زبان اللہ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے جس کے ذریعے اللہ کی رضا حاصل کی جا سکتی ہے۔ مگر اس کی آفتیں کم نہیں ہیں۔ اس زبان کی آفتوں میں سے ایک بڑی آفت بہتان کی آفت ہے جو انسان کو اللہ کے دردناک عذاب کا مستحق بناتا ہے۔ ارشادِ باری ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ۪-وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ(۲۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ جو عیب لگاتے ہیں انجان پارسا ایمان والیوں کو ان پر لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اُن کے لیے بڑا عذاب ہے۔(پ18،النور:23)

اس کے ساتھ ساتھ انسان معاشرتی طور پر بھی برا بن جاتا ہے ۔ اس طرح کہ وہ سب کے نزدیک برا بن جاتا ہے ، سب اس سے دور رہتے ہیں اور اس کی بات کا کوئی اعتبار بھی نہیں کرتا۔ اس کی مذمت پر 5فرامینِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم درج ذیل ہیں:

(1) بہتان کیا ہے ؟ صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمھیں معلوم ہے غیبت کیا ہے؟ لوگوں نے عرض کی، اللہ و رسول (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) خوب جانتے ہیں ۔ ارشاد فرمایا: غیبت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کا اس چیز کے ساتھ ذکر کرے جو اسے بری لگے۔ کسی نے عرض کی، اگر میرے بھائی میں وہ موجود ہو جو میں کہتا ہوں (جب تو غیبت نہیں ہوگی)۔ فرمایا: جو کچھ تم کہتے ہو، اگر اس میں موجود ہے جب ہی تو غیبت ہے اور جب تم ایسی بات کہو جو اس میں ہو نہیں، یہ بہتان ہے۔(بہارِ شریعت،3/529)

(2) بہتان کا عذاب: نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک دوزخیوں کے کیچڑ ،پیپ اور خون میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے۔ (غیبت کی تباہ کاریاں، ص295) (3) غلام پر تہمت کا وبال : حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس نے اپنے مَملُوک (غلام یا لونڈی) پر زنا کی تُہمت لگائی اگر وہ حقیقت میں ایسا نہ ہو جیسا اس نے کہا تو بروزِ قیامت اسے حدِّقَذف لگائی جائے گی۔(76 کبیرہ گناہ،ص83)

(4) گناہ کے الزام کا عذاب: حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زَبانوں سے لٹکایا گیا تھا ۔میں نے جبرئیل علیہ السّلام سے اُن کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر بِلاوجہ اِلزامِ گُناہ لگانے والے ہیں۔ (غیبت کی تباہ کاریاں،ص 295) (5) ہلاک کرنے والا گناہ : سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ یہ کہہ کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان میں بھولی بھالی پاکدامن مسلمان عورتوں پر زنا کی تہمت لگانے کا بھی ذکر فرمایا۔(76 کبیرہ گناہ،ص82)

بہتان کی آفت جس میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ملوث ہے اور اس کی بنیادی وجہ اس کا علم نہ ہونا اور نہ ہی اس سے بچنے کا احساس ہے۔ اللہ ہمیں بہتان کی آفت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! بہتان ایک قبیح فعل ہے۔ کسی مسلمان پر بہتان باندھنا سخت قابلِ نفر ت عمل ہے۔ قراٰنِ مجید اور احادیث مبارکہ میں بہتان کے متعلق سخت وعیدیں آئی ہیں۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(۱۰۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتےاور وہی جھوٹے ہیں۔(پ14،النحل:105) حدیث مبارکہ ہے جھوٹے الزامات لگانے والوں کا انجام: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زَبانوں سے لٹکایا گیا تھا۔ میں نے جبرئیل علیہ السّلام سے اُن کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر بِلاوجہ اِلزامِ گُناہ لگانے والے ہیں۔ (شرح الصدور، ص184)

بہتان کی تعریف: کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اُس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔ (الحدیقۃ الندیۃ، 2/200) تعریف کی وضاحت اور مثال: اس کو آسان لفظوں میں یوں سمجھئے کہ بُرائی نہ ہونے کے باوُجُود اگر پیٹھ پیچھے یا رُوبَرو وہ برائی اُس کی طرف منسوب کردی تو یہ بُہتان ہوا مثلاً پیچھے یا منہ کے سامنے ریا کار کہہ دیا اور وہ ریا کار نہ ہو یا اگر ہو بھی تو آپ کے پاس کو ئی ثُبُوت نہ ہو کیوں کہ ریا کاری کا تعلُّق باطِنی امراض سے ہے لہٰذا اس طرح کسی کو ریاکار کہنا بہتان ہوا۔ (فرض عُلوم سیکھئے، ص698)

بہتان کا حکم : بہتان تراشی حرام ، گناہِ کبیرہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ (فرض علوم سیکھتے ، صفحہ 698) اعلی حضرت مولانا شاہ امام احمدرضاخان رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: کسی مسلمان کو تہمت لگانی (بہتان باندھنا) حرامِ قطعی ہے۔ (فتاوی رضویہ ، 24/ 386)

بہتان کی مذمت پر 5 احادیث:(1) بہتان باندھنے والے کو جہنم کے ایک مقام رَدْغَۃُ الْخَبَال میں رکھا جائے گا: اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا: جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وَقْت تک رَدْغَۃُ الْخَبَال میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے ۔(ابوداؤد،3/428 ، حدیث:3597) رَدْغَۃُ الْخَبَال جہنّم میں ایک جگہ ہے جہاں جہنمیوں کا خون اور پِیپ جمع ہو گا ۔(بہارِ شریعت ، 2/ 364)

(2) جھوٹے گواہ لگانے والے پر جہنم واجب : ہمارے پیارے آقا مکی مدنی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد کے مایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے نہ پائے گے کہ اللہ پاک اس کے لیے جہنم واجب کردے گا۔ ( ابن ماجہ، 3/123، حدیث: 2373 )(3) بہتان لگانے والے کو جہنم کے پُل پر روک لیا جائے گا: رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے (بہتان باندھے) تو اللہ پاک جہنم کے پُل پر اسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پائے۔ (ابوداؤد، جلد 4، حديث: 4883)

(4) بہتان باندھنے والا جہنم میں قید: فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جس نے کسی کی کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تاکہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ رب العزت اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ وہ طویل عرصے تک عذاب میں مبتلا رہے گا) (معجم الأوسط، 6/ 327، حدیث: 8936)

(5) کسی دوسرے پر جان بوجھ کر بہتان نہ باندھو: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے اور وہ لیلۃ العقبہ کے نقیب بنائے گئے تھے۔ یہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایسے وقت ارشاد فرمایا جب کہ آپ کے گر دصحابہ کی ایک جماعت تھی کہ ان باتوں پر مجھ سے بیعت کروں کہ اللہ پاک کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کروگے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولادوں کو قتل نہیں کرو گے، خود جان بوجھ کر کے کسی دوسرے پر بہتان نہ باندھو گے، اچھی بات میں نافرمانی نہ کروگے، جس نے اس کو پورا کیا اس کا ثواب اللہ کے ذمۂ کرم پر ہے اور جو ان گناہوں میں کسی کا ارتکاب کر بیٹھے اور اس کو دنیا میں سزا دی جائے تو یہ اس کیلئے کفارہ اور پاک کرنے والی ہے اور جو ان گناہوں میں سے کچھ کرے اور الله پاک اس گناہ کو چھپائے رکھے تو یہ الله کے سپرد ہے چاہے اس کو معاف فرمادے چاہے تو آخرت میں سزا دے، تو ہم نے ان سب باتوں پر حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بیعت کی۔ (صحیح بخاری شریف ، 1/7)

بہتان سے بچنے کا درس: میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بہتان و تہمت کے کثیر دنیوی و اخروی نقصانات ہیں۔ افسوس ! فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا، بہتان و تہمت لگانا ایک معمولی کام سمجھا جاتا ہے اور بہتان و تہمت لگانا، الزام تراشی کرنا تو اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں جس کا جو دل کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام لگا دیتا ہے اور جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے۔ یاد رہے کہ بہتان و تہمت لگانا، جھوٹی گواہی دینا اور کسی پر جان بوجھ کر غلط الزام لگانا انتہائی مذموم اور قبیح فعل ہے۔

جان لو ! برے کام ہر حالت میں اور ہمیشہ ہی برے ہیں۔ اس سے پہلے کہ دنیا سے رخصت ہونا پڑے بہتان و تہمت سے توبہ کر لیجئے۔ بہارِ شریعت حصہ 16 صفحہ 538 پر ہے: بہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔ (بہارِ شریعت ،3/ 538)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! قراٰن و احادیث سے واضح ہوا کسی پر بہتان و تہمت لگانا حرام فعل ہے اور اسلامی تعلیمات کا لبِّ لُباب ہے کہ دوسروں کو بلا وجہ تکلیف نہ دو۔ اللہ پاک ہمیں دوسروں پر بہتان و تہمت لگانے ، چھوٹی گواہی اور الزام تراشی سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔


اللہ پاک نے انسان پیدا کیا کہ وہ نیکی کرے اور گناہوں سے بچے۔ مگر انسان آج گناہوں کے سوا کوئی کام نہیں کرتا۔ انہی گناہوں میں سے جھوٹ، غیبت، بخل، چغلی، حسد، تکبر ، وعدہ خلافی، بہتان تراشی وغیرہ

الله پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْرًاۙ-وَّ قَالُوْا هٰذَاۤ اِفْكٌ مُّبِیْنٌ(۱۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے یہ بہتان سنا تو مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اپنے لوگوں پر نیک گمان کرتے اور کہتے: یہ کھلا بہتان ہے۔(پ18،النور:12)

فرامینِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ فرمائیے :۔

(1) حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے ا س پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، 4/ 354، حدیث: 4883)

(2) حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936)

( 3) نبیِّ رَحمت،شفیعِ امّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وَقْت تک رَدْغَۃُ الْخَبَال میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے ۔(ابوداؤد،3/428 ، حدیث:3597) رَدْغَۃُ الْخَبَال جہنّم میں ایک جگہ ہے جہاں جہنمیوں کا خون اور پِیپ جمع ہو گا ۔(بہارِ شریعت ، 2/ 364)

(4) روایت ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ تم میں حضرت عیسیٰ کی مثال ہے جن سے یہود نے بغض رکھا حتی کہ ان کی ماں کو تہمت لگائی اور ان سے عیسائیوں نے محبت کی حتی کہ انہیں اس درجہ میں پہنچا دیا جو ان کا نہ تھا پھر فرمایا میرے بارے میں دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے محبت میں افراط کرنے والے مجھے ان صفات سے بڑھائیں گے جو مجھ میں نہیں ہیں اور بغض کرنے والے جن کا بغض اس پر ابھارے گا مجھے بہتان لگائیں گے ۔ (احمد)

اللہ پاک سے دعا ہیں کہ وہ ہمیں بہتان سے بچنے کی توفیق عطا فر مائے ۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


محترم اسلامی بھائیو! بہتان ایک کبیرہ گناہ ہے۔ جس کی مذمت اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں بیان کی۔ ترجَمۂ کنزُالایمان: وہ لوگ جو ایماندار مردوں اور عورتوں کو بغیر کسی جرم کے تکلیف دیتے ہیں بے شک انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے ذمے لے لیا۔(پ27،الاحزاب:58) بہتان کی مذمت بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں ۔ (مسلمان کو بغیر کسی شرعی وجہ کے تکلیف دینا قطعی حرام ہے) لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم بہتان جیسے گناہ سے بچیں۔

سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ بہتان کسے کہتے ہیں؟ بہتان یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص پر کوئی ایسی بات کہے جو اس میں نہ ہو تو یہ بہتان کہلاتا ہے۔ مثال: ایک شخص دوسرے شخص کے بارے میں یہ کہے کہ یہ جھوٹ بولتا ہے۔ حالانکہ وہ جھوٹ نہ بولتا ہو تو اس پہلے شخص نے دوسرے پر بہتان باندھا ہے۔

احادیث طیبہ میں مذمت

(1) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صَحابۂ کرام علیہم الرضوان سے استفسار فرمایا: کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: ہم میں مفلس(یعنی غریب مسکین) وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہوں اور نہ ہی کوئی مال۔ ارشاد فرمایا: میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے فلاں کو گالی دی ہو گی، فلاں پر تہمت لگائی ہو گی، فلاں کا مال کھایا ہو گا، فلاں کا خون بہایا ہو گا اور فلاں کو مارا ہو گا۔ پس اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو ان کا حصہ دے دیا جائے گا۔ اگر اس کے ذمّے آنے والے حقوق پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے، پھر اسے جہنَّم میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم، ص1069، حدیث:6578)

(2) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اللہ کی حدود میں سے کسی حد کو روکنے کی سفارش کی تو گویا اس نے اللہ کی مخالفت کی اور جو جانتے ہوئے کسی باطل امر میں جھگڑے تو وہ اللہ کی ناراضگی میں رہے گا یہاں تک کے اس جھگڑے سے دستبردار ہو جائے اور جس نے کسی مؤمن کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جو اس میں نہ ہو یعنی (بہتان لگایا) اللہ اس کا ٹھکانہ جہنمیوں میں بنائے گا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے توبہ کر لے (ابوداؤد شریف )

(3) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے رویت ہے کہ آپ فرماتے ہیں: بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا (بہتان باندھنا) آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے۔ (کنزالعمال) (4) حضرت معاذ بن انس رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے ا س پر الزام عائد کرے(یعنی بہتان لگائے) تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع نہ کرلے۔( ابو داؤد)

(5) حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی جو اس میں نہ تھی (یعنی بہتان باندھا) تو اللہ پاک اسے دوزخ کی پیپ میں ڈالے گا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی اس حرکت سے باز آجائے۔ (مسند احمد بن حنبل)

الغرض مسلمانوں پر بہتان باندھنے یا اس پر بے بنیاد الزامات لگانے پر بہت سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں اور اسے گناہِ کبیرہ کہا گیا ہے۔ تو ہمیں اس عمل سے بچتے رہنا چاہیے اور اگر زندگی میں کسی پر بہتان باندھا ہے۔تو اس سے معافی مانگنی چاہیے تاکہ آخرت میں ہم عذاب سے محفوظ رہ سکیں۔ اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فر مائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں! بہتان ایک برا فعل ہے یہ گناہِ کبیرہ ہے اور اس کو ہم عام سی چیز سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اکثر لوگ اپنا کیا ہوا کام لوگوں کے سر پر تھوپ دیتے ہیں۔ اس سے معاشرے میں فساد اور بدامنی پیدا ہوتی ہے۔ بہتان کی تعریف : کسی بے قصور شخص پر اپنی طرف سے گھڑ کر کسی عیب کا الزام لگانا بہتان کہلاتا ہے۔ جو سخت حرام اور گناہِ کبیرہ ہے اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو حکم فرمایا کہ مسلمان عورتوں سے چند باتوں کی بیعت لیں۔ انہی باتوں میں یہ بھی ہے کہ وہ بہتان نہ لگائیں۔ زنا کے علاوہ کسی دوسرے عیب مثلاً کسی پر چوری، ڈاکہ اور قتل وغیرہ کا اپنی طرف سے گھڑ کر الزام لگا دینا یہ بھی بہتان ہے۔ جو گناہِ کبیرہ ہے۔ لہذا ہر طرح کے بہتانوں سے بچنا ضروری ہے۔ چنانچہ الله پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو کوئی خطا یا گناہ کمائے پھر اسے کسی بے گناہ پر تھوپ دے اس نے ضرور بہتان اور کھلا گناہ اٹھایا۔(پ5، النسآء:112)

احادیث میں بھی بہتان کی مذمت آئی ہے۔ چنانچہ 5 احادیث ملاحظہ فرمائیں۔

حدیث نمبر (1) حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936)

حدیث نمبر (2) امی امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ نے فرمایا کہ کسی بے قصور پر بہتان لگانا یہ آسمانوں سے بھی زیادہ بھاری گناہ ہے۔(کنز العمال،کتاب الاخلاق،باب البہتان،3/322،حدیث:8806)حدیث نمبر (3) حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مسلمان کون ہے؟صحابہ ٔ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اللہ پاک اور اس کا رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے (دوسرے) مسلمان محفوظ رہیں۔ ارشاد فرمایا:تم جانتے ہو کہ مؤمن کون ہے؟ صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اللہ پاک اور اس کا رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم زیادہ جانتے ہیں ۔ارشاد فرمایا: مؤمن وہ ہے جس سے ایمان والے اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ سمجھیں اور مہاجر وہ ہے جو گناہ کو چھوڑ دے اور اس سے بچے۔( مسند امام احمد ، مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما ، 2 / 654، حدیث: 6942)

حدیث نمبر(4) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کسی پاک دامن عورت پر زنا کا بہتان لگانا ایک سو برس کے اعمالِ صالح کو غارت اور برباد کر دیتا ہے۔(کنزا لعمال، 3/ 322)حدیث نمبر(5) حضرت عمرو بن العاص رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو ’’اے زانیہ‘‘ کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی، کیونکہ دنیا میں ان کے لئے کوئی حد نہیں۔ (مستدرک، کتاب الحدود، ذکر حد القذف، 5 / 528، حدیث: 8171)


( 1) حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936)

( 2 ) حضرت عمرو بن العاص رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو ’’اے زانیہ‘‘ کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی، کیونکہ دنیا میں ان کے لئے کوئی حد نہیں۔ (مستدرک، کتاب الحدود، ذکر حد القذف، 5 / 528، حدیث: 8171)

(3)جس نے کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کیا تو اللہ پاک جہنم کے پل پر اُسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پا لے۔(ابو داؤد،4/354، حدیث: 4883)(4)عن علی قال : البھتان علی البراء اثقل من السموات ترجمہ : حضرت علی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے فرمایا کسی بے قصور پر بہتان لگانا یہ آسمانوں سے بھی زیادہ بھاری گناہ ہے۔ (کنزالعمال، 3/322، حدیث:8806 )(5) أتدرون ما الغيبة؟ ذكرك أخاك بما يكره، إن كان فيه ما تقول فقد اغتبته، وإن لم يكن فيه فقد بهته. عن أبي هريرة رضی اللہ عنہ ترجمہ: کیا تم لوگ جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے ؟ تمہارا بھائی کا ایسی بات سے ذکر کرنا جو اسے ناپسند ہو ، اگر وہ برائی اس میں ہوا اور پھر تم اس کا تذکرہ کرو تم نے اس کی غیبت کی ، اور اگر وہ برائی اس میں نہ ہو تو تم نے اس پر بہتان لگایا ۔ (کنزالعمال ، حدیث: 2906 )

اللہ پاک ہمیں جھوٹی گواہی اور الزام تراشی سے محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنے اعضا کو اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اِطاعت اور رضا و خوشنودی والے کاموں میں استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


بہتان کی تعریف: کسی شخص پر ایسی بات گھڑنا جو اس میں نہ ہو بہتان کہلاتا ہے۔

افسوس! فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کام سمجھا جاتا ہے اور الزام تراشی کرنا تو اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں، جس کا جو دل کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام لگا دیتا اور جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے اور ثبوت مانگیں تو یہ دلیل کہ طور پر کہتا ہے میں نے کہیں سُنا تھا یا مجھے کسی نے بتایا تھا یا آپ کی بات کا مطلب ہی یہی تھا، اب کس نے بتایا؟ بتانے والا کتنا مُعْتَبَر تھا؟ اُس کو کہاں سے پتا چلا؟ اُس کے پاس کیا قابلِ قبول ثبوت ہیں؟ اُس نے بات کرنے والے کے دل کا حال کیسے جان لیا؟ کوئی معلوم نہیں۔ زیرِ آیت تفسیر اور بیان کردہ احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہر ایک کو اپنے اپنے طرز ِعمل پر غور کرنے کی شدید حاجت ہے۔ارشاد باری ہے : وَ مَنْ یَّكْسِبْ خَطِیْٓــٴَـةً اَوْ اِثْمًا ثُمَّ یَرْمِ بِهٖ بَرِیْٓــٴًـا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۱۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو کوئی خطا یا گناہ کمائے پھر اسے کسی بے گناہ پر تھوپ دے اس نے ضرور بہتان اور کھلا گناہ اٹھایا۔(پ5، النسآء:112)تفسیر صراط الجنان: اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی بے گناہ پر الزام لگایا تو اس نے بہتان اور بہت بڑے گناہ کا بوجھ اٹھایا۔ آیت میں گناہ سے مراد گناہِ کبیرہ اور خطا سے مراد گناہِ صغیرہ ۔

بے گناہ پر تہمت لگانے کی مذمت: اس آیت سے معلوم ہو ا کہ بے گناہ کو تہمت لگانا سخت جرم ہے وہ بے گناہ خواہ مسلمان ہو یا کافر کیونکہ طعمہ نے یہودی کافر کو بہتان لگایا تھا اس پر اللہ پاک نے ا س کی مذمت فرمائی ۔احادیث میں بھی بے گناہ پر تہمت لگانے کی وعیدیں بیان کی گئی ہیں ۔

بہتان کی مذمت کے متعلق قراٰن و احادیث میں کئی وعیدیں وارد ہوئی ہیں جسے انسان پڑھے تو اس کی عقل دنگ رہ جائے کہ اتنی سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ ہم ذیل میں 5 احادیث کو ذکر کرتے ہیں:

(1) نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مَنْ قَالَ فِي مُؤْمِنٍ مَا لَيْسَ فِيهِ، أَسْكَنَهُ اللَّهُ رَدْغَةَ الْخَبَالِ حَتّٰى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ یعنی جس نے کسی مؤمن کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جو اس میں نہیں تھی تو ﷲ پاک اسے جہنمیوں کے پیپ اور خون کے جمع ہونے کے مقام میں ڈالے گا یہاں تک کہ وہ اپنی بات سے باز آ جائے۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الأقضية، باب فیمن يُعين على خصومة من غير أن يعلم أمرها، حدیث: 3597)(2) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زَبانوں سے لٹکایا گیا تھا۔ میں نے جبرئیل علیہ السّلام سے اُن کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا: هؤلاء الذين يرمون المؤمنين والمؤمنات بغير ما اكتسبوا“ یعنی یہ لوگوں پر بِلاوجہ بہتان لگانے والے ہیں۔ (شرح الصدور، ص 184)

(3) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: لَنْ تَزُوْلَ قَدَمَا شَاهِدِ الزُّوْرِ حَتَّى يُوْجِبَ اللّٰه لَهُ النَّارَ یعنی جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ پاک اُس کے لئے جہنم واجب کر دے گا۔(ابنِ ماجہ، باب شھادة الزور، حدیث: 2373)(4) بہتان میں سب سے سخت ترین عورت پر زنا کی تہمت لگانا ہے چنانچہ سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اِنَّ قَذْفَ الْمُحْصَنَةِ یَھْدِمُ عَمَلَ مِائَةِ سَنَة یعنی کسی پاک دامن عورت پر زِنا کی تُہمت لگانا سو سال کی نیکیوں کو برباد کرتا ہے۔ (معجم کبیر، حدیث: 3023)

(5) نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مَنْ رَمَىٰ مُسْلِمًا بِشَيْءٍ يُرِيْدُ شَيْنُهُ بِهٖ حَبسَهُ إللّٰهُ عَلٰى جَسرِ جَهنَّمَ حَتّٰى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ یعنی جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔

الغرض مسلمان پر بہتان باندھنے یا اس پر بے بنیاد الزامات لگانے پر بڑی وعیدیں آئی ہیں، اِس لیے اِس عمل سے باز آنا چاہیے اور جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی مانگنی چاہیے۔ تاکہ آخرت میں گرفت نہ ہو۔


کسی شخص کے پوشیدہ عیب کو جس کا وہ دوسروں کے سامنے ظاہر ہونا پسند نہ کرتا ہو، اس کی برائی کرنے کے طور پر ذکر کرنا غیبت ہے اور اگر اس میں وہ بات ہی نہ ہو تو یہ غیبت نہیں بلکہ بہتان ہے اور بہتان تراشی غیبت سے زیادہ تکلیف دہ ہے کیونکہ یہ جھوٹ ہے، اس لئے کہ یہ ہر ایک پر گراں گزرتی ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ بہتان تراشی کبیرہ گناہ ہے اور حدیث پاک میں اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت معاذ بن انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے ا س پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، 4/ 354، حدیث: 4883)

حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936)

ہر شخص کو چاہئے کہ وہ بہتان تراشی سے بچے اور جس نے کسی پر بہتان لگایا ہے اسے توبہ کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔

بہتان تراشی کرنے والوں کا رَد کرنا چاہئے: فرمایا گیا کہ’’ اور کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے سنا تھا تو تم کہہ دیتے کہ ہمارے لئے جائز نہیں کہ یہ بات کہیں ‘‘اس سے معلوم ہوا کہ جس کے سامنے کسی مسلمان پر کوئی بہتان باندھا جا رہا ہو اور کسی مسلمان پر بہتان تراشی کر کے اسے ذلیل کیا جا رہا ہو تو اسے چاہئے کہ خاموش نہ رہے بلکہ بہتان لگانے والوں کا رَد کرے اور انہیں اس سے منع کرے اور جس مسلمان پر بہتان لگایا جا رہا ہے اس کی عزت کا دفاع کرے۔ افسوس! ہمارے معاشرے میں لوگوں کا حال یہ ہو چکا ہے کہ وہ کسی کے بارے میں ایک دوسرے سے ہزاروں غلط اور بے سرو پا باتیں سنتے ہیں لیکن اکثر جگہ پر خاموش رہتے ہیں اور بہتان تراشی کرنے والوں کو منع کرتے ہیں نہ ان کا رد کرتے ہیں ۔ یہ طرزِ عمل اسلامی احکام کے برخلاف ہے اور ایک مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ ایسا طرزِ عمل اپنائے۔ اللہ پاک مسلمانوں کو عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ترغیب کے لئے یہاں ایک حدیث پاک ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جہاں کسی مسلمان مرد کی بے حرمتی اور بے عزتی کی جاتی ہو ایسی جگہ جس نے اُس کی مدد نہ کی (یعنی یہ خاموش سنتا رہا اور اُن کو منع نہ کیا) تو اللہ پاک وہاں اس کی مدد نہیں کرے گا جہاں اسے پسند ہو کہ اس کی مدد کی جائے اور جو شخص ایسے موقع پر کسی مسلمان مرد کی مدد کرے گا جہاں اُس کی بے حرمتی اور بے عزتی کی جارہی ہو، تو اللہ پاک ایسے موقع پراس کی مدد فرمائے گا جہاں اسے محبوب ہے کہ مدد کی جائے۔ ( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، 4 / 355، حدیث: 4884)


ایذائے مسلم حرام ہے۔ مسلمان کو ایذا دینے کے طریقے میں سے ایک بہتان بھی ہے۔

بہتان کی تعریف: کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔ ( غیبت کی تباہ کاریاں، ص 294) مثلاً پیٹھ پیچھے یا منہ پر کسی کو چور کہ دیا حالانکہ اس نے کوئی چوری نہیں کی تو اس کو چور کہنا بہتان ہوا

اس کی مذمّت قراٰنِ مجید میں بھی بیان کی گئی ہے چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے: اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(۱۰۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتےاور وہی جھوٹے ہیں۔(پ14،النحل:105) احادیث مبارکہ میں بھی اس کی مذمّت بیان کی گئی ہے ۔چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:۔

حدیث (1)حضرت معاذ بن انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے ا س پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ،4/354، حدیث: 4883)حدیث (2) حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، 6 / 327، حدیث: 8936)

حدیث (3) حضرت عمرو بن العاص رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو ’’اے زانیہ‘‘ کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی، کیونکہ دنیا میں ان کے لئے کوئی حد نہیں۔ (مستدرک، کتاب الحدود، ذکر حد القذف، 5 / 528، حدیث: 8171)حدیث (4) روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کیا جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ سب نے عرض کیا: الله رسول ہی خوب جانیں۔ فرمایا: تمہارا اپنے بھائی کا ناپسندیدہ ذکر کرنا۔ عرض کیا گیا فرمایئے تو اگر میرے بھائی میں وہ عیب ہو جو میں کہتا ہوں۔ فرمایا :اگر اس میں وہ ہو جو کہتا ہے تو تونے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ نہ ہو جو تو کہتا ہے تو تونے اسے بہتان لگایا اور ایک روایت میں ہے کہ جب تو اپنے بھائی کا وہ عیب بیان کرے جو اس میں ہے تو تونے اس کی غیبت کی اور اگر تو وہ کہے جو اس نے نہ کیا ہو تو تونے اسے بہتان لگایا۔ ( مشکوہ المصابیح کتاب الآداب باب حفظ اللسان الفصل الاول ،حدیث: 4613)

اللہ پاک ہمیں بہتان تراشی سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


زبان کا درست استعمال بندے کو جنت میں جبکہ غلط استعمال جہنم میں پہنچا سکتا ہے۔ زبان کے غلط استعمال میں سے ایک طریقہ بہتان باندھنا بھی ہے۔

بہتان کی تعریف: کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔ ( غیبت کی تباہ کاریاں ،ص 294) مثلاً پیٹھ پیچھے یا منہ پر کسی کو چور کہہ دیا حالانکہ اس نے کوئی چوری نہیں کی تو اس کو چور کہنا بہتان ہوا۔ اس کی مذمّت قراٰنِ مجید میں بھی بیان کی گئی ہے چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے: اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(۱۰۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتےاور وہی جھوٹے ہیں۔(پ14،النحل:105)

احادیث مبارکہ میں بھی اس کی مذمّت بیان کی گئی ہے پانچ احادیث ملاحظہ فرمائیں:۔

حدیث (1)روایت ہے عبادہ ابن صامت سے فرماتے ہیں کہ فرمایا نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حالانکہ آپ کے آس پاس صحابہ کی جماعت تھی کہ مجھ سے اس پر بیعت کرو کہ الله کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، نہ چوری کرنا اور نہ زنا، نہ اپنی اولاد کو قتل کرنا، نہ اپنے سامنے گھڑا ہوا بہتان لگانا اور کسی اچھی بات میں نافرمانی نہ کرنا تم میں سے جو وفائے عہد کرے گا اس کا ثواب الله کے ذمہ کرم پر ہے اور جوان میں سے کچھ کر بیٹھے اور دنیا میں سزا پالے تو وہ سزا کفارہ ہے اور جو ان میں سے کچھ کرلے، پھر رب اُس کی پردہ پوشی کرے تو وہ الله کے سپرد ہے۔ اگر چاہے معافی دے دے چاہے سزا دے لہذا ہم نے اس پر آپ سے بیعت کی۔( مشکوٰۃ، کتاب الایمان، حدیث 18)

حدیث (2)حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا)۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام،6/327، حدیث: 8936)حدیث (3) حضرت عمرو بن العاص رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو ’’اے زانیہ‘‘ کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی، کیونکہ دنیا میں ان کے لئے کوئی حد نہیں۔ (مستدرک، کتاب الحدود، ذکر حد القذف، 5 / 528، حدیث: 8171)

حدیث (4) روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کیا جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ سب نے عرض کیا: الله رسول ہی خوب جانیں۔ فرمایا: تمہارا اپنے بھائی کا ناپسندیدہ ذکر کرنا۔ عرض کیا گیا فرمایئے تو اگر میرے بھائی میں وہ عیب ہو جو میں کہتا ہوں۔ فرمایا :اگر اس میں وہ ہو جو کہتا ہے تو تونے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ نہ ہو جو تو کہتا ہے تو تونے اسے بہتان لگایا اور ایک روایت میں ہے کہ جب تو اپنے بھائی کا وہ عیب بیان کرے جو اس میں ہے تو تونے اس کی غیبت کی اور اگر تو وہ کہے جو اس نے نہ کیا ہو تو تونے اسے بہتان لگایا۔ ( مشکوہ المصابیح کتاب الآداب باب حفظ اللسان الفصل الاول ،حدیث: 4613)

حدیث (5)روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سات ہلاکت کی چیزوں سے بچو۔ لوگوں نے پوچھا حضور وہ کیا ہیں ؟ فرمایا: اللہ کے ساتھ جادو ،اور ناحق اس جان کو ہلاک کرنا جو اللہ نے حرام کی، اور سود خوری، یتیم کا مال کھانا ،جہاد کے دن پیٹھ دکھا دینا ،پاکدامن مؤمنہ بے خبر بیبیوں کو بہتان لگانا۔ (مشکوٰۃ، کتاب الایمان، حدیث: 52)

اللہ پاک ہمیں بہتان تراشی سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔(غیبت کی تباہ کاریاں،ص294) آج کل معاشرے میں ہر طرف جھوٹ کا سیلاب بہہ رہا ہے۔ ہر کوئی کسی نہ کسی کی کامیابی سے حسد، بغض و کینہ رکھے ہوئے ہیں اور اسے بدنام، ناکام و برباد کرنے پر اڑا ہوا ہے جس کی وجہ بندہ کسی ایسے موقع کی تاک میں رہتا ہے کہ کسی پر بہتان لگا کر اسے نامراد کر دے۔ جبکہ اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جھوٹا الزام لگانے والوں کی شدید مذمّت فرمائی ہے۔ بہتان کی مذمت کے متعلق فرمانِ باری ہے: وَ مَنْ یَّكْسِبْ خَطِیْٓــٴَـةً اَوْ اِثْمًا ثُمَّ یَرْمِ بِهٖ بَرِیْٓــٴًـا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۱۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو کوئی خطا یا گناہ کمائے پھر اسے کسی بے گناہ پر تھوپ دے اس نے ضرور بہتان اور کھلا گناہ اٹھایا۔(پ5، النسآء:112) احادیثِ مبارکہ میں بہتان کی مذمت پر مشتمل 5 فرامینِ مصطفٰےصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مندرجہ ذیل ہیں :

(1) تہمت لگانا مثلِ قتل : فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس نے کسی پر تہمت لگائی، گویا اس کا قتل کیا۔ (صحیح البخاری، حدیث:6047)(2) مفلس و کنگال ہے : رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: وہ شخص مفلس ہے جو قیامت کے دن نماز، روزوں اور زکوٰة کے ساتھ آئے اور اس حال میں ہو کہ کسی کو گالی دی ہو، اسے تہمت لگائی ہو، اس کا مال کھایا ہو، اس کا خون بہایا ہو، اس کو مارا ہو تو اس کی نیکیوں میں سے کچھ کسی مظلوم اور کچھ کسی مظلوم کو دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں حقوق ادا کرنے سے پہلے ختم ہو گئیں تو مظلوم کی خطائیں ظالم پر ڈال دی جائیں گی اور ظالم کو آگ میں پھینک دیا جائے گا۔( صحیح مسلم، حدیث:6579)

(3) پل صراط پر روک دیا جائے گا: فرمانِ مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس نے کسی مسلمان کو تہمت لگائی اور اس تہمت سے اس کا ارادہ اسے ذلیل کرنا ہو تو اللہ پاک جہنم کے پل پر اُسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہے کے مطابق عذاب پا لے۔(ابو داؤد، حدیث: 4883)(4) کوئی کفارہ نہیں : حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:پانچ گناہ ایسے ہیں کہ ان کا کوئی کفارہ نہیں ہے، اللہ پاک کے ساتھ شرک کرنا، ناحق جان کو قتل کرنا، مؤمن پر تہمت لگانا، لڑائی والے دن بھاگ جانا اور جھوٹی قسم، جس کے ذریعے وہ ناحق مال حاصل کرتا ہے۔ (مسند احمد، حدیث: 5010)

(5) ردغة الخبال ٹھکانا : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کوئی کسی مؤمن کے بارے میں ایسی (بری) بات کہے جو اس میں نہ ہو تو اللہ پاک اسے ردغة الخبال میں رکھے گا۔(مشکاة المصابیح، حدیث:3611)مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ردغۃ الخبال کا معنی کچا پیپ ہے۔ جسے اردو میں کچ لہو کہتے ہیں۔ اس سے مراد دوزخ کا وہ مقام ہے جہاں دوزخیوں کا پیپ و خون جمع ہوتا ہے۔(مراة المناجیح، ج:5، تحت الحدیث:3611)

ان مذمتوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہر اس شخص کو نصیحت حاصل کرنی چاہیے جو کسی نہ کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش میں تہمتیں لگاتے ہیں۔ بعض بہتان ایسے بھی ہوتے ہیں جو بغیر تحقیق و تصدیق کے لگادیے جاتے ہیں اور حقیقت معلوم ہونے کے بعد شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مثلاً گھر میں چوری ہو جائے یا کسی بھی قسم کا کوئی نقصان ہو جائے تو بلا ثبوت کسی کو بھی صرف شک کی بنیاد پر مجرم ٹھہرا دیا جاتا ہے، بالخصوص ملازم طبقہ کو، لیکن جب حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ جس پر بلا تحقیق الزام لگایا اور اسے رسوا کیا وہ بے گناہ ہے تو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے حالانکہ یہ شرمندگی اور معافیاں اس مظلوم پر لگا بہتان کا داغ صاف نہیں کر سکتیں۔ اسی لیے اولاً تو جانتے بوجھ کر کسی کو رسوا کرنے کے لیے بہتان ہرگز نہ لگایا جائے اور اگر کسی معاملے میں کسی پر شک ہو بھی تو الزام نہیں لگانا چاہیے جب تک کہ پختہ ثبوت حاصل نہ ہو جائے، ورنہ الزام بہتان کی صورت اختیار کر گیا تو دنیا میں بھی رسوائی اور آخرت کا عذاب الگ۔

اللہ پاک ہمیں بہتان، غیبت، چغلی اور ہر طرح کے باطنی مرض سے شفا عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


یاد رکھئے! ہر وقت، ہر حال، ہر لمحے، ہر لہجہ، ہر لفظ، ہر کلمے، ہر سوچ، ہر تصور اور ہر خیال الغرض ہر صورت میں زبان کی حفاظت بے حد ضروری ہے۔ چونکہ بے کنٹرول زبان سے ادا ہونے والا ہر شب نہ جانے کیا سے کیا کر ڈالتا ہے، ایسے گہرے زخم چھوڑتا ہے جو لا علاج ہو جاتے ہیں، جن کا بھرنا ناممکن و محال ہو جاتا ہے ، تیر کے زخم بھر جاتے ہیں، تلوار کے زخم کی مرہم مل جاتی ہے، چھری چاقو کے گھاؤ پر پٹی باندھی جاتی ہے لیکن جو زبان کا زخم ہے نہ اس کی دوا ہے اور نہ ہی مرہم ، زبان کی اذیت زیادہ دینا تیر کے ذریعے اذیت دینا زیادہ سخت ہے۔ مشہور تابعی بزرگ حضرتِ سیدنا سفیان ثَوری علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:لوگوں کا تیرپھینکنا زَبان کے ذریعے اذیّت پہنچانے سے زیادہ آسان ہے کیونکہ کمان کا تیر خطا ہو سکتا ہے لیکن زَبان کا تیر کبھی خطا نہیں ہوتا۔(تنبیہ المغترین، ص189) عربی مقولہ ہے: جَرْحُ الْکَلَامِ اَصْعَبُ مِنْ جَرْحِ الْحُسَامِ۔ یعنی زبان کا زخم تلوار کے زخم سے زیادہ سخت ہو تا ہے۔ (المستطرف، 1/47) بعض لوگوں کی عادتِ قبیحہ و خبیثہ ہوتی ہے کہ بات بات پر لڑتے، جھگڑتے، غیبت کرتے اور سب بڑا گھناؤنا اور غیبت سے دگنا گناہِ کبیرہ کسی مسلمان پر زبان کے ذریعے بہتان تراشی کر کے کئی مسلمانوں کو زبان کے ذریعے اذیت و تکلیف پہنچانے کا باعث بنتے ہیں، اسلام نے یہاں تک تعلیمات دی ہیں کہ زبان کا زخم سِنَان یعنی بھالے کے زخم سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے کہ یہ مرہم سے بھر جاتا ہے مگر وہ نہیں بھرتا ۔ شیرِ خدا حضرت سیِّدُنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں:

جَرَاحَاتُ السِّنَانِ لَہَا الْتِیَام وَلَا یَلْتَامُ مَا جَرَحَ اللِّسَان

کسی اردو شاعر نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے:

چھری کا تیر کا تلوار کا تو گھاؤ بھرا لگا جو زخم زبان کا رہا ہمیشہ ہرا

ہمارے معاشرے کی تباہ کاریوں کا حصہ بننے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ بے قصور مسلمان پر چوری، رشوت، جادو، ٹونے، بدکاری، بد دیانتی، خیانت، قتل و غارت، بہتان تراشی جیسے کبیرہ گناہوں کا بند باندھ کر اس کی گھریلو، کاروباری، معاملاتی، تجارتی، و دفتری و مزدوری زندگی کا اطمینان تباہ و برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔

آئیے اسلام کی روشنی میں بہتان کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بہتان :۔ جھوٹ موٹ اپنی طرف سے گڑھ کر کسی پر کوئی الزام یا عیب لگانا اس کو افتراء ، تہمت اور بہتان کہتے ہیں۔ یہ بہت خبیث اور ذلیل عادت ہے اور بہت بڑا گناہ ہے۔ (جنتی زیور، ص 121)سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر تم کسی ایسے عیب کو اس کی طرف منسوب کرو جو اس میں نہ ہو تو بے شک تم نے اس پر بہتان لگا دیا۔(ترمذی،3/375،حدیث: 1941) بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ فرمائیں:

(1) ردغۃ الخبال ٹھکانہ : نبیِّ رَحمت،شفیعِ امّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک رَدْغَۃ ُ الخَبال(یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پِیپ اور خون جمع ہوگا۔ اس) میں رکھے گا جب تک اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہولے۔ (ابوداؤد،3/427، حدیث: 3597)(2) سو سال کی نیکیاں برباد: سرکارِنامدار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کسی پاک دامن عورت پر زِنا کی تُہمت لگانا سو سال کی نیکیوں کو برباد کرتا ہے۔ (معجم کبیر، 3/ 168، حدیث: 3023) فیض القدیر میں ہے: یعنی اگر بالفرض وہ شخص سو سال تک زندہ رہ کر عبادت کرے تو بھی یہ بُہتان اس کے ان اعمال کو ضائع کردے گا۔ (فیض القدیر،2/601،تحت الحدیث: 2340)

(3) مسلمان کی برائی کرنے کا وبال: فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک دوزخیوں کے کیچڑ ،پیپ اور خون میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے۔(سنن ابوداود، ج3، ص427، حدیث:3597)

(4)امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا خوفِ خدا: ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہُ عنہ سے فرمایا: میں نے رات پارہ 22، سورہ احزاب کی اس آیت(58):( وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بے کئے ستاتے ہیں انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے سر لیا ۔)کو پڑھا تومیں اس کی وجہ سے بہت ڈر گیا کیونکہ خدا کی قسم! میں مسلمانوں کو مارتا ہوں اور انہیں جھڑکتا ہوں ، حضرت اُبی رضی اللہُ عنہ نے ان سے عرض کی :اے امیر المؤمنین! رضی اللہُ عنہ، آپ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں ، آپ تو محض معلم اور نظام کو قائم کرنے والے ہیں ۔( تفسیر قرطبی، الاحزاب، تحت الآیۃ: 58،7 /178، الجزء الرابع عشر)

(5)تہمت کی سزا : تمام نبیوں کے سردار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صَحابۂ کرام علیہم الرضوان سے استفسار فرمایا: کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: ہم میں مفلس(یعنی غریب مسکین) وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہوں اور نہ ہی کوئی مال۔ ارشاد فرمایا: میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے فلاں کو گالی دی ہو گی، فلاں پر تہمت لگائی ہو گی، فلاں کا مال کھایا ہو گا، فلاں کا خون بہایا ہو گا اور فلاں کو مارا ہو گا۔ پس اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو ان کا حصہ دے دیا جائے گا۔ اگر اس کے ذمّے آنے والے حقوق پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے، پھر اسے جہنَّم میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم، ص1069، حدیث:6578)

توبہ کرلیجئے : اس سے پہلے کہ دنیا سے رخصت ہونا پڑے تہمت و بہتان سے توبہ کر لیجئے۔ بہارِ شریعت حصّہ 16صَفْحَہ 538 پر ہے: بُہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور مُعافی مانگنا ضَروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضَروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فُلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔ (بہارِ شریعت،3/538)