اللہ پاک نے مسلمانوں پر رسول اللہﷺ کی عظمت اور تعظیم کو لازم فرمایا۔ آپ کی تعظیم و تکریم کے بغیر نجات ممکن نہیں۔ارشاد باری ہے: فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷) (الاعراف: 157) ترجمہ کنز الایمان: تو وہ جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُترا وہی بامراد ہوئے۔

رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و تکریم کرنی جیسی آپ کی زندگی میں واجب لازم ہے ویسے ہی آپ کے ظاہری وصال کے بعد بھی واجب و لازم ہے۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے حضور میں آواز کو بلند نہیں کرنا چاہیے نہ زندگی میں اور نہ ہی وصال کے بعد۔ (منہاج القبول فی آداب الرسول،ص134)

سورۂ حجرات آیت نمبر 2: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ اس آیت مبارکہ میں بارگاہ نبوی کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں۔ پہلا ادب یہ ہے کہ اے ایمان والو ! جب نبی کریم تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آوازیں ان کی آواز سے بلندنہ ہوں بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پست آواز سے کرو۔

دوسرا ادب یہ ہے کہ حضور اقد س کو ندا کرتے وقت پورے ادب کا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کے نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف و تکریم کے کلمات اور عظمت کے القاب کے ساتھ عرض کرو جیسے کہو: یا رسول الله، یا نبی الله، کیونکہ ترک ادب سےنیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہوگی۔ (صراط الجنان،ص397)

لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔

لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ سے متعلق اہم بات:بارگاہِ رسالت کا جو ادب و احترام اس آیت میں بیان ہوا، یہ آپ کی ظاہری حیات مبارکہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ آپ کی وفات ظاہری سے لے کر تا قیامت بھی یہی ادب و احترام باقی ہے۔

مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اب بھی حاجیوں کو حکم ہے کہ جب روضہ رسول پر حاضری نصیب ہو تو سلام بہت آہستہ کریں اور کچھ دور کھڑے ہوں بلکہ بعض فقہا نے تو حکم دیا کہ جب حدیثِ پاک کا درس ہو تو وہاں دوسرے لوگ بلند آواز سے نہ بولیں۔(صراط الجنان،ص 403 )

الله پاک نے سورۂ حجرات میں آپ ﷺ کے ادب و احترام کی تعلیم فرمائی۔سورہ حجرات آیت نمبر1 میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک اور نبی کریم ﷺ کی اجازت کے بغیر کسی قول و فعل میں اصلا ان سے آگے نہ بڑھنا لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنا ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہ رسالت میں نیاز مندی اور آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے۔

اسی طرح قرآن ِکریم میں سورہ فتح میں ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔ بارگاہِ نبوی میں حاضری کے وقت وہی ادب و تعظیم کو ملحوظ رکھنا لازمی ہے جو آپ کی ظاہری حیات مبارکہ میں کی جاتی تھی۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ اس کھونٹی کی آواز جو مسجد نبوی کے اردگر دگھروں میں گاڑی جاتی تھی اور اس میخ کی آواز جو ٹھونکی جاتی تھی سنتی تھیں انہوں نے ان کے گھروں کے پاس کہلا بھیجا کہ رسول اللہﷺ کو اذیت نہ دو۔(منہاج القبول فی آداب الرسول، ص134)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دروازے کے کواڑ اس وعید سے بچنے کے لئے اور رسول اللہ ﷺ کے ادب کے خاطر کپڑے کے بنائے ہوئے تھے۔ (منہاج القبول فی آداب الرسول،ص135)

مسجد نبوی میں بلند آواز سے بولنا ممنوع ہے:چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں بلند آواز کرنے والوں کو تنبیہ کی اور ڈانٹا۔ حضرت سائب بن یزید سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: میں ایک بار مسجد نبوی میں کھڑاتھا کہ کسی نے مجھے کنکری ماری، دیکھا تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں !کہا: جاؤ! ان دوشخصوں کو لے آؤ۔ جب ان دونوں کو میں ان کے پاس لے گیا توپوچھا: تم کون ہو ؟یا کہاں سے ہو؟انہوں نے کہا: طائف کے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اس شہر سے ہوتے تو میں تم کو ضرور سزا دیتا اس واسطے کہ تم مسجد نبوی میں آواز بلند کرتے ہو۔ (منہاج القبول فی آداب الرسول،میں135)

اسی طرح بزرگانِ دین بارگاہ رسالت میں جاتے ہوئے نہایت ہی ادب و احترام کا مظاہرہ فرماتے چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے مدینہ منورہ میں حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے دروازے پر خراسان یا مصر کے گھوڑے بندھے دیکھے جو آپ کو بطور ہدیہ پیش کیے گئے تھے۔ اس قدر اعلیٰ گھوڑے میں نے کبھی نہ دیکھے تھے۔ چنانچہ میں نے عرض کی:یہ گھوڑے کتنے عمدہ ہیں!فرمایا:میں یہ سب آپ کو تحفے میں دیتا ہوں۔میں نے عرض کی:ایک گھوڑا اپنے لئے تو رکھ لیجیے۔فرمایا: مجھے اللہ پاک سے حیا آتی ہے کہ اس مبارک زمین کو اپنے گھوڑے کے قدموں تلے روندوں جس میں اس کے پیارے پیغمبر، بی بی آمنہ کے دلبر، مدینے کے تاجور ﷺ موجود ہیں یعنی آپ کا روضہ انور ہے۔(عاشقانِ رسول کی 130 حکایات، ص41)

ہاں! ہاں !رہ مدینہ ہے غافل ذراتو جاگ او پاؤں رکھنے والے یہ جاچشم و سر کی ہے

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ اس شعر میں فرما رہے ہیں کہ زائرین مدینہ کسی معمولی جگہ پہ نہیں جارہے مدینے کے سفر پر نکل رہے ہیں اور اے جانے والو!غفلت چھوڑو اور عشق رسول سے سر شار ہو کر جاگ کر چلو۔ یہ رہ مدینہ پاؤں سے چلنے کا راستہ نہیں خدا توفیق دے تو آنکھوں کے بل چلو! ( شرح حدائق بخشش،ص605)

خلیفہ اعلیٰ حضرت، فقیہِ اعظم حضرت علامہ یوسف محمد شریف محدث کو ٹلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب میں حج کرنے گیا تو مدینہ منورہ کی حاضری میں سبز سبز گنبد کے دیدار سے مشرف ہوتے وقت میں نے باب السلام کے قریب اور گنبد خضراء کے سامنے ایک سفید ریش اور انتہائی نورانی چہرے والے بزرگ کو دیکھا جو قبر ِانور کی جانب منہ کر کے دوزانو بیٹھے کچھ پڑھ رہے تھے، معلوم کرنے پر پتا چلا کہ یہ مشہور و معروف عالم دین اور زبردست عاشقِ رسول حضرت شیخ یوسف بن اسمعیل نبہانی ہیں۔میں ان کی وجاہت اور چہرے کی نورانیت دیکھ کر بہت متاثر ہوا اور ان کے قریب جا کر بیٹھ گیا اور گفتگو کی کوشش کی۔ وہ میری جانب متوجہ نہ ہوئے۔ میں نے ان سے کہا:میں ہندوستان سے آیا ہوں۔آپ کی کتابیں حجۃ الله علی العلمین اور جواہر البحار وغیرہ میں نے پڑھی ہیں جن سے میرے دل میں آ پ کی بڑی عقیدت ہے۔ انہوں نے یہ بات سن کر میری طرف محبت سے ہاتھ بڑھایا اور مصافحہ فرمایا۔ میں نے ان سے عرض کی:حضور !آپ قبرِ انورسے اتنی دور کیوں بیٹھتے ہیں؟ تو رو پڑے اور فرمانے لگے: میں اس لائق نہیں ہوں کہ قریب جاسکوں۔ (عاشقان رسول كی130 حکایت،ص149)

ان کے دیار میں تو کیسے چلے پھرے گا ؟ عطار تیری جرأت ! تو جائے گا مدینہ !

سبحان الله !ہمارے بزرگانِ دین کا ادب قربان جائیے!یہ ادب و احترام بے شک قرآن وسنت پر عمل ہے اللہ پاک نے قرآن پاک میں بھی ان عظیم بارگاہوں کا ادب کرنے کا حکم دیا ہے۔

وه بارگاہ نہایت عظیم ہے۔ جب کوئی شخص حاضر بارگاہ ہونے کا ارادہ کرے تو اسی دربار کا ادب اور حاضری کے آداب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ورنہ ادنیٰ سی گستاخی تمام اعمال کو اکارت کر سکتی ہے۔اس عظیم بارگاہ میں حاضری کے وقت نیت خالص زیارت اقدس کی کرنی چاہیے کیونکہ نیت پر ہی سارے اعمال کا دارو مدار ہے۔

چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ ہادی اعظم ﷺنے ارشاد فرمایا:ترجمہ:جس نے مدینہ آکر میری زیارت کی برائی سے باز رہتے ہوئے بہ نیت ثواب وہ میرے پڑوس میں ہوگا اور قیامت کے دن میں اس کی شفاعت کروں گا۔(شفا ء السقام،ص36) ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:جو قصداً اور عمداً میری زیارت کرے وہ قیامت کے دن میرے پڑوس میں ہوگا۔ ( مشکوۃ، حدیث:2755)


حضور نور مجسم ﷺ اللہ پاک کے آخری نبی ہیں جن کے لیے اللہ پاک نے یہ پوری کائنات تخلیق فرمائی۔ دنیاوی بادشاہ و حاکم آتا ہے تو اپنی بارگاہ کے آداب خود بناتا ہے، لیکن حضور کی ذات وہ ہے کہ جن کی بارگاہ کےآداب خود رب کریم ارشادفرماتا ہے تاکہ ان آداب کو بجالانے والا دنیا و آخرت کی کامیابی و سرخروئی حاصل کرسکے۔

فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷) (الاعراف: 157) ترجمہ کنز الایمان: تو وہ جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُترا وہی بامراد ہوئے۔

قرآنی آیات کی روشنی میں بارگاہ نبوی کے 5 آداب:بے شک اللہ پاک کی کتاب جو قیا مت تک کے لیے ہدایت اور نور ہے۔ہمیں بارگاہ نبوی کے آداب سکھاتی ہے۔

(1)پہلا ادب:بلانے پر فوراً حاضر ہو: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ (الانفال:23)ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ و رسول کے بلانےپر حاضر ہو جب رسول تمہیں بلائیں۔ یعنی کہ اے مسلمانو!سب سے پہلا ادب تو یہی ہے کہ جب بھی بلایا جائے تو فوراً حاضر ہوجاؤ اور تاخیر نہ کرو۔

(2)دوسرا ادب:حضور ﷺ کو ایک دوسرے کی طرح بالکل بھی نہ پکارو: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔یعنی کہ حضور ﷺکو عام لوگوں کی طرح نہ پکارو بلکہ بہتر سے بہترین القابات وخطابات سے پکارو مثلاً یارسول اللہ ﷺ!، یا نبی اللہ وغیرہ۔

(3) تیسرا ادب:حضور کی بارگاہ میں آواز اونچی نہ کرو: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو۔ یعنی کہ ہمیشہ آقا کریم ﷺ کی بارگاہ میں آوازوں کو پست رکھا جائے اور آواز بلند نہ ہو کہ دنیا و آخرت کی بربادی و رسوائی کا سبب بن سکتی ہے۔

(4) چوتھا ادب:حجروں کے باہر سے نہ پکارو: اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) (الحجرات: 4) ترجمہ: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔ اس آیت قرآنی میں حضور ﷺ کو ان کےحجروں کے باہر سےپکارنے، آوازیں دینے کو منع کیا گیا ہے کہ حضور ﷺ کی ذات پاک کا ادب یہ ہے کہ آپ کے گھر سے باہر آنے کا انتظار کیا جائے۔

(5)پانچواں ادب:رسول اللہ ﷺکے گھر بے اجازت نہ جاؤ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ (الاحزاب:53) یہ حضور ﷺکی بارگار کا مقدس ترین ادب ہے کہ جب بھی حاضر ہونے کا اراده ہوتو سب اجازت لے کر حاضر ہو جاؤ۔

درس: مذکورہ بالا آیت کریمہ سے ہمیں یہ درس ملا کہ حضور سے محبت کی ایک علامت حضور کی بارگاہ کے آداب کو بجالا نابھی ہے۔بے شک ان آداب کو بجالانا ہی کامل محبت،دنیاو دین و آخر ت میں کامیابی کی ضمانت ہے۔

حضور کی بارگاہ کے ادب کا واقعہ: جب اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کی بارگاہ عظیم کے یہ عظیم الشان آداب بیان فرمائے (لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْاپنی آوازیں اونچی نہ کرو) تو حضرت ابو بکر صدیق اور عمر فا روقِ اعظم اور دیگر صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اس قدر احتیاط فرمائی کہ اللہ کوان کی یہ ادا پسند آئی اور ان کے بارے میں یہ آیت قرآنی نازل ہوئی اور یہ عظیم مژدہ سُنایا گیا کہ اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ( الحجرات:3 )بے شک وہ جو اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔

پس صحابہ کرام کو بخشش اور بڑے عظیم ثو اب کی بشارت دی گئی ہے۔ اگر ہم بھی ان آداب کو بجالائیں تو بے شک ہمیں بھی اللہ پاک کی بارگاہ سےبے شمار اکرام و انعامات کا پروانہ مل سکتا ہے کیونکہ حضور ﷺ کی بارگاہ کا ادب در حقیقت اللہ پاک کی بارگاہ کا ادب ہے۔


مقولہ ہے کہ

با ادب بانصیب بے ادب بد نصیب

جوادب کرنے والا ہوتا ہے وہ بے بہا نعمتیں پاتا ہے اور پھر جب بات سرکار ﷺ کے ادب و تعظیم کی ہو تو اس کا باقاعدہ اہتمام ہونا چاہیے کہ سرکار کی تعظیم و ادب ایمان کا لازمی جز ہے۔ اس کے بغیر ہمارا ایمان کامل نہیں چنانچہ اس بات کی اہمیت کا اندازه اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود رب العزت ہمیں قرآن پاک میں جگہ جگہ اپنےمحبوب کے متعلق آداب سکھا رہا ہے۔

1۔حضور کی بارگاہ میں آوازوں کو پست رکھیں: جب بھی حضور ﷺکی بارگاہ میں حاضر ہونے کی سعادت نصیب ہو تو روضہ رسول پر آوازیں بلند نہ کریں بلکہ شہرنبی کا ادب کرتے ہوئے مدینۃالرسول میں بھی اپنی آواز کو پست رکھیں اور حضور کا ادب وصالِ ظاہری کے بعد بھی ویسا ہی کیا جائےگا جیسا کہ حیات ِ طیبہ میں لازم تھا اور یہ ادب قیامت تک کے لیے مسلمانوں پر لازم ہے اور جب حضور کی حدیث مبارکہ بیان کی جائے تب بھی ادب کا لحاظ رکھا جائے اور خاموش رہ کر سنا جائے۔ جیسا کہ رب کریم سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 2 میں حکم ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے نبی کی آواز سے۔

2۔حضور کی جناب میں ادب کے الفاظ استعمال کریں: رب کریم سورہ بقرہ کی آیت 104میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر فرمائیں۔راعنا کا لفظ یہودیوں کی لغت میں بے ادبی کے لیے استعمال ہوتا تھا تو صحابہ کرام کو اس پر بہت دکھ ہوتا تھا کیونکہ اگر بارگا ہ نبوی میں کوئی بات سمجھ نہ آتی تو حضور ﷺ کو راعنا کہتے تھے، اس پر رب کریم نے یہ آیت نازل فرمائی کہ راعنا کے بجائے لفظ ”انظرنا “استعمال کیا جائے۔

3۔حضورکو اچھے ناموں سے پکاریں: رب کریم پارہ18 سورہ نور کی آیت نمبر 63 میں ارشاد فر ماتا ہے: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- ترجمہ: رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔

اس کی تفسیرمیں حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر نورالعرفان میں فرماتے ہیں کہ حضور کو ایسے القاب و آوازسے نہ پکا رو جیسے ایک دوسرے کو پکارتے ہو انہیں بھیا،چچاکہہ کر نہ پکارو بلکہ انہیں یا رسول اللہ وغیرہ کہہ کر پکارا جائے۔ آپ کے نام مبارک سے بھی نہ پکارا جائے۔

4۔مواجہ شریف کو بھی پیٹھ کر کے رخصت نہ ہوا جائے: حضور ﷺ کی بارگاہ کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ مواجہ پر حاضر ہو کر عرض کیا جائے اور وہیں پر رخصت کی اجازت طلب کرے اور وقت رخصت پیٹھ پھیر کر چلنے کے بجائے الٹے قدم چلتے چلتے رخصت ہوا جائے۔

5۔مواجہ و مسجد نبوی میں چلا کر بات نہ کی جائے:اس بات کا اہتمام ہمیں بالخصوص مسجد نبوی اور مواجہ کے سامنے کرنا چاہیے کہ وہاں چلا چلا کر آپس میں کلام نہ کیا جائے مگر افسوس!فی زمانہ اس کا کوئی لحاظ و اہتمام نہیں رکھا جاتا۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔

آخر میں رب کریم سے دعا ہے کہ رب کریم ہمیں آداب رسالت کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


دعوتِ اسلامی  کے شعبہ ایچ آر ڈیپارٹمنٹ کے زیرِ اہتمام 10 دسمبر 2022ء بروز ہفتہ رضوی بلڈنگ میں شعبہ مدرسۃُ المدینہ رہائشی کے ذمہ داران کا ماہانہ مدنی مشورہ ہوا جس میں رکنِ مجلس ایچ آر ڈیپارٹمنٹ ابو انس، قاری صابر عطاری نے شعبہ مدرسۃُ المدینہ رہائشی کے نگرانِ مجلس فلک شیر عطاری کے ساتھ اجارے کے معاملات پر تبادلہ ٔ خیال کیا۔ ( رپورٹ : سید محمد رضوان عطاری مدنی ، کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری)


دنیا کے شہنشاہوں کا اصول یہ ہےکہ جب ان میں سے کوئی شہنشاہ آتا ہے تو وہ اپنی تعظیم وادب اور دربار میں حاضری کے اصول و آداب خود بناتا ہے۔ لیکن ہمارے پیارے آقا ﷺ کے دربار کا عالم ہی نرالا ہے۔ اس کی تعظیم اور بارگاہ میں حاضری کے ادب واحترام کے اصول و قوانین اس نے خود نہیں بنائے۔بلکہ ساری کائنات کو پیدا فرمانے والے رب کریم نے نازل فرمائےہیں اور بہت سے قوانین ایسے ہیں جو کسی خاص وقت تک کیلئے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مقرر فرمائے ہیں، ظا ہری حیات میں بھی اور ظاہری وصال کے بعد بھی۔قرآنِ مجید میں آپ کی تعظیم اور ادب کے با قاعدہ اصول اور احکام بیان فرمائے ہیں۔جن میں اللہ پاک نےمتعدد احکام دیئے ہیں۔

1)حضور اکرم ﷺ جب بھی بلائیں فوراً ان کی بارگاہ میں حاضر ہو جاؤ اورپس و پیش سے کام نہ لو۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ(الانفال:24) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ و رسول کے بلانےپر حاضر ہو جب رسول تمہیں بلائیں۔

2-نبی کریم ﷺ کو پکارنے اور مخاطب کرنے کا انداز عام لوگوں جیسا نہیں ہونا چا ہیےاس طرح مخاطب کرنا چاہیے جس میں ادب و احترام ملحوظ ہو۔ چنانچہ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔

علمائےکرام تو اس بات سے بھی منع فرماتے ہیں کہ آقا ﷺ کو” یا محمد“ بھی نہ کہیں بلکہ خوبصورت القابات کے ساتھ جیسے ” یا رسول الله، یا حبیب الله“وغیرہ کہہ کر پکاریں۔

3-پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ میں حاضری کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ نبی ﷺ سے بات کرتے وقت ان کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کی جائے، چاہے نبی پاک ﷺ تنہا ہوں یا مجلس میں تشریف فرما ہوں۔یہی صورت حال اس وقت روضہ رسول کی زیارت و حاضری کے وقت بھی ہونی چاہیے۔چنا نچہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

4)جس کلمے میں بے ادبی کا شائبہ ہو یا ایسے الفاظ جو بولنے میں ایک جیسے اور مطالب میں الگ ہوں ایسے الفاظ سے گریز کیا جائے جیسے مسلمان عرض کرتے تھے:”راعنا یعنی ہماری رعایت فرمائے“ یہود زبان دبا کر اسی لفظ کو ”راعینا یعنی ہمارے چروا ہے“ کہتے جو یقیناً ہمارے نبی کریم ﷺکی شان کے خلاف تھا، اس لیے اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (البقرۃ:104)ترجمہ: اے ایمان والو ! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

5) بعض لوگوں نے عیدِ اضحیٰ کے دن حضور سے پہلے قربانی کر لی تو ان کو حکم دیا گیا کہ دوبارہ قربانی کریں۔اس بارے میں قرآنِ کریم میں فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔

ان آیات میں دیئے گئے احکام سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں اس کے حبیب کا ادب و تعظیم انتہائی مطلوب ہے اور ادب نہ کرنا اللہ کے نزدیک سخت ناپسند ہے۔اللہ پاک اپنے پیارے حبیب کے صدقے ہمارے دلوں اور اعمال وکردار میں نبی کریم ﷺ کے ادب اور محبت کو راسخ کر دے۔ آمین


گزشتہ روز شعبہ ڈونیشن بکس دعوتِ اسلامی کے تحت پنجاب پاکستان کے شہر خان پور میں قائم دعوتِ اسلامی کے مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس میں شعبے کی ڈویژن مینجمنٹ نے شرکت کی۔

میٹنگ کا آغاز تلاوتِ قراٰنِ پاک و نعتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا گیا جبکہ صوبائی ذمہ دار محمد زاہد بغدادی عطاری نے ذمہ داران سے 12 دینی کاموں کے حوالے سے گفتگو کی بالخصوص ایک ماہ کے مدنی قافلے پر تبادلۂ خیال کیا۔

صوبائی ذمہ دار نے شعبے کے نظام میں کیسے ترقی لائی جا سکتی ہے اس پر کلام کرتے ہوئے کارکردگیوں کا مختلف انداز سے جائزہ لیا نیز مختلف موضوعات پر مشاورت کی اور ذمہ داران کو آئندہ کے لئے نئے اہداف دیئے۔

اس کے علاوہ  مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی محمد اسلم عطاری نے ذمہ داران کی تربیت کرتے ہوئے انہیں مدنی پھولوں سے نوازا نیز  صوبائی ذمہ دار نے ذمہ دار اسلامی بھائیوں  کو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ترغیب دلاتے ہوئے مسواک کے تحائف پیش کئے۔(رپورٹ: محمد شہریار عطاری سوشل میڈیا ڈونیشن بکس پنجاب ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

 دعوتِ اسلامی کے تحت 11 دسمبر 2022ء کو مدنی مرکز فیضانِ مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور میں سنتوں بھرے اجتماع کا انعقاد ہوا جس میں ایک ماہ کے مدنی قافلوں میں سفر کرنے والے عاشقانِ رسول نے شرکت کی۔

رکنِ شوریٰ حاجی یعفور رضا عطاری نے’’ راہِ خدا میں سفر‘‘ کے موضوع پر سنتوں بھرا بیان فرمایا اور شرکائے اجتماع کو مدنی قافلے میں امیرِ قافلہ کی اطاعت کرنے اور سیکھنے سکھانے کے حلقوں میں بھر پور انداز میں شرکت کرنے کا ذہن دیا۔( کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری)


دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام 9 دسمبر 2022ء بروز جمعۃ ُ المبارک کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں 12 دینی کام کورس کروایا گیا جس میں ڈسٹرکٹ کیماڑی کے تمام ذمہ داران نے شرکت کی۔

رکنِ شوریٰ حاجی محمد امین عطاری نے12 دینی کام کرنے کے حوالے سے اسلامی بھائیوں کی تربیت کی اور انہیں کورس مکمل کرنے کے بعد 12 دینی کاموں میں عملی طور پر شرکت کرنے اور نیکی کی دعوت دینے کی ترغیب دلائی۔ کورس کے بعد آن لائن ٹیسٹ لیا گیا اور ہاتھوں و ہاتھ رزلٹ بھی بتایا گیا جس پر نمایا ں پوزیشن لینے والے اسلامی بھائیوں کو تحائف بھی دیئے گئے ۔( کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری)


عاشقانِ رسول  کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت 9 دسمبر2022ء بروز جمعہ کراچی کے علاقے گارڈن میں جائے نماز کے افتتاح پر سنتوں بھرے اجتماع کا سلسلہ ہوا جس میں مقامی عاشقانِ رسول نے شرکت کی۔

افتتاحی اجتماع میں رکنِ شوریٰ حاجی محمد امین عطاری نے سنتوں بھرا بیان فرمایا جس میں اہلِ علاقہ کو دینی ماحول سے وابستہ ہونے، ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں آنے اور مدنی قافلوں میں سفر کرنے کی ترغیب دلائی جس پر شرکائے اجتماع نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔(کانٹینٹ : رمضان رضا عطاری)


10 دسمبر 2022ء بروز ہفتہ شعبہ مزاراتِ اولیاء دعوتِ اسلامی کے زیرِا ہتمام ساہیوال ڈویژن  میں مدنی مشورہ ہوا جس میں شعبے کے تحصیل و ڈسٹرکٹ ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

صوبائی ذمہ دار محمد انعام عطاری نے ذمہ داران سے گفتگو کرتے ہوئے شعبے کے دینی کاموں کا فالو اپ لیانیز مزارات پر دعوتِ اسلامی کے تحت ہونے والے دینی کاموں کے متعلق اہم امور پر تبادلۂ خیال کیا۔بعدازاں ذمہ داران نے شعبے کی ترقی کے لئے اچھی اچھی نیتیں کیں۔(رپورٹ:دانیال عطاری پاکستان آفس ذمہ دار، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


دعوتِ اسلامی  کے شعبہ رابطہ برائے تاجران کے ذمہ داران کی دعوت پر 9 دسمبر 2022ء بروز جمعۃ عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں تجارت سے وابستہ شخصیات نے دورہ کیا جہاں ذمہ داران نے شخصیات کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی محمد امین عطاری سے ملاقات کروائی ۔

اس دوران رکنِ شوریٰ نے شخصیات کو عالمی سطح پر ہونے والی دعوتِ اسلامی کی دینی و فلاحی خدمات کے بارے میں بریفنگ دی اور انہیں ہر ہفتے مدنی مذاکرے میں آنے کی دعوت دی جس پر انہوں نے خدماتِ دعوتِ اسلامی کو سراہتے ہوئے اظہار مسرت کیا۔( کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری)


10  دسمبر 2022ء بروز ہفتہ جامع مسجد قادریہ رضویہ مکہ کالونی مال روڈ گلبرگ ٹاؤن لاہور میں دعوتِ اسلامی کے تحت ہونے والے 7 دن پر مشتمل جزوقتی فیضانِ نماز کورس کے اختتام پر تقسیمِ اسناد اجتماع منعقدہوا جس میں کورس کے شرکا اور تاجران سمیت علاقے کےاسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

تلاوتِ قراٰن اور نعت شریف کے بعد مبلغِ دعوتِ اسلامی محمد ابوبکر عطاری مدنی نے سنتوں بھرا بیان کرتے ہوئے حاضرین کی دینی و اخلاقی اعتبار سے تربیت کی۔

دورانِ بیان مبلغِ دعوتِ اسلامی نے شرکا کونماز کے احکامات اور نماز کے واجبات پر عمل کرنے نیز نماز کا عملی طریقہ بتایا۔ اجتماع کے اختتام پر کورس کرنے والے اسلامی بھائیوں میں اسناد تقسیم کی گئیں۔(رپورٹ:شعبہ مدنی کورسز، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)