش کرتا ہے،
نفع و نقصان دونوں کی امید ہوتی ہے، وہ دوسرے کی بربادی و محتاجی کا آرزو مند
نہیں ہوتا جبکہ سود والا بے رحم ہوجاتا ہے، وہ مفت میں کسی کو رقم دینے کا تصور
نہیں کرتا، انسانی ہمدردی اس سے رخصت ہو جاتی ہے، قرض لینے والا ڈوبے، مرے، تباہ
ہو یہ بہر صورت اُسے نچوڑنے پر تُلا رہتا ہے۔ آخر یہ سب فرق کیا ہیں ؟ تجارت اور
سود کو ایک جیسا کہنے والے کو کیا یہ فرق نظر نہیں آتا؟ اس
لئے اللہ پاک نے فرمایا کہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور
سود کو حرام کیا ہے۔
فَانْتَهٰى: تو جو رک
گیا۔ چونکہ سود کا لین دین ایک عرصے سے چلتا آرہا تھا تو فرمایا گیا کہ جب
حکمِ الٰہی نازل ہوگیا تو اب اس پر عمل کرتے ہوئے جو آئندہ سود لینے سے باز آگیا
تو حرمت کا حکم نازل ہونے سے پہلے جو وہ لیتا رہا اس پر اس کی کوئی گرفت نہ ہوگی
اور اس کی معافی کا معاملہ بلکہ ہر امر و نہی کا معاملہ اللہ پاک کے
حوالے ہے۔ اور یہ بھی یاد رکھو کہ جو حرمت کا حکم اترنے کے بعد بھی سود کھائے گا
تو وہ جہنم کا مستحق ہے اور اگر حلال سمجھ کر کھایا تو کافر ہے، ہمیشہ جہنم میں
رہے گا کیونکہ کسی بھی حرامِ قطعی کو حلال جاننے والا کافر ہے۔(تفصیل کے لئے فتاوی
رضویہ و صراط الجنان کا مطالعہ بہت مفید رہے گا)
اللہ پاک تمام مسلمانوں کو سود جیسی بیماری سے بچنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اللہ پاک نے ہمیں اپنی عبادت کیلیے پیدا فرمایا ہے ۔ ہمارا
مقصدِ زندگی اس کی عبادت ہے۔ اور عبادت دو قسم کی ہے : (1) اللہ پاک نے جن کاموں کا حکم دیا، انہیں بجا
لانا۔( 2) جن کاموں سے
روکا ، ان سے رک جانا ہے۔ حدیثِ پاک کے مطابق : سب سے بڑا عبادت گزار وہ ہے جو منہیات(یعنی
اللہ پاک نے جن کاموں سے روکا ہے ان ) سے رک جائے۔(رواہ الترمذی ،حدیث: 2305)
انہیں منہیات میں سے "سود" بھی ہے۔ چنانچہ اللہ پاک نے سود کو حرام قرار
دیا ۔ ارشادِ باری ہے: وَ
حَرَّمَ الرِّبٰواؕ ترجمۂ کنز العرفان: اور
(اللہ نے) سود کو حرام کیا۔ (پ3،البقرة : 275)
اور اسی طرح سود کی مذمت میں احادیث بھی وارد ہوئی ہیں ۔
چنانچہ سات فرامینِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پیشِ خدمت ہیں : (1)سات ہلاک کرنے والی چیزوں
میں سے ایک "سود" بھی ہے۔ (رواہ البخاری ، حدیث : 2766 ، دار ابن كثير ،
بيروت) (2) پیارے آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے ، کھلانے والے ، لکھنے والے اور اس کے
گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا یہ سب برابر ہیں۔( مسلم ، حديث : 1598، بيت الافكار
الدوليہ ، الرياض)(3) آدمی
جانتے ہوئے سود کا ایک درہم کھاتا ہے ، وہ چھتیس 36 بار زنا سے زیادہ سخت ہے۔(مسند
احمد ، حدیث: 21957 ، رسالۃ پبلشرز ، بيروت)
(4) سود کے
ستر حصے ہیں جن سے کمترین حصہ یہ ہے کہ انسان اپنی ماں سے زنا کرے۔(مراة المناجيح
، فیضانِ حدیث اپلیکیشن ، حديث : 2826)(5) بے شک سود کے 72 دروازے ہیں ، ان میں سے کمترین ایسے ہے جو
کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(سود اور اس کا علاج ، ص 17، مطبوعہ المكتبۃ المدينہ)(6)ہم شبِ معراج اس قوم پر
پہنچے جن کے پیٹ کوٹھڑیوں کی طرح تھے جن میں سانپ تھے جو پیٹوں کے باہر دیکھے جا رہے
تھے ہم نے کہا اے جبریل یہ کون ہیں انہوں نے عرض کیا یہ سود خوار ہیں۔(مراة
المناجيح ، فیضانِ حدیث اپلیکیشن ، حديث : 2828) (7) جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن
پھیلتا ہے۔(سود اور اس کا علاج، ص 16، مطبوعہ مکتبۃ المدينہ)
مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں معلوم ہوا کہ سود سخت
کبیرہ گناہ ہے ۔ سود حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ سود دنیا و آخرت میں
ہلاکت ، لعنت کا سبب ہے۔ سود زنا سے سخت تر ہے۔ سود سے پاگل پن پھیلتا ہے۔ آخر میں
دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو سودی لین دین سے بچائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔
شریعت اسلامیہ نے ہر شخص
کو مکلف بنایا ہے کہ وہ صرف جائز و حلال طریقہ سے ہی مال کمائے کیونکہ کل بروز حشر
اللہ پاک مال کے متعلق ہم سے پوچھ گچھ فرمائے گا کہ کہاں سے کمایا یعنی ذریعہ کیا
تھا اور کہاں خرچ کیا یعنی حقوق العباد اور حقوق اللہ میں کوتاہی تو نہیں کی۔ قراٰنِ
کریم کے بعد سنتِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، قانون وضع کرنے کیلئے دوسرا
ماخذ ہے جو قراٰنِ مجید کا تسلیم شدہ ماخذ ہے اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے سود کی شدید مذمت فرمائی ہے۔ آئے اس موضوع پر کچھ احادیث پڑھنے
سے پہلے اس کی تعریف ملاحظہ کرتے ہیں۔
سود کی تعریف: سود اس زیادتی (Excess) کو کہتے ہیں
جس کا حقدار عقدِ معاوضہ میں عاقدَین میں سے کسی ایک کو قرار دیا جائے اور اس
زیادتی کے مقابلے میں کوئی عوض اس عقد میں شرط نہ کیا گیا ہو۔ (فتح القدیر، 7/3)
( 1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ معراج کی رات مجھے ایک ایسی قوم کے پاس
سیر کرائی گئی کہ اُن کے پیٹ کوٹھریوں کے مثل تھے جن میں سانپ بھرے تھے جو پیٹوں
کے باہر سے نظر آرہے تھے۔ میں نے پوچھا: اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں ؟تو اُنہوں نے
کہا: یہ سود کھانے والے ہیں۔ (ابن ماجہ،3/71، حدیث:2273)
(2) حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
سُود70گناہوں کا مجموعہ ہے، ان میں سب سے ہلکا یہ ہے کہ آدمی
اپنی ماں سے زنا کرے۔(ابن ماجہ،3/72،
حدیث:2274)
( 3) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہُ عنہ سے
روایت ہے، حضور سیدُ المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے
والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، ص 663،
حدیث: 4093)
( 4) حضرت ابن مسعود رضی اللہُ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ سود اگرچہ بہت ہو مگر انجام کمی کی طرف
لوٹتا ہے۔(ابن ماجہ،3/74، حدیث:2279)
( 5) حضرت سیدنا عوف بن مالک رضی
اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: قیامت کے دن سود خور کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ دیوانہ و مخبوط
الحواس ہو گا۔ (المعجم الکبیر ،18/60، حدیث:110) یعنی سود خور قبروں سے اٹھ کر
حشر کی طرف ایسے گرتے پڑتے جائیں گے جیسے کسی پر شیطان سوار ہو کر اسے دیوانہ کر
دے۔ جس سے وہ یکساں نہ چل سکیں گے۔ اس لئے کہ جب لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے اور
محشر کی طرف چلیں گے تو سب یہاں تک کہ کفار بھی درست چل پڑیں گے مگر سود خور کو
چلنا پھرنا مشکل ہو گا اور یہی سود خور کی پہچان ہو گی۔(سود اور اس کا علاج،ص42)
پیارے پیارے اسلامی
بھائیوں ! سود کو حرام فرمانے میں بہت حکمتیں ہیں وہ یہ ہیں سود کا رواج تجارتوں
کو خراب کرتا ہے سود سے انسان کی طبیعت میں درندوں سے زیادہ بے رحمی پیدا ہو جاتی
ہے، سود مؤمن کے ایمان کو نقصان دیتا ہے، سود کی آمدنی بہت زیادہ ہو جاتی ہے،
لیکن آخر میں اللہ اس کو مٹا دیتا ہے۔ سود خور غریب پر رحم نہیں کرتا، مؤمن کیلئے
سود میں برکت نہیں ہے، یہ کافر کی غذا ہو سکتی ہے مؤمن کی نہیں۔ ان حدیثوں کو
پڑھنے کے بعد ہم پر لازم ہے کہ ہم مالِ حرام سے اجتناب کریں تاکہ ان سزا سے بچ
سکیں۔
محمد حسین عطّاری (درجہ دورہ حدیث جامعۃُ المدینہ فیضانِ
عطّار ناگپور ہند)
تمام تعریفیں اللہ پاک ہی کے لیے ہیں جس نے ہمیں کثیر
نعمتوں سے مالامال فرمایا اور ان نعمتوں میں سب سے بڑی مال کی نعمت عطا فرمائی تاکہ
ہم اپنی روز مرہ کی ضرورتیں پوری کرے اور اپنی زندگی اچھے سے گزاریں مگر ہائے
افسوس آج ہمارے معاشرے میں مال کی مارا ماری اور سود بہت عام ہوتا چلا رہا ہے جو
کہ دنیا میں لڑائی جھگڑے و دیگر فساد کا باعث اور آخرت میں عذاب نار کا مستحق ٹھہراتی
ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
قرض سے جو نفع حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔(کنزالعمال، حدیث: 15516)
قراٰن و حدیث میں
اس کی مذمت جابجا وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اَلَّذِیْنَ
یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ
یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ترجمۂ کنزالایمان: وہ جو سُود کھاتے ہیں قیامت کے دن
نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیاہو۔(پ3،البقرۃ:275)
آئیے سود کی مذمت احادیث کی روشنی میں پڑھتے ہیں:۔ رسول
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود دینے والے، لینے والے، اس کے کاغذات
تیار کرنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب گناہ میں برابر
ہیں۔(مسلم،کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب لعن آکل الربا ومؤکلہ، ص862، حدیث: 106)اس
حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہے سود کھانے والے
کا ذکر پہلے فرمایا کہ یہی بڑا گنہگار ہے کہ سود لیتا بھی ہے اور کھاتا بھی ہے، دوسرے
پر یعنی مقروض اور اس کی اولاد پر ظلم بھی کرتا ہے، اللہ کا بھی حق مارتا ہے اور
بندوں کا بھی۔
ربِّ کریم نے صرف
سود خوار کو اعلان جنگ دیا، معلوم ہوا کہ بڑا مجرم یہ ہی ہے۔(مرآۃالمناجیح جلد4 ،حدیث:
2807)آقائے کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ہم شبِ معراج اس
قوم پر پہنچے جن کے پیٹ ٹھڑیوں کی طرح تھے جن میں سانپ تھے جو پیٹوں کے باہر دیکھے
جا رہے تھے ہم نے کہا اے جبریل یہ کون ہیں انہوں نے عرض کیا یہ سود خوار ہے۔ (ابن
ماجہ حدیث: 2273 ) اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ
لکھتے ہے چونکہ سود خوار ہوسی ہوتا ہے کہ کھاتا تھوڑا ہے حرص و ہوس زیادہ کرتا ہے
اس لیے ان کے پیٹ واقعی کوٹھڑیوں کی طرح ہوں گے، لوگوں کے مال جو ظلمًا وصول کیے
تھے وہ سانپ بچھو کی شکل میں نمودار ہوں گے۔ آج اگر ایک معمولی کیڑا پیٹ میں پیدا
ہوجائے تو تندرستی بگڑ جاتی ہے، آدمی بے قرار ہوجاتا ہے تو سمجھ لو کہ جب اس کا
پیٹ سانپوں، بچھوؤں سے بھر جائے تو اس کی تکلیف و بے قراری کا کیا حال ہوگا رب کی
پناہ۔(مرآۃالمناجیح جلد4 ،حدیث: 2828)
ان ذکر کردہ روایتوں سے معلوم ہوا کہ سود خوری کتنا مذموم
فعل ہے اور کس قدر اس کی مذمت احادیث میں بیان ہوئی ہے۔ اللہ پاک سے دعا گو ہوں کہ
ہمیں سود خوری سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
عبدالمصطفی مصباحی رام پوری(مدرّس جامعۃُ المدینہ فیضان غوث اعظم کانپور ہند)
وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ
مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاۡ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ
اللّٰهِۚ-وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ(۳۹) ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور تم جو چیز زیادہ لینے کو دو کہ دینے والے کے مال بڑھیں تو وہ
اللہ کے یہاں نہ بڑھے گی اور جو تم خیرات دو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تو انہیں کے
دونے ہیں۔(پ21،الروم:39) اللہ رب العالمین نے بیع کو حلال رکھا اور سود کو حرام
فرمایا۔ سود گناہ کبائر میں سے ہے۔ اللہ و رسول صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضگی کا سبب ہے۔ سود
کھانا اپنی ماں سے زنا کرنے سے بھی بد تر ہے۔ جہنم میں لے جانے والا عمل ہے۔ بہتر
معیشت کے لئے زہر ِقاتل ہے۔ شرع کی رو سے ربا یعنی سود حرام قطعی ہے۔ اس کی حرمت
کا منکر کافر ہے اور حرام سمجھ کر جواس کا مرتکب ہے فاسق مردود الشہادۃ ہے ۔
سود کی تعریف: عقدِ معاوضہ میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل
میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔سو دکی مذمت میں بکثرت احادیث وارد ہیں ، اُن
میں سے چند اس مقام میں ذکر کی جاتی ہیں ۔(1)مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ رسول
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود دینے والے، لینے والے، اس کے کاغذات تیار
کرنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب گناہ میں برابر
ہیں۔(مسلم،کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب لعن آکل الربا ومؤکلہ، ص862، حدیث: 106)(2) حاکم ابن عباس رضی اللہ عنہما
سے راوی، کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس بستی میں زنا
اور سود ظاہر ہوجائے تو انہوں نے اپنے لئے اللہ کے عذاب کو حلال کر لیا۔(المستدرک
‘‘ للحاکم، کتاب البیوع، باب اذا اظھر الزنا والربا فی قریۃ، 2/339،حدیث: 2308)
(3) امام احمد و ابو داؤد و نسائی و ابن ماجہ ابوہریرہ رضی
اللہُ عنہ سے راوی، کہ حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے فرمایا: لوگوں پر
ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ سود کھانے سے کوئی نہیں بچے گا اور اگر سود نہ کھائے گا
تو اس کے بخارات پہنچیں گے (سنن ابی داؤد، کتاب البیوع،باب فی اجتناب الشبھات،2/331،حدیث:
3331)(4) امام احمد و دارقطنی عبداللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ رضی
اللہُ عنہما سے راوی، کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود
کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے، وہ چھتیس مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔( المسند للامام
أحمد بن حنبل،حدیث عبداللہ بن حنظلۃ،8/223،حدیث: 22016)
(5) ابن ماجہ و بیہقی ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے راوی، کہ رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود (کا گناہ) ستر حصہ ہے، ان میں سب
سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔(سنن ابن ماجہ ،کتاب
التجارات،باب التغلیظ في الربا،3/72،حدیث: 2274)(6) امام احمد و ابن ماجہ و بیہقی عبداللہ بن
مسعود رضی اللہُ عنہ سے راوی، کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
(سود سے بظاہر) اگرچہ مال زیادہ ہو، مگر نتیجہ یہ ہے کہ
مال کم ہوگا۔ (المسند للامام أحمد بن حنبل،مسند عبداللہ بن مسعود،2/50،حدیث: 3754)
(7) امام احمد و ابن ماجہ ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے راوی، کہ رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا
جس کے پیٹ گھر کی طرح (بڑے بڑے) ہیں ، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی
دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا، اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں ؟ اُنہوں نے کہا، یہ سود خوار
ہیں ۔(سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات، باب التغلیظ فی الربا،3/72،حدیث: 2273)(8) ابن ماجہ و دارمی امیرالمؤمنین
عمر بن الخطاب رضی اللہُ عنہ سے راوی، کہ فرمایا: سود کو چھوڑو اور جس میں سود کا
شبہ ہو، اُسے بھی چھوڑ دو۔(سنن ابن ماجہ ،کتاب التجارات،باب التغلیظ في الربا،2/73،حدیث:
2276)
(9)صحیح مسلم شریف میں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی، کہ
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سونا بدلے میں سونے کے اور
چاندی بدلے میں چاندی کے اور گیہوں بدلے میں گیہوں کے اور جَو بدلے میں جَو کے اور
کھجور بدلے میں کھجور کے اور نمک بدلے میں نمک کے برابر برابر اور دست بدست بیع
کرو اور جب اصناف(صنف کی جمع جنس۔)میں اختلاف ہو تو جیسے چاہو بیچو (یعنی کم و بیش
میں اختیار ہے) جبکہ دست بدست ہوں اور اسی کی مثل ابو سعید خدری رضی اللہُ عنہ سے
مروی، اس میں اتنا زیادہ ہے کہ ’’جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا، اُس نے سود ی معاملہ
کیا، لینے والا اور دینے والا دونوں برابر ہیں ۔‘‘ اور صحیحین میں حضرت عمر رضی
اللہُ عنہ سے بھی اسی کے مثل مروی۔(صحیح مسلم،کتاب المساقاۃ ۔۔۔ إلخ،باب الصرف و
بیع الذہب ۔۔۔ إلخ،ص 856،حدیث: 81)
(10) صحیحین میں اسامہ بن زید رضی اللہُ عنہما سے مروی، نبی کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کہ اُدھار میں سود ہے اور ایک روایت میں
ہے، کہ دست بدست ہو تو سود نہیں یعنی جبکہ جنس مختلف ہو۔(صحیح مسلم،کتاب المساقاۃ
۔۔۔ إلخ،باب الصرف و بیع الذہب ۔۔۔ إلخ،ص 856،حدیث: 82) اللہ رب العزت ہمیں سود جیسی لعنت سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین یا رب العالمین
بحرمۃ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
شریعت ِاسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ صرف جائز
و حلال طریقہ سے ہی مال کمائے کیونکہ کل بروزِ حشر اللہ پاک مال کے متعلق ہم سے
پوچھ گچھ فرمائے گا کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا لہٰذا غور کر لینا چاہئے کہ
مال حاصل کرنے کا ذریعہ کیا ہے ۔ قراٰنِ کریم کے بعد سنتِ رسول صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم، قانون وضع کرنے کے لئے دوسرا ماخذ ہے جو قراٰنِ مجید کا تجویز کردہ
ماخذ ہے اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کی شدید مذمت فرمائی
ہے۔ آئیے اس موضوع پر کچھ احادیث پڑھنے سے پہلے سود کی تعریف ملاحظہ کرتے ہیں:
سود کی تعریف: سود اس زیادتی (Increase) کو کہتے ہیں جس کا حق دار عقدِ معاوضہ میں عاقدَین(Seller and Purchaser) میں سے کسی ایک
کو قرار دیا جائے اور اس زیادتی کے مقابلے میں کوئی عوض اس عقد میں شرط نہ کیا گیا
ہو۔ (فتح القدیر، 7/3)
( 1) حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا کہ معراج کی رات مجھے ایک ایسی قوم کے پاس سیر کرائی گئی کہ اُن کے پیٹ
کوٹھریوں کے مثل تھے جن میں سانپ بھرے تھے جو پیٹوں کے باہر سے نظر آرہے تھے۔ میں
نے پوچھا: اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں ؟تو عرض کی:یہ سود کھانے والے ہیں۔(ابن ماجہ،3/71،
حدیث:2273)
(2) حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
سُود70گناہوں کا مجموعہ ہے، ان میں سب سے ہلکا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے
زنا کرے۔(ابن ماجہ،3/72، حدیث:2274)
( 3) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،
حضور سیدُ المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے
والے، لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب
اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، ص 663، حدیث: 4093)
( 4)حضرت ابن
مسعود رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: سود اگرچہ بہت ہو مگر انجام کمی کی طرف لوٹتا ہے۔(ابن ماجہ،3/74، حدیث:2279)
( 5) حضرت سیدنا
عوف بن مالک رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: قیامت کے دن سود خور کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ دیوانہ و ہوش
و حواس سے بیگانہ ہو گا۔ (المعجم الکبیر ،18/60، حدیث:110) یعنی سود خور قبروں سے
اٹھ کر حشر کی طرف ایسے گرتے پڑتے جائیں گے جیسے کسی پر شیطان سوار ہوکر اسے دیوانہ
کر دے۔ جس سے وہ یکساں نہ چل سکیں گے۔ اس لئے کہ جب لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے
اور محشر کی طرف چلیں گے تو سب یہاں تک کہ کفار بھی درست چل پڑیں گے مگر سود خور
کو چلنا پھرنا مشکل ہو گا اور یہی سود خور کی پہچان ہو گی۔(سود اور اس کا علاج،ص42)
پیارے اسلامی بھائیو! سود کو حرام فرمانے میں بہت حکمتیں ہیں،
مثلاً: سود کا رواج تجارتوں کو خراب کرتا ہے، سود سے انسان کی طبیعت میں درندوں سے
زیادہ بےرحمی پیدا ہو جاتی ہے، سود مؤمن کے ایمان کو نقصان دیتا ہے، سود کی آمدنی اگرچہ
بسااوقات بہت زیادہ ہو تی ہے لیکن آخر میں اللہ اس کو مٹا دیتا ہے۔ سود خور غریب
پر رحم نہیں کرتا، مؤمن کے لئے سود میں برکت نہیں ہے، یہ کافر کی غذا تو ہو سکتی
ہے مؤمن کی نہیں۔ اللہ پاک ہمیں سود کے ساتھ ساتھ دیگر گناہوں سے بھی بچتے رہنے کی
توفیق عطا فرمائیں۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
محمد طلحٰہ خان عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃُ المدینہ
فیضانِ خلفائے راشدین راولپنڈی پاکستان)
سود (Interest)سے مراد عقدِ معاوضہ (یعنی لین دین کے کسی معاملے) میں جب دونوں
طرف مال ہو اور ایک طرف اضافہ مشروط ہو کہ اس کے مقابل (یعنی بدلے) میں دوسری طرف
کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔ اسی طرح قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع، جو فائدہ حاصل ہو
وہ سب بھی سود ہے۔(گناہوں کے عذابات،حصہ اول،ص36)ربا یعنی سود حرامِ قطعی ہے اس
کی حرمت کا منکر کافر ہے اور حرام سمجھ کر جو اس کا مرتکب ہے فاسق مَرْدودُ الشَّہادۃ
ہے۔(بہار شریعت،2/268)
ہمارے معاشرے میں سود بہت تیزی کے ساتھ عام ہوتا چلا جا رہا
ہے اور اس کی بہت ساری وجوہات ہیں: اس کی سب سے بڑی وجہ لاعلمی ہے کہ بہت سے لوگ
سود کے متعلق شرعی راہ نمائی نہ لینے کی وجہ سے لین دین میں سودی معاملات کر رہے
ہوتے ہیں اور حرام کے مرتکب ہو جاتے ہیں اور اگر معلوم ہو بھی جائےکہ ایسا کرنا
سودی لین دین ہے تو دوسری بڑی وجہ سود کے بڑھنے کی، مال و دولت کی لالچ و حرص ہے
جو بندے کو اللہ و رسول کی فرمانبرداری سے بے پروا کر کے، پیسے کی محبت دل میں
بسا دیتی ہے اور حلال و حرام کی تمیز بُھلا دیتی ہے۔ جبکہ قراٰن و حدیث میں سود
کھانے اور سودی لین دین کی بہت سخت مذمت بیان کی گئی ہے جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ
ہے: ﴿ اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ
اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-﴾ ترجمۂ کنزالایمان: وہ جو سُود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ
کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو۔
(پ3،البقرۃ:275) سود کی مذمت پر احادیثِ کریمہ بھی ملاحظہ فرمائیں:
(1) نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
سات تباہ کرنے والی چیزوں سے بچو، صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان نے عرض کی کہ وہ
کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، جسے اللہ تعالیٰ نے
حرام فرما دیا ہو اس جان کو ناحق قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے
دن پیٹھ دکھا کر بھاگنا، پاکدامن مؤمنہ شادی شدہ عورتوں پر تہمت لگانا۔( بخاری،2/242،حدیث:
2766)
(2)حضرتِ جابر رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِّ کریمصلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے ،کھلانے ، لکھنے اور اس کےدونوں گواہوں پر
لعنت فرمائی اور فرمایا کہ سب برابر ہیں۔ (مسلم،ص663، حدیث: 4093)
(3)رسول ُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:
شبِ معراج میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی طرح تھے، جن میں
سانپ تھے جو ان کے پیٹوں کے باہر سے نظر آرہے تھے، میں نے کہا :اے جبریل! یہ کون
ہیں ؟ عرض کی:یہ وہ ہیں جو سود کھاتے تھے۔ (ابن ماجہ،3/71،حدیث:2273)
(4)فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: سود (کے
گناہ کے) ستر درجے ہیں، ان میں سب سے کم درجہ گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں
سے زنا کرے۔(ابن ماجہ،3/72،حدیث: 2274)
(5)حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے:
جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پَن پھیلتا ہے۔(سود اور اُس کا
علاج،ص16)
دورِ حاضر میں سود کی چند مختلف صورتیں یہ ہیں : کسی چیز کی
خرید و فروخت انسٹالمنٹ کی صورت میں ہو اور ہر ماہ کی قسط مقررہ تاریخ پر ادا نہ
کرنے میں جرمانہ لگانا،انسٹالمنٹ کی صورت میں چیز کی قیمت علیحدہ اور زائد منافع
علیحدہ بیان کرنا۔ (اگر زائد منافع کو چیز کی قیمت ہی بیان کرے تو سود نہیں بلکہ
وہ مکمل قیمت ہی ہوگی اورجائزہے۔) ان صورتوں یا ان کے علاوہ کسی بھی سودی صورت کو
اگر راضی نامہ پرچہ وغیرہ پر لکھا گیا تو ان پر دستخط کرنا بھی ناجائز ہے اگرچہ
قرضہ دینے والا کہہ دے کہ صرف کاغذی کاروائی ہے زائد کچھ نہ لیا جائے گا۔ کیونکہ
سودی لین دین اگرچہ نہیں ہو رہا لیکن دستخط کرنا سودی شرط پر رضا مندی کا اظہار
کرنا ہے اور یہ بھی ناجائز و گناہ ہے۔بہرحال اس طرح کے تمام معاملات میں مفتیانِ
کرام سے شرعی راہنمائی ضرور حاصل کرلینی چاہئے تاکہ سود کی نحوست سے یقینی طور پر
بچا جاسکے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ہر طرح کے سودی لین دین سے
محفوظ فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
فیصل یونس ( درجہ سابعہ، جامعۃُ المدینہ فیضانِ کنز
الایمان رائیونڈ لاہور پاکستان)
ہمارا ایمان اور قراٰن کا فرمان ہے کہ اللہ پاک نے ہمیں سب
سے عظیم رسول عطا فرما کر ہم پر بڑا احسان فرمایا ہے ۔ ہمارا تو وجود بھی حضور سید
دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کے صدقے سے ہے کہ اگر آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نہ ہوتے تو کائنات ہی نہ ہوتی۔ رحیم و کریم رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی ولادتِ
مبارکہ سے وصالِ مبارک تک اور اس کے بعد کے زمانوں میں اپنی امت پر مسلسل رحمت و
شفقت کے دریا بہاتے رہے اور بہا رہے ہیں اور یونہی قیامت کے دن ہماری آسانی و مسرت
کا سامان کریں گے۔ قراٰن، ایمان ، خدا کا عرفان اور بے شمار نعمتیں ہمیں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہی
نصیب ہوئیں۔ انہیں بیش بہا احسانات کے کچھ تقاضے ہیں جنہیں امت پر حقوق مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نام سے
ذکر کیا جاتا ہے۔ جن کی ادائیگی تقاضہ ٔ ایمان اور مطالبۂ احسان ہے ۔
(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان
لانا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی نبوت و رسالت پر ایمان رکھا جائے۔ اور جو کچھ آپ اللہ پاک
کی طرف سے لائے ہیں۔ اسے صِدق دل سے تسلیم کیا جائے۔ ارشاد باری ہے: وَ مَنْ لَّمْ
یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ
سَعِیْرًا(۱۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو ایمان نہ
لائے اللہ اور اس کے رسول پر تو بےشک ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی آ گ تیار کر رکھی
ہے۔( پ26 ، الفتح : 13)اور رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں
محمد (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
) کی جان ہے۔ اس امت میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں جو میری نبوت سنے خواہ وہ یہودی
ہو یا عیسائی پھر وہ اس (دین) پر ایمان لائے بغیر مر جائے جو مجھے دے کر بھیجا گیا
ہے تو وہ جہنمی ہوگا۔ (صحیح مسلم ، ص 134 ، حدیث: 153 )
(2) رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیروی: نبی کریم کی سیرتِ
مبارکہ اور سنتوں کی پیروی کرنا ہر مسلمان کے دین و ایمان کا تقاضا اور حکم
خداوندی ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ
لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان:تم
فرمادو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت
فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔(پ3،آل عمرٰن:31)حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا : تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہش میرے
لائے ہوئے (دین) کے تابع نہ ہو جائے ۔(شرح السنہ للبغوی،1/98)(3) رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم سے سچی محبت کرنا : امتی پر حق ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے
بڑھ کر اپنے آقا و مولا صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم سے سچی محبت کرے کہ آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت روحِ ایمان، جانِ ایمان اور اصلِ ایمان ہے ۔ اللہ پاک فرماتا ہے: قُلْ اِنْ كَانَ
اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ
عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ
كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ
رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ
بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) ترجمۂ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے
اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور
وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس
کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں
تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا ۔(پ10،التوبہ : 24)اور
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کسی کا ایمان اُس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا ، جب تک
میں اسے اس کے باپ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ ( صحیح بخاری
، 1/ 12 ، حدیث: 15)
(4) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم : ایک انتہائی اہم حق یہ ہے کہ دل و جان ، روح و بدن اور ظاہر و باطن ہر اعتبار
سے نبی مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اعلیٰ درجے کی تعظیم و توقیر
کی جائے۔ ارشاد باری ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ
وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹)ترجَمۂ
کنزُالایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا
تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو
اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو ۔( پ 26، الفتح : 9،8) (5) رسولُ الله پر درودِ پاک پڑھنا: حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر درود پاک
پڑھنا بھی مقتضائے ایمان ہے کہ اس کے ذریعے ہم بارگاہ الٰہی میں نبی کریم کیلئے
مزید در مزید قرب، رفع درجات اور اعلائے منزلت کی دعا کرے آپ کے احسانات کا شکریہ
ادا کرتے ہیں ۔ الله پاک فرماتا ہے : اِنَّ اللّٰهَ
وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں ۔ اے
ایمان والو!ان پر درود اور خوب
سلام بھیجو۔ (پ22،الاحزاب:56)علامہ احمد سخاوی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں : نبی کریم پر درود پڑھنے کا مقصد اللہ پاک
کے حکم کی پیروی کر کے اس کا قرب حاصل کرنا اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حق ادا کرنا ہے ۔ (القول البدیع ، ص
83)
محمد اویس عطّاری (درجہ ثانیہ جامعۃ المدینہ فیضان
عطار سخی حسن کراچی پاکستان)
پیارے اسلامی بھائیوں! اللہ کریم نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس دنیا
میں مبعوث فرما کر احسانِ عظیم کیا ہے ان کے ذریعے سے ایمان ملا ۔آپ کے بے شمار
حقوق ہیں جن میں سے چند بیان کئے جاتے ہیں:۔(1) ایمان و اتباع: نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نبوت و
رسالت پر ایمان لانا فرض ہے۔ آپ جو کچھ الله پاک کی طرف سے لائے ہیں اُس کی تصدیق
فرض ہے۔ ایمان بالرسول کے بغیر
کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا۔ ارشاد باری ہے : وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ
الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-وَ اتَّقُوا
اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِۘ(۷) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع
فرمائیں باز رہو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔(پ28،الحشر:7) حضورِ اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت واجب ہے، آپ کے احکامات کی تکمیل اور وہ چیزیں
جو آپ نے منع فرمائی ہیں اُن سے بچنا ضروری ہے۔
(2) محبت و عشق: رسولُ الله صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت واجب ہے۔ جنانچہ الله پاک ارشاد فرماتا ہے : قُلْ اِنْ كَانَ
اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ
عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ
كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ
رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ
بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) ترجمۂ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے
اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور
وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس
کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں
تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا ۔(پ10،التوبہ : 24)اس آیت
سے ثابت ہے کہ ہر مسلمان پر اللہ پاک اور اس کے رسول کی محبت واجب ہے کیونکہ اس
میں بتا دیا گیا کہ تمہیں اللہ پاک اور اس کے رسول کی محبت کا دعویٰ ہے اس لئے کہ
تم ایمان لائے ہو پس اگر تم غیر کی محبت کو اللہ اور رسول کی محبت پر ترجیح دیتے
ہو تو تم اپنے دعوی میں صادق نہیں ہو اور اگر تم اس طرح محبت غیر سے اپنے دعوے کی تکذیب
کرتے رہو گے تو خدا کے قہر سے ڈرو۔
(3) تعظیم و توقیر: ارشاد باری ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ
نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ
وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹)ترجَمۂ
کنزُالایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا
تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو
اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو ۔( پ 26، الفتح : 9،8) اس آیت میں اللہ پاک نے
نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی تعظیم و توقیر واجب کی ہے۔ ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری ہے: ترجمۂ کنزالایمان:
بے شک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔(
پ26،الحجرات:5) ایک دفعہ بعض لوگوں نے آپ کو حجروں کے باہر سے یا محمد کہہ کر
پکارا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (جامع اسباب النزول) اس میں بتایا گیا کہ اس طرح پکارنا
بے ادبی ہے ایسی جرات وہ لوگ کرتے ہیں جن کو عقل نہیں۔
(4) درود شریف پڑھنا:
اللہ پاک فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر
درود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ (پ22،الاحزاب:56)اس آیت میں
اللہ پاک فرماتا ہے میں اور میرے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے رہتے ہیں۔ اے مؤمنوں
تم بھی اس وظیفے میں میری اور میرے فرشتوں کی پیروی
کرو۔ یہاں وظیفے میں وہ مراد نہیں جو عوام میں مشہور ہے بلکہ یہاں وظیفے سے مراد
کام ہے۔(5) زیارتِ قبرِ مبارک:
حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے روضے کی زیارت بالاجماع سنت اور فضیلتِ عظمیٰ ہے۔ اس بارے میں
بہت سی احادیث آئی ہیں۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں:۔ حدیث (1) جس نے میری قبر کی
زیارت کی اُس کے لئے میری شفاعت ثابت ہوگی۔( سنن دارقطنی، کتاب الج)حدیث (2) جو
میری زیارت کے لئے اس طرح آیا کہ میری زیارت کے علاوہ کوئی اور چیز اس کو نہ لائی
تو مجھ پر حق ہے کہ قیامت کے دن میں اُس کا شفیع ہوں گا۔ (معجم الاوسط للطبرانی)
اس لئے ہمیں چاہیے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے روضے کی زیارت کے لئے بے چین رہیں۔
اریب بن یامین (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
کنزالایمان کراچی پاکستان)
حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جنہوں نے انسان کو
انسان بنایا، بچیوں کو زندہ درگور کرنے والوں کو ان سے محبت کرنا سکھایا ، بڑوں کے
ادب و احترام کی تاکید کی، چھوٹوں پر شفقت کرنا سکھایا، بیواؤں، ضعیفوں اور کمزوروں
کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی تعلیم دی اور مخلوں سے خالق کا تعارف کرایا۔ آج ہم اپنے
نبی کے حقوق کو بھولے ہوئے ہیں۔ انہیں حقوق میں سے 5 حقوق درج ذیل ہیں:۔(1) رسولُ اللہ پر ایمان
لانا: ایمان کے بنیادی ارکان میں رسولُ اللہ پر ایمان لانا بھی داخل ہے۔ اگر کوئی
اللہ پر ایمان لانے کا دعویٰ کرے اور رسول پر ایمان کا انکار کرے تو وہ مؤمن نہیں
۔ ارشاد باری ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا
اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول
پر۔ (پ 5، النسآء: 136)(2) نبی کی اطاعت کرنا:
کیونکہ رسولُ اللہ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ اللہ نے
ارشاد فرمایا : مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-وَ مَنْ تَوَلّٰى فَمَاۤ
اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ حَفِیْظًاؕ(۸۰) ترجمۂ
کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔(النساء:80)
اطاعت کیا ہے ؟ ارشادِ الہی ہے : وَ
مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور رسول جو کچھ تمہیں عطا فرمائیں وہ
لے لو اور جس سے منع فرمائیں (اس سے) باز رہو اور ۔(پ28،الحشر:7)
(3) نبی سے محبت کرنا: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت جزء ایمان ہے۔
محّمد کی محبت دین حق کی شرط
اول ہے
اس میں اگر خامی توسب کچھ
نامکمل ہے
حضرت سَیِّدُنا انس رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نورکے پیکر، تمام نبیوں کے سرور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے
باپ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ۔ (مراۃ المناجیح)
(4) رسولُ اللہ کے صحابہ اور اہلِ بیت محبت: حضور سے محبت کا تقاضا
یہ ہے کہ انکے اصحاب اور اہلِ بیت سے محبت کی جائے۔حضرت عبداللہ بن مغفل سے روایت
ہے کہ حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: جس نے ان (صحابہ) سے محبت کی،
تو میری محبت کی وجہ سے محبت کی۔ اور جس نے ان سے بغض رکھا، اس نے میرے بغض کی وجہ
سے بغض رکھا۔ (مراۃ المناجیح) حضر ت ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:ا ور
میری محبت (پانے) لئے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو ۔ ( فیضانِ اہل بیت، ص 23) اللہ ہمیں
گستاخ صحابہ اور اہلِ بیت سے پناہ عطا فرمائے۔
(5) خاتم النبیین ماننا: ارشاد باری ہے۔ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ
لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕترجَمۂ کنزُالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول
ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے۔(پ22،الاحزاب:40)جو حضور کو خاتم النبیین نہیں مانے وہ
بھی کافر ہے اور جو نبوت کا دعوی کرے وہ بھی کافر ہے۔ اللہ ہمیں ایسے لوگوں سے
پناہ عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد طلحٰہ خان عطّاری (درجہ رابعہ جامعۃُ
المدینہ فیضان خلفائے راشدین بحریہ ٹاؤن پاکستان)
حضور سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی امت
سے بے پناہ محبت فرماتے تھے اور پیدائش سے لے کر ظاہری وفات تک ہر لمحہ اپنی امت
کی یاد و فکر میں رہتے، یہاں تک کہ اپنی امت کی خاطر رو رو کر دعائیں فرماتے۔ وہ
امتی جو ابھی پیدا بھی نہ ہوا لیکن اس کے رؤوف و الرحیم آقا صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم اس کی بخشش و مفغرت اور بلا حساب جنت میں داخلے کے لئے روتے رہے تو
پھر اس امتی پر کتنا زیادہ لازم ہوگا کہ وہ بھی دل و جان سے اپنے آقا و مولا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت کرے اور محبت بھی ایسی ہو کہ جس میں صرف نعرے و
دعوے ہی نہ ہوں بلکہ محبوب کے ہر ہر حق کو بھر پور انداز سے ادا کیا جائے، اگرچہ
کما حقہ ادا کرنا ممکن نہیں لیکن دل و جان سے کوشش تو کی جا سکتی ہے۔ مسلمانوں پر رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جو حقوق لازم ہیں ان کا ذکر کیا جائے تو
انکی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن بنیادی حقوق میں سے 5 حقوق پیش کیے جاتے ہیں:(1) اطاعتِ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : مسلمان پر رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
سب سے بنیادی حق حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا
ہے۔ اس کا حکم قراٰن مجید میں بھی بیشتر مقامات پر موجود ہے جیسا کہ : یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کیا کرو۔
(پ9، الانفال:20) اسی لیے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہر حکم پر سر
تسلیم خم کرنا اور دل و جن سے عمل پیرا ہونا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا حقِ عظیم ہے۔
(2) محبتِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : کائنات کی ہر
شے سے بڑھ حضور سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت کرنا ہر
مسلمان پر لازم ہے، کہ خود سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے
ہیں: تم میں کوئی ایک بھی (کامل) ایمان والا نہیں جب تک میں اس کے والدین اور اولاد
اور تمام لوگوں سے بڑھ کر اس کے لیے محبوب نہ ہو جاؤں۔ (صحیح البخاری، کتاب
الایمان، الحدیث: 15) اب ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سے اظہارِ محبت کرتے ہوئے سنتِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو
اپناتے ہیں یا دنیا اور دنیا والوں کی خاطر ترک کرتے ہیں۔(3) ادبِ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم : کسی کا خوب قول ہے کہ ” ادب پہلا قرینہ(نشانی) ہے محبت کے قرینوں میں“۔
ظاہر ہے کہ محِب کی محبت کا سچا ہونا ادبِ محبوب سے معلوم ہوتا ہے کہ جتنی زیادہ
محبت ہوگی تو محب کے دل اور عمل میں محبوب کے لیے ادب بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔
اور محبوب بھی جب محبوب خدا ہو تو مؤمن کے دل میں کائنات کے ہر فرد سے بڑھ کر
ادبِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہونا لازم ہے۔ قراٰن مجید میں ربِّ کریم
نے بھی جگہ با جگہ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اداب کے روشن اصول بیان
فرمائے ہیں ۔مثلاً سورۃُ الفتح کی آیت 8,9 ، سورة الاعراف کی آیت 157، سورة
الحجرات کی آیت 1,2,3,5، سورة النور کی آیت 63، سورة الانفال کی آیت 24 وغیرہ، ان
سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بھی موقع پر کسی بھی طرح کی بے ادبی شدید نقصان کا باعث ہو
سکتی ہے۔
(4) آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر جھوٹ بولنے سے بچنا:
جھوٹ ایسا بد ترین گناہ ہے، جس کے بارے میں خود رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم فرماتے ہیں کہ،”جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ ایمان سے مخالف ہے۔
( المسند امام احمد بن حنبل، حدیث:16) ایک ہے صرف جھوٹ بولنا اور ایک ہے
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ با برکت کے متعلق جھوٹ بولنا،
جس میں سرِ فہرست منگھڑت حدیث بیان کرنا ہے اور اس کے متعلق رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ : جو مجھ پر ایسی بات کا الزام لگائے جو میں نے
نہ کہی ہو، تو اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔(مشکوٰةالمصابیح، حدیث:
5940)(5) درود و سلام
بھیجنا : حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اپنی امت پر بے شمار احسانات ہیں
اور ان احسانات کا بدلہ چکانا ہر امتی پر لازم ہے۔ اگرچہ کوئی بھی شخص ان احسانات
کا بدلہ تو نہیں چکا سکتا لیکن کوشش تو کر سکتا ہے، اور اس کے لیے سب سے بہترین
تحفہ کثرت سے درود و سلام تو پڑھنا ہے اور اس کا حکم تو خود ربِّ کریم نے دیا: اِنَّ اللّٰهَ وَ
مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)ترجَمۂ کنز
الایمان : بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر
اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو (پ22،الاحزاب:56) رب خود بھی اپنے محبوب پر
درود (بطور رحمت) بھیجتا ہے اور حکم بھی ارشاد فرمایا۔
اللہ پاک ہمیں اپنی اور اپنے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی اتباع و فرمانبرداری والی زندگی گزارنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمین بجاہ
النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ذوالقرنین احمد عطّاری (درجہ دورۂ حدیث مرکزی جامعۃُ
المدینہ فیضان مدینہ فیصل آباد پاکستان)
ہمارا وجود سرکار علیہ الصلاۃ و السّلام کے صدقے سے ہے اگر
آپ نہ ہوتے تو کائنات میں کسی چیز کا وجود نہ ہوتا اور نہ ہی اللہ پاک کی رحمتوں
کا نزول ہوتا اور نہ ہی ہمیں اللہ پاک کا یہ عرفان ملتا۔ رحیم و کریم رسول صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احسانات ہم پر بے شمار ہیں جو گنے نہیں جاسکتے اور ان
کے کچھ تقاضے بھی ہیں جنہیں " امت پر حقوق مصطفی" کا نام دیا جاتا ہے۔
(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان: پہلا
حق یہ ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نبوت اور رسالت پر ایمان رکھا
جائے اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں اسے دل سے تسلیم کیا جائے۔ صرف
مسلمانوں پر نہیں بلکہ تمام لوگوں پر لازم ہے کیونکہ آپ کی رحمت تمام جہانوں کے
لئے ہے اور آپ کا احسان تمام انسانوں بلکہ تمام مخلوقات پر ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانا فرض ہے۔ جو یہ ایمان نہ رکھے وہ مسلمان نہیں اگرچہ وہ
دیگر تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام پر ایمان رکھتا ہو ۔ ارشادِ باری ہے: وَ مَنْ لَّمْ
یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ
سَعِیْرًا(۱۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو ایمان نہ
لائے اللہ اور اس کے رسول پر تو بےشک ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی آ گ تیار کر رکھی
ہے۔( پ26 ، الفتح : 13) (عشق رسول مع امتی پر حقوق مصطفی، ص 65/66)
(2) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیروی: نبی
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ مبارکہ اور سنتوں کی پیروی کرنا ہر
مسلمان کے دین و ایمان کا تقاضا اور حکم خداوندی ہے۔ ارشاد باری ہے : قُلْ اِنْ كُنْتُمْ
تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ
ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) ترجمۂ کنزالایمان : اے
محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہو جاؤ
اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ3،آل
عمرٰن:31)اور حضور نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک
کہ اس کی خواہش میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ ہو جائیں۔ (شرح السنہ للبغوی، 1/
98)
(3) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سچی محبت : امتی
پر حق ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا و مولا سید المرسلین صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سچی محبت کرے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت
روحِ ایمان، جانِ ایمان اور اصلِ ایمان ہے۔(ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر 2017 ،ص 5)(4) رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم و توقیر: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حقوق
میں سے ایک اہم حق آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی تعظیم و توقیر کرنا ہے کہ قراٰنِ پاک
کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ پاک نے ایمان باللہ و ایمان
بالرسول کے بعد پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم کا حکم دیا ہے۔ارشاد
باری ہے: لِّتُؤْمِنُوْا
بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ
بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: تاکہ اے لوگو تم
اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام
اللہ کی پاکی بولو ۔( پ 26، الفتح : 9) (5) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت : رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حق یہ بھی ہے کہ آپ کا ہر حکم مان کر اس کے
مطابق عمل کیا جائے جس بات کا حکم دیں اسے بجا لائیں جس چیز کا فیصلہ فرمائیں اسے
قبول کیا جائے اور جس چیز سے منع کریں اس سے رکا جائے۔(ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر
2017 ،ص 5)