یاد رہے کہ کسی شخص کے پوشیدہ عیب کو جس کا وہ دوسروں کے سامنے ظاہر ہونا پسند نہ کرتا ہو۔ اس کی برائی کرنے کے طور پر ذکر کرنا غیبت ہے۔ اگر اس میں وہ بات ہی نہ ہو تو یہ غیبت نہیں بلکہ بہتان ہے۔ اور بہتان تراشی غیبت سے زیادہ تکلیف دہ ہے ۔کیونکہ یہ جھوٹ ہے۔ اس لیے یہ ہر ایک پر گراں گزرتی ہے۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ بہتان تراشی کبیرہ گناہ ہے۔ قراٰن و حدیث میں اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔

چنانچہ قراٰنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے: اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(۱۰۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتےاور وہی جھوٹے ہیں۔(پ14،النحل:105) اس آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جھوٹ بولنا اور بہتان باندھنا بے ایمانوں ہی کا کام ہے۔

(1) تفسیر مدارک میں ہے،شاہ کرمانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :بندے پر شیطان کے غالب آنے کی علامت یہ ہے کہ شیطان اسے کھانے، پینے اور پہننے میں مشغول کر دیتا ہے، بندے کے دل کو اللہ پاک کی نعمتوں اور اس کے انعامات میں غور و فکر کرنے اور ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے غافل کر دیتا ہے، بندے کو اس کے رب تعالیٰ کا ذکر کرنے سے غافل کر کے جھوٹ، غیبت اور بہتان تراشی میں مصروف کر دیتا ہے اور بندے کے دل میں دنیا (کا مال) جمع کرنے اور دنیا سنوارنے کی لگن ڈال کر اسے غور و فکر کرنے اور اپنے انجام کے بارے میں سوچنے سے غافل کر دیتا ہے۔( مدارک، المجادلۃ، تحت الآیۃ: 19، ص1221، ملخصاً)

اس کے علاوہ حدیث مبارکہ میں بھی اس کی مذمت بیان کی گئی ہے۔

(2) حضرت سیدنا معاذ بن انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے۔ سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے ا س پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، 4/ 354، حدیث: 4883)(3) حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936)

مذکورہ آیتِ مبارکہ اور بزرگانِ دین کا قول اور اس کے علاوہ احادیثِ مبارکہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ بہتان تراشی سے بچے اور جس نے کسی پر بہتان لگایا ہے اسے توبہ کرنا اور معافی مانگنا بہت ضروری ہے۔ اللہ پاک ہمیں بہتان تراشی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


بہتان کی تعریف: کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اُس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔ (الحدیقۃ الندیۃ، 2/200) اس کو آسان لفظوں میں یوں سمجھئے کہ بُرائی نہ ہونے کے باوُجُود اگر پیٹھ پیچھے یا رُوبَرو وہ برائی اُس کی طرف منسوب کردی تو یہ بُہتان ہوا مثلاً پیچھے یا منہ کے سامنے ریا کار کہہ دیا اور وہ ریا کار نہ ہو یا اگر ہو بھی تو آپ کے پاس کو ئی ثُبُوت نہ ہو کیوں کہ ریا کاری کا تعلُّق باطِنی امراض سے ہے لہٰذا اس طرح کسی کو ریاکار کہنا بہتان ہوا۔

سرکار عالی وقار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک دوزخیوں کے کیچڑ، پیپ اور خون میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے۔ (ابوداود ، 3 / 427 ، حدیث : 3597)

حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے ا س پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، 4/ 354، حدیث: 4883)

سرکار نامدار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کسی پاک دامن عورت پر زِنا کی تُہمت لگانا سو سال کی نیکیوں کو برباد کرتا ہے۔ (معجم کبیر، 3/ 168، حدیث: 3023)

اس حدیثِ پاک سے ان لوگوں کو عبرت حاصِل کرنی چاہئے جو صِرف شک کی بنا پر پارسا عورتوں پر تُہمتِ زنا باندھ بیٹھتے ہیں ۔ حضرت علامہ مولانا عبدالرءُوف مناوی شافعی علیہ رحمۃُ اللّٰہِ القوی مذکورہ حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : یعنی اگر بالفرض وہ شخص سو سال تک زندہ رہ کر عبادت کرے تو بھی یہ بہتان اس کے ان اعمال کو ضائع کردے گا۔ اس فرمانِ عالیشان میں اس عمل پر سخت تنبیہ اور زبان کی حفاظت پر بھر پور ترغیب ہے۔ اس طرح کی دیگر روایات پر قیاس کرتے ہوئے ظاہر یہ ہے کہ سو سے مراد مخصوص عدد نہیں بلکہ کثرت ہے، اس روایت میں موجود شدید وعید سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ یہ عمل کبیرہ گناہ ہے۔ (فیض القدیر ، 2 / 601 ، تحت حدیث:2340)

حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936)

رحمت عالم، نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: پانچ چیزوں کا کوئی کفارہ نہیں : (1)…اللہ پاک کے ساتھ شریک ٹھہرانا (2)…ناحق قتل کرنا (3)…مؤمن پر تہمت لگانا (4)…میدان جنگ سے بھاگ جانا اور (5)…ایسی جبری قسم جس کے ذریعے کسی کا مال ناحق لے لیا جائے۔(المسند للامام احمد بن حنبل، مسند ابی ھریرۃ،3/286، حدیث:8745)

اللہ پاک ہمیں بہتان جیسے گناہ سے بچائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


آج کل انسان آپس میں ایک دوسرے کے اوپر بہتان لگاتا نظر آرہا ہے۔ بھائی بھائی سے ذرا ذرا سے بات پر لڑنے لگتا اور بہتان لگاتا ہے۔

(1) نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کسی پاک دامن عورت پر زِنا کی تُہمت لگانا سو سال کی نیکیوں کو برباد کرتا ہے۔ (2) نبیٔ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاۓ تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک (ردغة الخبال یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پیپ اور خون جمع ہونگے) اس میں رکھے گا جب تک ان کی سزا پوری نہ ہو جائیں۔( ابو داؤد، 3/427، حدیث: 3597)

(3)حضرت عمرو بن العاص رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو ’’اے زانیہ‘‘ کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی، کیونکہ دنیا میں ان کے لئے کوئی حد نہیں۔ (مستدرک، کتاب الحدود، ذکر حد القذف، 5 / 528، حدیث: 8171) (4) ایک اور حدیث میں ہے: جو شخص کسی دوسرے کو فسق کا طعنہ دے یا کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو تو اس کا فسق اور کفر کہنے والے پر لوٹتا ہے۔

(5) حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی کی کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تاکہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اپنی کہی چھوٹی بات ثابت کرے۔ (معجم الاوسط ،حدیث : 8936)


بہتان کی تعریف: کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اُس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔ (الحدیقۃ الندیۃ، 2/200) بہتان تراشی کا حکم : بہتان تراشی حرام ، گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

آیتِ مبارکہ: اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(۱۰۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتےاور وہی جھوٹے ہیں۔(پ14،النحل:105)

(1) فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاۓ تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک (ردغة الخبال یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پیپ اور خون جمع ہونگے) اس میں رکھے گا جب تک ان کی سزا پوری نہ ہو جائیں۔( ابو داؤد، 3/427، حدیث: 3597) ردغۃ الخبال جہنم میں ایک جگہ ہے جہاں جہنمیوں کا خون اور پیپ جمع ہوگا۔ (بہارِ شریعت)(2) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زَبانوں سے لٹکایا گیا تھا۔ میں نے جبرئیل علیہ السّلام سے اُن کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر بِلاوجہ اِلزامِ گُناہ لگانے والے ہیں۔ (شرح الصدور، ص184)

(3) فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے نہ پائیں گے کہ اللہ پاک اس کے لئے جہنم واجب کر دے گا۔ ( ابن ماجہ، 3/123)(4) فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے ا س پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، 4/ 354، حدیث: 4883)


آج کل انسان آپس میں ایک دوسرے کے اوپر بہتان لگاتے نظر آتے ہیں۔ بھائی بھائی سے ذرا ذرا سی بات پر بہتان لگاتے رہتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ایک دوسرے کو اس بات سے آگاہ کریں کے بہتان لگانا کتنا بڑا گناہ ہے۔ آئیے اس پر پانچ فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پیش کرتا ہوں:۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! کسی پر بہتان لگانا شرعاً گناہ اور حرام ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں: بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے یعنی بڑا گناہ ہے۔

ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے: مسلمان کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ لعن طعن کرنے والا ہو۔

ایک اور حدیث میں ہے: جو شخص کسی دوسرے کو فسق کا طعنہ دے یا کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو تو اس کا فسق اور کفر کہنے والے پر لوٹتا ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی ( الزام لگایا ، تہمت یا جھوٹی بات منسوب کی ) جو اس میں حقیقت میں بھی ہی نہیں تو اللہ اسے (الزام لگانے والے تہمت لگانے والے ، چھوٹی بات منسوب کرنے والے کو دوزخ کی پیپ میں ڈالے گا (وہ آخرت میں اس کا مستحق رہے گا) یہاں تک کہ وہ اپنی اس حرکت سے باز آجائے (رک جائے،توبہ کرے تو پھر نجات ممکن ہے) ۔(مشكاة المصابيح )

سرکارِ نامدار مدینے کے تاجدار نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کسی پاک دامن عورت پر زِنا کی تُہمت لگانا سو سال کی نیکیوں کو برباد کرتا ہے۔ (معجم کبیر، 3/ 168، حدیث: 3023)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ! ابھی ہم نے فرامین ِمصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنا۔ اللہ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دوسروں پر بہتان لگانے سے بچائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے پیارے اسلام بھائیو ! کسی پر بہتان لگانا شرعاً انتہائی سخت گناہ اور حرام ہے۔ بہتان کہتے ہیں کسی پر وہ الزام لگانا جو اس نے نہ کیا ہو۔ بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے ۔ یعنی بہت بڑا گناہ ہے۔

(1)ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے ۔ حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936)

(2) حضرت عمرو بن العاص رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو ’’اے زانیہ‘‘ کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی، کیونکہ دنیا میں ان کے لئے کوئی حد نہیں۔ (مستدرک، کتاب الحدود، ذکر حد القذف، 5 / 528، حدیث: 8171)(3) جب سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فتح ِمکہ کے دن مردوں کی بیعت لے کر فارغ ہوئے تو کوہِ صفا پر عورتوں سے بیعت لینا شروع کی، تو آقائے کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا میں تم سے اس پر بیعت لیتا ہوں کہ اپنے ہاتھ پاؤں کے درمیان کوئی بہتان نہ گھڑو گی۔ حضرت ہند رضی اللہُ عنہا نے کہا :خدا کی قسم ! بہتان بہت بری چیز ہے اور حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں نیک باتوں اور اچھی خصلتوں کا حکم دیتے ہیں ۔ (خازن،الممتحنۃ، تحت الآیۃ: 12، 4 / 260)

(4) ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے ۔ مسلمان کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ لعن طعن کرنے والا ہو۔ ایک اور حدیث میں ہے: جو شخص کسی دوسرے کو فسق کا طعنہ دے یا کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو تو اس کا فسق اور کفر کہنے والے پر لوٹتا ہے۔(5) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں: بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے یعنی بڑا گناہ ہے۔

پیارے پیارے اسلام بھائیوں ! الغرض مسلمان پر بہتان باندھنے یا اس پر بے بنیاد الزامات لگانے پر بڑی وعیدیں آئی ہیں، اس لئے اس عمل سے باز آنا چاہئے اور جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی مانگنی چاہیے ، تاکہ آخرت میں گرفت نہ ہو۔ اللہ پاک اس بری بیماری سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے پیارے اسلامی بھائیو! آج کل لوگوں کے درمیان آپس میں جھگڑے فساد بڑھتے جا رہے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے بغض و کینہ جیسی باطنی بیماری میں مبتلا ہیں۔ انہیں جیسی باطنی بیماریوں میں سے ایک بیماری بہتان بھی ہے۔ کسی انسان پر ایسا جھوٹا الزام لگانا جو اس نے نہ کیا ہو، بہتان کہلاتا ہے۔

آئیے اب بہتان کی مذمت پر پانچ فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنتے ہیں:۔

(1)سرکارِ دوجہاں محبوبِ رحمن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زَبانوں سے لٹکایا گیا تھا۔ میں نے جبرئیل علیہ السّلام سے اُن کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر بِلاوجہ اِلزامِ گُناہ لگانے والے ہیں۔ (شرح الصدور، ص184)(2) نبیٔ رحمت شفیع امت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاۓ تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک (ردغة الخبال یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پیپ اور خون جمع ہونگے) اس میں رکھے گا جب تک ان کی سزا پوری نہ ہو جائیں۔( ابو داؤد، 3/427، حدیث: 3597)

(3) جب سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فتح ِمکہ کے دن مردوں کی بیعت لے کر فارغ ہوئے تو کوہِ صفا پر عورتوں سے بیعت لینا شروع کی، تو آقائے کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا میں تم سے اس پر بیعت لیتا ہوں کہ اپنے ہاتھ پاؤں کے درمیان کوئی بہتان نہ گھڑو گی۔ حضرت ہند رضی اللہُ عنہا نے کہا :خدا کی قسم ! بہتان بہت بری چیز ہے اور حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں نیک باتوں اور اچھی خصلتوں کا حکم دیتے ہیں ۔ (خازن،الممتحنۃ، تحت الآیۃ: 12، 4 / 260)

(4)حضرت عمرو بن العاص رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو ’’اے زانیہ‘‘ کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی، کیونکہ دنیا میں ان کے لئے کوئی حد نہیں۔ (مستدرک، کتاب الحدود، ذکر حد القذف، 5 / 528، حدیث: 8171)(5) ایک حدیثِ پاک میں ارشادِ نبوی ہیں کہ جو شخص کسی دوسرے کو فسق کا طعنہ دے یا کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو تو اس کا فسق اور کفر کہنے والے کی طرف لوٹتا ہے۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے کہ احادیث کریمہ میں بہتان لگانے والے کیلئے کس قدر وعیدیں آئیں ہیں۔ اللہ پاک ہمیں بہتان اور سبھی باطنی بیماریوں سے ہمیشہ بجائے رکھے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


آج کل ہمارے معاشرے میں کئی سنگین جرائم عام ہو چکے ہیں جن میں سے کئی ایسے جرائم بھی ہیں کہ جس کا علم عوام تو دور بعض خواص کو بھی نہیں ہوتا انہیں جرائم میں سے ایک قابلِ مذمت جرم بہتان بھی ہے۔ آۓ بہتان کی مذمت پر چند فرامینِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنتے ہیں اور اسے گریز دائمی کرنے کا عزم مسلم کرتے ہیں ۔

(1) سرکارِ دو جہان محبوبِ رحمن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زَبانوں سے لٹکایا گیا تھا۔ میں نے جبرئیل علیہ السّلام سے اُن کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر بِلاوجہ اِلزامِ گُناہ لگانے والے ہیں۔ (شرح الصدور، ص184)(2) نبیٔ رحمت شفیع امت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاۓ تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک (ردغة الخبال یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پیپ اور خون جمع ہونگے) اس میں رکھے گا جب تک ان کی سزا پوری نہ ہو جائیں۔( ابو داؤد، 3/427، حدیث: 3597)

(3) سرکارِ نامدار مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کسی پاک دامن عورت پر زِنا کی تُہمت لگانا سو سال کی نیکیوں کو برباد کرتا ہے۔ (معجم کبیر، 3/ 168، حدیث: 3023) (4) تمام نبیوں کے سردار مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے استفسار فرمایا: کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کی ہم میں مفلس (یعنی غریب مسکین) وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہو اور نہیں کوئی مال۔ ارشاد فرمایا: میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے فلاں کو گالی دی ہو گی، فلاں پر تہمت لگائی ہو گی، فلاں کا مال کھایا ہوگا ،فلاں کا خون بہایا ہوگا، فلاں کو مارا ہوگا۔ پس اس کی نیکیوں میں سے ان کو ان کا حصہ دے دیا جائے گا اگر اس کے ذمہ آنے والے حقوق پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئی تو لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دئیے جائیں گے پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ( مسلم، ص 1069، حدیث :6578)(5) جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے نہ پائے گے کہ اللہ پاک اس کے لیے جہنم واجب کردے گا۔ ( ابن ماجہ، 3/123، حدیث: 2373 )

ان تمام احادیث کو ملاحظہ کرنے کے بعد ادنی قسم کا ایمان رکھنے والا مؤمن بھی اس بات کو پسند نہیں کرے گا کہ وہ کسی مسلمان پر تہمت لگا کر عذاب نار کا حقدار ہو۔

اللہ پاک ہم سب کو تمام ظاہری و باطنی گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمين بجاه النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے : (مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِیَ لَهٗؕ) ترجَمۂ کنزُالایمان: جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں۔(پ9،الاعراف:186)

اللہ پاک بہت کے انسانوں کو ظاہری فول و فعل میں مبتلاء کرکے گمراہ کرتا ہے تو کسی کو باطنی بیماریوں میں مبتلا کر کے۔ آئیے میں آج آپ کو ایک ایسی بیماری، ایک ایسے مرض کے بارے میں بتاتا ہوں کہ یہ بیماری ایک اعتبار سے قلبی بھی ہے اور فعلی بھی جسے ہم "بہتان" کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ بہتان ایک ایسا مرض مہلک ہے ایسا کبیرہ گناہ ہے جو کہ غیبت سے زیادہ سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔ یاد رہے کہ ! جھوٹی گواہی دینا اور کسی پر جان بوجھ کر غلط الزام لگانا انتہائی مذموم فعل ہے ۔

یہاں بہتان کی مذمت پر 5 احادیث ملاحظہ ہوں۔

(1) جھوٹے کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ پاک اس کے لئے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ )(2) جس نے کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کیا تو اللہ پاک جہنم کے پل پر اسے روک لے گا یہاں تک کہ کہنے کے مطابق عذاب پا لے گا ۔ ( ابو داؤد )

(3) جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں خود بھی جانتا نہ ہو، تو اللہ پاک اسے( جہنمیوں کے خون اور پیپ جمع ہونے کا مقام ) " ردغۃ الخبال " میں اس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پالے ۔(4) مسلمان کے لئے روا نہیں کہ وہ لعن طعن کرنے والا ہو ۔(5) جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی جو اس میں حقیقت میں تھی ہی نہیں تو اللہ پاک اسے دوزخ کی پیپ میں ڈالے گا یہاں تک کہ وہ اپنی اس حرکت کے باز آ جائے ۔( مشکاۃ المصابیح )

افسوس فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کا سمجھا جاتا ہے اور الزام تراشی تو اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں ، جس کا جو دل کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام لگا دیتا ہے اور جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے اور ثبوت مانگیں تو یہ دلیل کہ میں نے کہیں سنا تھا یا مجھے کسی نے بتایا تھا وغیرہ کے ذریعے جواب ملتا ہے ، کسی کو کچھ معلوم نہیں رہتا ۔ارشاد باری ہے: وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔(پ 15، بنی اسرائیل: 36)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پر وہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو ۔ تمام اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ ان میں جھوٹی گواہی دینے ، جھوٹے الزامات لگانے اور طرح کے دیگر جھوٹے اقوال کی ممانعت کی گئی۔

اللہ پاک ہمیں اس مہلک گناہ سے محفوظ رکھ کر تمام ظاہری و باطنی گناہوں کے اسباب اختیار کرنے سے بچا کر زندگی گزارنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۲۲۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اُترتے ہیں ہر بڑے بہتان والے گناہگار پر۔(پ19،الشعراء:222)

کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر تہمت تراشتے ہیں ہوا کے دباؤ پر

ہمارے معاشرے کی بڑی اخلاقی برائیوں میں سے ایک برائى الزام تراشی اور تہمت لگانا ہے۔ کسی پر بہتان باندھنا انتہائی سنگین جرم ہے جس طرح ترک صوم و صلوٰۃ، جھوٹ، غیبت، چغلی، شراب نوشی وغیرہ حرام و گناہِ کبیرہ ہیں۔ ویسے ہی دنیوی غرض کے لیے یا یونہی کسی مسلمان پر بے بنیاد الزام عائد کرکے ذلیل وخوار کرنا حرام و گناہِ کبیرہ ہے اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے جس کی قراٰن و حدیث میں بہت سخت وعیدیں آئی ہیں ۔بہتان کا لغوی معنی: بَهِتَ (س) بَهَتاً : ہکا بکا رہ جانا، چونک پڑنا، متحرک ہوکر خاموش ہوجانا، دلیل سے مغلوب ہوکر رنگ پھیکا پڑجانا۔ (المعانی) اصطلاحی معنی: غیبت کے یہ معنی ہیں کہ کسی شخص کے پوشیدہ عیب کو (جس کو وہ دوسروں کے سامنے ظاہر ہونا پسند نہ کرتا ہو) اس کی برائی کرنے کے طور پر ذکر کرنا اور اگر اس میں وہ بات ہی نہ ہو تو یہ غیبت نہیں بلکہ بہتان ہے ۔(بہار شریعت، 3/535) یعنی کسی بے قصور شخص پر اپنی طرف سے گھڑ کر کسی عیب کا الزام لگانا یہ بہتان ہے۔

(1) چنانچہ حضرت معاذ بن انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے ا س پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، 4/ 354، حدیث: 4883)

(2) حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936) (3)صحیح مسلم شریف میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی، کہ حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے مملوک پر زنا کی تہمت لگائے، قیامت کے دن اس پر حد لگائی جائے گی مگر جبکہ واقع میں وہ غلام ویسا ہی ہے، جیسا اس نے کہا۔(صحیح مسلم،کتاب الأیمان،باب التغلیظ علی من قذف ۔۔۔ إلخ،ص905،حدیث: 1660)

(4) عبدالرزاق عکرمہ سے روایت کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں ایک عورت نے اپنی باندی کو زانیہ کہا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تو نے زنا کرتے دیکھا ہے؟ اس نے کہا، نہیں ۔ فرمایا: قسم ہے اس کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! قیامت کے دن اس کی وجہ سے لوہے کے اَسی ۸۰ کوڑے تجھے مارے جائیں گے۔(المصنّف،لعبدالرزاق،کتاب العقول) (5) ابو داؤد نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے فرمایا: مسلمان کی سب چیزیں مسلمان پر حرام ہیں اس کا مال اور اس کی آبرو اور اس کا خون آدمی کو برائی سے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔( سنن أبي داؤد، کتاب الأدب، باب من رد عن مسلم غیبۃ،4/355، حدیث: 4883)

مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ بہتان تراشی نہایت قبیح و شنیع عمل ہے اور مسلمان کا احترام و اکرام اس کی عزت و آبرو کی حفاظت لازم و ضروری ہے لیکن افسوس! ہمارے معاشرے میں لوگوں کا حال یہ ہو چکا ہے کہ وہ کسی کے بارے میں ایک دوسرے سے ہزاروں غلط اور بے سرو پا باتیں سنتے ہیں اور انکو آگے بڑھانے میں کچھ تأمل نہیں کرتے حالانکہ حدیثِ پاک میں آتا ہے آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرے ۔ یہ طرزِ عمل اسلامی احکام کے برخلاف ہے اور ایک مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ ایساطرزِ عمل اپنائے۔

لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ بہتان تراشی سے بچے اور جس نے کسی پر بہتان لگایا ہے اسے توبہ کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔

اللہ پاک مسلمانوں کو عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے۔ اٰمین یا رب العالمین


اللہ پاک کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں بہت ساری نعمتوں سے سرفراز کیا انہی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت زبان ہے۔ جی ہاں ! زبان وہ نعمت ہے جس کے ذریعے ہم ذکر اللہ کر سکتے ہیں، ہاں زبان وہ نعمت ہیں جس سے ہم تلاوتِ قراٰن سے قلب کو منور و مجلیٰ کر سکتے ہیں۔

لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہی وہ زبان، جو نعمت ہیں مگر ہم اس سے رب کی نافرمانی کرتے ہیں، اسی زبان کے ذریعے نہ جانے ہم نے کتنے مسلمانوں کے دلوں کو شاق کیا ہوگا۔ زبان سے سرزد ہونے والے گناہ بہت زیادہ ہے۔ جیسے غیبت، چغلی، گالی گلوج، بہتان باندھنا وغیرہ۔ مگر ان میں سے آج ہم بہتان کی تعریف اور اس کے مذمت پر چند احادیث پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

بہتان کی تعریف: اس جھوٹ کو کہتے ہیں جسے سن کر آدمی مبہوت ہو جائے مثلاً جھوٹا الزام رکھنا، کسی پر جھوٹ باندھنا، اس کی نہ کہی ہوئی بات کو اس کے سر منڈھنا۔ (نزھۃ القاری شرح صحیح البخاری، 1/324)

(1) حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936)( 2) حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو اے زانیہ کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی، کیونکہ دنیا میں ان کے لئے کوئی حد نہیں۔ (المستدرک علی الصحیحین، 5/ 529)

(3) آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: وَمَنْ قَالَ فِي مُؤْمِنٍ مَا لَيْسَ فِيهِ أَسْكَنَهُ اللَّهُ رَدْغَةَ الْخَبَالِ حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ یعنی: اور جو کسی مسلمان میں برائی بیان کرے جو اس میں نہیں ہے تو اللہ اسے کچ لہو میں رکھے گا حتی کہ اپنے کہے سے نکل جائے۔ (ابوداؤد،3/305 ،حدیث 3597 ) ردغۃ الخبال کی شرح بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ردغۃ الخبال : ر کے فتحہ،دال کے سکون اور خ اور ب کے فتحہ سے کچا پیپ جسے اردو میں کچ لہو کہتے ہیں۔ اس سے مراد دوزخ کا وہ مقام ہے جہاں دوزخیوں کا پیپ و خون جمع ہوتا ہے۔

قوله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ یعنی دنیا میں جتنے روز تک یہ مسلمان بھائی کو عیب لگاتا رہا اتنے روز تک جہنم کے اس طبقہ میں رکھا جائے گا کہ وہاں رہے گا اور یہ کچ لہو ہی پیئے گا۔ اللہ کی پناہ! (مرآۃ المناجیح، جلد5 ، حدیث : 3611 )

(4) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمقَالَ: أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ؟ قَالُوا: الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ، فَقَالَ: «إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ، وَصِيَامٍ، وَزَكَاةٍ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا، وَقَذَفَ هَذَا، وَأَكَلَ مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا، وَضَرَبَ هَذَا، فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ یعنی: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صَحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے اِسْتِفْسَار فرمایا: کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صَحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان نے عرض کی: ہم میں مفلِس وہ ہے جس کے پاس نہ دِرہم ہوں اور نہ ہی کوئی مال۔ ارشاد فرمایا: میری اُمّت میں مُفلِس وہ ہے جو قِیامت کے دن نَماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے فُلاں کو گالی دی ہوگی، فُلاں پر بہتان لگایا ہوگا ،فُلاں کا مال کھایا ہوگا، فُلاں کا خون بہایا ہوگا اور فُلاں کو مارا ہوگا۔ پس اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو ان کاحصّہ دے دیا جائےگا۔ اگر اس کے ذمّے آنے والے حُقُوق پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے، پھر اسے جہنَّم میں پھینک دیا جائے گا۔(مسلم )

(5)وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اتَّقُوا الْحَدِيثَ عَنِّي إِلَّا مَا عَلِمْتُمْ، فَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ۔ یعنی: روایت ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میری حدیث روایت کرنے سے بچو سوا ان کے جن کو تم جانتے ہو کیونکہ جو عمدًا مجھ پر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ آگ کا بنالے۔(مشکوۃ المصابیح، 1/35 ،حدیث : 216)شرح: اگرچہ ہر ایک پر جھوٹ باندھنا بہتان اور گناہ ہے، مگر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر جھوٹ باندھنا بہت گناہ ہے کہ اس سے دین بگڑتا ہے۔(مرآۃ المناجیح، جلد1)

پیارے اسلامی بھائیوں ! پڑھا آپ نے کے بہتان لگانے کی کیسی کیسی وعیدیں ہیں۔ سب سے بڑی تو خرابی یہ ہے کہ حس پر بہتان لگایا ہوگا ان دونوں کا آپس میں جھگڑا چالوں، پھیر ہر ایک اس تہ میں رہے گا کہ وہ کچھ کرے میں اس کا پردہ فاش کروں۔ اسی طرح اس کی بہت دنیاوی نقصان بھی ہیں۔ تو پیارے بھائیوں ہمیں اس سے بچتے رہنا چاہیے تاکہ مسلمانوں کے ما بین بھائی چارگی قائم رہیں اور مسلمان باہم ہر ایک کے سکھ و دکھ میں سہارا بنے۔ تو پیارے بھائیوں اپنی زبان کو بالخصوص بہتان اور بالعموم تمام گناہوں سے پچا کر اپنی زبان پر ذکر اللہ ،تلاوتِ قراٰن، درود شریف کا ورد جاری رکھئے تاکہ سعادتِ دارین سے ہم کنار ہو۔

آخر میں اللہ سے دعا گوں ہو کہ اللہ پاک ہمیں سارے گناہوں سے بچا کر ہماری زندگانی تیری طاعت میں صرف ہو ۔اٰمین یا رب العالمین


ہمارے معاشرے میں متعدد سماجی واخلاقی برائیاں پھیل رہی ہیں، جن میں ایک بڑی برائی بہتان تراشی ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں ہم اس فعل کی قباحت کو قراٰن و احادیث کی روشنی میں بیان کریں گے تاکہ نصیحت قبول کرنے والے افراد اس کی قباحت (برائی) جاننے کے بعد اس فعل باز آجائیں اب بہتان سے بچنےکے لئے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ بہتان کہتے کس کو ہیں بہتان کی تعریف: کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اُس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔ (الحدیقۃ الندیۃ، 2/200) اس کو آسان لفظوں میں یوں سمجھئے کہ بُرائی نہ ہونے کے باوُجُود اگر پیٹھ پیچھے یا رُوبَرو وہ برائی اُس کی طرف منسوب کردی تو یہ بُہتان ہوا مثلاً پیچھے یا منہ کے سامنے ریا کار کہہ دیا اور وہ ریا کار نہ ہو یا اگر ہو بھی تو آپ کے پاس کو ئی ثُبُوت نہ ہو کیوں کہ ریا کاری کا تعلُّق باطِنی امراض سے ہے لہٰذا اس طرح کسی کو ریاکار کہنا بہتان ہوا۔بہتان کا حکم: بہتان تراشی حرام و گناہ کبیرہ ہے۔ (منحۃ السلوک، کتاب الکسب والادب، فصل فی بیان انواع الکلام، ص483،دارالنوادرقطر )صدر الشریعہ ، مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جاکر یہ کہنا ضروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔(بہارشریت، 3/181)

اللہ پاک بہتان تراشی کے متعلق قراٰنِ کریم میں فرماتا ہے: اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(۱۰۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتےاور وہی جھوٹے ہیں۔(پ14،النحل:105) اس آیت کے تحت مفتی قاسم عطاری صاحب صراط الجنان میں فرماتے ہیں: آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جھوٹ بولنا اور بہتان باندھنا بےایمانوں ہی کا کام ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: 105، 3 / 144، ملخصاً)

حدیث (1) سرکار دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک دوزخیوں کے کیچڑ ، پیپ اور خون میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نکل آئے (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا )۔ (سنن ابوداؤد، 3/427، حدیث: 3597)حدیث (2)امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ نے فرمایا کہ کسی بے قصور پر بہتان لگانا یہ آسمانوں سے بھی زیادہ بھاری گناہ ہے۔(کنز العمال، كتاب الاخلاق،باب البهتان،3/322،حديث: 8806)

حدیث (3)نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کسی پاک دامن عورت پر زِنا کی تُہمت لگانا سو سال کی نیکیوں کو برباد کرتا ہے۔ (معجم کبیر، 3/ 168، حدیث: 3023) فیض القدیر میں ہے: یعنی اگر بالفرض وہ شخص سو سال تک زندہ رہ کر عبادت کرے تو بھی یہ بُہتان اس کے ان اعمال کو ضائع کردے گا۔ (فیض القدیر،2/601،تحت الحدیث: 2340)حدیث (4)روایت ہے حضرت ابو ہریرہ سے فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سات ہلاکت کی چیزوں سے بچو ۔ لوگوں نے حضور وہ کیا ہیں ؟ فرمایا (1) اللہ کے ساتھ شریک (2)جادو ، اور (4)ناحق اس جان کو ہلاک کر ناجو اللہ نے حرام کی ، (4) سود خوری (5) یتیم کامال کھانا ،(6) جہاد کے دن پیٹھ دکھادینا، (7) پاکدامن مؤمنہ بے خبر بیبیوں کو بہتان لگانا ۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح ،جلد :6 ،حدیث:4828)

حدیث (5)جناب رسالت مآب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زبانوں سے لٹکایا گیا تھا۔ میں نے جبرئیل علیہ الصلوۃ و السّلام سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر جھوٹی تہمت لگانے والے ہیں ۔(شرح الصدور، ص 182)

پیارے بھائیوں! زبان کا قفلِ مدینہ لگائیے تاکہ بہتان اور اس کے علاوہ بہت سارے گناہوں سے بچ جائیں اور قراٰن و حدیث میں ذکر کئے گئے بہتان کے ہولناک عذابات کا مطالعہ کیجئے اور اپنے نازک بدن پر غور کیجئے کہ بہتان کے سبب اگر ان میں سے کوئی عذاب ہم پر مسلط کر دیا گیا تو ہمارا کیا بنے گا۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہمارے تمام گناہوں کو معاف فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم