محمد حسین عطاری (درجہ دورۂ حدیث جامعۃُ المدینہ فیضان
عطار ناگپور ہند)

پیارے اسلامی بھائیوں ! بلاشبہ کسی مسلمان پر جھوٹ باندھنا بہتان ہے اور شریعت میں بہتان باندھنا حرام گناہِ کبیرہ
اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے جس کی مذمت قراٰن و حدیث میں جا بجا وارد ہوئی
ہیں۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ
السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ
مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) ترجمۂ کنز الایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے
علم نہیں بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔(پ15، بنی اسرآءیل:36) تفسیرِ
صراط الجنان: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا : اس سے مراد یہ ہے
کہ کسی پرو ہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔(مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: 36، ص623)
یہاں غلط الزامات
لگانے کی مذمت پر 5 وعیدیں ملاحظہ ہوں:
(1)رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے ا س پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم
کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس شخص کو
راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔( ابو داؤد، کتاب
الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، 4/ 354، حدیث: 4883)(2) نبیِّ رَحمت،شفیعِ امّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ
پاک اس وقت تک رَدْغَۃ ُ الخَبال(یعنی
جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پِیپ اور خون جمع ہوگا۔ اس) میں رکھے گا جب تک اس
کے گناہ کی سزا پوری نہ ہولے۔ (ابوداؤد،3/427، حدیث: 3597)
(3) حضورِ اقدس صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی
بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے
جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔
(اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب
المیم، من اسمہ: مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936)(4)جنابِ رسالتِ مآب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی
مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زَبانوں سے لٹکایا گیا تھا۔
میں نے جبرئیل علیہ السّلام سے اُن کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ
لوگوں پر بِلاوجہ اِلزامِ گُناہ لگانے والے ہیں۔ (شرح الصدور، ص184)
(5)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
پانچ چیزوں کا کوئی کفارہ نہیں (1) اللہ پاک کے ساتھ شریک ٹھہرانا (2)ناحق قتل
کرنا(3)مؤمن پر تہمت لگانا (4)میدان جنگ سے بھاگنا(5)ایسی جبری قسم جس کے ذریعے
کسی کا ناحق مال لے لیا جائے۔(مسند احمد،3/286، حدیث: 8745 )
ان مذکورہ روایتوں سے معلوم ہوا کہ مسلمان پر بہتان باندھنا
یا اس پر بے بنیاد الزامات لگانا بہت بڑا گناہ ہے اِس لیے اِس عمل سے باز آنا
چاہیے اور جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی مانگنی چاہیے تاکہ آخرت میں گرفت نہ
ہو۔ اللہ پاک ہمیں بہتان سے محفوظ رکھے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ثاقب رضا قادری(درجہ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
فاروق اعظم مالیگاؤں مہاراشٹر ہند)

بہتان ایک
حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے اور قراٰنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں
متعدد مقامات پر اس کی وعیدیں آئی ہیں۔ آئیے بہتان کی مذمت پر چند احادیث نبوی
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سماعت کرتے ہیں اور عبرت حاصل کرتے ہیں۔
(1) چنانچہ حضرت
معاذ بن انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے ا س پر الزام عائد کرے تو اللہ
پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ)
سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔( ابو
داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، 4 / 354، حدیث: 4883) (2)حضرت ابو درداء رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: جس نے کسی کی کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس
کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اپنی کہی
ہوئی بات ثابت کرے۔(اس سے مراد یہ ہے کہ وہ طویل عرصے تک عذاب میں مبتلا رہے گا)۔ (معجم
الاوسط، من اسمہ مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936)
(3)حضرت عمرو بن العاص رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو ’’اے
زانیہ‘‘ کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے
لگائے گی، کیونکہ دنیا میں ان کے لئے کوئی حد نہیں۔ (مستدرک، کتاب الحدود، ذکر حد
القذف، 5 / 528، حدیث: 8171) (4) نبیِّ رَحمت،شفیعِ امّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی
مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک رَدْغَۃ ُ الخَبال(یعنی جہنم میں
وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پِیپ اور خون جمع ہوگا۔ اس) میں رکھے گا جب تک اس کے گناہ
کی سزا پوری نہ ہولے۔ (ابوداؤد،3/427، حدیث: 3597)
(5) حضرت ابوہریرہ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا چیز ہے ؟ صحابہ ٔکرام رضی اللہُ عنہم نے عرض
کی :اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی زیادہ جانتے ہیں ۔ارشاد
فرمایا: تم اپنے بھائی کا وہ عیب بیان کرو جس کے ذکر کو وہ ناپسند کرتا ہے۔ عرض کی
گئی :اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کہ اگر میرے بھائی میں وہ عیب موجود ہو۔ جسے
میں بیان کرتا ہوں ۔ ارشاد فرمایا: تم جو عیب بیان کر رہے ہو اگر وہ اس میں موجود
ہو جب ہی تو وہ غیبت ہے اور اگر اس میں وہ عیب نہیں ہے تو پھر وہ بہتان ہے۔(مسلم،
کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تحریم الغیبۃ، ص1397، حدیث: 2589)
محترم قارئین! دیکھا
آپ نے کہ ایک مسلمان بھائی کے بارے میں کوئی ایسی بات کہنا جو اس میں نا پائی جاتی
ہو کس قدر حرام کام ہے۔ اور آخرت میں اس کی رسوائی اور عذاب کس قدر سخت ہے۔ تو
پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں چائیے کہ اس فعل بد سے ہم دور رہیں جس میں کسی کی دل
آزاری ہو اور گناہ کا سبب بنے۔ رب کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں بہتان جیسی مہلک
بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم

پیارے پیارےاسلامی بھائیوں! ہم مسلمان ہے اور حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امتی ہیں تو ہمیں علم دین حاصل کرنے کا حکم دیا گیا
جیسے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : طلبُ
العِلمِ فريضةٌ على كلِّ مسلمٍ و مسلمة ، یعنی علم
کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و ( عورت) پر فرض ہے۔ وہ علوم جن کا سیکھنا فرض ہیں،
ان میں سے ایک باطنی بیماریوں (تکبر، حسد، ریاکاری، وغیرہ) کا علم بھی ہے ان میں
سے ایک بہتان لگانا بھی ہے ۔ آئیے پہلے ہم بہتان کی تعریف اور بہتان کی مذمت پر
فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنیں اور اس بیماری سے بچنے کی کوشش
کریں ۔
بہتان کی تعریف : کسی شخص کی موجودگی یا غیرموجودگی میں اُس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے ۔(غیبت
کی تبارہ کاریاں)
(1) رسولِ کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی
غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب
تک وہ اپنی کہی ہوئی بات سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب
پاکر) نہ نکل جائے۔ ( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ) (2) رسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: معراج میں میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے
ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے میں نے
پوچھا: اے جبرائیل یہ کون ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں کا گوشت نوچ نوچ کر
کھایا کرتے تھے اور ان کی عزت و آبرو پر حملہ کرتے تھے۔(ابوداود، کتاب الادب باب
فی الغیبۃ)
(3) حضرت علی
رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں : بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں
سے زیادہ بوجھل ہے، یعنی بہت بڑا گناہ ہے۔ (مشکاة المصابيح، جلد 2 ) (4) رسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اللہ کے حدود میں سے کسی حد کو روکنے کی
سفارش کی تو گویا اس نے اللہ کی مخالفت کی اور جو جانتے ہو ئے کسی باطل امر کے لئے
جھگڑے تو وہ اللہ کی ناراضگی میں رہے گا یہاں تک کہ اس جھگڑے سے دستبر دار ہو جائے
اور جس نے کسی مؤمن کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جوا س میں نہیں تھی تو اللہ اس
کا ٹھکانہ جہنمیوں میں بنا ئے گا یہاں تک کہ اپنی کہی ہوئی بات سے تو بہ کرلے۔(سنن
ابوداؤد )
(5) رسول
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : پانچ اعمال ایسے جن کا (توبہ کے
علاوہ) کفارہ نہیں (1) اللہ کے ساتھ شرک کرنا، (2) ناحق کسی کو قتل کرنا، (3) کسی
مؤمن پر بہتان لگانا، (4)دورانِ جہاد پیٹھ پھیر کر فرار ہونا، (5) جھوٹی قسم سے
کسی کا مال ہڑپ کرنا۔( مسند احمد،14/ 350 )
پیارے پیارے اسلامی
بھائیوں ! کسی شخص پر جان بوجھ کر ایسا الزام لگانا جو اس میں نہ ہو اگر یہ بات اس
کو معلوم چلے گی تو اس کی دل آزاری ہو گی اور بہتان لگانا یہ شرعی لحاظ سے گناہِ
کبیرہ اور حرام ہیں اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لے تو کئی لوگ اس میں شامل ہیں ۔
غلام محمد رضا عطاری( درجہ دورۃ الحدیث جامعۃُ المدینہ
فیضان مفتی اعظم ہند شاہ جہان پور ہند)

آج ہمارا معاشرہ کون سا ایسا گناہ ہے جس کے چپیٹ میں نہیں
ہو۔ حسد ہو یا غیبت، چغلی ہو یا جھوٹ، دھوکہ ہو یا وعدہ خلافی، تہمت ہو یا سود۔ الغرض
کوئی بھی ایسا گناہ نہیں ہے جو ہمارے معاشرے میں نہیں ہوتا ہے ۔یقیناً ہمارا
معاشرہ پریشان ہے مصیبتوں سے دوچار ہے یہ ہمارے ہی ہاتھوں کا کمایا ہوا ہے جس کے
متعلق ارشاد باری ہے : وَ مَاۤ
اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ
كَثِیْرٍؕ(۳۰) ترجمۂ کنز الایمان: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے
سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور بہت کچھ تو معاف فرما دیتا ہے۔(پ25، الشورٰی:30)
آج ہمارا معاشرہ گناہوں کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور اس
قدر پھنسا ہوا ہے کہ مزاج ایسا بن گیا ہے کہ الزام تراشی اور بہتان کو تیزی سے
پھیلانے والے کام کر رہے ہیں ۔کیوں کہ شیطان ان کو لایعنی اور بے کار کاموں کے لئے
ابھارتا ہے اور لایعنی کاموں میں مشغول کر دیتا ہے ۔حضرت علی رضی اللہُ عنہ سے
روایت ہے وہ فرماتے ہیں : بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ بوجھل
ہے، یعنی بہت بڑا گناہ ہے۔اللہ پاک قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : وَ الَّذِیْنَ
یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ
فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً
اَبَدًاۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَۙ(۴) اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ
اَصْلَحُوْاۚ-فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) ترجمۂ کنز الایمان: اور جو پارسا
عورتوں کو عیب لگائیں پھر چار گواہ معائنہ کے نہ لائیں تو اُنہیں اسّی کوڑے لگاؤ
اور ان کی گواہی کبھی نہ مانو اور وہی فاسق ہیں مگر جو اس کے بعد توبہ کرلیں اور
سنور جائیں تو بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (پ18،النور:5،4)
آئیے بہتان کے مذمت پر 5احادیث مبارکہ پڑھتے ہیں ۔
(1) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان
ہے جس نے کسی کی کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں ہے تاکہ اس کے ذریعے اس کو
عیب زدہ کردے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کردے گا یہاں تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی
بات ثابت کرے۔ (جہنم میں لے جانے والے اعمال، ص 107) (2) حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولِ
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:’’ جو کسی مسلمان کو ذلیل
کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک
روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (گناہ) سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ
کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔ ( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم
غیبۃ)
(3) نبیِّ رَحمت،شفیعِ امّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ
پاک اس وقت تک رَدْغَۃ ُ الخَبال(یعنی
جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پِیپ اور خون جمع ہوگا۔ اس) میں رکھے گا جب تک اس
کے گناہ کی سزا پوری نہ ہولے۔ (ابوداؤد،3/427)(4) جنابِ رسالت مآب صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی
فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زَبانوں سے لٹکایا گیا تھا۔ میں نے جبرئیل علیہ السّلام سے
اُن کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر بِلاوجہ اِلزامِ گُناہ
لگانے والے ہیں۔ (شرح الصدور، ص184)
(5) مُفلِس کون؟ تمام نبیوں کے سردار، مدینے کے تاجدار صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صَحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے اِسْتِفْسَار
فرمایا: کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صَحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان نے عرض کی:
ہم میں مفلِس(یعنی غریب مسکین) وہ ہے جس کے پاس نہ دِرہم ہوں اور نہ ہی کوئی مال۔
ارشاد فرمایا: میری اُمّت میں مُفلِس وہ ہے جو قِیامت کے دن نَماز، روزہ اور زکوٰۃ
لے کر آئے گا لیکن اس نے فُلاں کو گالی دی ہو گی، فُلاں پر تہمت لگائی ہو گی،فُلاں
کا مال کھایا ہو گا، فُلاں کا خون بہایا ہو گا اور فُلاں کو مارا ہو گا۔ پس اس کی
نیکیوں میں سے ان سب کو ان کا حصّہ دے دیا جائے گا۔ اگر اس کے ذمّے آنے والے
حُقُوق پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو لوگوں کے گناہ اس پر ڈال
دیئے جائیں گے، پھر اسے جہنَّم میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم،ص1069،حدیث:6578)
ذکر کی گئی احادیث مبارکہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بہتان
کبیرہ گناہ ہے اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ
بہتان تراشی سے بچے اور جس نے کسی پر بہتان لگایا ہے اسے اس سے معافی مانگنا اور
اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ کرنا ضروری ہے کیونکہ اللہ پاک توبہ کرنے والوں کو
پسند فرماتا ہے۔ قراٰن مجید میں اللہ پاک فرماتا ہے : اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ
الْمُتَطَهِّرِیْنَ(۲۲۲) ترجمۂ کنز الایمان: بےشک اللہ پسندر
کھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند رکھتا ہے ستھروں کو۔(پ2،البقرۃ:222)
اللہ پاک ہمیں اس
آیت مقدسہ کا مصداق بنائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم

دینِ اسلام نے ہمیشہ اپنی پیروی کرنے والوں کو اچھی باتوں
کا حکم اور بری باتوں سے منع کیا ہے اور انسانوں کو گناہوں سے دور رہنے کی تاکید
کی ہے۔ بہت سارے گناہ میں سے ایک بڑا گناہ " بہتان " ہے۔ جو انسان کی
فردی اور اجتماعی زندگی پر زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے
شخص پر بہتان لگاتا ہے، تو وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کے علاوہ خود اپنے آپ کو
بھی نقصان پہنچاتا ہے اور اپنی روح کو گناہوں سے آلودہ کر لیتا ہے۔ آج ہم بہتان کے
بارے سنیں گے۔
بہتان ’’بھت‘‘ سے
ہے جس کے معنی ہیں کہ کسی کے بارے میں ایسی بات کہی جائے جو اس نے کی ہی نہ ہو۔ بہتان
سے مراد افتراء بھی ہے۔(لسان العرب، 2/12) اللہ پاک قراٰنِ کریم میں فرماتا ہے: هٰذَا بُهْتَانٌ
عَظِیْمٌ(۱۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: یہ بڑا بہتان ہے (پ18،النور:16)
یعنی ایسا جھوٹ جسے سننے والا حیرت زدہ اور حیران و ششدر ہو کر مبہوت ہوجائے۔ قراٰنِ
کریم میں ’’ بُهْتَانٌ ‘‘ کا لفظ بطور اسم 5 بار استعمال ہوا ہے۔ سورة النساء میں
تین دفعہ جس میں سے ایک دفعہ آیت157میں حضرت مریمؑ پر بہتان کا ذکر ہے، سورة النور
میں آیت17میں واقعہ افک کے موقع پر اور سورة الاحزاب آیت 59 میں مؤمنین اور مؤمنات
کو ایذا دینے کے ضمن آیا ۔
(1) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بہتان باندھنے
کو کبائر گناہ میں شامل کرتے ہوئے فرمایا: پانچ اعمال ایسے ہیں جن کا (سچی توبہ کے
علاوہ) کوئی کفّارہ نہیں: (1) اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا،(2) کسی کو ناحق قتل
کرنا، (3)کسی مؤمن پر بہتان لگانا، (4)دورانِ جہاد پیٹھ پھیر کر فرار ہونا
،(5)جھوٹی قسم سے کسی کا مال ناحق ہڑپ کرنا ۔(مسند احمد، 14/351)(2) نبی ٔ اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے معراج والی رات میں مشاہدہ فرما لیا تھا ۔ آپ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا گزر کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا تھا جو اپنے چہرے اور
سینے اپنے پیتل کے ناخن سے نوچ رہے تھے ۔جب پوچھا گیا تو آپ کو بتلایا گیا کہ یہ
وہ خبیث لوگ ہیں ،جو لوگوں کی عزت و آبرو پر حملہ کرتے تھے۔ (ابو داؤد،حدیث:4878) آہ
کس قدر درد ناک منظر ہوگا؟ کبھی غور کیا ۔ اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو ،اس کے عذاب سے خوف کھاؤ۔
پیارے اسلامی بھائیوں !مسلمانوں کی عزت و آبرو قیمتی سرمایہ
ہے، اس کی حفاظت ہی اصل مردانگی ہے (جسے ہم بھول بیٹھے ہیں)حضرت عمر رضی اللہ عنہ
نے فرمایا تھا:آدمی کی طنطنہ بازی پر خوش نہیں ہونا چاہئے کیوں کہ مرد وہ ہے جو
امانت ادا کر دیا کرے اور لوگوں کے عزت و آبرو پر حملہ نہ کرے ۔
(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ایک روز
صحابۂ کرام سے دریافت فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہوتی ہے ؟ صحابہ نے
عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: کہ تمہارا اپنے بھائی کا اس رنگ میں ذکر کرنا جسے وہ پسند نہ
کرتا ہو ۔عرض کیا گیا کہ اگر وہ بات جو کہی گئی ہے سچ ہو اور میرے بھائی میں وہ
بات موجود ہو تب بھی یہ غیبت ہوگی؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
اگر وہ عیب اس میں پایا جاتا ہے جس کا تو نے اس کی پیٹھ پیچھے ذکر کیا ہے تو یہ
غیبت ہے اور اگر وہ بات جو تو نے کہی ہے اس میں پائی ہی نہیں جاتی تو یہ اس پر
بہتان ہے۔ (4)ہمارے
پیارے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جو کسی مسلمان پر ایسی
چیز کا بہتان باندھے جس کے بارے میں وہ کچھ نہ جانتا ہو تو اللہ پاک اسے”رَدْغَۃُالْخَبَالْ“(جہنمیوں کے خون اور پیپ جمع ہونے کے مقام) میں اُس وقت تک
رکھے گا جب تک کہ وہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ چکھ لے۔(مصنف عبد الرزاق)
(5)حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچنے کا حکم فرمایا جن میں ایک
پاکدامن عورت پر تہمت لگانا بھی ہے۔(ابوداؤد)اس سے پہلے کہ دنیا سے رخصت ہونا پڑے
تہمت وبہتان سے توبہ کر لیجئے ، ”بہارِ شریعت“حصّہ 16صَفْحَہ 538 پر ہے: بُہتان کی
صورت میں توبہ کرنا اور مُعافی مانگنا ضَروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے
ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضَروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فُلاں پر میں نے
بہتان باندھا تھا۔ (بہارِ شریعت،3/538) نفس کے لئے یقیناً یہ سخت گِراں ہے مگر
دنیا کی تھوڑی سی ذِلّت اٹھانی آسان جبکہ آخِرت کا مُعامَلہ انتِہائی سنگین ہے،
خدا کی قسم! دوزخ کا عذاب برداشت نہیں ہو سکے گا۔
بعض اسلاف سے ان کے
علاج کا طریقہ اس طور پر لکھا ہے کہ:(1) ان گناہوں سے بچنے کے لیے پاکی اور سچی
نیت کی جائے کہ اب آئندہ زبان سے کسی کی غیبت نہیں کروں گا اور نہ کسی پر غلط بات
کی تہمت لگاؤں گا۔(2) ان کا خیال آنے پر قراٰن و احادیث میں مذکور وعیدوں کو یاد
کیا جائے۔(3)غیبت یا بہتان کرنے پر اپنے نفس کو سزا دیا جائے۔ (4) غیبت کی ہو یا
جس پر بہتان لگایا ہو اس سے معافی تلافی کرلی جائے اور اس کے لیے توبہ و استغفار
کیا جائے۔
فیصل یونس ( درجہ سابعہ، جامعۃُ المدینہ فیضانِ کنز
الایمان رائیونڈ لاہور پاکستان)

ہم میں سے تقریباً ہر ایک چاہتا ہے کہ میری زندگی اچھی
،خوبصورت اور کامل واکمل ہو جائے ۔ ذرا دنیا کی تاریخ پر نظر دوڑائیے ! دنیا میں
سب سے کامل زندگی کس کی ہے ۔ یقیناً ایک مسلمان ہی جواب دے گا کہ اس دنیا میں سب
سے کامل و اکمل زندگی، مصطفی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہے تو حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بتایا: كان خُلُقُه القُرآنَ یعنی آپ کے مبارک اخلاق قراٰن کریم والے تھے ۔ (المعجم
الاوسط ،ص34، حدیث:72)معلوم ہواکہ ہم اپنی زندگی کو خوبصورت اچھی بنانا چاہتے ہیں
تواس کا ایک ہی طریقہ ہے ۔ زندگی گزارنے کے اصول قراٰنِ مجید سے سیکھتے جائیں اور
ان پر عمل کرنے کا انداز سنتِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سیکھیں ۔قراٰنِ
مجید کے پانچ حقوق پڑھیئے :۔
(1) تلاوت کرنا: ہمیں دن، رات تلاوتِ قراٰن کرنے کی ترغیب دی
گئی ہے ۔ (1) تلاوت ِقراٰن افضل عبادت ہے۔ (2) جو صبح کو قراٰن ختم کرتا ہے تو شام
تک اور جو شام کو ختم کرتا ہے تو صبح تک فرشتے اس کیلئے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔ (3)
قراٰن پڑھنے والا عذابِ الہی سے محفوظ رہتا ہے۔(4) قراٰن پڑھنے والا اس کی برکت سے
ترقی کرتا ہے ۔(کنز العمال، ص257 تا 261)) یہ ثوابات اور فائدے اسی وقت حاصل ہوں
گے جب ہم تلاوت کریں گے۔ ہمیں چاہیے کہ تلاوت کو اپنے معمولات میں شامل کریں۔ جیسے
کھانے کے بغیر ہمارا دن نہیں گزرتا ہے اسی طرح تلاوتِ قراٰن کے بغیر بھی دن نہیں
گزرنا چاہیے۔
(2) قراٰن پر عمل کرنا : قراٰنِ مجید کا یہ حق ہے کہ اس کے
بیان کردہ آداب زندگی کو اپنایا جائے اور اس کے بتائے ہوئے اخلاق کو اپنے کردار کا
حصہ بنایا جائے ۔ الله پاک فرماتا ہے: وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ
اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۙ(۱۵۵) ترجمۂ کنز الایمان : اور یہ برکت والی
کتاب ہم نے اتاری تو اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاری کرو کہ تم پر رحم ہو ۔(پ8 ، الانعام
: 155)
قراٰن مجید کتابِ ہدایت ہے۔ بے شک اسے دیکھنا، چھونا، تلاوت
کرنا عبادت ہے۔مگر جب تک عمل نہ کیا جائے، اس وقت تک کما حقہ ہدایت نصیب نہیں ہو
سکتی۔
(3) قراٰنِ کریم کی محبت و تعظیم: الحمد للہ قراٰنِ مجید کے ساتھ محبت کرنا سنت مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم ہے ۔ ہمارے پیارے نبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قراٰن کریم سے بہت محبت فرمایا کرتے تھے۔ ایک روز
آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے
گھر مبارک میں تشریف فرما تھے۔ کسی نے بتایا کہ کوئی شخص خوبصورت آواز میں تلاوت قراٰن
کر رہا ہے ۔ آپ اٹھے باہر تشریف لے گئے ۔ اور دیر تک تلاوت سنتے رہے ۔ پھر واپس
تشریف لائے۔ اور فرمایا: یہ ابوحذیفہ کا غلام سالم ہے۔ تمام تعریفیں اللہ کیلئے
ہیں۔ جس نے میری امت میں ایسا شخص پیدا فرمایا ۔ (ابن ماجہ ،ص 216 ، حدیث: 1338)
الٰہی رونق اسلام کے سامان
پیر کر
دلوں میں مؤمنوں کے اُلفت قراٰن پیدا کر
(4)قراٰن پر ایمان لانا : حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں قراٰنِ
کریم شفاعت کرنے والا ہے۔ اور اس کی شفاعت قبول بھی کی جائے گی۔ جو قراٰن کو اپنا
امام و پیشوا بنا لے گا ، قراٰن اسے جنت میں لے جائے گا اور جو قراٰن کریم کو پس پشت
ڈال دےگا تو قراٰن اسے جہنم میں دھکیل دے گا۔(مصنف عبد الرزاق ، 3/ 229 ، حدیث:
6030) لہذا قراٰنِ کریم پر ایمان لانے کا یہ تقاضا ہے کہ ہم زندگی کے ہر شعبے، ہر
مسئلے ، ہر مرحلے پر قراٰن کو اپنا امام و پیشوا مانیں ۔
(5) قراٰنِ مجید سیکھنا : قراٰنِ مجید کا ایک حق اس کو سیکھنا
بھی ہے ۔ علامہ قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ
فرماتے ہیں: جو شخص قراٰن سیکھے مگر اس سے غفلت کرے ،قراٰن اس کے خلاف دلیل ہوگا
اور اس سے بڑھ کر اس بندے کے خلاف دلیل ہو گا، جو قراٰن کے حق میں کمی کرے اور اس
سے جاہل رہے۔ (تفسیر قرطبی، 1/ 19)
گر تو می خواہی مسلمان زیستن نیست ممکن جز بقرآن زیستن
ازیک آئین مسلمان زنده است پیکر ملت زِ قراٰن زنده است
ترجمہ :اگر مسلمان بن کر زندگی گزارنا چاہتے ہو تو بغیر قراٰن
ایسا ہر گز ممکن نہیں ہے۔ اسلام اور مسلمان صرف ایک ہی قانون سے زندہ رہتے ہیں اور
قانون کا نام قراٰن ہے ۔
محمد مبشر رضا عطّاری(درجۂ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
فاروقِ اعظم سادھو کی لاہور پاکستان)

اللہ پاک نے عالَمِ دنیا کو وجود بخشا، اس میں قسم قسم کی
مخلوق پیدا فرمائی۔ حضرت انسان کی تخلیق فرما کر پھر اس کی ہدایت کے لئے انبیائے
کرام علیہم الصلوة والسلام کو مبعوث فرما تا رہا اور ان پر صحیفوں کو نازل فرماتا
رہا تاکہ لوگ انبیائے کرام علیہم الصلوة والسلام کے حکم کی پیروی کر کے اور صحیفوں
کے حقوق کو ادا کر کے حقیقی فلاح و کامیابی (اللہ کی رضا، جنت) حاصل کر سکیں اور
ہمیشہ کی رسوائی (یعنی اللہ کی ناراضگی اور جہنم) سے بچ سکیں۔ اسی طرح اللہ پاک نے
اپنے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر قراٰنِ مجید نازل فرمایا۔ قراٰنِ
مجید مسلمانوں کے لئے رشدو ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ اسی طرح قراٰنِ پاک کے بھی بہت سے
حقوق ہیں، جن میں سے 5 پیشِ خدمت ہیں۔
(1)قراٰنِ پاک کو سیکھنا: قراٰنِ کریم کے حقوق میں سے ایک یہ
بھی ہے کہ قراٰنِ پاک کو درست تلفظات اور تیم مخارج کے ساتھ سیکھنا جیسا کہ حضورِ
اکر م صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے قراٰنِ مجید سیکھا
اور سکھایا اور جو کچھ قراٰنِ پاک میں ہے اس پر عمل کیا، قراٰن مجید اس کی شفاعت
کرے گا اور جنت میں لے جائے گا۔ (2) قراٰنِ پاک کی تلاوت کرنا۔ قراٰنِ
پاک کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے۔ چنانچہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قراٰن پڑھو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے
والوں کے لیے شفیع ہو کر آئے گا۔ (مسلم، ص 403، حديث 202)
(3) غور و فکر کرنا : قراٰنِ کریم کی آیات اور معانی میں غور وفکر
کرنا بھی قراٰنِ پاک کا ایک حق ہے۔ جیسا کہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان
عالی شان ہے: جو کچھ قراٰنِ پاک میں ہے اس پر غور وفکر کرو تا کہ تمہیں فلاح ملے ،
اس کے ثواب میں جلدی نہ کرو کیونکہ اس کا ثواب بہت بڑا ہے۔ (شعب الایمان،2/350،
حديث : 2007 ) (4)عمل کرنا :قراٰنِ پاک کی تعلیمات اور احکامات پر عمل کرنا
بھی قراٰنِ مجید کے حقوق میں سے ایک حق ہے۔ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے قراٰن پڑھا اور جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کیا، اس
کے والدین کو قیامت کے دن تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی سورج سے اچھی ہے۔ اگر وہ
تمہارے گھروں میں ہوتا ،تو اب خود اس عمل کرنے والے کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔(
سنن ابی داؤد ،2/100،حدیث:1453)
(5) اسے دوسروں تک پہنچانا : قراٰنِ کریم کے حقوق میں سے ایک
حق بہ بھی ہے کہ اسے دوسروں تک پہنچایا جائے ، دوسروں کو بھی سکھائے جائے۔ جیسا کہ
حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں سب سے بہترین
شخص وہ ہے جو قراٰن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ ( بخاری، کتاب فضائل القراٰن ، 3/410،حدیث:5027)
پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ! یہ وہی کتاب ہے جس نے بھٹکی
ہوئی انسانیت کو سیدھے راستے کی طرف رہنمائی دی، مسلمانوں کوبلندیاں عطا کیں۔ مگر
افسوس! آج کا مسلمان اس فانی دنیا میں اپنی دنیوی ترقی و خوشحالی کے لئے نت نئے علوم و فنون سیکھنے سکھانے میں تو ہر
وقت یہ مصروفِ عمل نظر آتا ہے جبکہ رب کریم کے نازل کردہ قراٰنِ پاک کو پڑھنے ،
سیکھنے سکھانے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں کوتاہی اور غفلت کا شکار ہے۔ الله
پاک ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں قراٰنِ پاک کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا
فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ار یب بن یامین (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
کنزالایمان کراچی پاکستان)

دینِ اسلام دینِ فطرت ہے اور یہ تمام انسانوں کے لئے مکمل ضابطۂ
حیات ہے۔ یہیں وہ دین ہے جس نے ہر چیز کے حقوق کو علیحدہ علیحدہ
دو بالتفصیل بیان کیا ہے۔ اس نے کتابُ اللہ کے حقوق کو بھی بیان کیا ہے۔ جو لوگوں
کے لئے سرچشمۂ ہدایت ہے۔ جس نے لوگوں کو تاریکی سے نکال کر اجالے میں کھڑکیا ہے ۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب جب مسلمانوں نے اس کے حقوق کا لحاظ کیا اور اس کے حقوق کو ادا
کیا ، تب تک وہ دنیا پر غالب رہے اور جب انہوں نے اس کے حقوق کو پامال کرنا شروع
کیا تو ان کا زوال شروع ہو گیا۔ اس کے حقوق کا پاس اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب اس کے
بارے میں معلوم ہو، انہی حقوق میں سے چند پیشِ خدمت ہیں:۔
(1)کتاب اللہ پر ایمان لانا: وَ الْمُؤْمِنُوْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ
اِلَیْكَ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ایمان والے ہیں وہ ایمان لاتے ہیں
اُس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا۔(پ6،النسآء:162)
(2) کتاب الله کو
سیکھنا اور سکھانا : حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : تم میں
بہترین شخص وہ ہے جو قراٰن سیکھے اور سکھائے ۔
(3) کتاب اللہ کو با وضو چھونا : لَّا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَؕ(۷۹) ترجمۂ کنزالایمان : اسے نہ چھوئیں مگر با وضو۔(پ27،الواقعۃ:79)
(4) ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرنا : وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴) ترجمۂ کنز الایمان: اور قراٰن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔(پ29،المزمل:4)
(5) اچھی آواز میں تلاوت کرنا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: الله نے اپنے نبی کو جتنا خوش الحانی سے تلاوتِ قراٰن کا
حکم دیا اتنا کسی اور چیز کا نہ دیا۔
اللہ ہمیں کتابُ الله کے حقوق جاننے اور ان کو بجالانے کی
توفیق عطا عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کتاب اللہ یعنی قراٰنِ پاک الله پاک کی زندہ جاوید کتاب ہے۔
اس میں بیان کی گئی تعلیمات قیامت تک کے تمام مسائل کے حل کے لئے کافی بھی ہیں اور
بہتر بھی ہیں۔ قراٰنِ مجید وہ کتاب ہے جو کسی تعارف کی محتاج نہیں، یہ بات روزِ
روشن کی طرح واضح ہے کہ یہ کتاب تمام آسمانی کتابوں کی سردار ہے۔ جس طرح اس کا
مرتبہ بلند وبالا ہے اسی طرح کلامُ اللہ یعنی قراٰنِ کریم کے کچھ حقوق بھی ہیں، جس
کا ادا کرنا ہمارے ذمہ لازم ہے۔ قراٰنِ کریم کے حقوق ادا نہ کرنا بھی سنگین جرم
ہوگا۔
علمائے کرام نے احادیث رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی روشنی میں کتاب اللہ کے پانچ حقوق بیان فرمائے ہیں۔ جو درج ذیل ہیں:
(1)کتاب اللہ پر ایمان
لانا: کتاب اللہ کا پہلا حق ہے : اس پر ایمان لانا۔ یہاں یہ بات یاد
رکھئے کہ اللہ پاک نے جتنی بھی کتابیں نازِل فرمائیں ، جتنے صحیفے انبیائے کرام علیہمُ السّلام پر نازِل فرمائے ، ان سب پر
ہی ایمان لانا ایک مسلمان پر لازِم ہے ، اللہ پاک کی نازِل کردہ کسی ایک بھی کتاب
کا انکار کفر ہے۔ اَلْحَمْدُ کی الف سے لے کر
وَ النَّاسُ کی سین تک قراٰنِ کریم کا ایک ایک جملہ ، ایک ایک لفظ ، ایک
ایک حرف حق ہے ، سچ ہے ، اللہ پاک کی طرف سے نازِل کردہ ہے ، اس میں ایک حرف کی بھی
کمی بیشی نہیں ، جو شخص قراٰنِ کریم کے ایک لفظ کا بھی انکار کرے ، وہ کافِر ہے ،
دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ الحمد للہ! ہر مسلمان قراٰنِ پاک کو کتابِ ہدایت تسلیم بھی کرتا ہے۔ مگر اس جگہ ہم نے یہ
غور کرنا ہے کہ ہم قراٰنِ کریم کو کتابِ ہدایت تسلیم تو کرتے ہیں لیکن کیا ہم عملی
طور پر اس سے ہدایت و رہنمائی لیتے بھی ہیں یا نہیں؟ قراٰنِ مجید کو “ کتابِ ہدایت
“ تسلیم تو کریں مگر اسے غلاف میں لپیٹ کر الماری کی زِینت بنا دیں اور تجارت کے
اُصُول قراٰن کے دشمنوں سے سیکھیں عدالت کے اُصُول قراٰن کے دشمنوں سے سیکھیں اپنے
بچوں کو بڑے بڑے فلسفے تو سکھائیں مگر قراٰنِ مجید کی تعلیم نہ دلوائیں زِندگی کے
مسائل کا حل کافِروں کی بڑی بڑی کتابوں سے ڈھونڈتے پھریں۔ کیا جس شخص کی تجوری
سونے ، چاندی ، ہیرے جواہرات سے بھری ہوئی ہو ، وہ بھی کبھی بھیک مانگنے کے لئے
دوسروں کے دروازے پر جاتا ہے؟ لہٰذا قراٰنِ کریم پر ایمان لانے کا یہ تقاضا ہے کہ
ہم اپنی زِندگی کے ہر شعبے میں ، ہر مسئلے میں اور ہر مرحلے پر قراٰنِ کریم کو
اپنا امام اور پیشوا بنائیں۔
گَرْ تُومِی خَواہِی
مُسَلْمَاں زِیْسْتَنْ نَیْسْت مُمْکِنْ جُزْ بَہ قُرْآں زِیْسْتَنْ
ترجمہ:اگر مسلمان بَن کر زندگی گزارنا چاہتے ہو تو بغیر قراٰن
کے ایسا ہر گز ممکن نہیں ہے۔
(2)کتاب اللہ کی محبت
وتعظیم: کتاب الله کا دوسرا حق ہے : اس سے محبت کرنا اور دِل سے اس
کی تعظیم کرنا۔ الحمد
للہ! کتاب اللہ قراٰنِ مجید سے محبت کرنا ، سُنَّتِ مصطفےٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے۔ ہمارے پیارے آقا ، مکی مدنی مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم قراٰنِ مجید سے بہت محبت فرماتے تھے ، ایک روز آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم اپنے گھر مبارک میں تشریف فرما تھے ، کسی نے بتایا کہ کوئی شخص بہت
خوبصُورت آواز میں قراٰنِ مجید کی تِلاوت کر رہا ہے ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم اُٹھے ، باہَر تشریف لے گئے اور دیر تک تِلاوت سُنتے رہے ، پھر واپس تشریف
لائے اور فرمایا : یہ ابوحذیفہ کا غُلام سالم ہے ، تمام تعریفیں اللہ پاک کے لئے ہیں
کہ جس نے میری اُمَّت میں ایسا شخص پیدا فرمایا۔(ابن ماجہ ، کتاب : اقامۃ الصلاۃ ،
ص216 ، حدیث : 1338)
سلطان محمودغزنوی اور
احترامِ قراٰن: منقول ہے ، سلطان محمود غزنوی رحمۃُ اللہِ علیہ کو وفات کے بعد کسی نے
خواب میں دیکھ کر پوچھا : اللہ پاک نے آپ کے ساتھ کیا مُعَامَلہ فرمایا؟ سلطان
محمود غزنوی رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا : ایک مرتبہ میں کہیں مہمان تھا ، جس کمرے
میں مجھے ٹھہرایا گیا ، وہاں قدموں کی جانِب طاق میں قراٰنِ مجید رکھا تھا ، میں
نے سوچاکہ قراٰنِ مجید کو باہر بھجوا دوں ، پھر خیال آیا کہ میں اپنے آرام کی خاطر
قراٰنِ مجید کو باہَر کیوں نکالوں؟ بس یہ سوچ کر میں نے قراٰنِ مجید کی تعظیم کی
اور ساری رات بیٹھا رہا اور اس طرف پاؤں نہیں کئے ، بس اسی وجہ سے اللہ پاک نے
مجھے بخش دیا۔(دليل العارفين ، مجلس : 5 ، ص 50)
عشقِ مصطفیٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی علامت: قاضِی عیاض مالکی
رحمۃُ اللہِ علیہ نے شِفَا شریف میں “ عشقِ مصطفےٰ “ کی علامات کا شُمار کیا تو ان
میں ایک علامت “ محبتِ قراٰن “ لکھی کہ جو شخص قراٰن سے محبت کرتا ہے وہی رسولِ
کائنات ، فخرِ موجودات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بھی محبت کرتا ہے۔(کِتَابُ
الشِّفَا ، جزء : 2 ، ص 24)
اللہ پاک ہمیں قراٰنِ مجید کی بےپناہ محبت عطا فرمائے اور
اس کی عِزَّت کرنے ، اس کی تعظیم کرنے ، ادب سے چومنے ، آنکھوں پر لگانے ، سینے سے
لگانے کی توفیق عطا فرمائے۔
الٰہی! رونقِ اسلام کے سامان
پیدا کر دِلوں میں مؤمنوں کے الفتِ قراٰن پیدا کر
(3): کتاب اللہ پر
عمل کرنا: کتاب الله قراٰنِ مجید کا تیسرا حق ہے : اس پر عمل کرنا۔ اَلتَّاَدُّب
بِآدَابِہٖ وَالتَّخَلُّق بِاَخْلَاقِہٖ یعنی قراٰنِ
مجید کے بیان کردہ آدابِ زِندگی اپنانا اور اس کے بتائے ہوئے اخلاق کو اپنے کردار
کا حصہ بنانا۔
اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: کتنے قراٰن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قراٰن اُن پر لعنت کرتا ہے۔(المدخل
لابن الحاج ، بیان : فضل تلاوۃ القران ، 1/ 85)
عُلَمائے کرام نے اس حدیثِ پاک کا ایک معنی یہ بھی لکھا ہے
کہ اس سے مُراد وہ شخص ہے جو قراٰنِ کریم کی تلاوت تو کرتا ہے مگر اس پر عمل نہیں
کرتا۔ ہم خود ذرا غور کریں ایک شخص قراٰنِ پاک کی تِلاوت کر رہا ہے ، قراٰن کہتا
ہے : لَّعْنَتَ اللّٰهِ
عَلَى الْكٰذِبِیْنَ(۶۱) ترجمۂ کنز الایمان: تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت۔(پ3 ، اٰل عمرٰن : 61) اگر یہ شخص جھوٹ بولتا
ہے تو یہ لعنت یقیناً اس پر بھی آئے گی ، قراٰن کہتا ہے : وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(۸۶) ترجمۂ کنز الایمان : اور اللہ ظالموں
کو ہدایت نہیں کرتا ۔( پ3 ، اٰل عمرٰن: 86) اگر یہ تلاوت کرنے والا خود ظالم ہے ، دوسروں کے حُقوق
پامال کرنے والا ہے تو یہ وعید اس کی طرف بھی آئے گی ،قراٰنِ مجید بے نمازی کی
سزائیں بیان فرماتا ہے ، اگر یہ تلاوت کرنے والا بھی بے نمازی ہے تو یہ ساری وعیدیں
اس کی طرف بھی تو آئیں گی۔ مَعْلُوم ہوا قراٰنِ مجید پر ایمان رکھنے ، اس سے محبت
کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کرنا بھی لازِم و ضروری ہے۔
(4)کتاب اللہ کا
چوتھا حق : اس کی تلاوت کرنا: یہ بھی ہمارے مُعَاشرے کا بڑا اَلمیہ ہے
کہ ہم لوگ تِلاوت نہیں کرتے۔حالانکہ ہمیں صبح وشام ، دِن رات تِلاوتِ قراٰن کی ترغیب
دی گئی ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ تلاوتِ قراٰن افضل عِبَادت ہے۔(کنز العمال ، کتاب :
الاذکار ، جزء : 1 ، 1/ 257 ، حدیث : 2261)
جو صبح كو قراٰن ختم کرے تو شام تک اور جو شام کو ختم کرے
تو صبح تک فرشتے اس کے لئے رحمت کی دُعا کرتے ہیں۔(کنز العمال ، کتاب : الاذکار ،
جزء : 1 ، 1/ 261 ، حدیث : 2316)
قاریٔ قراٰن ، قراٰنِ کریم پڑھتا ہوا جنت کے درجات چڑھتا
جائے گا۔(ابو داؤد ، کتاب الوتر ، ص 241 ، حدیث : 1464 ماخوذًا)
ایسے ثوابات ، ایسے فائدے ہیں قراٰنِ مجید کی تِلاوت کرنے
کے ، مگر ہم تِلاوت نہیں کرتے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم تلاوتِ قراٰنِ کو اپنے روز کے
معمولات میں شامِل کریں ، جیسے کھانے کے بغیر ہمارا دِن نہیں گزرتا ، اسی طرح
تِلاوتِ قراٰن بھی رُوح کی غذا ہے ، اس کے بغیر بھی ہمارا دِن نہیں گزرنا چاہئے۔
یہی ہے آرزو تعلیم قراٰن عام
ہو جائے
تلاوت کرنا صبح و شام میرا
کام ہو جائے
(5) کتاب اللہ کو
سمجھنا اور اس کی تبلیغ کرنا: کتاب الله قراٰنِ
مجید کا پانچواں حق ہے : قراٰنِ مجید کو سمجھنا اور سمجھ کر دوسروں تک پہنچانا۔
اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قراٰنِ
مجید کے بےشُمار اَوْصاف بیان فرمائے ہیں ، اُن میں ایک وَصْف یہ بیان فرمایا کہ اَلْقُرْآنُ
حُجَّۃٌ لَکَ اَوْ عَلَیْکَ قراٰنِ مجید دلیل
ہے ، یہ یا تو تمہارے حق میں دلیل بنے گا یا تمہارے خلاف دلیل ہو گا۔
علّامہ قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : جو شخص قراٰن سیکھے
مگر اس سے غفلت کرے قراٰن اس کے خِلاف دلیل ہو گا اور اس سے بڑھ کر اس بندے کے
خِلاف دلیل ہو گا جو قراٰنِ مجید کے حق میں کمی کرے اور اس سے جاہِل رہے۔ (تفسیر
قرطبی ، 1/19)
اے عاشقان رسول ! قراٰنِ مجید کو سیکھنا بھی لازمی ہے ، اگر
قراٰنِ مجید سیکھیں گے نہیں ، سمجھیں گے نہیں تو اس پر عمل کیسے کر سکیں گے اور
دوسروں تک کیسے پہنچائیں گے؟
قراٰنِ مجید سیکھنا کیسے ہے؟ اسے سمجھنا کیسے ہے؟ اس کی تعلیمات
عام کیسے کرنی ہیں؟ ان سب سوالوں کا صِرْف ایک ہی جواب ہے : عاشقانِ رسول کی دینی
تحریک دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہو جائیے! الحمد للہ! دعوتِ اسلامی ہمیں قراٰن پڑھنا بھی سکھاتی ہے ، دعوتِ اسلامی
ہمیں قراٰن سمجھنے کے ذرائع بھی فراہم کرتی ہے اور قراٰنِ مجید سمجھ کر اس پر عمل
کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔
اللہ پاک ہم سب کو قراٰنِ پاک سیکھنے اس کی تلاوت کرنے اس
پر عمل کرنے اس کی تعظیم کرنے اور اسے دوسرے کو سکھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
طاہر علی عطاری قادری(درجہ سابعہ جامعۃُ المدینہ کنز
الایمان رائیونڈ، پاکستان)

حضرت تمیم بِنْ اَوْس داری رضی اللہُ عنہ صحابئ رسول ہیں حدیثِ پاک کی مشہور کتاب ”مسلم شریف “
میں آپ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ،
سرکارِ عالی وقار ، ہم بےکسوں کے مددگار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ دِیْن نصیحت ہے۔(مسلم
شریف،حدیث: 55)
عام مُحاورے میں کسی کو اچھی بات کی تلقین کرنے کا نام نصیحت
ہے لیکن اس حدیثِ پاک میں لفظ “ نصیحت “ عربی لغت کے اعتبار سے استعمال ہوا ہے ،
عربی لغت میں “ نصیحت “ کا معنی ہوتا ہے : خالص ہونا یا خالص کرنا۔ یُوں حدیثِ پاک
کا معنی ہو گا : دِین خالص ہونے کا نام ہے۔ صحابۂ کرام علیہم ال نے عرض کیا : یا
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کس کے لئے خالِص ہونے کا نام دِیْن ہے؟
اس کے جواب میں نبئ رَحْمت ، شفیعِ اُمَّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے 5 باتیں
ذِکْر فرمائیں ، ارشاد فرمایا : (1) : لِلّٰہِ یعنی اللہ پاک کے لئے خالص ہونا (2) : وَلِکِتَابِہٖ اور اللہ پاک کی کتاب کے لئے خالص ہونا (3) : وَلِرَسُوْلِہٖ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے
خالِص ہونا (4) : وَلِاَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ مسلمانوں کے اَئِمَّہ یعنی علماء کرام و مفتیانِ کرام کے لیے خالص ہونا ۔ (5)
: عَامَّتِہِمْ عام مسلمانوں کے لئے خالِص ہو
جانے کا نام دین ہے۔
اس حدیث پاک میں نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
اللہ پاک و کتاب اللہ وغیرھما کے اجمالاً و مختصر حقوق بیان فرمائے ہیں۔
آج کی ہماری گفتگو قراٰنِ پاک کے حقوق کے متعلق ہے۔ یاد رہے
کہ قراٰنِ کریم فرقانِ حمید برھان رشید کے ہم پر پانچ 5 حقوق ہیں :۔
(1)قراٰنِ پاک پر ایمان
لانا: قراٰنِ پاک کا پہلا حق اس پر ایمان لانا ہے اور یاد رہے
اللہ پاک کی تمام نازل کردہ کتب اور صحیفوں پر ایمان لانا مسلمان پر لازم ہے قراٰنِ
پاک پر ایمان لانے اور بقیہ کتابوں اور صحیفوں پر ایمان لانے میں فرق ہے ۔
وہ یہ کہ پچھلی جتنی بھی آسمانی کتابیں ہیں ، صحیفے ہیں ،
ان سب پر اجمالی ایمان فرض ہے اور قراٰن کریم پر تفصیلی ایمان فرض ہے۔ اجمالی ایمان
کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک نے تورات نازِل فرمائی ، زبور نازِل فرمائی ، انجیل
نازِل فرمائی ، اس کے عِلاوہ انبیائے کرام علیہم السّلام پر جو صحیفے نازِل فرمائے
وہ سب حق ہیں ، سچ ہیں ، ان میں جو کچھ اللہ پاک نے نازِل فرمایا ، وہ سب کاسب سچ
ہے اور لوگوں نے جو اپنی خواہش سے اس میں اضافہ کیا وہ باطل ہے جبکہ قراٰنِ کریم
پر تفصیلی ایمان لازِم ہے ، یعنی اَلْحَمْدُ کی الف سے لے کر وَ النَّاسُ کی سین تک قراٰنِ کریم کا ایک ایک جملہ ، ایک ایک لفظ ، ایک ایک حرف حق ہے ،
سچ ہے ، اللہ پاک کی طرف سے نازِل کردہ ہے ، اس میں ایک حرف کی بھی کمی بیشی نہیں
، جو شخص قراٰنِ کریم کے ایک لفظ کا بھی انکار کرے ، وہ کافِر ہے ۔
(2)قراٰنِ کریم کی
تلاوت کرنا: قراٰنِ پاک کا دوسرا حق ہے اس کی تِلاوت کرنا۔ یہ بھی ہمارے
مُعَاشرے کا بڑا اَلمیہ ہے کہ ہم لوگ تِلاوت نہیں کرتے ، کتنے حُفَّاظ ایسے ہیں جو
صِرْف رمضان ہی میں قراٰنِ مجید کھول کر دیکھتے ہیں ، حالانکہ ہمیں صبح وشام ، دِن
رات تِلاوتِ قراٰن کی ترغیب دی گئی ہے۔ تلاوتِ قراٰن افضل عِبَادت ہے۔ (کنز العمال،1/
257)
قراٰنِ کریم کا ایک حرف پڑھنے پر دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔(ترمذی
،حدیث: 2910)
قراٰن پڑھنے سے رَحْمَت اُترتی فرشتے پروں سے سایہ کرتے سکینہ
نازِل ہوتا ہے۔ (مسلم ،حدیث: 2699)
جو نماز میں کھڑے ہو کر قراٰن کی تلاوت کرے اس کے لئے ہر
حرف کے بدلے 100نیکیاں ہیں اور جو نماز میں بیٹھ کر تلاوت کرے اس کے لئے ہر حرف کے
بدلے میں 50نیکیاں ہیں اور جو نماز کے علاوہ باوضو تلاوت کرے اس کے لئے 25 نیکیاں
ہیں اور جو بغیر وضو تلاوت کرے اس کے لئے10نیکیاں ہیں۔ (احیاء العلوم ،1/ 362)
تو ہمیں چاہیے کہ
ان احادیث میں مذکورہ فضائل حاصل کرنے کے لیے روزانہ قراٰنِ پاک کی تلاوت کریں ۔
(3)قراٰنِ پاک کو
سمجھنا:قراٰنِ پاک کا تیسرا حق ہے قراٰنِ مجید کو سمجھنا حضور جانِ
رحمت ، شمع بزمِ ہدایت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قراٰنِ مجید کے بےشُمار
اَوْصاف بیان فرمائے ہیں ، اُن میں ایک وَصْف یہ بیان فرمایا کہ اَلْقُرْآنُ
حُجَّۃٌ لَکَ اَوْ عَلَیْکَ قراٰنِ مجید دلیل
ہے ، یہ یا تو تمہارے حق میں دلیل بنے گا یا تمہارے خلاف دلیل ہو گا۔
علّامہ قرطبی رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں : جو شخص قراٰن سیکھے مگر اس سے غفلت کرے قراٰن اس
کے خِلاف دلیل ہو گا اور اس سے بڑھ کر اس بندے کے خِلاف دلیل ہو گا جو قراٰنِ مجید
کے حق میں کمی کرے اور اس سے جاہِل رہے۔ (تفسیر قرطبی،1/19)
تو ہم پر لازم ہے کہ جہاں قراٰن کی تلاوت کریں ساتھ ساتھ قراٰنِ
پاک کو سمجھیں۔
(4)قراٰنِ پاک پر عمل
کرنا: قراٰنِ مجید کا چوتھا حق ہے: اَلتَّاَدُّب
بِآدَابِہٖ وَالتَّخَلُّق بِاَخْلَاقِہٖ یعنی قراٰنِ
مجید کے بیان کردہ آدابِ زِندگی اپنانا اور اس کے بتائے ہوئے اخلاق کو اپنے کردار
کا حصہ بنانا ۔
پارہ 8 ، سورۂ
اَنْعَام ، آیت : 155 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ
وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۙ(۱۵۵) ترجمۂ کنز الایمان : اور یہ برکت والی
کتاب ہم نے اتاری تو اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاری کرو کہ تم پر رحم ہو ۔(پ8 ، الانعام
: 155) معلوم ہوا قراٰنِ مجید کا اَہم اور بنیادی حق اس پر عمل کرنا ، اس کی کامِل
اِتِّباع کرنا ، اس کے بتائے ہوئے انداز پر زِندگی گزارنا ہے۔
حضرت امام زَیْنُ العابدین رضی اللہُ عنہ امامِ حُسَین رضی
اللہُ عنہ کے شہزادے ہیں ، ایک مرتبہ آپ کی کنیز آپ کووُضو کروا رہی تھی۔ پہلے
دَوْر میں لونڈیاں اور غلام باقاعدہ فروخت ہوتے تھے ، ان لونڈیوں سے پردہ فرض نہیں
تھا تو امام زین العابدین رضی اللہُ عنہ کی کنیز آپ کو وُضُو کروا رہی تھی ، اچانک
اس کے ہاتھ سے برتن (لوٹا وغیرہ) چھوٹ کر گِرا اَور امام زین العابدین رضی اللہُ
عنہ کے چہرے پر لگا ، چہرہ زخمی ہو گیا۔ آپ رضی اللہُ عنہ نے سَر اُٹھا کر دیکھا
تو کنیز نے قراٰنِ مجید کی آیت پڑھی : وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ ترجمۂ کنز الایمان : اور غصہ پینے والے۔(پ4 ، اٰل
عمرٰن : 134) امام زین العابدین رضی اللہُ عنہ آیت سُنتے ہی فرمایا : میں نے
اپنا غُصَّہ پی لیا۔ لونڈی نے اسی آیت کا اگلا حصہ پڑھا : وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕترجمۂ کنز الایمان : اور لوگوں سے درگزر کرنے والے۔(پ4 ، اٰل عمرٰن : 134) امام
زین العابدین رضی اللہُ عنہ نے فرمایا : میں نے رضائے الٰہی کے لئے تجھے معاف کیا۔
لونڈی نے آیتِ کریمہ کا اس سے اگلا حِصَّہ پڑھا : وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴)ترجمۂ کنز الایمان : اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔(پ4 ، اٰل
عمرٰن : 134) امام زین العابدین رضی اللہُ عنہ نے فرمایا : جا! تو اللہ پاک کی رضا
کے لئے آزاد ہے۔ (ابن عساکر ،41/ 387)
سُبْحٰنَ
اللہ! یہ ہے قراٰنِ مجید پر عمل کا انداز! ادھر قراٰن کی تلاوت
ہوئی ، ادھر اس پر عمل کر لیا گیا۔ ہمیں بھی اپنے بڑوں کی اتباع کرتے ہوئے قراٰن
کریم پر عمل کرنا چاہیے ۔
(5)قراٰنِ پاک کی تبلیغ
(دوسروں تک پہنچانا):قراٰنِ پاک کا پانچواں حق ہے
اس کی تبلیغ کرنا یعنی دوسروں تک پہنچانا۔ روایت ہے حضرت عبد اللہ ابن عمرو سے
فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ میری طرف سے
لوگوں کو پہنچاؤ اگرچہ ایک ہی آیت ہو۔ (سنن ترمذی ، حدیث: 2669)
آیت کے لغوی معنے ہیں علامت اور نشان، اس لحاظ سے حضور کے
معجزات،احادیث،احکام،قراٰنی آیات سب آیتیں ہیں۔ اصطلاح میں قراٰن کے اس جملے کو آیت
کہا جاتا ہے جس کا مستقل نام نہ ہو، نام والے مضمون کو سورہ کہتے ہیں۔ یہاں آیت سے
لغوی معنے مراد ہیں، یعنی جسے کوئی مسئلہ یا حدیث یا قراٰن شریف کی آیت یاد ہو وہ
دوسرے کو پہنچادے، تبلیغ صرف علما پر فرض نہیں ہر مسلمان بقدرِ علم مبلغ ہے اور ہو
سکتا ہے کہ آیت کی اصطلاحی معنے مراد ہوں اور اس سے آیت کے الفاظ معنےٰ، مطلب،مسائل
سب مراد ہوں یعنی جسے ایک آیت حفظ ہو اس کے متعلق کچھ مسائل معلوم ہوں لوگوں تک
پہنچائے۔ تبلیغ بھی بڑی اہم عبادت ہے ۔
تو ہمیں چاہیے کہ ہم قراٰن کی تلاوت بھی کریں اور ساتھ ساتھ
قراٰن کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔ جب ہم سمجھ لیں تو اسے دوسرے مسلمانوں تک بھی
پہنچائیں۔
اس کے لیے میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ دعوت اسلامی کے جامعۃُ
المدینہ میں داخلہ لے لیں اور اگر آپ یہ کہیں کہ وقت نہیں ہے تو آپ کے لیے دعوت
اسلامی کا شعبہ مدرسۃ المدینہ بالغان موجود ہے روزانہ آپ 35 سے 45 منٹ اپنا وقت دیں
اور قراٰنِ پاک کو پڑھنا بھی سیکھئے اور سمجھئے بھی ۔
اللہ پاک ہمیں قراٰنِ
پاک کو سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا
فرمائے۔ اٰمین یا رب العالمین
احمد رضا عطاری کاٹھیاواڑی(درجہ سادسہ جامعہ المدینہ
فیضان غوث ِ اعظم کراچی، پاکستان)

قراٰنِ مجید اللہ پاک کی وہ مبارک کتاب ہے جو اس نے اپنے
پیارے محبوب رسول حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل فرمائی۔ قراٰنِ
مجید ہدایت چاہنے والوں کے لیے ہدایت اور اس کے احکام سے روگردانی کرنے والوں کے
لیے جہنم کی وعید بن کر آیا۔ جب قراٰنِ مجید کا براہ راست تعلق ہماری نجات اور
عاقبت سے ہے تو ہم پر سب سے پہلے اس بات کو سمجھنا لازم ہے کہ قراٰنِ پاک کے کونسے
حقوق ہم پر عائد ہوتے ہیں۔
قراٰنِ پاک کے پانچ
حقوق ہیں:۔
(1)اسے ماننا: یعنی اس پر ایمان لانا جیسا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ترجَمۂ
کنزُالایمان: اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر
جو اپنے اُن رسول پر اُتاری اور اُس کتاب پر جو پہلے اُتاری اور جو نہ مانے اللہ
اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں
پڑا ۔(پ5، النسآء: 136)
(2)اسے پڑھنا: یعنی قراٰنِ پاک کی تلاوت کرنا، چنانچہ حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے قراٰن والو!
قراٰن کو تکیہ نہ بناؤ اور دن رات اس کی تلاوت کرو جیسا کہ تلاوت کا حق ہے۔ قراٰن کا
اعلان کرو اسے خوش آوازی سے پڑھو، اس کے معنی میں غور کرو تاکہ تم کامیاب ہو اور اس
کا ثواب جلدی نہ مانگو کہ اس کا بہت ثواب ہے۔(مشکاة المصابیح، 1/ 676)
(3) اس کا دفع کرنا: یعنی اس پر مخالفین کے اعتراضات کا دفع کرنا اور غلط
تاویلوں اور تحریفوں کی تردید کرنا، اس حق کو ادا کرنے والوں کی خود حدیث پاک میں
مدح سرائی فرمائی گئی چنانچہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا:کہ اس علم (قراٰن و سنت) کو ہر پچھلی جماعت میں سے پرہیز گار لوگ اٹھاتے
رہیں گے، جو غلو کرنے والوں کہ تبدیلیاں اور جھوٹوں کی دروغ بیانیاں اور جاہلوں کی
ہیرپھیر اس سے دور کرتے ہیں۔(مشکاة المصابیح، 1/ 82 مطبوعہ المكتب الإسلامي بيروت)
(4) اس پر عمل کرنا: یعنی اس
میں موجود اوامر کو بجا لانا اور منہیات سے اجتناب کرنا۔ ربّ کریم نے اس حق کی
ادائیگی کرنے والوں کو دنیا و آخرت میں ہدایت یافتہ ہونے کی نوید سنائی چنانچہ
ارشاد باری ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: جو کان لگا کر بات سنیں پھر اس کے بہتر پر چلیں
یہ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت فرمائی اور یہ ہیں جن کو عقل ہے ۔(پ23، الرمز:18)
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اللہ پاک نے قراٰنِ
پاک کی تلاوت کرنے والے اور اس میں موجود (احکام پر)عمل کرنے والے کو دنیا میں
گمراہ نہ ہونے اور آخرت میں بدبخت نہ ہونے کی ضمانت عطا فرمادی ہے۔(تفسیر قرطبی، 11/258
،مطبوعہ دار الکتب المصریہ القاھرہ)
(5)اس کو سمجھنا: یعنی اس کی آیات میں بقدرِ طاقت غور و فکر کرنا۔ قراٰنِ
مجید کے نزول کا ایک مقصد اس میں غور وفکر کرنا بھی ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے ارشاد
فرمایا: ترجَمۂ کنزُالایمان: یہ ایک کتاب ہے کہ ہم نے تمہاری طرف اتاری برکت والی
تاکہ اس کی آیتوں کو سوچیں اور عقل مند نصیحت مانیں ۔(پ23، صٓ :29) تابعی بزرگ ابو
عبدالرحمن سلمی فرماتے ہیں کہ ہم سے ان حضرات (صحابہ)نے بیان کیا کہ جو ہمیں پڑھاتے
تھے کہ یہ حضرات نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے قراٰن پڑھتے تھے تو جب
یہ دس آیات سیکھ لیتے تو مزید آیتیں نہ سیکھتے یہاں تک کہ ان دس آیات میں موجود احکام
پر عمل نہ کر لیتے (فرماتے ہیں )تو یوں ہم نے قراٰن کا علم اور عمل دونوں سیکھ لیا۔(تفسیر
طبری، 1/ 74 )
انہیں مذکورہ پانچ حقوق کو علامہ نووی رحمۃُ اللہ علیہ نے درج
ذیل حدیث کی شرح کرتے ہوئے ذکر فرمایا چنانچہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: دین خیر خواہی ہے تین بار (انہیں کلمات کا تکرار) فرمایا،
ہم نے عرض کی : کس کی ؟ فرمایا: اللہ کی ، اس کی کتاب کی ، اس کے رسول کی اور مسلمانوں
کے اماموں کی اور عوام کی۔ (شرح الاربعین النوویۃ، ص 49 )
امام نووی رحمۃُ اللہ علیہ نے اس حدیث میں موجود لفظ کتابُ اللہ
کی شرح کرتے ہوئے انہیں پانچ حقوق کو ذکر فرمایا۔(شرح الاربعین النوویۃ، ص 50)
اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں قراٰن
مجید کے حقوق کی ادائیگی کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
عبدالمعبود (درجہ دورۃ الحدیث جامعۃُ المدینہ فیضانِ
کنزالایمان ممبئی ہند)

قراٰنِ پاک کا پہلا حق یہ ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لائیں اور تصدیق بالقلب بھی کریں۔ قراٰنِ کریم کا دوسرا حق
یہ ہے کہ اسے پڑھیں ترتیل کے ساتھ قراٰنِ کریم کا تیسرا حق یہ ہے کہ اسے سمجھیں
اور قراٰنِ کریم کا چوتھا حق یہ ہے کہ اس پر عمل بھی کرے قراٰنِ کریم کا پانچواں
حق یہ ہے کہ اسے دوسروں تک پہنچائے۔
(1) ایمان کا لغوی
معنی ہے تصدیق کرنا ۔ (شرح عقائد، ص 273) ایمان کا دوسرا معنی ہے امن دینا چونکہ مؤمن
اچھے عقیدے اختیار کر کے اپنے آپ کو دائمی یعنی ہمیشہ والے عذاب سے امن دے دیتا ہے
اسی لیے اچھے عقیدوں کے اختیار کرنے کو ایمان کہتے ہیں۔( تفسیر نعیمی، 1/ 8) اصطلاح
: سچے دل سے ان سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریات دین میں سے ہے۔ (بہار شریعت، 1/
92 )
اعلی حضرت امام اہل
سنت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ
فرماتے ہیں: محمد رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ہر بات میں سچا
جانیں، حضور کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حقانیت کو صدق دل سے ماننا
ایمان ہے، جو اس کا مقر یعنی (اقرار کرنے والا) ہو اسے مسلمان مانا جائے گا۔ جبکہ
اس کے کسی قول یا فعل یا حال میں اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
انکار یا تکذیب(یعنی جھٹلانا) یا توہین نہ پائی جائے ۔( فتاوی رضویہ، 29/ 254)
(2)قراٰنِ کریم کا دوسرا حق اس کی تلاوت ہے۔ یہ ایک بڑی عبادت
ہونے کے ساتھ ساتھ ایمان کو تازہ رکھنے کا ذریعہ بھی ہے۔ قراٰن مجید میں ہے : وَ رَتِّلِ
الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴) ترجمۂ کنز الایمان: اور قراٰن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔(پ29،المزمل:4)
اس کا معنی یہ ہے کہ اطمینان کے ساتھ اس طرح قراٰن پڑھو کہ حروف جدا جدا ہو۔ جن
مقامات پر وقف کرنا ہے ان کا اور تمام حرکات اور مدات کی ادائیگی کا خاص خیال رہے۔
آیت کے آخر میں " تَرْتِیْلًا " فرما کر اس بات کی تائید کی گئی ہے کہ قراٰنِ پاک
کی تلاوت کرنے والوں کے لیے ترتیل کے ساتھ تلاوت کرنا انتہائی ضروری ہے ۔ ( مدراک
، المزمل، تحت الآیۃ 4 ،ص 1292)
(3) قراٰنِ کریم کا تیسرا حق یہ ہے کہ اسے سمجھا جائے۔ ہم لوگ
زندگی میں مختلف کتابیں پڑھتے ہیں۔ ہم ہر جملہ بڑی توجہ کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اگر
کسی بات کی سمجھ نہ آئے تو دوبارہ پڑھتے ہیں تاکہ جان سکیں کہ مصنف کیا کہنا چاہ
رہا ہے دوبارہ پڑھنے پر بھی تسلی نہ ہو تو ٹیچر یعنی استاد سے رابطہ کرتے ہیں تاکہ
بات مکمل طور پر دل و دماغ میں راسخ ہو جائے لیکن جب قراٰنِ کریم پڑھنے کی باری
آئے تو بے توجہی اور جلدی جلدی صحیح یا غلط پڑھ کر جان چھڑا لیتے ہیں کبھی اس بات
پر غور و تحمل کیا کہ اللہ پاک ہم سے کیا کہنا چاہ رہا ہے۔ اللہ پاک کی قسم اگر
لوگ قراٰن سمجھ کر عمل کرنا شروع کر دیں تو دنیا میں حقیقی امن اور سکون حاصل ہو
جائے۔
(4) قراٰنِ پاک کا چوتھا حق یہ ہے کہ وہ اس پر عمل کریں ،تقویٰ
اختیار کریں۔ شریعت میں تقوی اسے کہتے ہیں کہ انسان ان کاموں سے بچیں جو اس کے لئے
آخرت میں نقصان دہ ہو۔
(5) قراٰنِ پاک کا پانچواں حق یہ ہے کہ اسے دوسروں تک پہنچائیں۔
قراٰن مجید میں : وَ تَوَاصَوْا
بِالْحَقِّ ﳔ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۠(۳) ترجمۂ کنزالایمان: اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک
دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔(پ30،العصر:3) نور العرفان میں ہے کہ اس آیت سے کئی مسئلے
معلوم ہوئے ۔ ایک یہ کہ پہلے خود نیک بنے پھر دوسروں کو ہدایت کرے جیسا کہ آیت میں
ترتیب سے بیان کیا گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ کہ ہمیشہ تبلیغ کریں کریں جیسے کہ" وَ تَوَاصَوْا
" کہ اطلاق سے معلوم ہوا۔ تیسرے یہ کہ ہر مسلمان کو
مبلغ ہونا چاہیے ، جسے جو مسئلہ صحیح طور پر معلوم ہو ، وہ لوگوں کو بتا دیں صرف
علما پر تبلیغ نہیں ۔ ( تفسیر صراط الجنان)