قراٰنِ مجید اللہ پاک کی وہ مبارک کتاب ہے جو اس نے اپنے پیارے محبوب رسول حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل فرمائی۔ قراٰنِ مجید ہدایت چاہنے والوں کے لیے ہدایت اور اس کے احکام سے روگردانی کرنے والوں کے لیے جہنم کی وعید بن کر آیا۔ جب قراٰنِ مجید کا براہ راست تعلق ہماری نجات اور عاقبت سے ہے تو ہم پر سب سے پہلے اس بات کو سمجھنا لازم ہے کہ قراٰنِ پاک کے کونسے حقوق ہم پر عائد ہوتے ہیں۔

قراٰنِ پاک کے پانچ حقوق ہیں:۔

(1)اسے ماننا: یعنی اس پر ایمان لانا جیسا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے اُن رسول پر اُتاری اور اُس کتاب پر جو پہلے اُتاری اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا ۔(پ5، النسآء: 136)

(2)اسے پڑھنا: یعنی قراٰنِ پاک کی تلاوت کرنا، چنانچہ حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے قراٰن والو! قراٰن کو تکیہ نہ بناؤ اور دن رات اس کی تلاوت کرو جیسا کہ تلاوت کا حق ہے۔ قراٰن کا اعلان کرو اسے خوش آوازی سے پڑھو، اس کے معنی میں غور کرو تاکہ تم کامیاب ہو اور اس کا ثواب جلدی نہ مانگو کہ اس کا بہت ثواب ہے۔(مشکاة المصابیح، 1/ 676)

(3) اس کا دفع کرنا: یعنی اس پر مخالفین کے اعتراضات کا دفع کرنا اور غلط تاویلوں اور تحریفوں کی تردید کرنا، اس حق کو ادا کرنے والوں کی خود حدیث پاک میں مدح سرائی فرمائی گئی چنانچہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:کہ اس علم (قراٰن و سنت) کو ہر پچھلی جماعت میں سے پرہیز گار لوگ اٹھاتے رہیں گے، جو غلو کرنے والوں کہ تبدیلیاں اور جھوٹوں کی دروغ بیانیاں اور جاہلوں کی ہیرپھیر اس سے دور کرتے ہیں۔(مشکاة المصابیح، 1/ 82 مطبوعہ المكتب الإسلامي بيروت)

(4) اس پر عمل کرنا: یعنی اس میں موجود اوامر کو بجا لانا اور منہیات سے اجتناب کرنا۔ ربّ کریم نے اس حق کی ادائیگی کرنے والوں کو دنیا و آخرت میں ہدایت یافتہ ہونے کی نوید سنائی چنانچہ ارشاد باری ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: جو کان لگا کر بات سنیں پھر اس کے بہتر پر چلیں یہ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت فرمائی اور یہ ہیں جن کو عقل ہے ۔(پ23، الرمز:18)

ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اللہ پاک نے قراٰنِ پاک کی تلاوت کرنے والے اور اس میں موجود (احکام پر)عمل کرنے والے کو دنیا میں گمراہ نہ ہونے اور آخرت میں بدبخت نہ ہونے کی ضمانت عطا فرمادی ہے۔(تفسیر قرطبی، 11/258 ،مطبوعہ دار الکتب المصریہ القاھرہ)

(5)اس کو سمجھنا: یعنی اس کی آیات میں بقدرِ طاقت غور و فکر کرنا۔ قراٰنِ مجید کے نزول کا ایک مقصد اس میں غور وفکر کرنا بھی ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ترجَمۂ کنزُالایمان: یہ ایک کتاب ہے کہ ہم نے تمہاری طرف اتاری برکت والی تاکہ اس کی آیتوں کو سوچیں اور عقل مند نصیحت مانیں ۔(پ23، ‏‏ صٓ :29) تابعی بزرگ ابو عبدالرحمن سلمی فرماتے ہیں کہ ہم سے ان حضرات (صحابہ)نے بیان کیا کہ جو ہمیں پڑھاتے تھے کہ یہ حضرات نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے قراٰن پڑھتے تھے تو جب یہ دس آیات سیکھ لیتے تو مزید آیتیں نہ سیکھتے یہاں تک کہ ان دس آیات میں موجود احکام پر عمل نہ کر لیتے (فرماتے ہیں )تو یوں ہم نے قراٰن کا علم اور عمل دونوں سیکھ لیا۔(تفسیر طبری، 1/ 74 )

انہیں مذکورہ پانچ حقوق کو علامہ نووی رحمۃُ اللہ علیہ نے درج ذیل حدیث کی شرح کرتے ہوئے ذکر فرمایا چنانچہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: دین خیر خواہی ہے تین بار (انہیں کلمات کا تکرار) فرمایا، ہم نے عرض کی : کس کی ؟ فرمایا: اللہ کی ، اس کی کتاب کی ، اس کے رسول کی اور مسلمانوں کے اماموں کی اور عوام کی۔ (شرح الاربعین النوویۃ، ص 49 )

امام نووی رحمۃُ اللہ علیہ نے اس حدیث میں موجود لفظ کتابُ اللہ کی شرح کرتے ہوئے انہیں پانچ حقوق کو ذکر فرمایا۔(شرح الاربعین النوویۃ، ص 50)

اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں قراٰن مجید کے حقوق کی ادائیگی کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم