17نومبر 2020ء کو دعوت اسلامی کے زیر اہتمام ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ سینٹر S.K.Tمیں میلاد اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں ادارے کے ذمہ داران سمیت دیگر اسٹاف نے شرکت کی۔

مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن حاجی محمد اظہر عطاری نے سنتوں بھرا بیان کیا اور شرکا کو سنتِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارنے کی ترغیب دلائی۔


دعوت اسلامی کے زیر اہتمام 18 نومبر 2020ء کو اسپائر کالج وزیر آباد میں عظیم الشان اجتماع میلاد کا انعقاد کیا گیا جس میں کالج کے اسٹوڈنٹس، پروفیسرز اور ٹیچرز نے شرکت کی۔

نگران مجلس پروفیشنلز محمد ثوبان عطاری نے سنتوں بھرا بیان کیا اور شرکا کو سیرت رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپناتے ہوئے اپنی زندگی گزارنے کی ترغیب دلائی۔


نیکی کی دعوت کو عام کرنے اور عاشقان رسول کو  علمِ دین سےراستہ کرنے کے لئے دعوت اسلامی کے زیر اہتمام وقتاً فوقتاً ملک و بیرون ملک مدنی قافلے سفر کرتے رہتے ہیں۔

اسی سلسلے میں مجلس تاجران کے تحت تین دن کے مدنی قافلے 27، 28، 29 نومبر 2020ء کو پشاور سے جوہر ٹاؤن لاہور سفر کرینگے۔

مدنی قافلے میں سفر کرنے کے خواہش مند اسلامی بھائی ان نمبرز پر رابطہ کریں:

03169011841-03009361220-03219037223


دعوت اسلامی کے زیر اہتمام بیرون ملک میں اجتماع میلاد کا سلسلہ جاری ہے۔

تفصیلات کے مطابق ناگورو یوگنڈا میں پاکستان ایسوسی ایشن کے چیئرمین کی رہائش گاہ پر محفل میلاد کا اہتمام ہوا جس میں عاشقان رسول نے شرکت کی۔نگران سینٹرل افریقہ نے سنتوں بھرا بیان کیا۔

اسی طرح یوگنڈا کے شہرا روا (Arua)، ساؤتھ کوریا اور ساؤتھ افریقہ کے مختلف مقامات پر محفل میلاد کا انعقاد کیا گیا جس میں مقامی عاشقان رسول بھی شریک ہوئے۔

محفل میلاد میں مبلغین دعوت اسلامی نے سنتوں بھرے بیانات کئے۔


آج بروز بدھ مورخہ 18نومبر2020ء شام 6:15بجے دارالافتاء اہل سنت کے مفتی جمیل عطاری مدنی صاحب مدنی چینل کے آفیشل FacebookپرLive ہونگے جس میں عاشقان رسول اپنے سوالات کے ذریعے شرعی مسائل کا حل جان سکیں گے ۔

اس سلسلے میں شرکت کرنےکے لئے اس لنک پر کلک کیجئے:

https://www.facebook.com/MadaniChannelOfficial


ہمارے معاشرے میں نااتفاقی اور مَحبت و اُلفت کی کمی کی ایک بہت بڑی وجہ صِلَہ رِحْمی کی کمی ہے۔ صِلَہ رِحْم کے معنیٰ رِشتے کو جوڑنا ہے یعنی رِشتے والوں کے ساتھ نیکی اور سُلوک کرنا۔ (احترام مسلم؛ص8)

صِلَہ رِحْمی کا ذہن بنانے اور صِلَہ رِحْمی کو بڑھانے کے سات (7) طریقے:

1)صِلَہ رِحْمی کے فوائد کو پیش نظر رکھیے۔ صِلَہ رِحْمی کے فوائد پر احادیث میں سے تین (3) یہ ہیں۔

۱۔جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ صِلَہ رِحْمی کرے.

۲۔قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سائے میں تین قسم کے لوگ ہوں گے،(ان میں سے ایک ہے)صِلَہ رِحْمی کرنے والا۔

۳۔بے شک افضل ترین صدقہ وہ ہے جو دشمنی چُھپانے والے رشتےدار پر کیا جائے۔ (احترام مسلم؛ص32)

2) مسلمانوں سے ہمدردی کے فوائد کو پیش نظر رکھیے! چنانچہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا:”جو کسی غمزدہ شخص سے غمخواری کرے گا اللہ اسے تقوی کا لباس پہنائے گا اور روحوں کے درمیان اس کی روح پر رحمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے غمخواری کرے گا اللہ اسے جنت کے جوڑوں میں سے دو ایسے جوڑے عطا کرے گا جن کی قیمت دنیا بھی نہیں ہوسکتی۔(نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،ص:235)

3) حسن اخلاق کو پیش نظر رکھئے کہ نبی کریم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:”میزانِ عمل میں حسن اَخلاق سے وزنی کوئی اور عمل نہیں۔“

4) اِحترامِ مُسْلِم کو پیش نظر رکھیے۔ اس کی ترغیب دلاتے ہوئے حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:” جو ہمارے بڑوں کی عزت، ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور عُلماء کا حق نہ پہچانے (یعنی ان کا احترام نہ کرے) وہ میری امت میں سے نہیں۔ (حسن اخلاق,ص:68,69)

5) مسلمانوں سے مَحبت کے فضائل پر غور کیجیے چنانچہ آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:”میانہ روی سے خرچ کرنا نصف معیشت، لوگوں سے مَحبت کرنا نصف عقل اور اچھا سوال کرنا آدھا علم ہے۔“ (حسن اخلاق,ص:66)

6) مسلمانوں سے کینہ رکھنے کی وعیدوں پر غور کیجیے۔ کینہ کے نقصانات بیان کرتے ہوئے آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:”بے شک چغل خوری اور کینہ پَرْوَری جہنم میں ہیں، یہ دونوں کسی مسلمان کے دل میں جمع نہیں ہو سکتے۔“ (بغض و کینہ،ص:8)

7)حُقُوقُ العِباد ادا کرنے کا ذہن بنائیے۔ حُقُوقُ العِباد کی فضیلت کے بارے میں آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:” جس نے اپنی زبان سے کوئی حق پورا کیا تو اس کا اجر بڑھتا رہے گا حتی کہ قیامت کے دن اللہ اسے اس کا پورا پورا ثواب عطا فرمائے گا۔“ (حسن اخلاق،ص:41)

صِلَہ رِحْمی سے نہ صرف گھر کو امن کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے بلکہ کئی معاشرتی خرابیوں کو بھی دور کرنا ممکن ہے۔ مضبوط قوت ارادی، مدنی ماحول، مدنی انعامات اور دعا، صِلَہ رِحْمی پیدا کرنے اور اس کو بڑھانے میں بہت معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں صِلَہ رِحْمی اور اس جیسی کئی عمدہ صفات پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


اسلامی احکام میں سے ایک اہم فریضہ صلہ رحمی ہے اللّٰہ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور نیک سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے کہ : وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙﰳ (۳۶)تَرجَمۂ کنز الایمان:اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے بے شک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا بڑائی مارنے والا ۔(النساء 36)
اس آیت کے جز (وَّ بِذِی الْقُرْبٰى ) کی تفسیر میں مفسرین نے یہ فرمایا ہے کہ ان سے حسن سلوک یہ ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے اور قطع تعلقی سے بچے۔(صراط الجنان)

رشتے داروں کے ساتھ صِلہ رحمی اور حسنِ سلوک کرنے کی بڑی فضیلت ہے،اس سے متعلق 3اَحادیث درج ذیل ہیں :

(1)حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ فرماتے ہیں،ایک شخص نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ میں حاضر ہو کر عرض کی : یارسولَ اللّٰہ!صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے ایسے عمل کے بارے میں بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے۔ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور ا س کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔

(صراط الجنان جلد 5 صفحہ 370 ، بخاری، کتاب الزکاۃ، باب وجوب الزکوة الحدیث: 1396 )

(2)حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللّٰہ تعالیارشاد فرماتا ہے ’’میں اللّٰہ ہوں اور میں رحمٰن ہوں ، رحم (یعنی رشتے داری) کو میں نے پیدا کیا اور اس کا نام میں نے اپنے نام سے مُشْتَق کیا، لہٰذا جو اسے ملائے گا، میں اسے ملاؤں گا اور جو اسے کاٹے گا، میں اسے کاٹوں گا۔

( صراط الجنان جلد 5 صفحہ،371 ، ترمذی، کتاب البرّ والصلۃ، باب ماجاءفی قطعۃالرحم الحدیث: 1914 )

(3)…حضرت عاصم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا ’’جس کو یہ پسند ہو کہ عمر میں درازی ہو اور رزق میں وسعت ہو اور بری موت دفع ہو وہ اللّٰہ تعالی سے ڈرتا رہے اور رشتہ والوں سے سلوک کرے۔

(صراط الجنان جلد 5 صفحہ،371 ، مستدرک، کتاب البرّ والصلۃ، الحدیث: 7262)

اور اس فریضہ کی ادائیگی میں عورت کا کردار انتہائی اہم ہے ۔

ویسے تو عورت ہر روپ میں رہ کر صلہ رحمی کے ذریعے نااتفاقیوں، ناچاقیوں، قطع تعلقیوں اور لڑائیوں کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے مگر وہ عورت جو ماں کے روپ میں وہ اس کام کو باحسن طریقے سے سرانجام دے سکتی ہے۔

ایک ماں اپنی اولاد کی صلہ رحمی کے حوالے سے بہترین تربیت کے ذریعے کئی خاندانوں میں خوشیوں کے پھول نچھاور کر سکتی ہے۔

ماں اگر اپنے بیٹے کو صلہ رحمی کی تعلیم دے تو اس سے میاں بیوی کے آپس کے معاملات میں اتفاق پیدا ہو گا۔

ماں اگر اپنی بیٹی کو صلہ رحمی کی تعلیم دے تو اس سے بیٹی اپنے گھر میں خوشیوں کاسامان لا سکتی ہے اور سسرال کے نہ ختم ہونے والے جھگڑے بھی بیٹی کی بہترین تربیت سے ختم ہو جائیں گئے۔

ماں اگر بہو کے ساتھ صلہ رحمی اور حسن سلوک کا معاملہ کرے تو گھر خوشیوں کا گہوارہ بن جائے گا ۔

ماں اگر ابو کے رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرے تو ہر طرف خوشیوں کی بہار آ جائے گی۔

یااللہ ہمیں آپس میں مل جل کر رہنے اور صلہ رحمی کرنے کی توفیق عطا فرما. اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


فرد سے افراد اور افراد سے معاشرہ بنتا ہے معاشرے میں زندگی گزارتے ہوئے ہمارا مختلف لوگوں مثلًا والدین، بہن بھائی، اولاد رشتے دار پڑوسی دوست احباب اور دیگر لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ہمارے پیارے دین اسلام نے ہر ایک کے حقوق تفصیل کے ساتھ بیان فرمائے ہیں۔ ان میں سے ایک حق جو سب کے مابین مشترک ہے اور جس کی بڑی اہمیت ہے وہ ہے صلہ رحمی ۔

صلہ رحمی کا معنی ہے رشتے داروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرنا یہ بہت بڑی نیکی اور بڑے ثواب کا کام ہے بدقسمتی کے ساتھ ہمارے معاشرے سے صلہ رحمی کا خاتمہ ہوتا چلا جا رہا ہے اس گناہ میں زیادہ خواتین مبتلا ہوتی ہیں اس کے نظارے عام طور پر گھروں اور خاندانوں میں واضح طور پر نظر آتے ہیں جیسے ساس اور بہو، نند اور بھابھی، دیورانی اور جٹھانی کی لڑائی، اسی طرح بہن اور بھائیوں کی لڑائی وغیرہ وغیرہ۔

صلہ رحمی کو کیسے بڑھایا جائے ؟

اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: الدین النصحیة دین خیرخواہی کا نام ہے جب ہم ہر ایک کے ساتھ خیر خواہی اور بھلائی چاہنے والے ہوں گے اینٹ کا جواب پھول سے تلخ جملوں کا جواب مسکراہٹ سے گالی کا جواب دعا سے دینے والے ہوں گے تو ان شاءاللہ ہمارے معاشرے سے قطع تعلقی کا خاتمہ اور صلہ رحمی عام ہو گی

2۔ ہم خود بھی علم دین سیکھیں اور گھر کی خواتین کو بھی سکھانے کا خاص اہتمام کریں شریعتِ مصطفی نے رشتے داروں کے جو حقوق بیان کیے ہیں ان کو سیکھیں پھر ان کو ادا کرنے کی کوشش کریں تو معاشرہ امن و سلامتی اور پیار و محبت کا گہوارہ بن جائے گا ۔

3۔ اس حدیث پاک پر عمل کر لیں تو ظلم و زیادتی قطع تعلقی اور بہت ساری برائیوں سے جان چھڑا کر صلہ رحمی کے عادی بن سکتے ہیں خاتم المرسلین رحمة اللعالمين صلّى الله عليه وسلم نے فرمایا: صل من قطعك وعف عمن ظلمك و احسن إلى من اساء الیک ۔ یعنی اس سے تعلق جوڑو جو تم سے توڑے اسے معاف کر دو جو تم پر ظلم کرے اس کے ساتھ اچھائی کرو جو تمھارے ساتھ برائی کرے ۔

بدقسمتی کے ساتھ ہم اس کے الٹ چلتے ہیں اس حدیث مبارکہ کو اپنے دل کے مدنی گلدستے میں سجا کر اس کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا جائے تو ہمارا معاشرہ پیار محبت عزت اخوت سلامتی اور صلہ رحمی بھرا بن جائے گا۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


دور حاضر میں جہاں بہت سارے مسائل نے اپنا ڈیرہ جمایا ہوا ہے وہاں ایک بڑا مسئلہ صلہ رحمی کی کمی بھی ہے، جو بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ صلہ رحمی کی کمی کو دور کرنے میں خواتین ایک اچھا کردار ادا کر سکتی ہیں اور یہ مسئلہ آسانی سے ختم ہو سکتا ہے۔

صلہ رحمی کو پہلے سمجھیں:

صلہ رحم کے معنی رشتے کو جوڑنا ہے یعنی رشتے والوں کے ساتھ نیکی اور اچھا سلوک کرنا۔ ساری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ صلہ رحمی واجب ہے اور قطع رحمی یعنی (رشتہ توڑنا) حرام ہے۔

تمام رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے۔ حضرت سیدنا عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جس کو یہ پسند ہو کہ عمر میں درازی, رزق میں فراخی ہو اور بری موت دفع ہو، وہ اللہ تعالی سے ڈرتا رہے اور رشتے داروں سے اچھا سلوک کرے۔

ہمارے پیارے اور آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا. (احترام مسلم، صفحہ 8)

خواتین صلہ رحمی بڑھانے میں ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔

خواتین کو چاہیے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں اور ذرا ذرا سی باتوں پر جھگڑے کے بجائے درگزر سے کام لیں۔ خوش اخلاق ماں ہوگی تو بیٹی بھی آگے اپنے گھر کو خوش اخلاقی کے ساتھ چلائے گی ۔

ساس اور بہو کے درمیان نااتفاقی اور الفت کی کمی کافی مشہور ہے۔ کوئی تو ہو جو اپنے سسرال والوں کو اپنے گھر والوں کی طرح سمجھے۔ ساس اور بہو دونوں کو مل کر اس نااتفاقی کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

ساس اور بہو کے درمیان کوئی غلط فہمی ہو تو اس کو دور کریں اور مسائل کا حل باہمی طور پر تلاش کریں۔ اپنے درمیان اختلافات کے اسباب پر غور کریں اور ان کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ ساس اور نند بہو پر شفقت کریں اور بہو اپنی ساس اور نند کا احترام کرے ۔ ساس بہو کو اپنی بیٹی اور بہو ساس کو اپنی ماں جب تک نہیں سمجھے گی تب تک مسئلہ حل ہونا مشکل ہے۔

ساس اپنی بہو کی رائے کو اہمیت دے اور بہو ساس سے ضروری کاموں میں رائے طلب کرے۔ اس طرح گھر کا ماحول خوشگوار ہوگا کہ جب کسی کو اہمیت دی جاتی ہے تو اس کے دل میں اہمیت دینے والے کے لئے ایک مقام پیدا ہو جاتا ہے۔

ساس اور بہو دونوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کی کمزوریاں گھر کے باہر کسی کے سامنے بیان نہ کرے۔ شریعت ہمیں اس چیز کی اجازت نہیں دیتی۔

دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ رہیں گھر میں مدنی ماحول بنا کر رکھیں، ان شاءاللہ عزوجل نااتفاقی دور ہوگی، آپس میں محبت بڑھے گی اور صلہ رحمی کرنے کا جذبہ ملے گا۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


اللہ پاک کا ارشاد ہے کہ : وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَؕ- تَرجَمۂ کنز الایمان: اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو۔(سورة النساء1)

اللہ پاک نے ضرف رشتہ داروں ہی کے ساتھ نہیں بلکہ ہمارے پڑوسیوں، یتیموں وغیرہ کے ساتھ بھی صلہ رحمی کا حکم فرمایا ہے، ہمارے معاشرے میں نااتفاقیوں اور محبت و الفت میں کمی کی ایک بہت بڑی وجہ صلہ رحمی ( یعنی رشتہ داروں کے ساتھ حسن ِ سلوک) کی کمی ہے، خواتین کا گھر میں ایک اہم کردار ہوتا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مکان کو گھر میں ایک خاتون ہی تبدیل کرتی ہے اس معاشرے کی نااتفاقی کو دور کرنے اور صلہ رحمی کو فروغ دینے میں ایک خاتون اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

عورت بحثیت ماں:

سب سے بنیادی حیثیت ایک اولاد کی پرورش میں ماں کی ہی ہوتی ہے بے شک یہ بات کھری ہے کہ ماں کی گود بچوں کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے، اگر ماں اپنی اولاد کو قولی اور عملی طور پر صلہ رحمی کا درس دے گی تو ان شا اللہ عزوجل بچوں میں بھی صلہ رحمی کا جذبہ بڑھے گا مگر اس میں ماں کو چاہیے کہ وہ دیگر رشتے داروں سے بھی حسن سلوک سے پیش آئے اور ساتھ ہی گھر کا ماحول بھی خوشگوار بنایاجائے۔

عورت بحیثیت بہن:

بہن بھی گھرمیں اور گھر کے ماحول کو اچھا کرنے اور صلہ رحمی کے فروغ کے لیے ایک اچھا کردار ادا کرتی ہے، بہن کو چاہئے کہ اپنی و الدہ اور والد ،بھائی وغیرہ کے ساتھ حسنِ سلوک کرے اگر بہن حسنِ سلوک سے پیش آئے گی تو گھر والے متاثر ہو کر حسنِ سلوک سے پیش آئیں گے۔

عورت بحیثیت نند:

نند اگر اپنی بھابھی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گی تو بھائی اور بھابھی بھی دونوں ہی بلکہ باقی گھر والے بھی پُر امن اور خوش رہیں گے بلکہ وہ بھی ان کا خیال رکھنے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں گے ۔

آخرمیں دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں صلہ رحمی کرنے والوں میں سے بنائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صِلَہ ٔرِحمی(رشتے داروں  کے ساتھ اچھا سُلوک ) اِسی کا نام نہیں کہ وہ سلوک کرے تو تم بھی کرو یہ چیز تو حقیقت میں اَدلا بدلا کرنا ہےکہ اُس نے تمہارے پاس چیز بھیج دی تم نے اُس کے پاس بھیج دی، وہ تمہارے یہاں آیا تم اُس کے پاس چلے گئے حقیقتاً صِلَۂ رِحم یعنی کامِل دَرَجے کا رشتے داروں سے حسنِ سلوک یہ ہے کہ وہ کاٹے اور تم جوڑو وہ تم سے جدا ہونا چاہتا ہے اور تم اُس کے ساتھ رشتے کے حقوق کا لحاظ کرو۔(رَدُّالْمُحتارج۹ص۶۷۸)

حضورصَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم َکا فرمانِ ہے: جسے یہ پسند ہوکہ اُس کے لیےجنت میں محل بنایا جائے اوراُس کے دَرَجات بلند کیے جائیں اُسے چاہیے کہ جو اُس پرظلم کرے یہ اُسے معاف کرے اورجو اُسے محروم کرے یہ اُسے عطا کرے اورجو اُس سے قطعِ تعلُّق کرے یہ اُس سے تعلُّق جوڑے۔(اَلْمُستَدرَک لِلْحاکِم ج۳ ص۱۲حدیث ۳۲۱۵)

حضرتِ سیِّدُنا فقیہ ابواللَّیث سمرقندی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ القَوِیفرماتے ہیں : صِلَۂ رِحْمی کرنے کے چند فائدے ہیں :٭ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رِضا حاصل ہوتی ہے ٭لوگوں کی خوشی کا سبب ہے ٭فرشتوں کو مَسَرّت ہو تی ہے ٭مسلمانوں کی طرف سے اس شخص کی تعریف ہوتی ہے٭ شیطان کو اس سے رَنج پہنچتا ہے٭عمربڑھتی ہے٭ رِزْق میں برکت ہو تی ہے٭فوت ہوجانے والے آباءو اجداد(یعنی مسلمان باپ دادا) خوش ہوتے ہیں ٭آپس میں مَحَبَّت بڑھتی ہے۔(تَنبیہُ الغافِلین ،ص۷۳)

ساس، جیٹھانی، بھابھی ، نند یہ ایسے رشتے ہیں جو صدیوں سے لڑائی، جھگڑے میں اول سمجھے جاتےہیں ہم بات کریں گے نند کی جسے لوگ بھابھی کی حاسد سمجھتےہیں اکثر لوگ نند کے بارے میں اسطرح کےجملے کہتے نظر آتے ہیں جیسے ، نند کا بس چلے تو بھابھی کو سانس لینے پر بھی پابندی لگا دیں ، بھابھی کو تنگ کر کے نند کودلی سکون ملتا ہے وغیرہ۔

لیکن اب وقت کے ساتھ ساتھ ان رشتوں میں بھی مثبت تبدیلیا ں آنی چایئے نند اپنی بھابھی کی بہن اور دوست بھی بن سکتی ہے بس ہمیں اپنی سوچ کو منفی خیالات سے پاک رکھنےکی ضرورت ہے۔

اسی طرح کسی بھی رشتے میں مٹھاس اس وقت ہی آتی ہے جب دونوں جانب سے برابر مقدار میں خلوص شامل کیا جائے یعنی اگر نند اپنی بھابھی کے لیے پیار کا جذبہ رکھتی ہے تو دوسری طرف بھابھی کو بھی چاہیے اپنی نند کے ساتھ مخلص رہے تو ہی یہ رشتہ مضبوط ہوتاہےاگرسسرال میں لڑکی اپنی نند کے سب سے قریب ہوجائےتواخلاص سے بھر پورنئے رشتے کے ساتھ ساتھ گھر کا ماحول بھی خوش گوار ہوگا۔

اگر آپ کی نند چھوٹی ہے تو اس کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں اس کی چھوٹی چھوٹی جائز خواہشات کا احترام کریں اور اگر آپ کی نند بڑی ہیں تو ان کو وہی عزت دیں جو آپ اپنی ماں یا بڑی بہن کو دیتی ہیں ہر رشتے کی طرح یہ رشتہ بھی پیار کا طلبگار ہوتا ہے کیونکہ نندیں بہنوں کا روپ ہوتی ہیں۔

رِضائے الٰہی کے لیے رشتے داروں کے ساتھ صِلۂ رِحمی اور ان کی بدسلوکی پر انہیں در گزر کرنا ایک عظیم اَخلاقی خوبی ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّکے یہاں اس کا بڑا ثواب ہے ۔ (ہاتھوں ہاتھ پھوبھی سے صلح کر لی ص5)

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم : نیت المؤمن خیر من عملہیعنی مسلمان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔

اپنے عنوان کا آغاز کرنے سے پہلے نیتیں کررہی ہوں کہ جو کچھ بھی لکھوگی صرف اور صرف اللہ او راس کے یپارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے لکھوں گی، اگر لکھنے میں کوئی غلطی ہوجائے تو اللہ عزوجل مجھے اپنی رحمت کے صدقے میں معاف فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

صلہ رحمی کرنا صدا اے مسلمان

مہربان ہوگا خدا اے مسلمان

اسی سے دل میں محبت ہی ہوگی

یہی تیر ی عظمت زیادہ کرے گی

میرے عنوان کا سبق ہے صلہ رحمی، صلہ یعنی بدلہ ، احسان یا نیک سلوک کرنا اور رحم جو ہے یعنی جو آپ کے رحم کے رشتے دار ہیں جن سے آپ کے نسب کا تعلق ہے، جن سے آپ کے خون کا تعلق ہے جن سے آپ کا رحم کا تعلق ہے ان سے نیک سلوک کرنا اللہ عزوجل نے قرآن میں خاص موقعوں پر اس تعلق سے احکامات بیان کیے ہیں، ہم سب کے لیے جہاں وہ اپنی عبادت کا تذکرہ کررہا ہے نماز پڑھنے کا زکاة دینے کا بس میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ایسے تذکرہ ہورہے ہیں وہاں پھر احسان کر و اپنے والدین کے ساتھ اور قریب کے رشتہ داروں کے ساتھ اپنے اقارب و عزیزوں کے ساتھ، سورہ بنی اسرائیل میں اللہ عزوجل ایک آیت میں ارشاد فرماتاہے:تَرجَمۂ کنز الایمان:اور رشتے داروں کو ان کا حق دے۔ (سورہ بنی اسرئیل ،26)

اب ایک خواتین ان رشتوں کو کس طرح نبھا سکتی ہے، ان کو نبھانے کے لیے کچھ حقوق ہیں، ان میں رشتے داروں کے کیا حقوق ہیں والدین کے کیا حقوق ہیں، اور ان حقوق پر وہ کس طرح عمل کرسکتی ہے ایک خواتین اگر اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے گی ان کی خدمت کریں ان کا ہر کہنا مانے اور اپنے ہر کام میں اپنے والدین کی خوشی کو ترجیح دیں ، یاد رکھئے صلہ رحمی میں جو سب سے پہلا کردار والدین کا ہی ہے۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں