
امام مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ان تک یہ خبر
پہنچی کہ سرکار اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : میں تمہارے پاس دو
چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔ اگر انہیں تھامے رکھوگے تو گمراہ نہ ہوگے۔ یعنی اللہ کی
کتاب اور اس کے نبی کی سنت۔
اللہ کریم نے قراٰنِ کریم کو ہدایت کا سر چشمہ قرار دیا ہے۔
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے واضح
ارشاد فرمادیا کہ اگر قراٰن و سنت کو تھامے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ معاشرہ
کو دیکھیں تو بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج قراٰن کے ساتھ ہمارا ناطہ ٹوٹ چکا
ہے ۔
قراٰنِ کریم کے پانچ
حقوق یہاں بیان کئے جاتے ہیں۔ ان حقوق میں ہی قراٰنِ کریم کا حقیقی مقصد پوشیدہ ہے۔
(1) پہلا حق : قراٰن پر ایمان لانا یعنی یہ یقین رکھنا کہ یہ
اللہ پاک کی آخری کتاب ہے جو اللہ کریم کے آخری رسولِ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل ہوئی ۔ یہ اللہ کریم کا کلام ہے ۔ اس میں
کوئی شک نہیں ہے ۔ اس میں جو کچھ ہے وہ ہی حق اور سچ ہے۔
(2) دوسرا حق تلاوت کرنا ۔ یعنی قراٰنِ کریم کی تلاوت کرنا ہے ۔
بدقسمتی سے ہم قراٰنِ کریم کا یہ حق ادا نہیں کرتے ۔ ہم اگر اپنی زندگیوں کا
محاسبہ کریں تو شاید ہم پورے سال میں کل جو بیس گھنٹے بھی قراٰن کی تلاوت نہیں
کرتے بلکہ افسوس کہ ہم میں سے اکثر کو قراٰن پڑھنا بھی نہیں آتا۔ ہم نے انگلیش
پڑھا ہو، تو ہم انگریزوں کو سن سن کر ان کی طرح لہجہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن
افسوس ہم نے کبھی قراٰن کو قراٰن کے لہجے میں پڑھنے کا سوچا بھی نہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قراٰن کو خوش
الحانی سے نہیں بڑھتا ۔
قراٰن کو خوش الحانی سے پڑھنے سے مراد یہ ہے کہ قراٰن کو اس کے صحیح مخارج کے ساتھ پڑھا جائے۔
(3) تیسرا حق: قراٰنِ کریم میں تدبر و تذکر کرنا ۔ یعنی قراٰنِ
کریم کو یاد کرنا، قرآن کریم کا اتنا حصہ جو نماز میں پڑھنا ضروری ہے۔ اس کا حفظ
کرنا۔ ہر مسلمان پر فرضِ عین ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔
(4) چھو تھا حق : قراٰنِ کریم پر عمل کرنا یعنی قراٰنِ کریم
میں جو احکامات درج ہیں ان پر عمل کیا جائے ۔ قراٰن کے نزول کا مقصد ھدی للناس ہے
یعنی لوگوں کے لئے ہدایت ۔ اور ہدایت کے لئے شرط ہے کہ قراٰن کے احکامات پر عمل
کیا جا ئے۔ بغیر عمل کے ہدایت ناممکن ہے۔
(5) پانچواں حق ! قراٰنِ
کریم کا پانچواں حق یہ ہے کہ اس کی تبلیغ کی جائے ۔رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : بَلِّغُوا عَنِّي ولو آيَةً پہنچادو میری طرف سے اگرچہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو ۔ گویا رسولِ
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے ہر امتی کو یہ حکم دے دیا کہ اپنی
اپنی حیثیت میں قراٰنِ کریم کی تبلیغ جاری رکھے۔ گھر کا سربراہ ہے تو بچوں کو قراٰن
کی تعلیم سکھائے ۔ بچوں کو قراٰنِ کریم سے سبق حاصل کرنے کی نصیحت کرے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ! ہمیں بحیثیتِ قوم و معاشرہ قراٰن سے ناطہ
جوڑنے کی ضرورت ہے۔ قراٰنِ کریم سے محبت کا تعلق استوار کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ کریم ہمیں قراٰنِ کریم کی محبت نصیب فرمائیں۔ اٰمين بجاه
النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد تنویر عطاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان
کنز الایمان ممبئی ہند)

اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی رشد و ہدایت کے یہ بےشمار
انعامات و اکرامات فرمائے ہیں ۔ انہی میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انبیائے کرام علیہم السّلام
کو مبعوث فرمایا اور ان پر کتابیں نازل فرمائیں ۔ امت محمدیہ کی ہدایت و رہنمائی
کے لیے ہمارے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر قراٰن شریف جیسی عظیم
الشان کتاب اتاری ۔ اس جتنا بھی الله پاک کا شکر ادا کریں کم ہے۔
دنیا میں ہر چیز کے کچھ نہ کچھ حقوق ہوتے ہیں جن کا ادا
کرنا ہر انسان پر لازمی ہوتا ہے ۔ جس طرح اللہ پاک کے حقوق ہر بندے پر ادا کرنا
فرض ہے۔ اور ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے حقوق بھی آپ صلی اللہ علیہ ہم کی امت پر فرض ہے۔ اسی طرح سے جو کتاب
اللہ نے اپنے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر اتاری اس کے بھی کئی حقوق ہیں
۔ سچ تو یہ ہے کہ قراٰنِ کریم کے حقوق اتنے ہیں کہ کوئی بھی کما حقہ ادا نہیں کر
سکتا ۔ چند حقوق کتابُ الله کے اپنے اس مضمون میں قلم بند کرنے کی کوشش کرتا ہوں
امید ہے قارئین کو کچھ فائدہ ہو اور اس پر عمل کریں۔
قراٰن مقدس کا سب سے بڑا حق تو یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا
جائے۔ جیسا کہ قراٰنِ مجید میں اس پر ایمان لانے کی ترغیب اور ایمان لانے والوں کے
لیے بشارت دی گئی ہے۔ چنانچہ پارہ 26 سورۂ محمد آیت نمبر 2 میں ارشاد باری ہے : وَ الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ
وَّ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْۙ-كَفَّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ اَصْلَحَ
بَالَهُمْ(۲) ترجمۂ کنزالایمان : اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے
اور اس پر ایمان لائے جو محمّد پر اتارا گیا اور وہی ان کے رب کے پاس سے حق ہے
اللہ نے ان کی بُرائیاں اُتار دیں اور اُن کی حالتیں سنوار دیں۔
لہذا ہر انسان پر فرضِ عین ہے کہ وہ قراٰنِ کریم پر ایمان
لائے اور نورِ ایمانی سے سرشار ہو۔
قراٰنِ پاک کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اسے درست تلفّظ، صحیح
مخارج و صفات کے ساتھ پڑھا جائے۔ جیسا کہ اس کی تلاوت کرنے کا حق ہے۔ چنانچہ پارہ
1 سورہ بقرہ میں ارشاد باری ہے: اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَتْلُوْنَهٗ حَقَّ
تِلَاوَتِهٖؕ ترجمۂ کنزالایمان : جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ جیسی چاہیے اس کی تلاوت کرتے ہیں
۔(پ 1 ، البقرۃ :121) تفسیر جلالین میں اس کے تحت ہے : اَیْ
یَقْرَءُ وْنَہٗ کَمَا اُنْزِلَ یعنی وہ اُسے ایسے
پڑھتے ہیں جس طرح نازل کیا گیا۔
لہذا جو بھی قراٰنِ پاک پڑھے اسے چاہیے کہ پہلے اپنا تلفظ
درست کرے ۔ اس کا بہترین ذریعہ دعوت اسلامی کا مدرسۃ المدینہ بالغان ہے جس میں بڑے
اسلامی بھائیوں کو قراٰنِ پاک کی درست تعلیم فی سبیل اللہ دی جاتی ہے۔ نیز بچوں کے
لئے بھی مدرستہ المدینہ قائم ہیں جن میں فی سبیل اللہ بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔
قراٰنِ مقدس کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اسے جب بھی چھوئیں یا
تلاوت کریں، تو آپ پاک وصاف ہوں۔ خوب اہتمام کے ساتھ تلاوت کریں اس لیے کہ اسے ناپاکی
کی حالت میں چھونا ناجائز و حرام ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ پاک نے قراٰن مجید
کے پارہ 27 سورہ واقعہ آیت نمبر 79 میں ارشاد فرماتا ہے : لَّا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَؕ(۷۹) ترجمۂ
کنزالایمان : اسے نہ چھوئیں مگر با وضو۔
یہ تو ضروری ہے ہی کہ تلاوت کرنے والا با وضو ہو لیکن ادب
کا تقاضا یہ ہے کہ تلاوت قراٰن مجید سے پہلے اپنے ظاہر و باطن کو خوب صاف ستھرا کر
لیں۔ اپنے ظاہر پر غور کر لیں اور باطن کو بھی یادِ خدا و ذکرِ مصطفی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آراستہ کر لیں۔ ان شاء اللہ اس کی برکت سے آپ کے دل و دماغ
میں انقلاب برپا ہو جائے گا۔
دنیا میں ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اچھا کہلائے ، لوگ
اسے اچھا کہیں، اسے اچھی نظر سے دیکھیں۔ اس کے لیے آدمی طرح طرح سے کوشش کرتا ہے،
طرح طرح کے علوم و فنون حاصل کرتا ہے لیکن اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نزدیک بہتر وہ ہے جو قراٰنِ پاک سیکھے اور دوسروں کو
سکھائے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے: خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ
الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗ یعنی تم میں
سے بہتر وہ ہے جو قراٰن سیکھے اور سکھائے ۔(صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب
خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ، 3/410،حدیث:5027)
یہ قراٰنِ پاک کا ایک حق بھی ہے کہ اسے سیکھا جائے اور دوسروں
کو سکھا یا جائے ۔
جب قراٰنِ پاک کی سورتیں یا آیات پڑھی جاتی ہیں اس وقت بعض
لوگ چُپ تو رہتے ہیں مگر ادھر اُدھر دیکھنے اور دیگر حرکات و اشارات سے باز نہیں آتے۔
ایسوں کی خدمت میں عرض ہے کہ چپ رہنے کے ساتھ ساتھ غور سے سننا بھی لازمی ہے۔ جیسا
کہ فتاوی رضویہ جلد 23 صفحہ 352 پر میرے آقا اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: قراٰنِ مجید
پڑھا جائے اسے کان لگا کر غور سے سننا اور خاموش رہنا فرض ہے۔ اللہ پاک نے ارشاد
فرمایا ہے : وَ اِذَا قُرِئَ
الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(۲۰۴) ترجمۂ کنزالایمان: اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو
کہ تم پر رحم ہو۔
قراٰنِ پاک کے اتنے حقوق ہیں کہ اسے یہاں کر پانا ناممکن
ہیں۔ چند حقوق کا ذکر اس چھوٹے سے مضمون میں ہو سکا ہے ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ
ہمیں قراٰنِ پاک کے حقوق کا پاسدار بنائے اور کثرت سے تلاوتِ قراٰن کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد ربیع الاسلام (درجہ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
کنز الایمان ممبئی ہند)

جس طرح معاشرے میں پڑوسی، والدین، میاں بیوی اور اساتذہ کے
حقوق ہوتے ہیں اسی طرح کلامُ اللہ یعنی قراٰنِ کریم کے بھی حقوق ہیں، جس کا ادا
کرنا ہمارے ذمے لازم ہے۔ قراٰنِ مجید وہ کتاب ہے جو کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ یہ
بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ یہ کتاب تمام آسمانی کتابوں کا سردار ہے۔ جس طرح
اس کا مرتبہ بلند و بالا ہے اسی طرح قراٰنِ کریم کے
حقوق ادانہ کرنا بھی سنگین جرم ہوگا۔
قرآن کریم کے پانچ حقوق یہ ہیں:۔
(1) قراٰنِ کریم پر ایمان لانا۔
(2) قراٰنِ پاک کی
تلاوت کرنا۔
(3) قراٰن کو سمجھنا۔
(4) قراٰن مجید پر
عمل کرنا۔
(5) قراٰن کی
تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانا۔
قراٰنِ مجید کا پہلا حق یہ کہ اس پر ایمان لانا ۔یہاں یہ
بات یاد رکھنے کی ہے کہ اللہ پاک نے جتنی بھی کتابیں نازل فرمائیں، جتنے صحیفے
انبیائے کرام عليہم السّلام پر نازل فرمائیں، ان سب پر ہی ایمان لانا ایک مسلمان
پر لازم ہے۔ اللہ پاک کی نازل کردہ کسی ایک بھی کتاب کا انکار کفر ہے ۔ البتہ
پچھلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانے میں اور قراٰنِ کریم پر ایمان لانے میں ایک فرق
ہے وہ یہ کہ پچھلی جتنی بھی آسمانی کتابیں ہیں اور صحیفے ہیں ان سب پر اجمالی
ایمان فرض ہے اور قراٰنِ کریم پر تفصیلی ایمان فرض ہے۔ اجمالی ایمان کا مطلب یہ ہے
کہ اللہ پاک نے تورات نازل فرمائی، زبور نازل فرمائی، انجیل نازل فرمائی، اس کے
علاوہ انبیائے کرام عليہم السّلام پر جو صحیفے نازل فرمائے وہ سب حق ہیں، سچ ہیں۔ ان
میں جو کچھ اللہ پاک نے نازل فرمایا وہ سب سچ ہے۔ ہاں لوگوں نے اپنی خواہش سے ان
میں تحریف کر دیا ہے، وہ باطل ہیں۔ جبکہ قراٰنِ کریم پر تفصیلی ایمان لازم ہے یعنی
الحمد کی الف سے لے کر والناس کی سین تک۔ قراٰنِ کریم کا ایک ایک جملہ ایک ایک لفظ
ایک ایک حرف حق ہے سچ ہے۔ اللہ پاک کی طرف سے نازل کردہ ہے اس میں ایک حرف کی بھی
کمی بیشی نہیں۔ جو شخص قراٰنِ کریم کے ایک لفظ کا بھی انکار کرے وہ کافر ہے دائرہ اسلام
سے خارج ۔

پیارے اسلامی بھائیوں اللہ پاک نے ہمیں مسلمان بنایا اور
اپنے حبیب کے امت میں پیدا فرمایا اور ہمیں قراٰنِ مجید عطا فرمایا ۔ جس کا پڑھنا
عبادت، چھونا عبادت، دیکھنا عبادت، چو منا عبادت ، سینے سے لگانا عبادت۔
پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ! قراٰنِ مجید کی حفاظت کی ذمہ
داری خود اللہ پاک نے لیا۔ ہمارے نبی پاک پر قراٰنِ مجید نازل فرمانے سے پہلے بہت
سارے کتابیں نازل فرمایا۔ لیکن کسی کتاب کی حفاظت کا ذمہ نہیں لیا لیکن قراٰنِ
مجید کو اپنے ذمہ کرم پر لیا۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ
لَحٰفِظُوْنَ(۹) ترجمۂ کنز الایمان: بےشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بےشک
ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔(پ14،الحجر:9)
پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ! اللہ پاک نے ہمیں قراٰن دیا۔
ہم پر لازم ہے اس کے حقوق کو ادا کریں۔ قراٰنِ کریم کے پانچ حقوق مندرجہ ذیل ہیں ۔
(1) قراٰنِ مجید پر ایمان لانا ۔
(2) قراٰنِ مجید کو پڑھنا
(3) قراٰنِ مجید کو سمجھنا
(4) قراٰنِ مجید پر عمل کرنا
(5) قراٰنِ مجید کو دوسرے تک پہنچانا
پیارے پیارے اسلامی بھائیوں! لیکن افسوس صد افسوس ہم کہاں ہیں۔
ہم نے قراٰن کو چھوڑ دیا اس پر عمل کرنا ترک کر دیا۔ ہم نے قراٰن کے حقوق کو بھلا
دیا، ہم نے تو قراٰنِ کریم کو تو الماری میں سجا سجا کر رکھ دیا ہے۔ قراٰن مجید کے
نازل ہوئے چودہ سو سال ہو گئے ہیں اب بھی ویسا ہی ہے جیسا نازل ہو ا تھا۔ ہمارے
اسلاف اس پر ایمان لائے اور اس کو پڑھا اور سمجھا اور اس پر عمل پیرا ہوئے اور ہم
تک پہنچائے۔
پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ! ہمارے اسلاف نے پوری دنیا بپر
راج کیا، ان کے اخلاق ایسے تھے کہ کوئی غیر مسلم دیکھ لیتا، تو ایمان لے آتا ۔ ہم
ان کی تعریف کو سنتے ہیں اور پڑھتے ہیں تو یہی کہنا پرتا ہے:۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں
ہو کر ہم خوار ہوے تاریک قراٰں
ہو کر
پیارے اسلامی بھائیوں ابھی وقت دور نہیں کہ ہم اپنا کھویا
ہوا وقار پا سکتے ہیں شرط ہے کہ قراٰن کے حقوق کو بجا لائیں۔

اسلام میں کلامِ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
سے پہلے کلامُ اللہ کا درجہ ہے اور کیوں نہ ہوں کہ روئے زمین پر کلامُ اللہ جیسے
کوئی دوسری کتاب موجود نہیں۔ قراٰن ایک مکمل کتاب جس میں ہر چیز کا واضح بیان ہے ۔
یہ ایسی بلند شان اور عظمت و شرف والی کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی کوئی
گنجائش نہیں۔ کیونکہ شک اس چیز میں ہوتا ہے جس کی حقانیت پر کوئی دلیل نہ ہو جبکہ
قراٰنِ پاک اپنی حقانیت کی ایسی واضح اور مضبوط دلیلیں رکھتا ہے جو ہر صاحب ِ
انصاف اور عقلمند انسان کو اس بات کا یقین کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں کہ یہ کتاب
حق ہے اور اللہ پاک کی طرف سے نازل ہوئی ہے ،تو جیسے کسی اندھے کے انکار
سے سورج کا وجود مشکوک نہیں ہوتا ایسے ہی کسی بے عقل مخالف کے شک اور انکار کرنے
سے یہ کتاب مشکوک نہیں ہو سکتی۔
جہاں قراٰن کا نور وہاں حدیث کا رنگ ہے قراٰنِ کریم دنیا کی
وہ عظیم الشان کتاب ہے جو انسانوں کے فلاح و رہنمائی کا عظیم مرکز ہے اس کتاب کا
مرتبہ تمام آسمانی کتابوں میں سب سے افضل ترین ہے اس کتاب کو جو خصوصیات حاصل ہے
وہ اللہ پاک کی باقی آسمانی کتابوں میں سے کسی کو بھی حاصل نہیں اور جو شخص قراٰن
کے سوا کسی اور کتاب میں ہدایت کو تلاش کرے گا اللہ پاک اس کو گمراہ کردے گا۔ اس
کے مطابق کہنے والا سچا اور اس پر عمل کرنے والا مستحق اجر ہوتا ہے اور اس کے
موافق حکم دینے والا عادل ہوتا ہے اور اس کی جانب دعوت دینے والا راہِ راست کی طرف
ہدایت پاتا ہے قراٰنِ مجید میں خود رب کریم نے قراٰنِ کریم کی عظمت ظاہر کرتے ہوئے
فرمایا کہ پہاڑ پر اتار دیتے تو وہ اس کی تاب نہ لاتا اور پھٹ جاتا ۔ کتاب اللہ کے
بہت سے حقوق ہیں۔ آیئے! کتاب اللہ کے پانچ حقوق ملاحظہ فرمائیں:
(1) اس پر ایمان رکھا جائے
( 2 ) قراٰنِ کریم سے محبت کی جائے،
( 3 ) قراٰن کا حق یہ ہے کہ اس کی تعظیم کی جائے،
( 4 ) قراٰنِ مجید کی تلاوت کی جائے، اسے سمجھا جائے
( 5 ) قراٰن مجید پر عمل کیا جائے اور اسے دوسروں تک پہنچایا
جائے۔
ہمیں چاہیے کہ جس
طرح ہمارے حقوق دنیا اور دنیا میں رہنے والوں کے ساتھ ہوتے ہے جنہیں پورا کرنے
کیلئے ہم اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ گزار دیتے ہیں، تو اُس خلاّقِ کائنات کی کتاب
کے ساتھ جو حقوق وابستہ ہم پر ضروری ہے کہ انہیں ادا کریں۔ کیونکہ یہ ایک ایسی
منفرد کتاب ہے جس میں وعدے کے ساتھ وعید ،امر کے ساتھ نہی اور اَخبار کے ساتھ
اَحکام ہیں۔ مدینے والے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میری
امت کی افضل عبادت تلاوت قراٰنِ پاک ہیں۔ اور احادیث میں بہترین انسان اس آدمی کو
بولا گیا کہ بہتر وہ شخص ہے، جو قراٰن سیکھے اور سکھائے اللہ پاک اس کتاب سے بہت
لوگوں کو بلند کرتا ہے اور بہتوں کو پَست کرتا ہے یعنی اس انسان کیلئے بلندی ہے جو
قراٰن پر ایمان لاتے اور عمل کرتے ہے جس کے جوف میں کچھ قراٰن نہیں ہے، وہ ویرانہ
مکان کی مثل ہے۔ چنانچہ یہ بات تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تلاوتِ قراٰن دین میں ایک
نہایت ہی پسندیدہ اور مطلوب عمل ہے ۔جب دین میں اِس عمل کی حیثیت یہ ہے تو لامحالہ
ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ قراٰنِ کریم کو صحیح معنوں میں سیکھ کے تلاوت کرنے
کا معمول بنا لیجیے یہ ثواب کا باعث بھی ہے ۔چنانچہ تلاوتِ قراٰن میں نیت و ارادہ
اگر خالصتاً فہم قراٰن ،طلب ہدایت اور اللہ پاک کی خوشنودی کا حصول ہے تو پھر یہ
عمل یقیناً مزید باعث اجر ہوگا ۔
سمیع اللہ (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ امام
احمد رضا حیدرآباد ہند)

قراٰنِ مجید ایک ایسی کتاب ہے جس کی تِلاوت کرنا سننا،
باوُضو چُومنا، چھونا، یہاں تک کے دیکھنا بھی ثواب ہیں ۔ یہ ایک ایسی واحد کتاب ہے
کہ جس کا 1 حرف پڑھنے پر 100 نیکیاں ملتی ہیں۔ چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا علیُّ
المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جو نماز میں کھڑے ہو کر قراٰن کی تِلاوت کرے اس
کے لئے ہر حَرْف کے بدلے 100 نیکیاں ہیں اور جو نماز میں بیٹھ کر تِلاوت کرے اس کے
لئے ہر حَرْف کے بدلے 50 نیکیاں ہیں اور جو نماز کے علاوہ باوُضُو تِلاوت کرے اس
کے لئے 25 نیکیاں ہیں اور جو بغیر وُضُو تِلاوت کرے اس کے لئے 10 نیکیاں
ہیں۔(احیاء العلوم، 1/366)۔ قراٰنِ پاک کے حُقوق متعلق پارہ نمبر 1 سورة البقرہ کی
آيت نمبر 121 میں اللہ پاک اِرشاد فرماتا ہے: اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَتْلُوْنَهٗ حَقَّ
تِلَاوَتِهٖؕ-اُولٰٓىٕكَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖؕ ترجمۂ کنزالعرفان: وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے تو وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں
جیسا تلاوت کرنے کا حق ہے یہی لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں۔(پ1،البقرۃ:121) معلوم
ہوا کہ کتابُ اللہ کے بہت سے حقوق بھی ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ان حُقوق کو
سمجھ لیں تو آیئے اُنہی میں سے پانچ حُقوق کو سمجھ لیتے ہیں۔
(1) پہلا حق: اس پر ایمان لانا یہ بات یاد رکھیے کہ اللہ پاک نے جتنی بھی کتابیں نازِل
فرمائے،جتنے صحیفے انبیائے کِرام علیہم السلام پر نازِل فرمائے، ان سب پر ہی ایمان
لانا ایک مسلمان پر لازِم ہے، اللہ پاک کی نازِل کردہ کسی ایک بھی کتاب کا اِنکار
کُفْر ہے۔ البتہ پچھلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانے میں اور قراٰنِ کریم پر ایمان
لانے میں ایک فرق ہے،وہ یہ کہ پچھلی جتنی بھی آسمانی کتابیں ہیں،صحیفے ہیں،ان سب
پر اِجمالی ایمان فرض ہے اور قراٰنِ کریم پر تفصیلی ایمان فرض ہے۔اِجمالی کا مطلب
یہ ہے کہ اللہ پاک نے تورات انجیل زبور اس کے علاوہ جو صحیفے انبیائے کِرام علیہم
السلام پر نازِل فرمائے وہ سب سچ ہے،ہاں! لوگوں نے اپنی خواہش سے ان میں جو اضافے
کردیئے ،ان میں جو تبدیلیاں کردیں،وہ باطل ہیں۔جبکہ قراٰنِ کریم پر تفصیلی ایمان
لازِم ہے،یعنی اَلْحَمْدُ کی الِف سے لے
کر وَالنّاسُ کی سین تک قراٰنِ کریم کا ایک ایک حَرف سچ ہے،اللہ کی طرف سے نازِل
کردہ ہے،اس میں ایک حَرف کی بھی کمی بیشی نہیں،جو شخص قراٰنِ کریم کے ایک لفظ کا
بھی انکار کرے،وہ کافِر ہے،دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔
(2) دوسرا حق: اس سے محبّت کرنا اور دِل سے اس کی تعظیم
کرنا۔الحمداللہ!قراٰن مجید سے محبّت کرنا "سنّتِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ہے"۔ پیارے آقاصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قراٰن مجید سے
بہت محبّت فرماتے تھے۔ ایک روز پیارے آقاصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے گھر
مبارک میں تشریف فرما تھے، کسی نے بتایا کہ کوئی شخص بہت خوبصورت آواز میں قراٰن
مجید کی تِلاوت کر رہا ہے، پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اٹھے، باہر
تشریف لے گئے اور دیر تک تِلاوت سُنتے رہے، پھر واپس تشریف لائے اور فرمایا: یہ
ابو حذیفہ کا غُلام سالم ہے،تمام تعریفیں اللہ پاک کے لئے ہیں جس نے میری اُمّت
میں ایسا شخص پیدا فرمایا۔( ابن ماجہ ، کتاب : اقامۃ الصلاۃ ، ص 216 ، حدیث : 1338)
(3) تیسرا حق: قراٰن مجید کے بیان کردہ آدابِ زندگی اپنانا اور اس کے
بتائے ہوئے اَخلاق کو اپنے کردار کا حصّہ بنانا۔ اللہ پاک کے آخری نبی، مکی مدنی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کتنے قراٰن پڑھنے والے ایسے ہیں کے قراٰن اُن
پر لعنت کرتا ہے۔ عُلمائے کرام نے اس حدیثِ پاک کا ایک معنی یہ بھی لکھا ہے کہ اس
سے مُراد وہ شخص ہے جو قراٰنِ کریم کی تِلاوت تو کرتا ہے مگر اس پر عمل نہیں کرتا۔
(4) چوتھا حق: اس کی تِلاوت کرنا۔ قراٰن مجید کی تِلاوت اس طرح کرے کہ
گویا یہ قراٰن اللہ پاک کی بارگاہ سے سن رہا ہے اور خیال کرے کہ ابھی اس ذات کی
جانِب سے سن رہا ہوں۔
(5) پانچواں حق: قراٰن مجید کو سمجھنا اور سمجھ کر دوسروں تک پہنچانا۔ حضور
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قراٰن مجید کے بے شُمار اَوْصاف بیان فرمائے
ہیں، اُن میں ایک وَصْف یہ بیان فرمایا کہ قراٰن مجید دلیل ہے، یہ یا تو تمہارے حق
میں دلیل بنے گا یا تمہارے خلاف دلیل ہوگا۔ علّامہ قرطبی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے
ہیں: جو شخص قراٰن سیکھے مگر اس سے غفلت کرے قراٰن اس کے خِلاف دلیل ہوگا اور اس
سے بڑھ کر اس بندے کے خِلاف دلیل ہوگا جو قراٰن مجید کے حق میں کمی کرے اور اس سے
جاہِل رہے۔(تفسیر قرطبی ، 1/ 19)
نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے کہ تم
میں بہترین شخص وہ ہے جس نے قراٰن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔(بخاری) اگر ہم بھی
چاہتے ہیں کہ بہترین انسان بنیں تو اس حدیثِ پاک پر عمل کرنا ہوگا اور اس حدیثِ
پاک پر عمل کرنے کے لئے ہمیں دعوتِ اسلامی کے 80 سے زائد شعبوں میں سے ایک بہت ہی
اہم شعبہ مدرسۃُ المدینہ میں شرکت کرنا ہوگا۔ الحمدللہ اس میں شرکت کی برکت سے قراٰنِ
کریم کو سیکھنے اور دوسروں تک پہنچانے کی بھی سعادت حاصل ہوتی ہے۔ اللہ پاک ہمیں قراٰنِ
کریم کو سیکھنے سمجھنے اس کی زیادہ سے زیادہ تِلاوت کرنے اور اس کے حُقوق ادا کرنے
کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہِ النبیِّ الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔
يہی ہے آرزو تعلیمِ قرآں عام
ہو جائے
ہر اِک پرچم سے اونچا پرچمِ
اسلام ہو جائے

کسی مسلمان کا برائیوں اور گناہوں میں مبتلا ہونا بلاشبہ
بُرا ہے لیکن اس سے زیادہ برا کسی پر گناہوں کا جھوٹا الزام لگانا ہے۔ ہمارے
معاشرے میں جو برائیاں ناسور کی طرح پھیل رہی ہیں ان میں سے ایک تہمت و بہتان بھی
ہے۔ جس نے ہماری زندگی کے سکون کو برباد کر دیا ہے۔یاد رہے کہ کسی پر جان بوجھ کر
بہتان لگانا انتہائی برا کام ہے۔ اس کی مذمت احادیث میں بھی بیان کی گئی
ہے۔5احادیث آپ بھی پڑھئے:
(1) نبیِّ
رحمت، شفیعِ اُمّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان
کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک ردغۃُ
الخبال ( یعنی جہنم کی وہ جگہ جہاں جہنمیوں کا خون اور پیپ جمع ہوگا،اس) میں رکھے
گا جب تک اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہو۔ ( ابوداؤد،3/427،حدیث:3597)
(2) جس نے کسی
مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کیا تو اللہ پاک جہنم کے پل پر
اسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پالے۔(ابو داؤد، 4/ 355،حدیث:4883)
(3) جھوٹے گواہ کے
قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ پاک اس کے لئے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن
ماجہ،3/123،حدیث:2373)
(4) نبیِّ پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کسی پاک دامن عورت پر زِنا کی تہمت
لگانا سو سال کی نیکیوں کو برباد کرتا ہے۔(معجم کبیر،3/169،حدیث:3023)
(5) حضور
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان سے استفسار فرمایا:
کیا تم جانتے ہو،مفلس کون ہے ؟صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان نے عرض کی: ہم میں مفلس
وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہو اور نہ ہی مال، ارشاد فرمایا: میری امت میں مفلس وہ ہے
جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے فلاں کو گالی دی
ہوگی،فلاں پہ تہمت لگائی ہو گی۔ فلاں کا مال کھایا ہوگا، فلاں کا خون بہایا ہوگا
اور فلاں کو مارا ہو گا، تو اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو ان کا حصہ دے دیا جائے
گا۔ اگر اس کے ذمے آنے والے حقوق پورے ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو
ان لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (
مسلم،ص1069،حدیث:6579)
اللہ پاک ہمیں بہتان لگانےاور الزام تراشی سے محفوظ فرمائے
اور ہمارے اعضاء کو اپنی اطاعت و خوش نودی والے کاموں میں استعمال کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد شاہد عطاری (درجہ دورۂ حدیث جامعۃُ المدینہ 11 G اسلام آباد پاکستان)

پیارے اور محترم اسلامی بھائیو! ہمیں بحیثیتِ مسلمان یہ
اعزاز حاصل ہے کہ ہمارے پاس الله پاک کا کلام محفوظ ہے جو کہ اللہ پاک کی ہمارے لئے
بڑی نعمت ہے لیکن اس بنا پر ایک بڑی ذمہ
داری بھی ہم پر لازم آتی ہے کہ اس نعمتِ عظمیٰ کے حقوق جتنا ہوسکے ادا کیے جائیں۔
کیوں نہ ہو ممتاز اسلام دنیا
بھر کے دینوں میں
وہاں مذہب کتابوں میں، یہاں قراٰن
سینوں میں
محترم قارئین کرام! ہر مسلمان پر قراٰن کریم کے متعدد حقوق
لازم ہوتے ہیں جن میں سے 5 حاضر خدمت ہیں:
(1 ) ایمان لانا : قراٰن مجید کا پہلا حق یہ ہے کہ زبان سے اقرار کیا جائے کہ قراٰن
اللہ پاک کا کلام ہے۔ اس اقرار سے انسان دائرۂ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے (یعنی
یہ ایمان کا جز ہے) لیکن زبان سے اقرار کرنے کے ساتھ دل سے تصدیق بھی لازم ہے۔
اکثر صحابۂ کرام علیہم الرضوان ہفتے میں ایک مرتبہ ضرور ختم قراٰن کرتے تھے۔ قراٰن
سے اس لگاؤ کا سبب یہ تھا کہ انہیں کامل ایمان تھا کہ یہ اللہ کا کلام ہے ۔
(2) تلاوت قراٰن کرنا
: قراٰن پاک کا دوسرا حق یہ ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے۔ یہ
ایک بڑی عبادت ہونے کے ساتھ ایمان کو تازہ رکھنے کا ذریعہ بھی ہے۔ اس لئے قراٰن
مجید کے قدر دانوں کی یہ کیفیت قراٰن مجید میں بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری
ہے: اَلَّذِیْنَ
اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖؕ-اُولٰٓىٕكَ یُؤْمِنُوْنَ
بِهٖؕ-وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۠(۱۲۱)ترجمۂ کنزالعرفان:وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے تو وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جیسا
تلاوت کرنے کا حق ہے یہی لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور جو اس کا انکار کریں تو وہی
نقصان اٹھانے والے ہیں۔ (پ1،البقرۃ:121)
(3) قراٰن مجید میں
تدبر ( غور و فکر) کرنا : کتاب اللہ کا تیسرا حق یہ ہے
کہ اسے سمجھا جائے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰن مجید میں ارشاد فرمایا: وَ اَنْزَلْنَاۤ
اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ
یَتَفَكَّرُوْنَ ترجمۂ کنزالعرفان: اور اے حبیب! ہم نے تمہاری طرف یہ
قرآن نازل فرمایا تاکہ تم لوگوں سے وہ بیان کردو جو اُن کی طرف نازل کیا گیا ہے
اور تاکہ وہ غوروفکر کریں۔ ( پ14،النحل : 44)
(4) قراٰن مجید پر عمل کرنا :قراٰن مجید کا چو تھا حق یہ ہے کہ اس پر عمل کریں۔ قراٰن مجید محض حصولِ برکت
کیلئے نازل نہیں ہوا بلکہ یہ تمام انسانوں کیلئے رہنمائی ہے ۔قراٰن پر عمل نہ کرنے
والوں کے لئے وعید بھی قراٰن میں بیان کی
گئی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے: وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ(۴۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو
اس کے مطابق فیصلہ نہ کریں جو اللہ نے نازل کیا تو وہی لوگ کافر ہیں۔ (پ6،المائدۃ:44)
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں
ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں
ہو کر
درس قراٰن گر ہم نے نہ بھلایا
ہوتا
یہ زمانہ زمانے نے نہ دکھایا
ہوتا
(5)قراٰن مجید کو
دوسروں تک پہنچانا: قراٰن پاک کا پانچواں حق یہ ہے
کہ قراٰن مجید کو دوسروں تک پہنچایا جائے۔ اسی طرح ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی پوری زندگی اس حق کی ادائیگی میں مصروف عمل رہے اور امت
کو بھی یہی تعلیم دی۔ چنانچہ اس حق کو رب کریم نے قراٰن مجید میں بھی بیان فرمایا
ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے : یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ
مِنْ رَّبِّكَؕ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اے رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا اس کی
تبلیغ فرما دیں۔(پ6،المائدۃ:67)
پیارے اسلامی بھائیو! عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ
اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہو جائیے ! الحمد للہ ! دعوتِ اسلامی ہمیں قراٰن پڑھنا بھی سکھاتی ہے اور قراٰن
سمجھنے کے ذرائع بھی فراہم کرتی ہے اور قراٰن مجید سمجھ کر اس پر عمل کرنے اور اسے
دوسروں تک پہنچانے کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔
خاتمہ :اللہ پاک ہمیں اس عظیمُ الشان کتاب کی قدر کرنے ، اس کی خوب
تلاوت کرنے ، اس سے ہدایت لینے اور اس کا نور اپنے سینے میں اتارنے اور اس کی
ہدایات دنیا بھر میں پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نصر الله عطّاری (دورہ ٔحدیث
، جامعۃُ المدينہ فیضانِ مدینہ جی الیون اسلام آباد پاکستان)

پیارے
پیارے اسلامی بھائیو ! قراٰنِ کریم اللہ پاک کا آخری اور مکمل کلام ہے، جو ہمارے
لئے ہدایت اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔ قراٰنِ حکیم ایک فیصلہ کن
کلام کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اسی طرح دنیا میں ہمارا عروج و زوال قراٰنِ حکیم ہی سے
وابستہ ہے۔ یہ ہمارے پاس اللہ پاک کی طرف سے نعمتِ عظمیٰ ہے ۔ اور اس نعمت عظمی کے
حقوق بھی ہیں ۔ آئیے چند حقوق ملاحظہ کرتے ہیں :
پہلا حق : قراٰن مجید پر ایمان لانا: پیارے اور
محترم اسلامی بھائیو ! قراٰن مجید پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے اس کا
اقرار کیا جائے کہ یہ اللہ پاک کا کلام ہے۔ جبرائیل علیہ السّلام کے واسطے سے اللہ
پاک کے سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل
ہوا۔ اور یہ اقرار دل اور زبان دونوں طریقے سےکرنا ضروری ہے ۔ اور اس اقرار کو عملی جامہ پہنانا اور تمام اعضاء جسم پر
نافذ کرنا اور سرتا پاؤں اس اقرار کے تابع عمل کرنا عین ایمان ہے۔ چنانچہ حضورِ
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل ہونے والی کتاب قراٰن مجید پر سب سے پہلے
ایمان لانے والے صحابۂ کرام علیہم الرضوان تھے۔ ارشاد باری ہے: اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ
الْمُؤْمِنُوْنَؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: رسول ایمان لایا اس پر جو
اس کے رب کے پاس سے اس پر اُترا اور ایمان والے سب نے مانا۔(پ3،البقرۃ: 285)
یعنی
قراٰن مجید پر نبی کریم علیہ الصلاۃ و السّلام ایمان لائے اور صحابۂ کرام علیہم
الرضوان بھی ایمان لائے ۔ تو ایمان کی دولت پانے کے بعد اللہ پاک نے مؤمنوں کے
لقب سے نواز دیا۔ چنانچہ انہوں نے اس لقب کی اتنی قدر کی کہ اپنا اٹھنا بیٹھنا اس
قراٰنِ مجید کے مطابق کر لیا اور پوری کائنات کیلئے آئیڈیل اور رہنما بن گئے ۔ آج
بھی اگر نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شخصیت کے بعد کسی ہستی کے عمل سے اسلام اور قراٰن کی اصل تعلیمات سامنے آتی ہیں تو
وہ صحابۂ کرام علیہم الرضوان ہیں۔ جس کو شاعر نے بیان کیا
یہ راز کسی کو معلوم نہیں کہ مؤمن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قراٰن
دوسرا حق : قراٰن مجید کی تلاوت کرتا :پیارے اسلامی
بھائیو ! مسلمان ہونے کے ناطے ، ہم پر جو
دوسرا حق عائد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم قراٰن مجید کی تلاوت کریں اور یہ مؤمن کی
روح کی غذا ہے اور یہ ایمان کو ترو تازہ سر سبز و شاداب رکھنے اور مشکلات و موانع کے مقابلے کے لئے سب سے مؤثر ہتھیار اور
اہم ترین ذریعہ ہے۔ اور اسے بار بار اس طرح پڑھا جائے کہ جس طرح اس کو پڑھنے کا حق
ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے: اُتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ
اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے محبوب پڑھو
جو کتاب تمہاری طرف وحی کی گئی۔(پ21، العنکبوت:45)اسی طرح اللہ پاک پارہ 1
سورہ بقرہ آیت نمبر 21 میں ارشاد فرماتا
ہے: اَلَّذِیْنَ
اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖطترجمۂ کنزالعرفان: وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے
تووہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جیسا تلاوت کرنے کا حق ہے۔ قراٰن
مجید پڑھنے کے آداب: ترتیل سے پڑھا جائے، خوش الحانی سے پڑھا جائے، قراٰن
مجید کو یاد کیا جائے اور اس کو روزانہ معمول بنایا جائے ۔ تیسرا حق: قراٰن مجید کا سمجھنا: پیارے اسلامی بھائیو!
ہر مسلمان پر قراٰن مجید کا تیسرا حق یہ ہے کہ جس صدقِ نیت سے اس پر ایمان لایا اور
اس کو درست طریقے سے پڑھا اسی جوش و جذبے کے ساتھ اس کو سمجھے کیونکہ قراٰن فہمی
ایک ایسا عظیم اور انمول علم ہے کہ اس کے حاصل ہو جانے کے بعد انسان جہالتوں اور
خرافات کی انتہا گہرائیوں سے نکل کر ایک
روشن اور مشاہدتی زندگی میں آجاتا ہے اور پھر اس کا عقیدہ ٹھوس
بنیادوں پر قائم ہوجاتا ہے۔ جس میں تزلزل نہیں آسکتا ہے۔ جس طرح صحابۂ کرام رضی
اللہ عنہم نے قراٰن مجید کو اللہ پاک کے
رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ارشادات و افعال و تقریرات کی روشنی سے سمجھا۔ جب ہی یہ قراٰن مجید کی سمجھ کامرانی
و رضائے الٰہی کا موجب بن سکتی ہے۔ لیکن
اگر فہم میں بھی عقل کے گھوڑے دوڑائیں اور مَن مانے معنی مراد لیں تو یہ فہم بھی
اسے عذاب سے نہیں بچا سکے گی ۔
قراٰن
مجید کے نزول کا مقصد اعظم ایمان لانے کے بعد اس کو پڑھ کر سمجھنا ہے تاکہ عمل کے
مدارج اور جملہ وادیاں طے کی جاسکیں۔ لیکن اگر سمجھے گا ہی نہیں تو عمل کیسے کرے
گا ۔ چنانچہ ارشاد باری ہے: اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: تو کیا غور نہیں کرتے قرآن
میں۔ (پ5،النسآء:82)یہاں قراٰنِ پاک کی عظمت کا بیان ہے اور لوگوں کو اس میں غور
و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ (ملخصاً صراط الجنان)
چوتھا حق : قراٰن مجید پر عمل کرنا :پیارے اسلامی
بھائیو ! قراٰن مجید پر ایمان لانے اور اسے ترتیل سے پڑھنے اور اس میں تدبر
و تفکر و تفقہ کرنے کے بعد ہر مسلمان پر یہ حق ہے کہ اس پر (یعنی اس کی تعلیمات پر
) عمل پیرا ہوں کیونکہ اس کا ماننا اور اس کی تلاوت کرنا اور اس کا فہم رکھنا
حقیقت میں اس پر عمل کرنے کے لوازمات و مبادیات و اساسیات کا درجہ رکھتے ہیں۔
کیونکہ اصل مقصود و مطلوب تو عمل ہوتا ہے۔ اور یہ اس صورت میں پورا ہو سکتا ہے کہ
ہم اس پر عمل کریں۔ کیونکہ قراٰن مجید میں
عمل نہ کرنے والوں کے لئے وعید بیان کی گئی
ہے ۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے: وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ
اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ(۴۴)ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور جو اللہ کے اتارے پر حُکم نہ کرے وہی لوگ کافر ہیں ۔(پ 6،
المائدہ :44)
درس قرآن نہ گر ہم نے بھلایا ہوتا یہ زمانہ نہ زمانے نے دکھایا ہوتا
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اور
امیر ِاہلسنت اپنے دعائیہ کلام میں لکھتے ہیں:
عمل کا ہو جذبہ عطایا الہی گناہوں
سے مجھ کو بچا یا الہی
ہو اخلاق اچھا، ہو کر دار ہو ستھرا مجھے
متقی تو بنایا الہی
پانچواں حق : قراٰن مجید کو آگے پہنچانا :پیارے اسلامی
بھائیو! قراٰن مجید کا پانچواں حق یہ ہے کہ اس پر ایمان لانے اور صحیح طریقے سے پڑھنے
اور سمجھنے اور پھر عمل کرنے کے بعد اسے
دوسروں تک پہنچایا جائے۔ جس طرح حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بعثت
کی پہلی گھڑی سے زندگی کی آخری رمق تک اپنے فرضِ منصبی ( تبلیغ) کے لئے انتھک محنتیں اور مشقتیں کیں اور مصا ئب
و آلام برداشت کئے ۔ اور کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا بلکہ اس کو غنیمت خیال
کرتے ہوئے اللہ پاک کا پیغام پہنچایا اور اس کی تلاوت و تبلیغ و تعلیم و تبیین و
توضیح میں آپ مسلسل مصروف رہے۔
اسی
طرح صحابۂ کرام نے ایمان لانے اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے قرآن
پڑھنے اور سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے بعد الله کے پاک کے نبی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ مل کر اور انفرادی طور پر اس (قراٰن) کو آگے پہنچایا۔
چنانچہ ارشاد باری ہے: یٰۤاَیُّهَا
الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ ترجَمۂ
کنزُالایمان: اے
رسول پہنچا دو جو کچھ اُترا تمہیں تمہارے رب کی طرف سے۔(پ6،المائدۃ:67)
پیارے
اسلامی بھائیو ! عاشقانِ رسول کی دینی
تحریک دعوت اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہو جائیے۔ الحمدُ للہ دعوتِ اسلامی (درست مخارج کے ساتھ) قراٰنِ
پاک پڑھنا بھی سکھاتی ہے اور دعوت اسلامی ہمیں قراٰن مجید سمجھنے کے ذرائع بھی
فراہم کرتی ہے اور سمجھ کر عمل پیرا ہو کر دوسروں تک پہنچانے کے ذرائع بھی فراہم کرتی ہے۔
الله
پاک ہمیں اس عظیم الشان کتاب کی قدر کرنے
اس کی خوب تلاوت کرنے اس سے ہدایت لینے اور اس کا نور اپنے سینوں میں اتارنے اور
اس کی ہدایات دنیا بھر میں پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حافظ محمد رمضان عطّاری (درجۂ سابعہ، جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ
سرگودھا ،پاکستان)

قراٰنِ
مجید اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے۔ جو
اللہ پاک نے انسانوں کو دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کرنے کے لئے عطا
فرمائی ہے۔ قراٰنِ حکیم کی تلاوت کرنا ،سننا، اس کو دیکھنا ، چھونا ثواب حاصل کرنے
کا ذریعہ ہے ۔ اس کی تلاوت کرنا عقل کو بڑھاتاہے ۔ یہ ہدایت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ
ہے ۔مسلم شریف میں ہے کہ : جس نے قراٰن مجید کی پیروی کی وہ ہدایت پر ہے اور جس نے
اسے چھوڑ دیا وہ گمراہی پر ہے۔ (صراط الجنان، پ4،اٰل عمرٰن ،تحت الآیۃ:103)
قراٰن مجید کے 5 حقوق درج ذیل ہیں:(1) قرآن مجید پر
ایمان لانا: اس پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو سچے دل سے ماننا اور اس کو تسلیم کرنا کہ یہ اللہ پاک ہی کا کلام ہے ۔فرمان باری ہے:
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَؕ- ترجمۂ کنزالایمان: رسول اس پر ایمان لائے جو ان
کے رب کی طرف سے ان کی طرف نازل کیا گیا اور مسلمان بھی (ایمان لائے
)۔(پارہ3،البقرۃ:285)
یعنی
اللہ تعالی کی کتابوں پر ایمان لانا اور
یہ عقیدہ رکھنا کہ جو کتابیں اللہ پاک
نے اپنے رسولوں
پر نازل فرمائیں وہ سب حق سچ اور اللہ پاک
کا کلام ہیں اور یہ کہ قرآن حکیم ہر قسم
کی تبدیلی سے محفوظ ہے : (ملخصاً صراط الجنان،البقرۃ،تحت الآیۃ:285)
دوسری جگہ ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْ
نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُؕ- ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے
اپنے رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو اس سے پہلے نازل کی (ان سب پر ہمیشہ) ایمان
رکھو ۔(پ5،النسآء:136)
(2) قراٰنِ مجید کی
تلاوت کرنا: ارشاد باری ہے : اُتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنَ
الْكِتٰبِ ترجمہ کنزالعرفان: اس
کتاب کی تلاوت کر جو تمہاری طرف وحی کی گئی ہے۔ (پ21،العنکبوت:45) یعنی اس کی تلاوت عبادت بھی ہے اور اس میں لوگوں
کے لئے تمام قسم کے احکامات و اخلاق کی تعلیم بھی ہے ۔ (ملخص از خزائن العرفان،تحت
الآیۃ:45 ،ص743)
فرمان
آخری نبیِّ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
: حضرت جندب بن عبداللہ سے روایت کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب تک تمہارا دل لگے
قراٰنِ کریم پڑھتے رہو پھر جب ادھر ادھر ہونے لگو تو اس سے اٹھ جاؤ۔ (مراۃ
المناجیح،ج3،ص283، حدیث:2086 مطبوعہ قادری
پبلشرز) اس حدیث پاک کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: زیادہ سے زیادہ تلاوت قراٰنِ کریم کرنی
چاہئے مگر جس شخص کا کبھی بھی تلاوت میں دل نہ لگے تو وہ زبردستی تلاوت کرے ان شاءاللہ آہستہ آہستہ دل
لگنا شروع ہو جائے گا۔ ( ملخص از مراۃ المناجیح،تحت الحدیث:2086)
(3) قراٰنِ کریم کو سمجھنا: اللہ پاک
نے قراٰنِ کریم کے احکامات کو سمجھنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے : اِنَّا جَعَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّكُمْ
تَعْقِلُوْنَۚ(۳) ترجَمۂ
کنزُالایمان: ہم نے اسے عربی قرآن اُتارا کہ تم سمجھو ۔(پ25،الزخرف:3) اس آیت کے تحت مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :عربی زبان میں اس لئے اتارا
کہ اے عرب والوں! تم اس کے معانی و احکام کو سمجھ سکو۔ (خزائن العرفان،تحت
الآیۃ:03 ،ص899)
کیونکہ
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
عرب میں تھے ۔ سب سے آخری نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا خَیْرُ کُمْ مَنْ تَعَلَّمَ
الْقُراٰنَ و َعَلَّمَہ یعنی تم میں بہترین شخص وہ
ہے جس نے قراٰن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا ۔ (تلاوت کی فضیلت
، ص: 4 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
(4)قراٰنِ حکیم
پر عمل کرنا (Acting
upon the Holy Quran) : علامہ احمد صادی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: کہ اے لوگو! قراٰن کے احکامات پر پابندی سے عمل کرو ۔ (صراط الجنان، بنی
اسرائیل ،پ 15، تحت الآیۃ: 86 – 87)
فرمانِ
آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی
جب تک کہ قراٰن جہاں سے آیا تھا وہاں لوٹ نہ جائے۔ عرش کے گِرد قراٰن کی ایسی
بھنبھناہٹ ہوگی جیسے شہد کی مکھی (Bee) کی ہوتی ہے ۔ اللہ پاک قراٰن سے فرمائے گا
کہ تیرا کیا حال ہے؟ قراٰن عرض کرے گا: اے
اللہ میں تیرے پاس سے گیا اور تیری ہی طرف لوٹ آیا ہوں۔ میری تلاوت تو کی گئی لیکن
میرے احکامات پر عمل نہ کیا گیا ۔ (صراط الجنان، پ 15، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: 86
- 87) ( مسند الفردوس ، باب لام – الف، 5/
79- حدیث:7513)ایک روایت میں ہے کہ جو قراٰن کی پیروی کرے گا وہ دنیا میں گمر اہ اور
آخرت میں بد بخت نہ ہوگا۔ (صراط الجنان ، پ 16 ،طہٰ : 123 تحت الآیۃ) پیروی سے مراد احکامِ قراٰن پر صحیح عمل کرنا ہے۔
لہذا ہمیں چاہیئے کہ قراٰن کی تعلیمات پر
عمل کریں۔
(5) قراٰن مجید کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانا
:فرمان باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا
الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے رسول! جو کچھ آپ کی
طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا اس کی تبلیغ فرما دیں ۔ (پ6، المائدۃ:67)
یعنی
لوگوں کو نصیحت کرتے رہنا چاہیئے ۔ نصیحت کرنے میں ہی ایک مبلغ اور دوسرے لوگوں کا
فائدہ ہے۔ فرمان ِآخری نبی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ہے: بَلِّغُوْ اعَنِّیْ وَلَوْ اٰیَۃً ترجمہ: پہنچا
دو میری طرف سے اگر چہ ایک ہی آیت ہو۔ (شرح ریاض الصالحین ،کتاب العلم ، باب فضل
العلم، ص161،حدیث : 1385)
خلاصہ کلام: اس
کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں مسلمان ہونے کی حیثیت سے قراٰن کے مذکورہ حقوق کو
پورا کرنا چاہیے جو کہ ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی کا ضامن ہے۔
حافظ مزمل عطّاری (مدرس فیضان آن لائن اکیڈمی
”دعوت اسلامی “ ملتان پاکستان)

حقوق
حق کی جمع ہے جس طرح معاشرے میں پڑوسی والدین، زوجین اور اساتذہ وغیرہ کے حقوق
ہوتے ہیں ، بالکل اسی طرح کتاب اللہ یعنی قرآن کریم کے بھی کچھ حقوق ہیں ۔ جن کا
ادا کرنا ہم مسلمانوں پر ضروری ہے۔
(1) قرآن پر ایمان لانا: قرآن
پاک کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے۔ قرآن پر ایمان لانے کا
مطلب ہے کہ ”اقرار باللسان و تصدیق بالقلب“ زبان سے اس بات کا اقرار کرنا اور دل سے سچا
جاننا کہ یہ آخری آسمانی کتاب ہے ۔ حضرت جبرائیل علیہ السّلام کے ذریعے اللہ کے
آخری نبی پر یہ کتاب نازل ہوئی ۔قرآن پر ایمان لانے کے بارے میں اللہ نے قرآن
میں ارشاد فرمایا:اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ
مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: رسول
ایمان لایا اس پر جو اس کے رب کے پاس سے اس پر اُترا اور ایمان والے سب نے مانا۔(البقرۃ:285)
(2) قرآن کی تلاوت کرنا:قرآن
کا دوسرا حق یہ ہے کہ اس لاریب کتاب کی
تلاوت بھی کی جائے ااور اس عظیم الشان کتاب کی
تلاوت کرنے کے بہت سے فضائل و برکات ہیں۔
اللہ کےآخری نبی نے فرمایا کہ : من قرء من القرآن حرفاًفلہ عشر حسنات ۔جس
نے قرآن کا ایک حرف پڑھا اس کے لئے دس
نیکیاں ہیں ۔ ( مسند الرویانی،الحدیث
605،ج1،ص397)
(3) قرآن کو سمجھنا: ماننے اور پڑھنے کے بعد تیسرا حق یہ ہے
کہ اس قرآن کو سمجھا جائے اور ظاہر ہے کہ
قرآن اسی لئے نازل ہوا کہ اس کا فہم حاصل کیا جائےکہ قرآن ہمیں کیا بتا رہا ہے؟
اس میں ہمارے لئے کیا پیغام ہے؟ اس میں ہمارے لئے کیا کیا خوشخبریاں ہیں ۔ قرآن کو سمجھنے کے بارے میں اللہ پاک قرآن میں
فرماتا ہے : كَذٰلِكَ
یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ(۠۲۴۲)ترجمۂ
کنزالایمان: اللہ یونہی بیان کرتا ہے تمہارے لیے اپنی آیتیں کہ کہیں تمہیں سمجھ ہو
(البقرۃ:242)
(4) قرآن پر عمل کرنا: قرآن
پر ایمان لانے اس کی تلاوت کرنےاور اسے سمجھنے کے بعد قرآن کا چوتھا حق یہ ہے کہ
اس پر عمل کیا جائے ۔ قرآن مکمل ضابطہ حیات ہے اس نے زندگی کے ہر پہلو پر روشنی
ڈالی ہے اور وہ علم ،علم ہی نہیں جس پر
عمل نہ کیا جائے۔ عمل کا حکم تو خود نبی پاک کوبھی دیا گیا اور باقی سب ایمان والوں کو بھی دیا گیا اللہ
نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا : اِتَّبِـعْ
مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَۚ-ترجَمۂ کنزُالایمان: اس پر چلو
جو تمہیں تمہارے رب کی طرف سے وحی ہوتی ہے۔(الانعام:106)
حضرت
عائشہ رضی اللہُ عنہا سے پوچھا گیا کہ حضور کی سیرت کیسی تھی تو فرمایا: کان خلقُہٗ القرآنَ۔یعنی
سارا قرآن نبی پاک کے اخلاق کا نمونہ ہے۔ (مسند احمد، الحدیث: 25285، ج7، ص39)
(5) دوسروں تک پہنچانا:ماننے،
پڑھنے،سمجھنے اور عمل کرنے کے بعد قرآن کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ہر مسلمان اپنی
صلاحیت کے مطابق قرآن کے احکامات دوسروں تک پہنچائےاور وہ شخص جو قرآن دوسروں کو سکھاتا ہے اسے حدیث کے مطابق بہترین
لوگوں میں شامل کیا گیا ہے ۔اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: خیرکم من تعلم القرآن و علمہ ،
یعنی تم میں بہترین شخص وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔(صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن ،الحدیث: 5027 ،ج3،ص410)
اللہ
رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھنے اور اس پر
عمل کر کے دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا
فرمائے۔ اٰمین یا رب العٰلمین۔
غلام نبی عطّاری ( درجہ دورة الحديث فیضان مدینہ آفندی
ٹاؤن حيدرآباد پاکستان)

اللہ پاک نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بہت
سارے اوصاف سے مزین فرما کر دنیا پر دینِ اسلام کی تبلیغ کے لئے بھیجا جن کی کوئی
انتہا نہیں۔ اعلی حضرت رحمۃُ الله علیہ فرماتے :
تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں
تری
حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا
کیا کہوں تجھے
اور جس شخصیت کو اللہ پاک نے دینِ اسلام کی تبلیغ کے لئے
بھیجا اس مبارک ہستی اور اس کی بارگاہ کے آداب بھی امتیوں کو قراٰنِ کریم کے ذریعہ
سکھائے۔ مثلاً مجلس میں بیٹھنے کے آداب، بات چیت کے آداب، ندا( پکارنے) کے طریقے
وغیرہ جن میں سے 5 آداب بارگاہِ نبوی قراٰنِ کریم کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے:۔
(2،1) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ
لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ
اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور
ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں
تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)تفسیر : اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کو
اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں ،پہلا ادب یہ
ہے کہ اے ایمان والو! جب نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام
فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان
کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو ۔دوسرا
ادب یہ ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کرنے میں ادب کا
پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ
پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف وتکریم کے کلمات اور
عظمت والے اَلقاب کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ، یا نَبِیَّ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، کیونکہ ترکِ ادب
سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہو گی ۔( قرطبی
، الحجرات ، تحت الآیۃ: 2 ، 8 / 220 ، الجزء السادس عشر)
(3) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں آہستہ
اور پست آواز میں بات کرنے والوں کا مقام و مرتبہ اور اجرو ثواب اس آیت مبارکہ میں
ملاحظہ فرمائیے : اِنَّ الَّذِیْنَ
یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ
امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ
عَظِیْمٌ(۳) ترجمۂ کنز الایمان :بےشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں
رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے
بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(پ26،الحجرات:3) تفسیر: اس کے شانِ نزول میں ہے : جب یہ آیت(لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ
صَوْتِ النَّبِیِّ) نازل ہوئی تو اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق اور عمر فاروق
اور کچھ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بہت احتیاط لازم کر لی اور
سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں بہت ہی پست آواز سے عرض
و معروض کرتے۔
اس آیت سے ہونے والی
معلومات: (1)… تمام عبادات بدن کا تقویٰ ہیں اور حضورِ اقدس صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب دل کا تقویٰ ہے۔ (2)…اللہ پاک نے صحابہ ٔکرام رضی اللہُ عنہم کے دل تقویٰ کے لئے پَرَکھ
لئے ہیں تو جو انہیں مَعَاذَاللہ فاسق مانے وہ اس آیت کا مُنکر ہے۔(3)… حضرت ابو
بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہما کی بخشش یقینی ہے کیونکہ اللہ پاک نے
ان کی بخشش کا اعلان فرما دیا ہے ۔(صراط الجنان، 9/405)
(4) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو گھر کے باہر سے
پکارنے والوں کو اللہ پاک نے بے عقل فرمایا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا
یَعْقِلُوْنَ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان:
بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔ (پ26،الحجرات: 4) بنو تمیم کے چند لوگ دوپہر کے وقت رسولِ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں پہنچے ،اس وقت حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم آرام فرما رہے تھے، ان لوگوں نے حُجروں کے باہر سے حضورِ اقدس صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پکارنا شروع کر دیا اور حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم باہر تشریف لے آئے، ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور
رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جلالت ِشان کو بیان فرمایا گیا کہ سیّد
المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہِ اقدس میں اس طرح پکارنا جہالت
اور بے عقلی ہے۔( مدارک ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 4 ، ص1151 ، ملخصاً)
(5) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا
وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ
حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104) جب حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان
میں عرض کیا کرتے۔ ’’رَاعِنَا یارسول
اللہ‘‘ اس کے یہ معنی تھے کہ یا
رسول اللہ ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ،
ہمارے حال کی رعایت فرمائیے یعنی کلامِ اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے۔
یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کا معنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی بری نیت
سے کہنا شروع کردیا۔ حضرت سعد بن معاذ رضی
اللہُ عنہ یہودیوں کی اصطلاح سے واقف تھے۔ آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی
زبان سے سن کر فرمایا: اے دشمنانِ خدا !تم پر اللہ کی لعنت، اگر میں نے اب کسی کی
زبان سے یہ کلمہ سنا تو اس کی گردن اڑا دوں گا۔ یہودیوں نے کہا: ہم پر تو آپ برہم
ہوتے ہیں جبکہ مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں ، اس پر آپ رنجیدہ ہو کر سرکار ِ دوعالم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت ِاقدس میں
حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں ’’رَاعِنَا‘‘ کہنے کی ممانعت فرمادی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ ’’اُنْظُرْنَا‘‘ کہنے کا حکم ہوا ۔
(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: 104، 1/ 44-45)
ان آیاتِ مبارکہ سے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
بارگاہ کے آداب معلوم ہوئے اور یہ آداب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
ظاہری حیات کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ آپ کی وفاتِ ظاہری سے لے کر تا قیامت یہی
آداب باقی ہیں۔ معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی تعظیم و توقیر اور ان کی
جناب میں ادب کا لحاظ کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ ادب کا معمولی سا بھی اندیشہ
ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے۔ ایسے الفاظ کے بارے میں حکم شرعی یہ ہے کہ جس لفظ کے
دو معنی ہوا چھے اور برے اور لفظ بولنے میں اس برے معنیٰ کی طرف بھی ذہن جاتا ہو
تو وہ بھی اللہ پاک اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے استعمال نہ کئے
جائیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
بارگاہ کا ادب رب العلمین خود سکھاتا ہے اور تعظیم کے متعلق احکام کو خود جاری
فرماتا ہے۔
اللہ پاک ہمیں بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کے ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا کرے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم