سید زین العابدین(تخصص فی التجويد عالمی مدنی مرکز فیضانِ
مدنیہ کراچی پاکستان)

اللہ پاک کی بارگاہ میں پیارے سب سے آخری نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان اتنی بلند و بالا ہے کہ ان کی بارگاہ کے آداب خود رب
ذوالجلال نے ارشاد فرمائے ہیں:۔
(1) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ
اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) وضاحت: اس آیت الله پاک نے
ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و احترام ملحوظ
رکھنے کی تعلیم دی ہیں۔
(2) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ
فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ
بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور
ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں
تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)وضاحت: اس آیت مبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں: (1) کہ تمہاری آواز
حضور کی آواز سے بلند نہ ہو (2) پکارنے میں ایسے نہ پکاروں جیسے آپس میں ایک دوسرے
کو پکارتے ہو۔ بلکہ تعظیم و توصیف کے کلمات اور عظمت والے القابات سے پکاروں۔
(3) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا
وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ
حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104) وضاحت:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء اکرام علیہم الصلوۃ والسلام کی تعظیم و توقیر اور
ان کی جناب میں ادب کا لحاظ کرنا فرض ہے اور بے ادبی (کفر) ہونے کی طرف اشارہ ہیں۔
(4) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ
لَكُمْ ترجمۂ کنز ُالایمان: اے ایمان والو نبی کے گھروں میں نہ
حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ۔( پ 22، الاحزاب:53 ) وضاحت: اللہ پاک نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضری کے آداب خود بیان فرمائے اس آیت سے یہ معلوم ہوتا
ہے کہ بغیر اجازت مصطفی کی بارگاہ میں جانا ہے ادبی ہے۔
(5) لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ
بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجمۂ
کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے
کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ18،النور:63) وضاحت: تفسیرِ صراط الجنان:
اس آیت میں بھی مصطفی جانِ رحمت کی بارگاہ گا ادب بیان کیا گیا ہے۔
محمد عمرفاروق (درجہ ثالثہ جامعۃُ المدینہ عالمی مدنی
مرکز کراچی پاکستان)

انسان کو ہر زمانے میں اپنی دینی یاد نیوی ضرورت کو پورا
کرنے کے تحت کسی ایسے شخص کی حاجت ہوتی ہے جو اس کے مقصد کو پورا کر سکے۔ ایک
باشعور شخص جب کسی کے پاس مقصد کے حصول کے لیے جائے گا تو وہاں کے اصول و ضوابط
اور لوازمات کا خیال رکھے گا۔ اسی طرح ملازم جب اپنے سے سیٹھ کے پاس، شاگرد اپنے استاد
کے پاس، مرید اپنے پیر کے پاس جاتا تو ہے تو ان کے بارگاہ کا ادب کرتا ہے۔ اس طرح بارگاہِ
رسالت میں حاضری کے بھی آداب ہیں جن کو رب العالمین قراٰنِ کریم میں بیان فرماتا ہے۔
(1)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ
اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا
ہے۔ (پ26، الحجرات:1) آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ پاک اور اس کے
رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً
ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہِ رسالت میں نیاز مندی اور
آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے اور تم اپنے تمام اَقوال و اَفعال میں اللہ پاک سے ڈرو
کیونکہ اگر تم اللہ پاک سے ڈرو گے تو یہ ڈرنا تمہیں آگے بڑھنے سے روکے گا اور ویسے
بھی اللہ پاک کی شان یہ ہے کہ وہ تمہارے تمام اقوال کو سنتا اور تمام افعال کو
جانتا ہے اور جس کی ایسی شان ہے اس کا حق یہ ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔
(2) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب
بتانے والے (نبی) کی آواز سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک
دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں
خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)
(3) وہ لوگ جو حضور کو پکارتے تھے اس حال میں کہ نبی حُجرے میں
تھے، وہ عقل نہیں رکھتے، تو لوگوں کو تلقین کی گئی کہ جب وہ بارگاہِ رسالت میں
حاضر ہوں اور حضور اگر حُجرے میں ہوں تو باہر سے آوازیں نہ دو یہاں تک حضور خود کو
حُجرے سے نکل کر آئیں اور پھر تم ان سے اپنی عرض پیش کرو۔ فرمایا: جو ایسا کرتے
ہیں یعنی باہر سے آوازیں دیتے ہیں وہ بے عقل ہیں۔
(4) اللہ نے فرمایا: تو حضور سے راعنا نہ کہو بلکہ انظرنا کہو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بارگاہِ رسالت میں حاضری کے وقت ایسے الفاظ نہ بولے
جائیں جن میں ترکِ ادب کا معمولی سا بھی خدشہ ہو، اس کو لانا ممنوع ہے اور ایسے
الفاظ نہ استعمال کیے جائیں جن کے دومعنی ہو اچھے اور برے دونوں۔ اور غور سے ہر
بات کو سننا چاہیے۔ یعنی جب حضور کی بارگاہ میں حاضری ہو تو توجہ سے بیٹھو ۔
(5) اے ایمان والو رسول اللہ کے پکارنے کو ایسا معمولی نہ سمجھو
جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے یعنی جب حضور پکاریں اس پر جواب دینا اور
عمل کرنا واجب ہے اور حضور کو نام لے کر نہ پکارو ۔ جیسے آپس میں ایک دوسرے کا نام
لیتے ہو، بلکہ کہو یا رسول الله ،یا نبی الله۔
اس سے معلوم ہوا کہ ادب صرف اس وقت کے لوگوں پر نہیں بلکہ
تمام انسان، جنات اور فرشتوں سب پر جاری ہے اور آداب خاص وقت تک کے لیے نہیں، بلکہ
ہمیشہ کے لیے ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حضور کا باادب طریقے سے ذکر کرنے اور
روضۂ رسول پر با ادب حاضری کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
تنویر احمد عطاری ( جامعۃُ المدینہ فیضانِ فاروق اعظم
سا دھوکی لا ہور پاکستان)

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے۔
(پ26،الحجرات:2)
اللہ پاک نے ایمان
والوں کو دو آداب سیکھائے : (1) پہلا: اے ایمان
والواجب نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی
بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو
بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پست آواز سے کرو۔ ( 2) دوسرا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کرنے میں ادب
کا پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کا نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ
پکارو بلکہ تمھیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف و تکریم کے کلمات اور
عظمت والے القاب سے عرض کرو۔ جیسے کہو یا رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
، یانبی الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔کیونکہ ترکِ ادب سے نیکیوں کے برباد
ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہوگی۔
(3) شانِ
نزول : کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں منافقین اپنی
آوازیں بلند کیا کرتے تھے تاکہ کمزور مسلمان اس معاملے میں ان کی پیروی کریں، اس
پر مسلمانوں کو بارگاهِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں آواز بلند کرنے
سے منع کر دیا گیا۔ (تاکہ منافق اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوں) ۔(صراط الجنان،9/398)
(4) یہ آیت نازل ہونے کے بعد : حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ
عنہ کا حال یہ تھا کہ آپ رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں
بہت آہستہ آواز سے بات کرتے حتی کہ بعض اوقات حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بات سمجھنے کے لئے دوبارہ پوچھنا پڑتا کہ کیا کہتے
ہو ۔(ترمذی)
(5) حضرت سلیمان بن حرب رضی الله عنہ فرماتے ہیں: ایک دن حضرت
حماد بن زید رضی اللہ عنہ نے حدیث پاک بیان کی تو ایک شخص کسی چیز کے بارے میں
کلام کرنے لگ گیا اس پر حماد بن زید رضی اللہ عنہ غضبناک ہوئے اور کہا: اللہ پاک
نے ارشاد فرمایا: ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے۔
(پ26،الحجرات:2)
(6) ابو جعفر منصور بادشاہ مسجدِ نبوی میں حضرت امام مالک رحمۃُ اللہِ علیہ سے ایک مسئلہ میں گفتگو
کررہا تھا(اس دوران اس کی آواز کچھ بلند ہوئی) تو امام مالک رحمۃُ اللہِ علیہ نے
اس سے فرمایا: اے مسلمانوں کے امیر اس مسجد میں آواز بلند نہ کر، کیونکہ اللہ پاک
نے ایک جماعت کو ادب سکھایا اور فرمایا: ترجمہ: اپنی آوازیں نبی ( صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم)کی آواز پر اونچی نہ کرو۔
اریب بن یامین (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
کنزالایمان کراچی پاکستان)

اسلام کی خوبصورت تعلیمات میں سے ایک خوبصورت تعلیم وہ ادب
کی بارے میں ہے ۔ دینِ اسلام نے جتنا زور ادب پر دیا اتنا کسی دوسرے دین نے نہیں
دیا۔ دین اسلام نے بڑوں، اساتذہ، ماں باپ ، حاکم، قلم ،صفحات، کتاب، پانی وغیرہ
الغرض ہر چیز کے ادب کو بیان کیا۔ تو پھر ایسا کیسے ہو سکتا ہے یہ دین ہمیں کائنات
کی جان شہنشاؤں کے شہنشاہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کے
آداب نہ سکھائے۔
دنیا کے شہنشاؤں کا
اصول یہ ہے کہ جب ان میں سے کوئی شہنشاہ آتا ہے تو وہ اپنی تعظیم کے اصول اور اپنے
دربار کے آداب خود بتانا ہے اور جب وہ چلا جاتا تو اپنی تعظیم و ادب کے نظام کو
بھی ساتھ لے جاتا ہے لیکن کائنات میں ایک شہنشاہ ایسا ہے جس کی تعظیم اور اس کی
بارگاہ میں ادب کے اصول و قوانین ساری کائنات کو پیدا فرمانے والے اللہ پاک نازل
کئے ہیں۔ وہ عظیم شہنشاہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ گرامی ہے جن
کی تعظیم و توقیر کرنے کا خود اللہ نے حکم دیا اور قراٰنِ مجید میں آپ کی تعظیم
اور ادب کے باقاعدہ اصول اور احکام بیان فرمائے ۔ جن میں سے 5 یہ ہیں:
(1)حضور حب بلائیں فوراً حاضر ہونا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ
وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر
ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔(پ9،الانفال:24)
(2)ایک دوسری کی طرح حضور کونہ پکارنا :
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجمۂ
کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے
کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ18،النور:63)
(3) حضور کی بارگاہ میں آواز بلند نہ کرنا : یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ
لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور
ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو ۔ (پ26،الحجرات:2)
(4) بے ادبی کے شبہے والے کلمات سے اجتناب کرنا: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ
اسْمَعُوْاؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ
حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو ۔(پ1،البقرۃ:104)
(5) قول و فعل میں آگے نہ بڑھنا: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو۔ (پ26،
الحجرات:1)
الله ہمیں بارگاہِ نبوی کے آداب سیکھنے اور ان پر عمل کرنے
کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
میر احسان الحق خورشیدی (درجہ دورة الحديث جامعۃُ
المدینہ 11-G
مرکز اسلام آباد پاکستان)

پیارے اسلامی بھائیو! یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کسی عظیم
ہستی کے پاس جاتا ہے تو اس کے پاس جانے کے کچھ آداب ہوتے ہیں مثلاً اساتذہ ،
والدین بادشاہ وغیرہ کے پاس جانے کے آداب ہیں ۔ ان آداب کو بجا لانا ضروری ہے جس
طرح ان کے پاس جانے کے آداب ہیں اسی طرح حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی بارگاہ میں حاضری دینے کے بھی آداب ہیں ۔ یوں تو پورا قراٰن ہی ادبِ مصطفی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیان کر رہا ہے لیکن یہاں پر 5 آداب بیان کئے جاتے ہیں:۔
پہلا ادب: نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مقدم نہ ہو ۔
اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1)
یعنی تم پر لازم ہے کہ نہ تم سے اصلاً تقدیم واقع ہو نہ ہی
قول و فعل میں تقدیم واقع ہو ۔ کیونکہ تقدیم واقع ہونا یعنی حضور سرور عالم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے بڑھنا ہے اوریہ بے ادبی ہے اور احترام کے بھی
مخالف ہے۔
دوسرا ادب : بارگاہِ نبوی میں اپنی آوازیں پست رکھو ۔ اللہ پاک نے
ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ
لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ
اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور
ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں
تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2) اس آیت میں فرمایا گیا کہ جب بھی حضورِ اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضری دو تو ان کے حضور عاجزی سے کھڑے رہو اور
آوازیں نہ دو۔
یہ آیتِ مبارکہ ثابت بن قیس کے بارے میں نازل ہوئی کہ ان کی
آواز بات کرنے میں بلند ہو جایا کرتی تھی کیونکہ انہیں ثقلِ سماعت ( یعنی بلند آواز
سنتے تھے) جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ گھر میں بیٹھ گئے اور کہنے لگے میں اہلِ نار
میں سے ہوں۔ تو نبیٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کا حال دریافت
فرمایا۔ تو نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بتایا گیا کہ وہ بیمار بھی
نہیں ہیں لیکن اس آیت مبارکہ کی وجہ سے اپنے آپ کو اہلِ نار سے بتا رہے ہیں تو نبی
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ وہ اہل جنت میں سے ہیں۔
تیسرا ادب : حُجروں کے باہر سے نہ پکارو :۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: اِنَّ
الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا
یَعْقِلُوْنَ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان:
بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔ (پ26،الحجرات: 4)آیتِ مبارکہ میں ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ نبیٔ پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو حُجروں کے باہر سے آوازیں لگاتے ہیں وہ بے عقل ہے۔ اگر
وہ آوازیں نہ لگاتے اور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے باہر آنے کا
انتظار کرتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا ۔
چوتھا ادب : انْظُرْنَا کہو۔ ربِّ کریم مصطفی کے ادب کی تعلیم ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ
اسْمَعُوْاؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ
حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو ۔(پ1،البقرۃ:104)حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابۂ کرام کو
کچھ تلقین فرماتے تو کبھی کبھی درمیان میں عرض کرتے ، راعنا یا
رسول الله اس کے معنی تھے کہ یا رسول اللہ ہمارے حال کی رعایت
فرمائیے ۔ یہود کی لغت میں یہ کلمہ ، سوءِ ادب کے معنی رکھتا تھا، انہوں نے اس نیت
سے کہنا شروع کردیا حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ یہود کی اصطلاح سے واقف تھے آپ
نے ایک روز یہ کلمہ یہودیوں کی زبان سے سن کر فرمایا کہ اے دشمنانِ خدا لغت تم پر
اللہ کی لعنت ، اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سنا تو اس کی گردن مار دوں گا
۔ یہودیوں نے کہا: ہم پر تو آپ برہم ہوتے ہیں جبکہ مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں ،
اس پر آپ رنجیدہ ہو کر سرکار ِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت
ِاقدس میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں ’’رَاعِنَا‘‘ کہنے کی ممانعت فرمادی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ ’’اُنْظُرْنَا‘‘ کہنے کا حکم ہوا ۔
مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کی تعظیم اور ان کی جناب میں
کلماتِ ادب عرض کرنا فرض ہے اور جس کلمے میں ترکِ ادب کا شائبہ بھی ہو اس کو زبان
پر لانا ممنوع ہے۔
پانچواں ادب : نبیٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کو حاکم بنانا: بارگاہِ نبوی کا ادب سکھاتے ہوئے اللہ پاک نے ارشاد
فرمایا: فَلَا وَ رَبِّكَ لَا
یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ترجمۂ کنزالایمان: تو اے محبوب تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک
اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں ۔ (پ 5 ، النسآء:65)اس آیتِ مبارکہ
میں بھی بارگاہِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب بیان ہوا ہے کہ جو
فیصلہ نبیٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرما دیں اگر کوئی اس فیصلے کا
انکار کرے تو وہ مسلمان ہی نہیں۔
خاتمہ: اللہ رب العزت کی بارگاہ میں التجا ہے کہ ہمیں بارگاہ
مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب نصیب فرمائے اور بارگاہِ مصطفیٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی باادب حاضری نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد جلیل نیازی (درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضان ِ
مدینہ خانپور پاکستان)

ادب ایک ایسی شے ہے جو انسان کو باکمال بناتی ہے اور یہ اور
یہ ادب کبھی کبھار انسان کی بخشش و مغفرت کا سبب بن جاتا ہے۔ جیسا کہ ایک بزرگ کے
بارے میں آتا ہے کہ انھوں نے ایک مرتبہ زمین پر ایک کاغذ کے ٹکڑے کو دیکھا جس پر
بسم اللہ شریف لکھا ہوا تھا، تو اسے اٹھا لیا، تو اس کے سبب وہ اللہ کے محبوب بندے
بن گئے اور کبھی کبھار جب انسان بے ادبی کرتا ہے تو یہ اسے ناقص بنا دیتی ہے اور
کبھی وہ مردود کر دیا جاتا ہے جیسا کہ شیطان نے حضرت آدم علیہ السّلام کی بے ادبی
کی تو مردود ہو گیا۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں با ادب بنائے اور بے ادبی سے
محفوظ رکھے۔ اٰمین ۔ با ادب با نصیب۔ آئیے قراٰنِ کریم سے بارگاہِ نبوی کے پانچ
آداب پڑھتے ہیں۔
پہلا ادب : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا
وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ
حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104)اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں سید محمد نعیم الدین مرادآبادی
رحمۃُ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ: اور ہمہ تن گوش ہو جاؤ (یعنی انتہائی توجہ
کے ساتھ سنو) تا کہ یہ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے کہ حضور! توجہ فرمائیں کیونکہ
دربارِ نبوت کا یہی ادب ہے۔ (تفسیر خزائن العرفان ، ص 32 )
دوسرا ادب : لَا
تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجمۂ
کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے
کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ18،النور:63) امام قاضی ناصرالدین
عبد الله بن محمد بن محمد رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ
اے لوگوں رسول کے پکارنے اور نام لینے کو ایسے نہ بنا لو جیسا کہ تم میں سے بعض
بعضوں کو ناموں کے ساتھ اور بلند آواز سے اور کمروں کے پیچھے سے ندا دیتے ہو بلکہ
نبی کریم علیہ السّلام کو عظمت والے لقب تعظیم ، تکریم، توقیر نرم آواز کے ساتھ
اور عجز و انکساری سے انھیں پکارو مثلاً یوں پکارو: یا رسول الله، یا نبی اللہ، یا
حبیب الله ۔( بیضاوی، النور، تحت الآیۃ: 63، 4/ 203)
تیسرا ادب: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ
لَكُمْ ترجمۂ کنز ُالایمان: اے ایمان والو نبی کے گھروں میں نہ
حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ۔( پ 22، الاحزاب:53 ) مفسرِ قراٰن مفتی قاسم دامت
برکاتہم العالیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ
پاک اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضری کے آداب خود
بیان فرمائے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں جو مقام حضور علیہ
السّلام کو حاصل ہے ۔ وہ مخلوق میں سے کسی اور کو حاصل نہیں ۔( تفسیر صراط الجنان، 8/73)
چو تھا ادب : یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا
یُحْیِیْكُمْۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول
کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی
ہے۔(پ9،الانفال:24) اس
آیت سے ثابت ہوا کہ تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب بھی کسی کو
بلائیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ آپ کی بارگاہ میں حا ضر ہو جائے چاہے وہ کسی بھی
کام میں مصروف ہو ۔(صراط الجنان، 3/539 )
پانچواں ادب: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا
اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ
كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا
تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور
ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں
تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2) سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃُ اللہ علیہ ارشاد
فرماتے ہیں کہ: یعنی جب حضور (بارگاہِ رسالت) میں عرض کرو تو آہستہ آواز سے عرض
کرو، یہی دربارِ رسالت کا ادب و احترام ہے۔ (خزائن العرفان)
محمد مبشر رضا عطّاری(درجۂ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
فاروقِ اعظم سادھو کی لاہور پاکستان)

الله پاک نے انسانوں کو زندگی گزارنے کے طریقے بتائے اور دو
رستے دکھائے ایک جنت کا اور دوسرے کی انتہا جہنم ہے۔ پھر سیدھے رستے پر چلنے اور
اچھی زندگی گزارنے کے لئے حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت و فرمانبرداری کا پابند بنایا اور ساتھ ساتھ بارگاہِ
نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں
حاضری کے آداب کو بجالانے کا حکم ارشاد فرمایا۔ ادب کی شریعت مطہرہ میں بہت اہمیت
بیان کی گئی ہے۔ ادب ایسے وصف کا نام ہے جس کے ذریعے انسان اچھی باتوں کی پہچان
حاصل کرتا یا اچھے اخلاق اپناتا ہے۔ ادب کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا
ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہمیں زیادہ علم کے
مقابلے میں تھوڑے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔ (الرسالۃ القشيريۃ، باب الادب، ص315 )
پھر اللہ پاک نے ان آداب کو بطورِ خاص قراٰنِ پاک کا میں بیان فرمایا جن میں سے 5
ملاحظہ ہوں ۔
(1) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سے آگے نہ بڑھنا : بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے
بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا۔ جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰنِ
پاک میں ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ
اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1)
(2) آواز بلند نہ کرنا: بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ
ان کی بارگاہ میں آواز بلند نہ کی جائے۔ جیسا کہ اللہ پاک فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب
بتانے والے (نبی) کی آواز سے ۔ (پ26،الحجرات:2)
(3) بات چلا کر نہ کرنا: آدابِ بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک ادب
یہ ہے کہ ان کو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھنا اور توصیف و تکریم کے کلمات
اور عظمت والے القاب کے ساتھ عرض کرنا ہے یعنی یا رسول الله ، یا نبی اللہ وغیرہ
جیسا کہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں فرماتا ہے: وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو۔ (پ26،الحجرات:2)
(4) آواز پست رکھنا : آواز کو پست رکھنا بھی بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک ادب
ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں فرمایا: اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ
رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ
لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ترجمۂ کنز الایمان :بےشک وہ
جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری
کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(پ26،الحجرات:3)
(5) حُجرے کے باہر سے پکارنے کی ممانعت : بارگاہِ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک ادب
یہ بھی بیان ہوا کہ ان کو حُجرے مبارک سے باہر سے نہ پکارا جائے بلکہ انتظار کیا
جائے یہاں تک حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم خود تشریف لے آئیں۔ جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں فرمایا: اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ
اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان:
بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔ (پ26،الحجرات: 4)
پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ! ان آیات سے یہ بات بھی معلوم
ہوئی کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں سید المرسلین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان اتنی بلند ہے کہ ان کی بارگاہ کے آداب اللہ
پاک نے ارشاد فرمائے ہیں۔ یاد رہے بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا جو ادب و احترام ان آیات میں بیان
ہو یہ آپ کی ظاہری حیاتِ مبارکہ کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ آپ کی وفاتِ ظاہری سے
لے کر تا قیامت بھی یہی ادب و احترام باقی ہے۔ (تفسیر سورۃ الحجرات و الحدید، ص12 ،ملخصاً
مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)
الله پاک ہمیں بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں حاضری کے آداب کو ملحوظِ خاطر
رکھنے اور بے ادبی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کلیم اللہ چشتی عطاری(درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
فاروقِ اعظم، لاہور پاکستان)

دنیا کا اصول ہے جب بھی کوئی بادشاہ آتا ہے وہ اپنے آداب و
تعظیم کے اصول خود بتاتا ہے اور جب تک وہ بادشاہ رہتا ہے وہ اصول بھی قائم رہتے
ہیں۔ لیکن جب اس کی بادشاہت ختم ہو جاتی ہے، تو اس کے آداب بھی دفن ہو جاتے ہیں۔
جہاں کے رحمۃ للعلمین کی تشریف آوری ہوئی تو انہوں اپنے آداب خود نہ بنائے بلکہ ان
کے آداب رب کریم سکھائے۔ قراٰنِ پاک میں کئی آیات میں اللہ پاک نے اپنے محبوب کی
بارگاہ کے آداب مؤمنین کو سمجھائے ۔ آئیے ان میں سے کچھ ہم بھی سیکھتے ہیں۔
(1) رسولِ پاک صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے بڑھنے سے ممانعت: ایمان والوں کو قراٰنِ پاک میں
قولاً وفعلاً رسول پاک صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم آگے بڑھنے کو منع کیا گیا: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) شانِ نزول: چند شخصوں نے عید
الاضحیٰ کے دن سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سے پہلے قربانی کرلی، تو ان کو دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا گیا۔ (خزائن
العرفان )
(2) بارگاہِ نبوی میں آواز بلند کرنے سے ممانعت: قراٰنِ پاک میں
بارگاہِ نبوی میں اونچی آواز کرنے کو بھی منع کیا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا
اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ
كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا
تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور
ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں
تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)اس آیت سے پتہ چلا کہ حضور کی بارہ گاہ میں ادب کے ترک کرنے
سے اعمال کے ضائع ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔ (خزائن العرفان)
(3) حجروں کے باہر سے پکارنے سے ممانعت: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جو حجروں کے
باہر سے پکارتے ہیں، قراٰنِ پاک نے ان کو بے عقل کہا: اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ
وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے
پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔ (پ26،الحجرات: 4)
(4) حضورِ اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بلانے پر فوراً حاضر ہونے کا حکم۔ قراٰنِ پاک میں
حضور علیہ السّلام کے آداب میں سے ایک ادب یہ بیان کیا گیا کہ جب وہ بلائیں تو بغیر
تاخیر کے فوراً حاضر ہو جاؤ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ
لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر
ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔(پ9،الانفال:24) (تفسیر
خزائن العرفان میں ہے : کیونکہ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بلانا اللہ
کا ہی بلانا ہے)۔
(5) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ
میں جس کلمہ میں ترکِ ادب کا شبہ ہو وہ بھی نہ بولا جائے۔
صحابۂ کرام حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ
میں لفظ راعنا بولتے تھے جس کا
مطلب ہمارے حال کی رعایت فرمائیے اور لغت یہود میں یہ لفظ سوءِ ادب کامعنی رکھتا تھا
اس لیے راعنا بولنے سے منع
کیا گیا: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ
اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ
حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104)
مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کر ام علیہم السّلام کی
بارگاہ میں کلماتِ ادب عرض کرنا فرض اور ادب کے اعلی مراتب کا لحاظ رکھنا لازم،
نیز اس آیت کے آخری حصہ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ سے معلوم ہوا کہ ان کی جناب میں بے ادبی کفر ہے۔ (خزائن العرفان،ص36)
دورِ حاضر میں اہلسنت و جماعت کا امتیازی نشان تعظیم و تو قیر
اور آدابِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے اور اہلسنت حضور سرورِ دو عالم
اور جملہ انبیاء کرام علیہم السّلام اور صحابہ واہلبیت اور اولیاء ملت و علماء امت
کے آداب و تعظیم کو دینِ اسلام اور ایمان کا جوہر(اصل) اور جزء لاینفک سمجھتے ہیں ۔
اللہ پاک سے دعا ہے ہمیں اسی عقیدے پر جینا مرنا نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی
الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد سعید سلیم عطاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان
خلفائے راشدین راولپنڈی، پاکستان)

نمبر (1) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) تفسیر ِصراط الجنان: اس آیت
میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و
احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو!
اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول
اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہِ
رسالت میں نیاز مندی اور آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے اور تم اپنے تمام اَقوال و
اَفعال میں اللہ پاک سے ڈرو کیونکہ اگر تم اللہ پاک سے ڈرو گے تو یہ ڈرنا تمہیں آگے
بڑھنے سے روکے گا اور ویسے بھی اللہ پاک کی شان یہ ہے کہ وہ تمہارے تمام اقوال کو
سنتا اور تمام افعال کو جانتا ہے اور جس کی ایسی شان ہے اس کا حق یہ ہے کہ اس سے
ڈرا جائے۔
نمبر (3،2) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ
لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ
اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز
سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو
کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2) اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے
حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں ،پہلا ادب یہ ہے
کہ اے ایمان والو! جب نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں
اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی
آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو ۔دوسرا
ادب یہ ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کرنے میں ادب کا
پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ
پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف وتکریم کے کلمات اور
عظمت والے اَلقاب کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ، یا نَبِیَّ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، کیونکہ ترکِ ادب
سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہو گی ۔( قرطبی
، الحجرات ، تحت الآیۃ: 2 ، 8 / 220 ، الجزء السادس عشر)
نمبر (4) وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا
حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ
رَّحِیْمٌ(۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور
اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم آپ اُن کے پاس تشریف لاتےتو یہ اُن کے لیے بہتر تھا
اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ26،الحجرات:5) تفسیر صراط الجنان: اس آیت میں ان لوگوں کو ادب کی تلقین کی گئی کہ انہیں رسولِ
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پکارنے کی بجائے صبر اور انتظار کرنا چاہئے
تھا یہاں تک کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خود ہی مُقَدّس حجرے سے
باہر نکل کر ان کے پاس تشریف لے آتے اور اس کے بعد یہ لوگ اپنی عرض پیش کرتے۔ اگر
وہ اپنے اوپر لازم اس ادب کو بجا لاتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا اور جن سے یہ بے
ادبی سرزَد ہوئی ہے اگر وہ توبہ کریں تو اللہ پاک اُنہیں بخشنے والا اور ان پر مہربانی
فرمانے والا ہے۔( خازن ، الحجرات ، تحت الآیۃ: 5 ، 4/ 166 ، روح البیان ، الحجرات
، تحت الآیۃ: 5 ، 9 / 68 ، ملخصاً)
نمبر (5)یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ
اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ
حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104) نوٹ: اس آیت سے معلوم ہوا
کہ انبیاء کرام علیہم السّلام کی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں ادب کا لحاظ
کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ ادب کا معمولی سا بھی اندیشہ ہو وہ زبان پر لانا
ممنوع ہے۔ ایسے الفاظ کے بارے میں حکمِ شرعی یہ ہے کہ جس لفظ کے دو معنی ہوں اچھے
اور برے اور لفظ بولنے میں اس برے معنیٰ کی طرف بھی ذہن جاتا ہو تو وہ بھی اللہ پاک
اور حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے
استعمال نہ کئے جائیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کا ادب ربُّ العالَمین خود سکھاتا ہے اور تعظیم کے متعلق
احکام کو خود جاری فرماتا ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح طرح بارگاہِ نبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد شاہ زیب (درجہ سابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ
ملتان، پاکستان )

اللہ پاک کے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی ذاتِ مبارکہ اور آپ کی شان اتنی ارفع و اعلی ہے کہ ربِ کریم نے قراٰنِ
مجید میں جابجا آپ کی نعت بیان فرمائی اور آپ کی اطاعت کا حکم دیا بلکہ آپ کی
اطاعت کو اپنی اطاعت فرمایا: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے
اللہ کا حکم مانا ۔(پ5النسآء:80)اسی طرح اپنے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کے آداب و احترام کے متعلق بھی واضح اور صریح کو حکم
فرمائے۔ چنانچہ
(1)سورۂ نور آیت 63 میں فرمایا : لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ
بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ترجمۂ
کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے
پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ18،النور:63)اس آیتِ کریمہ
کے تحت علامہ علاء الدین علی بن محمد تفسیر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابن عباس رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایسے نہ پکارو
جیسے تم دوسروں کو پکارتے ہو اور یہ بھی کہا گیا کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو نام
سے نہ پکارو بلکہ حضور علیہ الصلاۃ و السّلام کے ادب و تعظیم وتوقیر کو ملحوظ
رکھتے ہوئے یوں پکارو یا حبیب اللہ یا نبی الله یا رسول اللہ۔(تفسیرِ خازن، 3/365)
(2)اسی طرح بارگاہِ نبوت کے آداب کے متعلق اللہ پاک سورہ انفال
میں فرماتا ہے: لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ
اور رسول سے خیانت نہ کرو۔(پ9،الانفال:27) اس
آیت مبارکہ کی تفسیر میں علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم سے خیانت کا معنی یہ ہے کہ آپ کا حکم نہ ماننا یا آپ کی سنت پر عمل
نہ کرنا اور، ابن جریر نے ابن عباس سے تخریج کیا ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی خیانت سے مراد آپ کی نافرمانی اور سنت کو ترک کرنا ہے اور مزید
فرمایا کہ اس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ تم رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے سامنے کچھ اور ظاہر کرو اور تمہارے دلوں میں کچھ اور ہو۔(تفسیر روح
المعانی، 5/257)
آیت سے معلوم ہوا کہ آپ کی بارگاہ میں آپ سے خیانت نہ کی
جائے اور نہ ہی آپ کے سامنے ظاہر کچھ اور کیا جائے اور دلوں میں کچھ اور ہو۔
(3)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کے آداب
بیان فرماتے ہوئے اللہ پاک ایک اور مقام پر فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ
وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر
ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔(پ9،الانفال:24)اس
آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جب رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم تمہیں بلائیں تو اطاعت کرو، اعراض و نافرمانی نہ کرو حتی کہ اگر فرض
نماز بھی پڑھ رہے ہو تو نماز چھوڑ کر رسولُ اللہ کے بلانے پر حاضر ہونا واجب ہے۔
عظیم محدث حضرت سلیمان بن اشعث سجستانی روایت فرماتے ہیں کہ
حضرت ابو سعید بیان کرتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے بلایا تو میں حاضر نہ ہوا پھر میں نماز پڑھ کر حاضر ہوا تو
آپ نے پوچھا تم کیوں نہیں آئے میں نے عرض کیا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا فرمایا کیا
اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ و رسول کے بلانے پر فوراً حاضر ہو۔
(4)بارگاہِ نبوت کی عظمت و شان کو بیان فرماتے ہوئے اللہ پاک
نے ایک اور مقام پر فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا
بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ ترجمۂ کنز ُالایمان: اے ایمان والو نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن
نہ پاؤ۔( پ 22، الاحزاب:53 )
اس آیتِ مبارکہ کے تحت مفتی قاسم صاحب لکھتے ہیں اس آیت کا شانِ
نزول یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
کھانے کے وقت کا انتظار کرتے رہتے تھے، پھر وہ آپ کے حجروں میں داخل ہو جاتے اور
کھانا ملنے تک وہیں بیٹھے رہتے، پھر کھانا کھانے کے بعد بھی وہاں سے نکلتے نہ تھے
اور اس سے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اَذِیَّت ہوتی تھی، اس پر یہ
آیت نازل ہوئی۔
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! میرے حبیب صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گھروں میں یونہی حاضر نہ ہو جاؤ بلکہ جب اجازت ملے جیسے
کھانے کیلئے بلایا جائے تو حاضر ہوا کرو اور یوں بھی نہ ہو کہ خود ہی میرے حبیب
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گھر میں بیٹھ کر کھانا پکنے کا انتظار کرتے رہو،
ہاں جب تمہیں بلایا جائے تو اس وقت ان کی بارگاہ میں حاضری کے احکام اور آداب کی
مکمل رعایت کرتے ہوئے ان کے مقدس گھر میں داخل ہو جاؤ، پھر جب کھانا کھا کر فارغ
ہو جاؤ تو وہاں سے چلے جاؤ اور یہ نہ ہو کہ وہاں بیٹھ کر باتوں سے دل بہلاتے رہو
کیونکہ تمہارا یہ عمل اہلِ خانہ کی تکلیف اور ان کے حرج کا باعث ہے ۔ بیشک تمہارا
یہ عمل گھر کی تنگی وغیرہ کی وجہ سے میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو
ایذا دیتا تھا لیکن وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور تم سے چلے جانے کے لئے نہیں فرماتے
تھے لیکن اللہ پاک حق بیان فرمانے کو ترک نہیں فرماتا ۔ ( روح البیان، الاحزاب،
تحت الاٰيۃ : 53 ، 7/ 213-214)
(5)بارگاہِ نبوت کے آداب بیان فرماتے ہوئے الله پاک سورہ حجرات
آیت نمبر 1 میں فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ
اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1) حضرت مفتی احمد یار خان
فرماتے ہیں کہ اس آیت میں حکم عام ہے یعنی نہ کسی بات میں اور نہ ہی کسی کام میں
اور نہ ہی کھانا تناول فرمانے میں نہ ہی اپنی عقل اور رائے کو حضور کی رائے سے
مقدم کرو۔ (شان حبیب الرحمٰن من آیات القراٰن، ص 224 ،مکتبہ اسلامیہ)
اس سے معلوم ہوا کہ رسولُ اللہ کی اجازت کے بغیر کسی قول
اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے۔
ابو الوفا بن محمد اسلم (درجہ سابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
مدینہ ملتان، پاکستان)

ادب گاہیست زیر آسماں از عرش
نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید
ایں جا
یعنی آسمان کے نیچے مصطفی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا دربار ایک ایسی ادب گاہ ہے جہاں حضرت جنید بغدادی اور بایزید بسطامی
عليهما الرحمہ جیسے عظیم اولیا بھی سانس روک کر آتے ہیں یعنی ادب سے اونچا سانس نہیں
لیتے ۔ ادب، ایک قسم کا خاص اور سنجیدہ برتاؤ ہوتا ہے جو ہر چھوٹے، بڑے، جان،
انجان، سب سے کیا جاتا ہے اس کی وجہ اچھی تربیت ہے۔ اسلام کے مطابق کے زندگی
گزارنا اور گفتگو اور کردار میں عمدگی اور حسنِ اخلاق کا مظاہرہ کرنا ادب کی نشانی
ہیں۔ جبکہ بیوقوفی، برا کلام کرنا، برے اخلاق، گالی گلوچ، ہٹ دھرمی اور ضد وغیرہ
بے ادبی کے نمونے ہیں۔ ادب و احترام ہی کی بدولت انسان کو کامیابی و کامرانی نصیب
ہوتی ہے۔
اللہ پاک نے تمام مخلوقات میں ہمارے نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جو عزت و شرافت، احترام و تعظیم اور مقام و مرتبہ عطا فرمایا،
اتنا کسی اور کو نہیں دیا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دل سے وجہ تخلیق
کائنات، واجب الاتباع، شفیع المذنبین، رحمت اللعالمین، محسن انسانیت، ہادی و رہبر
اور محبوب خدا جاننا اور ماننا ضروری ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے بادشاہ اپنے دربار کے آداب کے
قوانین خود بناتے ہیں پھر جو ان قوانین پر عمل کرتا ہے اسے انعام اور جو نہیں کرتا
اس کی سرزنش کرتے ہیں اور یہ قوانین صرف انسانوں پر جاری ہوتے ہیں دیگر مخلوقات پر
نہیں اور جب بادشاہ دنیا سے چلا جاتا ہے تو اس کے قوانین بھی ختم لیکن حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا دربار، ایسا دربار ہے کہ جس کے آداب اور جس میں حاضر
ہونے کے قاعدے، سلام و کلام کرنے کے طریقے، خود ربِّ کریم نے بنائے اور اپنی مخلوق
کو بتائے کہ اے میرے بندو! جب اس دربار میں آؤ تو ایسے ایسے آداب کا خیال رکھنا
اور خود فرمایا کہ اگر تم نے اس کے خلاف کیا تو تم کو سخت سزا دی جائے گی پھر لطف یہ
کہ اس شہنشاہ نے ہم سے پردہ فرما لیا اس کی چہل پہل ہماری نگاہوں سے غائب ہو گئی
مگر اس کے آداب اب تک وہی باقی، اس کا طمطراق اسی طرح برقرار، پھر اس دربار کے
قوانین صرف انسانوں پر جاری نہیں بلکہ وسعتِ سلطنت کا یہ حال ہے کہ فرشتے بغیر
اجازت وہاں حاضر نہ ہوسکیں، جانور سجدے کریں، بے جان کنکر اور درخت کلمہ پڑھیں،
چاند، سورج اشاروں پر چلیں، اس کے اشارے سے بادل برسیں، دوسرا اشارہ پا کر بادل
پھٹ جائیں غرض یہ کہ ہر عرشی، فرشی اس قاہر حکومت کے تابع ہیں۔ (سلطنتِ مصطفیٰ ص،
2 مطبوعہ، ضیاء القراٰن پبلیکیشنز لاہور)
قراٰنِ کریم میں جہاں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی سیرتِ طیبہ کا بیان ہے وہی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت و اتباع
کا حکم بھی ہے۔ اسی طرح سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے
ادب و احترام کے تقاضے بجا لانے کی تعلیم بھی ملتی ہے۔ بے شمار آیاتِ مبارکہ اس پر
شاہد ہیں کہ اہلِ ایمان پر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب کرنا
اور تعظیم نبوی کو ہر حال میں ملحوظ خاطر رکھنا ایمان کی سلامتی کے لیے لازمی اور
ضروری ہے۔
قراٰنِ کریم سے چند آداب بارگاہِ نبوی ملاحظہ فرمائیں:۔
(1)کسی کام میں حضور
سے آگے نہ بڑھنا: کچھ لوگ زمانہ رسالت میں حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سے پہلے ہی قربانی کر لیتے اور کچھ لوگ رمضان سے پہلے روزے رکھنا شروع کر دیتے،
اللہ نے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ
اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1)
اس آیت نے ادب سکھایا کہ کوئی مسلمان اللہ کے حبیب علیہ السّلام
سے کلام میں، چلنے میں غرض کسی کام میں حضور سے آگے نہ بڑھے حتی کے راستہ میں رسولُ
اللہ سے آگے ہرگز نہ چلے۔ (سلطنتِ مصطفیٰ ص، 2)
اس آیت میں اللہ پاک اور رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم دونوں سے آگے نہ بڑھنے کا فرمایا گیا حالانکہ اللہ پاک سے آگے
ہونا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ وہ نہ زمانہ میں ہے نہ کسی مکان میں اور آگے ہونا یا
زمانہ میں ہوتا ہے یا جگہ میں ، معلوم ہوا کہ آیت کا مقصد یہ ہے کہ رسولِ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے نہ بڑھو، ان کی بے ادبی دراصل اللہ پاک کی بے ادبی
ہے۔( شان حبیب الرحمٰن،ص224- 225 مخلصا)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :(اس
آیت کا)شانِ نزول کچھ بھی ہو مگر یہ حکم سب کو عام ہے یعنی کسی بات میں ،کسی کام
میں حضور علیہ الصّلوۃُ و السّلام سے آگے ہونا منع ہے ،اگر حضور علیہ السّلام کے
ہمراہ راستہ میں جا رہے ہوں تو آگے آگے چلنا منع ہے مگر خادم کی حیثیت سے یا کسی
ضرورت سے اجازت لے کر(چلنا منع نہیں )، اگر ساتھ کھانا ہو تو پہلے شروع کر دینا
ناجائز، اسی طرح اپنی عقل اور اپنی رائے کو حضور علیہ السّلام کی رائے سے مقدم
کرنا حرام ہے۔( شان حبیب الرحمٰن، ص224)
(2) حضور کی بارگاہ میں
ذو معنی الفاظ استعمال کرنا: "سلطنتِ
مصطفیٰ" صفحہ 5 پر ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان جب حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوتے حضور سے تعلیم حاصل کرتے تو بعض اوقات اگر
کچھ سمجھ نہ آتا تو عرض کرتے" راعنا یا رسول اللہ" یعنی حضور ہمارا لحاظ فرما دیجئے یعنی دوبارہ فرمائیں
تاکہ ہم سمجھ لیں۔ یہود زبان میں یہ لفظ گستاخی تھا تو اس معنی میں استعمال کرنے
لگے اور دل میں خوش ہوئے کہ ہم کو بارگاہِ رسالت میں بکواس کرنے کا موقع مل گیا۔ نیتوں
سے واقف رب ہے، اس کو یہ کیسے پسند ہو سکتا تھا کہ کسی کو میرے محبوب کی جناب میں
گستاخی کا موقع ملے، آیتِ کریمہ آئی اور "راعنا" کی بجائے "انظرنا" (حضور ہم پر نظر فرمائیں) کہنے کا حکم ہوا۔
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ
عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ
حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السّلام کی
تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں ادب کا لحاظ کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ
ادب کا معمولی سا بھی اندیشہ ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے۔ ایسے الفاظ کے بارے میں
حکمِ شرعی یہ ہے کہ جس لفظ کے دو معنی ہوں اچھے اور برے اور لفظ بولنے میں اس برے
معنیٰ کی طرف بھی ذہن جاتا ہو تو وہ بھی اللہ پاک اور حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے لئے استعمال نہ کئے جائیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پُر نور
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کا ادب ربُّ العالَمین خود سکھاتا ہے اور
تعظیم کے متعلق احکام کو خود جاری فرماتا ہے۔
یاد رہے کہ اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انبیاء
کرام علیہم السّلام کی جناب میں بے ادبی کفر ہے۔ (صراط الجنان، 1/ 181)
(3)حضور کی بارگاہ میں
راز کی بات کہنے سے پہلے کچھ صدقہ کرنا: ایک بار ایسا
اتفاق ہوا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں مالدار صحابہ کرام
علیہم الرضوان حاضر خدمت تھے عرض معروض کا سلسلہ طویل ہو گیا جس کی وجہ سے غریب
صحابہ کرام علیہم الرضوان کو کچھ عرض کرنے کا موقع نہ ملا، جس کے بعد یہ آیت اتری
اور صدقہ کرنے کا حکم ہوا۔
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ
الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةًؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ
لَّكُمْ وَ اَطْهَرُؕ-فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان
: اے ایمان والو! جب تم رسول سے تنہائی میں کوئی بات عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے
پہلے کچھ صدقہ دے لو، یہ تمہارے لیے بہت بہتر اور زیادہ پاکیزہ ہے ، پھر اگر تم(
اس پر قدرت)نہ پاؤ تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے ۔ (پ28،المجادلۃ: 12)
سبحان اللہ کیا خوبصورت تعلیم ہے کہ رب کی بارگاہ میں حاضری
دینی ہو یعنی نماز پڑھنی ہو تو وضو کافی مگر رب کے محبوب کی بارگاہ میں حاضری دینی
ہو تو پہلے صدقہ کرو اس میں دو فائدے ہیں ایک تو غریب صحابہ کرام علیہم الرضوان کو
عرض کرنے کا موقع ملنا ہے اور دوسرا یہ کہ دل میں اس بارگاہ کا ادب بیٹھ جائے گا
جو چیز کچھ خرچ اور محنت سے حاصل ہو اس کی وقعت زیادہ ہوتی ہے اگرچہ یہ آیت کریمہ
بعد کو منسوخ ہوگئی مگر بارگاہِ رسالت کی شان کا پتہ لگ ہی گیا۔ (سلطنت مصطفیٰ، ص
5-6)
بعض روایتوں کے مطابق اس حکم پر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ
عنہ نے عمل کیا اور 1دینار صدقہ کرکے 10 مسائل دریافت کئے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی
اللہ عنہ کے علاوہ اور کسی کو اس حکم پر عمل کرنے کا وقت نہیں ملا۔(صراط الجنان، 10/
49)
(4)حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں آواز بلند کرنا: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہِ عالی وہ بارگاہ ہے جہاں پر
آواز بلند کرنے سے منع کیا گیا۔ ایک صحابی جن کا نام حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی
اللہ عنہ ہے وہ اونچا سنا کرتے تھے ان کی آواز بھی اونچی تھی اور بات کرنے میں
آواز بلند ہو جایا کرتی تھی اور بعض اوقات اس سے حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کو اذیت ہوتی تھی۔ ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا
اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ
كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا
تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز
سےاور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو
کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)
اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے
حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں ،پہلا ادب یہ ہے
کہ اے ایمان والو! جب نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں
اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی
آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو ۔دوسرا
ادب یہ ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کرنے میں ادب کا
پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ
پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف وتکریم کے کلمات اور
عظمت والے اَلقاب کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ، یا نَبِیَّ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، کیونکہ ترکِ ادب
سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہو گی ۔(صراط الجنان،
9 /397)
علما نے یہاں تک فرمایا کہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کے ساتھ پکارنا یعنی "یا محمد" کہنا حرام ہے۔
(صراط الجنان، 1/49)
اللہ اکبر کیسی بلند بارگاہ ہے عبادات میں غلطی ہو جائے تو
"سجد سہو" "دم" "قضا" وغیرہ کی صورت میں کفارہ ہے لیکن
محبوب کی بارگاہ ایسی بارگاہ کہ اگر آواز بلند ہو جائے تو ساری زندگی کے اعمال ہی
ضائع۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ کی جناب میں سب زیادہ مقرب بارگاہ، حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ ہے کہ جس میں بلند آواز ہونا رب نے گوارا نہ
فرمایا اور زندگی بھر کے اعمال ضائع ہونے کی وعید سنائی۔
(5) حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم پر ہر حال میں عمل کرنا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَا كَانَ
لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ
رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ-وَ
مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ(۳۶)ترجمۂ کنزالایمان: اور کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ
و رسول کچھ حکم فرما دیں تو اُنہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے اور جو حکم نہ
مانے اللہ اور اس کے رسول کا وہ بےشک صریح گمراہی بہکا۔ (پ 22 ، الاحزاب: 36)
اس آیت کریمہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ حضرت زید ابن حارثہ جو
حضور علیہ السّلام کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضور کی خدمت میں رہتے تھے حضور نے
ان کے نکاح کا پیغام حضرت زینب بنت جحش کو دیا۔ حضرت زینب بنت جحش خاندانِ قریش کی
بڑی عزت والی بی بی تھی ان کے بھائی عبداللہ بن جحش نے اس کو منظور نہ کیا کیونکہ
وہ قریشی اور بہت باعزت تھی زید قریشی نہ تھے نکاح میں کفو کا خیال رکھا جاتا ہے
اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اس آیت کے نزول کے بعد ان سب کو راضی ہونا پڑا اور
نکاح ہوگیا۔ (سلطنت مصطفیٰ، ص 19)
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں:(1)آدمی پر رسولِ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت ہر حکم میں واجب ہے۔ (2)…حضور پُر نور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حکم اللہ پاک کا حکم ہے اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے مقابلے میں کوئی اپنے نفس کا بھی خود مختار نہیں ۔ اعلیٰ حضرت
امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیت کا شانِ نزول لکھنے کے بعد فرماتے ہیں
’’ظاہر ہے کہ کسی عورت پر اللہ پاک کی طرف سے فرض نہیں کہ فلاں سے نکاح پر خواہی
نخواہی راضی ہوجائے خصوصاً جبکہ وہ اس کا کُفو (یعنی ہم پلہ) نہ ہو خصوصاً جبکہ
عورت کی شرافت ِخاندان کَواکب ِثریا (یعنی ثریا ستاروں ) سے بھی بلند وبالاتر ہو،
بایں ہمہ اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا دیا ہوا پیام نہ ماننے پر اللہ
پاک نے بعینہٖ وہی الفاظ ارشاد فرمائے جو کسی فرضِ اِلٰہ (یعنی اللہ پاک کے فرض)
کے ترک پر فرمائے جاتے اور رسول کے نامِ پاک کے ساتھ اپنا نامِ اقدس بھی شامل فرمایا
یعنی رسول جو بات تمہیں فرمائیں وہ اگر ہمارا فرض نہ تھی تو اب ان کے فرمانے سے
فرضِ قطعی ہو گئی ،مسلمانوں کو اس کے نہ ماننے کا اصلاً اختیار نہ رہا، جو نہ مانے
گا صریح گمراہ ہوجائے گا، دیکھو رسول کے حکم دینے سے کام فرض ہوجاتا ہے اگرچہ فی
نفسہ خدا کا فرض نہ تھا ایک مباح و جائز
امر تھا۔(3)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم اور آپ کے مشورے میں فرق
ہے، حکم پر سب کو سر جھکانا پڑے گا اور مشورہ قبول کرنے یا نہ کرنے کا حق
ہو گا۔ اسی لئے یہاں : ’’ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا ‘‘ ’’یعنی جب اللہ و رسول کچھ حکم فرما دیں ۔‘‘ فرمایا گیا
اور دوسری جگہ ارشاد ہوا: ’’ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ ‘‘(پ4،اٰل عمران:159) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کاموں میں ان سے مشورہ لیتے رہو۔(صراط الجنان، 8/
34- 35)
محفوظ صدا رکھنا شہا بے ادبوں
سے
مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے
ادبی ہو
اللہ ہمیں اپنے پیارے بندوں کا ادب اور سب محبوبوں کے
محبوب، محبوبِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے
اور بار بار حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کی باادب حاضری نصیب
فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حبیب الرحمن عطّاری (درجہ رابعہ جامعہ المدینہ چھانگا
مانگا ضلع قصور، پاکستان)

ادب اصل بندگی ہے تمام دینی اور دنیاوی کاموں کا حسن ادب میں
ہے ہر شخص کے لیے اس کے مقام کے مطابق علیحدہ آداب ہیں۔ جتنا بڑا مقام اتنے زیادہ
آداب۔ مروّت، سنت اور عزت کی حفاظت ادب ہی کے ذریعے ہوتی ہے۔ اللہ پاک کے آخری نبی
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مقام سب سے بڑا ہے لہذا آپ کے آداب بھی زیادہ ہیں۔
دنیا میں صرف آپ کی ذات ہے جن کے آداب خود اللہ پاک بیان فرماتا ہے۔ قراٰنِ پاک میں
کئی آیاتِ مبارکہ آدابِ نبوی کو بیان کرتی ہیں۔ لہٰذا 5 آداب ملاحظہ فرمائیں:۔
ادب (1) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (پ26، الحجرات:1)
اس آیت میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ پاک اور اس کے
رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً
ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہِ رسالت میں نیاز مندی اور
آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے اور تم اپنے تمام اَقوال و اَفعال میں اللہ پاک سے ڈرو
کیونکہ اگر تم اللہ پاک سے ڈرو گے تو یہ ڈرنا تمہیں آگے بڑھنے سے روکے گا اور ویسے
بھی اللہ پاک کی شان یہ ہے کہ وہ تمہارے تمام اقوال کو سنتا اور تمام افعال کو
جانتا ہے اور جس کی ایسی شان ہے اس کا حق یہ ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔ (تفسیر صراط
الجنان ،9/ 394)
ادب (3،2) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا
اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ
كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا
تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان
والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز
سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے
اعمال برباد نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2) اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے
حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں ،پہلا ادب یہ ہے
کہ اے ایمان والو! جب نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے کلام فرمائیں
اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی
آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو ۔دوسرا
ادب یہ ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ندا کرنے میں ادب کا
پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ
پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف وتکریم کے کلمات اور
عظمت والے اَلقاب کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ، یا نَبِیَّ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، کیونکہ ترکِ ادب
سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہو گی ۔( صراط
الجنان ،9 / 397 )
ادب (4)یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ
اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ
حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104) معلوم ہوا کہ حضورِ پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی بارگاہ کا ادب ربُّ العالَمین خود سکھاتا ہے اور تعظیم کے متعلق احکام کو خود
جاری فرماتا ہے۔ اس آیت
میں ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السّلام کی جناب میں بے ادبی
کفر ہے ۔ (صراط الجنان، 1/181 )
ادب (5) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ
لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول
کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی
ہے۔(پ9،الانفال:24) اس آیت سے ثابت
ہوا کہ تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب بھی کسی کو بلائیں تو اس
پر لازم ہے کہ وہ آپ کی بارگاہ میں حا ضر ہو جائے چاہے وہ کسی بھی کام میں مصروف
ہو ۔(صراط الجنان، 3/539 )
اللہ پاک ہمیں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
بارگاہ کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم