اسلام ایک ضابطۂ حیات اور مکمل قانون ہے اور اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ قیامت ایک دن ضرور آئے گی  اس پر تمام مسلمانوں کا ایمان ہے ایک دن دنیا زمین و آسمان اور جو کچھ اس میں ہے سب نست و نابود ہوجائے گی ماسوا اللہ تعالی کے کچھ باقی نہیں رہے گا اس کو قیامت آنا کہتے ہے۔قیامت آنے سے قبل دنیا میں کچھ نشانیاں ظاہر ہو گی۔

عام طور پر انسانوں کے ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ قیامت کب آئے گی اس کا علم اللہ تعالی کے سوا کس کو ہے' لیکن اللہ تعالی کی عطا سے اس کا علم نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ہے ۔

آقائے دو جہاں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نہایت ہی اہتمام سے قیامت کی نشانیاں بیان فرمائی تاکہ امت مسلمہ قبل قیامت ان رونما ہونے والی فتنوں سے بچ جائے ۔

آج ضرورت ہے اس امر کی کہ امت مسلمہ ان نشانیوں کو ذہن نشیں کر کے غوروفکر کرے ۔کہ کون سی نشانی ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے اور کون سی نشانی ہمارے گھروں میں داخل ہوچکی ہے اور کون سی نشانیاں مستقبل میں آنے والی ہے۔اور ہمیں بالکل قرب قیامت کن بڑے فتنوں کا سامنا کرناپڑے گا۔ہمیں غور و فکر کرنا پڑے گا تاکہ ہمارا ایمان سلامت رہے۔

قیامت کی وہ پانچ نشانیاں جو اب تک ظاہر ہو چکی ہے وہ یہ ہے :

1۔ امانت کی بربادی:

حضرت علامہ عبد المصطفی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "قیامت کب آئےگی" میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ :

عن ابی ھریرۃَ قال بینما النبیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یُحَدّثُ اذ جاء اعرابیُ فقال متیٰ الساعۃُ قال اذا ضُعِیّتِ الامانۃُ فانتظِرِ الساعۃَ قال اذاوسِّدَ الامرُ الیٰ غیر اھلہِ فانتَظِرِ الساعۃَ

کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرما رہے تھے کہ اچانک ایک دیہاتی آیا اور عرض کیا کہ قیامت کب آئے گی؟ توحضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب امانت برباد کی جانے لگے تو تم قیامت کا انتظار کرو تو اس نے کہا کہ امانت کی بربادی کس طرح ہوگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب ہر کام نااہل کی طرف سونپا جانے لگے تو تم قیامت کا انتظار کرو ۔

(مشکوٰة شریف 2 469)(بحوالہ " قیامت کب آئے گی صفحہ نمبر 30)

'تبصرہ' دور حاضر میں حکومت و سلطنت ایسے لوگوں کے سپرد کی جانے لگی ہے جو کسی طرح بھی اس کے اہل نہیں ہیں۔اسی طرح گاؤں کی سرداری نمبرداری بھی نااہلوں کو دی جا رہی ہے'حتیٰ کہ مسجدوں کی تولیت اور انتظام ان بے نمازی سیٹھوں اور مالداروں کے سپرد کیا جا رہا ہے جو عید یابقرعیدیا زیادہ سے زیادہ جمعہ کے دن نماز پڑھنے کے لیے مسجدوں میں آتے ہیں

2۔ مسجدوں پر فخر:

عن انس قال قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم لاتقُومُ الساعۃُ حتیٰ یَتَباھی الناسُ فی المساجدحضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ لوگ مسجدوں کے بارے میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے ۔(حجة اللہ العالمین )(بحوالہ قیامت کب آئے گی صفحہ نمبر 31)

تبصرہ: آج کل لوگ مقابلے 'competition' کےطور پر مسجد بناتے ہیں'ایک گاؤں والوں نے ایک مسجد بنائی تو دوسرے گاؤں والے اس سے زیادہ خوبصورت اور بڑی مسجد بناتے ہیں اور فخر کرتے ہیں کہ ہم نے اس سے زیادہ خوبصورت اور بڑی مسجد بنائی' حالانکہ کبھی ایسا معاملہ درپیش آتا ہے کہ امام صاحب اکیلا نماز پڑھتے ہیں ۔

3۔ کمینوں کی خوشحالی:

عن حذیفۃَ بنَ الیمانِ قال قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم لاتقُومُ الساعۃُ حتیٰ یکونَ اسعدُ الناسِ باالدنیا لُکَعَ بنُ لُکَعَ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ کمینے کا بیٹا کمینہ دنیا میں سب سے زیادہ خوشحال ہوگا۔(ترمذی شریف ج دوم 44 باب اشراط الساعتہ)(بحوالہ قیامت کب آئے گی صفحہ نمبر 34)

تبصرہ دور حاضر میں ہر چھوٹا بڑا اپنی

نگاہوں سے دیکھ رہا ہے کہ پشت ہا پشت کے شریف زادگان علماء'صلحا'عقلاء اور دین دار مسلمان آج غربت و افلاس کا شکار نظر آرہے ہیں اور کئی کئی پشتوں کے چور'ڈاکو' لچے لفنگے 'اور بدمعاش عیش و عشرت کی جنت میں آرام کر رہے ہیں۔

4۔ بےحیائ کی انتہا:

عن ابن عمر قال لاتقومُ الساعةُ حتیٰ یَتَسافَدَ الناسُ تسافُدُالبھائِمِ فی الطُرُقِ

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ لوگ جانوروں کی طرح راستہ میں جفتی کریں گے۔(حجۃاللہ جلد نمبر 2 صفحہ نمبر831)('بحوالہ قیامت کب آئے گی' صفحہ نمبر 40)

5۔مسجدوں میں دنیا کی باتیں کرنا:

عن الحسن یائتی علیٰ الناس زمان حدیثُھُم فی مساجدھم فی امر دنیاھُم فلاتُجالسوھُم فلیس للہ فیھِم حاجۃ

حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ان کی مسجدوں میں دنیا کی باتیں ہوں گی تو تم ان کی صحبت میں نہ بیٹھو کیونکہ اللہ کو ایسے لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں۔

'تبصرہ' دور حاضرہ میں اکثر و بیشتر مسلمان اس بلا میں گرفتار ہیں چند منٹوں کے لئے آتے ہیں تو تو خواہ مخواہ دنیا کی باتیں اور دھندے اور روزگار کی باتوں کا تذکرہ کرنے لگتے ہیں۔


اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلیٰ اِحْسَانِہِ وَ بِفَضلِ رَسُوْلِہِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بلا شُبہ اس مادرِ گیتی پر شَب وروز ہزاروں انسانوں کی آمد ورَفت ہو رہی ہے۔ َکوئی خَیْرخواہی تو کوئی بدکاری سے لبریز ہے۔ مگر آج کے اس پُرْفِتَن دور میں چَشْمِ حقیقت سے دیکھیں تو ہمیں برائیوں کی بہُتات نظر آتی ہے۔ جو قُرْب قیامت کی نشانیاں ہیں اُنہی میں سے چند مُندرجہ ذیل ملاحظہ کیجئے۔

1۔اچھائیوں کی کمی: آج ہماری ثقافت میں یہ سب باتیں بہت عام ہوتی جا رہی ہیں عَیْب جوئی، کِذِبْ گوئی، تکلیف رسانی چُغلخوری، والدین کی نافرمانی، صدقات وخیرات سے دوری، شراب نوشی زُہد وتقَویٰ کی کمی، شہْوَت پروری، عِصْمَتْ دری، بزرگوں سے بدزبانی، نِعْمَتِ باری کی ناشکری ، خود پسندی، رِیا کاری، زوالِ عجز واِنْکِساری، محبتِ مال ودولت، بُعُدِیَتِ عِبادت وعِیادت، گناہوں سے رغبت، ظلم وستم، حسد وکینہ اور موت سے بچنے کی تمنا وغیرہ۔

2۔شوسل میڈیا : یہ ایک ایسا شَجَرَۂ خاص وعام ہے جس کی بیشمار شاخیں فیسبُک، اِنْسَٹاگرام، واٹسایپ اور اِیْسناپچارٹ وغیرہ ہیں۔ جس کے سایے تلے اُمورِ حَسَنہ کے مدِ مُقابِل اُمورِ سئِیہ کی کئی گُنا زیادہ نشونما ہو رہی ہے۔ جیسے لڑکیوں کا بَرہَنہ رَقْص، فحش گوئیاں، شَنِیع ویڈیوز، عُریانیت، غیر محرموں سے ملاقاتیں، تماشہ بینی اور غیر مُسلموں سے راز افشائی وغیرہ عام ہیں۔

3۔زوالِ اہلِ علم:اس طرح کے پیغامات جاری کرتے ہیں لوگ: جیسے 'یہ میسیج بیس لوگ کو ارسال کرو ورنہ آپکو بہت بڑا نُقصان ہوگا' ( نَعُوْذُ باللہ مِنْ الجھل)، ترکِ تعلیمِ قرآن وحدیث، جاہلوں کے فتویٰ کی تصدیق کرنا، سُنی سنائی باتوں کو لوگوں میں تیزی سے پھیلانا ، اپنی اولاد کو دینی کے بجائے دُنیاوی تعلیم پر گامزن رکھنا، عِلْم سے عمل کے بجائے اس پر فخر کرنا اور عُلماءِ کرام سے قَطَعِ تعلُق رکھنا وغیرہ باعثِ وُقُوعِ قیامت ہیں۔

4۔من مانی اعمال : آج ہمارے معاشرے میں کوئی پابندی باقی نہ رہی، لڑکے کسی ہیرو کو اپنا مَشْعَلِ راہ بنا رہے ہیں، تو لڑکیاں کسی ہیروئن کے دستورِ حیات کو اپنا رہے ہیں۔ کوئی عیش وعِشرت کے لیئے عالیشان بنگلے تو کوئی قیمتی گاڑیاں خرید رہا ہے۔ کسی کو نہ مسجد سے مطلب نہ مدرسے سے ہے۔ نہ شرم و حَیا کا خیال نہ عزت کی و اکرام کا ہے۔ کہیں پر خواتین کے اغوے ہو رہے ہیں، نہ کوئی تعلیمِ قرآن کا حامِل نہ اِحیاءِ ایمان کا ہے آخرت سے غافل ہو کر سب تحصیلِ دنیا میں لگے ہیں۔

5۔عورتوں کی سَرْبَراہی: اِمرُوز اکثر خواتین مرد پر حاوی نظر آرہی ہیں۔ نہ لِباس کا پتہ نہ جنسیت کا ہے ، نہ پردے کا خیال نہ تعلیمِ قرآن کا مکمل مغربی تہذیب وتمدُن میں مَلْفُوف ہیں۔ بہت سے لوگ شادی کے بعد اپنے والدین سے دوری بنا رہے ہیں۔ اور جو عورت کا حکم ہو رہا ہے اس پر خاوند عمل پیرا ہے۔ اگر یہی حال ہمارے معاشرے میں باقی رہا تو یہ ہماری داستاں تک نہ رہے گی۔ اللہ رَبُّ الْعِزَّت تمام مسلمانانِ جہاں کو نیک بندوں میں شامل فرمائے۔ آمین


اللہ تعالی نے اپنی مقدس کتاب قرآن مجید میں فرمایا کہ: اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ یعنی بے شک قیامت آنے والی ہے ۔

قیامت کیا ہے ؟

اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اُن کے اچھّے اور برے کاموں کا بدلہ دینے کے لئے ایک خاص دن مقرر فرمایا ہے ۔ جس دن وہ نیکو کاروں اور بدکاروں کے اچھے اور برے اعمال کی جزا کا فیصلہ فرمائے گا ۔ اور نیکوں کو جنّت کی نعمتیں اور بدوں کو جہّنم کا عذاب دے گا ۔اسی دن کا نام "قیامت" ہے ۔

آئیے موجودہ زمانے میں قیامت کی پائی جانے والی چند نشانیوں کے بارے میں جانتے ہیں۔

(1) امانت کی بربادی :

عَنْ اَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ بَيْنَهُمَا النَّبِىُّ صلي الله عليه وسلم يُحَدِّثُ اِذْ جَاءَ اَعْرَابِيٌّ فَقَالَ مَتَي السَاعَةُ قَالَ اِذَا ضُيِّعَتِ الْاَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَاعَةُقَالَ كَيْفَ اِضَاعَتُهَا قَالَ اِذَا وُسِّدَ الْاَمْرُ اِلَى غَيْرِ اَهْلِهِ فَنْتَظِرِالسَّاعَةَ ( مشكوة ، ج 2، ص 469 )

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ اس درمیان میں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرما رہے تھے کہ اچانک ایک دیہاتی آیا اور یہ کہا کہ قیامت کب آئے گی ؟ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ جب امانت برباد کی جانے لگے تو تم قیامت کا انتظار کرو ۔اُس نے کہا کہ امانت کی بربادی کس طرح ہوگی ؟ آپ نے فرمایا کہ جب ہر کام اس کے نا اہل کی طرف سونپا جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرو ۔

تشریح : قیامت کی یہ نشانی بھی ظاہر ہونے لگی ہے ۔

(2) مسجدوں پر فخر :

عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلي الله عليه وسلم لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حتَّي يَتَبَاهَي النَّاسُ فِي الْمَسْجِدِ

ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت نہیں قائم ہوگی یہاں تک کہ لوگ مسجدوں کے بارے میں ایک دوسرے پر فخر کریں ۔(حجة اللہ علي العاملين ج 2 ' ص 540 مسند امام احمد )

تشریح: اس نشانی کا بھی ظہور ہو چکا ہے جیسا کہ آج کل لوگ کہتے ہیں کہ میرے باپ دادا کی بنائی مسجد تیرے باپ دادا کی بنائی مسجد سے بہتر ہے ۔

(4)دین کے ذریعہ دنیا :

عَنْ اَبِيْ هُرَيْرَةَ مِنْ اَشْرَاطِ السَاعَةِ سُوْءُالْجِوَارِ وَ قَطِيْعَةُالْاَرْحَامِ وَاَنْ يُّعَطَّلَ السَّيْفَ مِنَ الْجِهَادِ وَاَنْ تُخْتَلَّ الدُّنْيَا بِاالدِّيْنِ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قیامت کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ(1) پڑوسیوں کے ساتھ برا سلوک کرنا (2)رشتہ داریوں کو کاٹ دینا (3) تلوار کا جہاد سے مُعطَّل ہو جانا (4) دین کے ذریعہ دنیا کمانا ۔

(حجة الله ,ج 2 ,ص 831 ,ابن مروويہ)

تشریح: قیامت کی یہ چاروں نشانیاں دنیا میں علی الاعلان ظاہر ہو چکی ہیں ۔کون نہیں جانتا کہ آج دنیا کا ہر پڑوسی اپنے پڑوسیوں کی بد سلوکی سے بےزار ہے ۔اسی طرح ذرا ذرا سی باتوں پر بھائی بہن سے رشتہ توڑ دیتا ہے ۔ماں باپ کو بے سہارا چھوڑ دیتا ہے ۔اور تمام دنیا میں جہاد بند ہو چکا ہے ۔تلواریں راہ خدا میں نکلنے کے لئے بے قراری کے ساتھ تڑپ رہی ہیں ۔اور بد عمل علماء اور مصنوعی مشائخ جس طرح لوگوں سے پیسہ لے لے کر دنیا بنانے میں لگے ہیں اس کو بیان کرنے کے لئے الفاظ بھی کم پڑ جائیں گے ۔

(5)خون ريزی کی کثرت :

عن ابي هريرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تقوم الساعة حتي يكثر الهرج قالوا و ما الهرج يا رسول اللہ قال القتل القتل

ترجمہ : حضرت ابو ہريره سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ ہرج کثرت سے ہو جائے ۔صحابہ کرام نے عرض کیا کہ حرج کیا ہے یا رسول اللہ ؟ فرمایا قتل قتل ۔

تشریح :قتل اور خون ریزی پوری دنیا میں بہت زیادہ بڑھ رہی ہے اور اس کی تعداد میں ہر دن اضافہ ہوتا ہی جا رہا ہے ۔لہذا قیامت کی یہ نشانی بھی پوری ہو گئی ہے۔

اللہ تعالی ہم سب کو قیامت پر ایمان رکھنے اور قيامت كی ہولناکیوں سے محفوط فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


بیشک زمین وآسمان اور جن و انس ملک سب ایک دن فنا ہونے والے ہیں،صرف ایک اللہ تعالٰی کے لیے ہمیشگی و بقا ہے۔دنیا کے فنا ہونے کو قیامت کہتے ہیں اور یہ کب فنا ہوگی اس کے بارے میں ہم نہیں جانتے لیکن اس سے پہلے چند نشانیاں ظاہر ہوگی جسے ہم قیامت کی نشانیاں کہتے ، قیامت کی نشانیاں جاننے سے پہلے ہم قیامت کے دن کے بارے میں کچھ سنتے ہیں۔

قیامت :اس کی دہشت ،ہَولْناکی اور سختی سے (تمام انسانوں کے) دل دہل جائیں گے اور بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت اسرافیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی آواز کی وجہ سے قیامت کو ’’قارِعہ ‘‘ کہتے ہیں کیونکہ جب وہ صُور میں پھونک ماریں گے تو ان کی پھونک کی آواز کی شدت سے تمام مخلوق مر جائے گی۔

جس طرح پروانے شعلے پر گرتے وقت مُنتَشِر ہوتے ہیں اور ان کے لئے کوئی ایک جہت مُعَیَّن نہیں ہوتی بلکہ ہر ایک دوسرے کے خلاف جہت سے جاتا ہے یہی حال قیامت کے دن مخلوق کے اِنتشار کا ہو گا کہ جب انہیں قبروں سے اٹھایا جائے گا تو وہ پھیلے ہوئے پروانوں کی طرح مُنتَشِر ہوں گے اور ہر ایک دوسرے کے خلاف جہت کی طرف جا رہا ہو گا،

دل دہلا دینے والی قیامت کی ہَولْناکی اور دہشت سے بلند و بالا اور مضبوط ترین پہاڑوں کا یہ حال ہو گا کہ وہ ریزہ ریزہ ہو کر ہوا میں اس طرح اڑتے پھریں گے جس طرح رنگ برنگی اُون کے ریزے دُھنتے وقت ہوا میں اڑتے ہیں تو ا س وقت کمزور انسان کا حال کیا ہو گا!،

قرآنِ پاک میں قیامت کے ذکر کردہ کچھ نام یہاں ذکر کیا جاتا ہے:۔

(1)… قیامت کا دن قریب ہے کیونکہ ہر وہ چیز جس کا آنا یقینی ہے وہ قریب ہے، ا س اعتبار سے اسے ’’یَوْمَ الْاٰزِفَةِ‘‘ یعنی قریب آنے والادن کہتے ہیں ۔

(2)…دنیا میں قیامت کے عذاب کی وعید سنائی گئی ہے،اس اعتبار سے اسے ’’ یَوْمُ الْوَعِیْدِ‘‘ یعنی عذاب کی وعیدکا دن کہتے ہیں ۔

(3)…اس دن اللہ تعالیٰ سب کودوبارہ زندہ فرمائے گا اس لئے وہ ’’یَوْمُ الْبَعْثِ‘‘ یعنی مرنے کے بعد زندہ ہونے کا دن ہے۔

اب ہم قیامت کی چند نشانیوں کے بارے میں جانتے ہیں:

(1)علم اٹھ جائے گا یعنی علما اٹھالیے جائیں گے،یہ مطلب نہیں کہ علما تو باقی رہیں اور ان کے دلوں سے علم محو کردیا جائے۔

(2)جہل کی کثرت ہوگی۔

(3)ملک عرب میں کھیتی اور باغ اور نہریں ہو جائیں گی۔

(4) وقت میں برکت نہ ہوگی،یہاں تک کہ سال مثل مہینہ کے اور مہینہ مثل ہفتہ کے اور ہفتہ مثل دن کے اور دن ایسا ہو جائےگا جیسے کسی چیز کو آگ لگی اور جلد بھڑک کر ختم ہوگئی، یعنی بہت جلد جلد وقت گزرےگا۔

(5) مسجد میں لوگ چلائیں گے۔

(6) مرد ماں باپ کی نافرمانی کرےگا۔

(7) گانے باجے کی کثرت ہوگی

(بہار شریعت حصہ۔1،ص۔118سے119)


ہم مسلمانوں کے بنیادی عقائد میں سے ایک بنیادی عقیدہ جو کہ ضروریات دین میں سے ہے وہ  یہ کہ ایک دن قیامت آنے والی ہے کہ جس دن انس و جن سب کچھ فنا ہونے والے ہیں صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہمیشگی و بقا ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن پاک میں کچھ اس طرح ارشاد فرماتا ہے

اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ اَكَادُ اُخْفِیْهَا لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا تَسْعٰى(۱۵)

ترجمہ کنزالایمان۔بے شک قیامت آنے والی ہے قریب تھا کہ میں اسے سب سے چھپاؤ کہ ہر جان اپنی کوشش کا بدلہ پائے۔(پ 16،طٰہٰ 15)

قیامت کے دن کے آنے سے پہلے چند نشانیاں بھی ظاہر ہونگی جن کی نشاندہی ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی فرما دی ہے۔اور ابھی موجودہ وقت میں ان میں سے کئی علامات کا ظہور بھی ہو چکا ہے۔جن میں سے چند کا ہم یہاں ذکر کرتے ہیں۔ درج ذیل نشانیاں پڑھنے سے پہلے یہ نیت فرما لیجئے کہ اگر ان میں سے کوئی بری خصلت ہمارے اندر پائی جائے تو ہم اسے دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان شاء اللہ

1۔جہل کی کثرت ہوگی (بخاری الحدیث 5231)

واقعی ایسا ہی ہے کہ ہمارے زمانے میں لوگ علم دین سے دور ہوتے نظر آرہے ہیں اور جہالت کا بازار اتنا گرم ہے کہ جاہل ہی دین کے مسائل بیان کرتے نظر آ رہے ہیں۔

2۔زنا کی زیادتی ہوگی: (بخاری الحدیث 5231)

موجودہ دور میں زنا اس قدر عام ہے کہ بظاہر سیدھا دکھنے والا شخص بھی ان میں ملوث ہوتا‌ دِکھ رہا ہے بلکہ یہاں تک کہ کئی ملکوں میں میں سرکاری طور پر اس حرام کام کی اجازت دی جا چکی ہے۔

3۔وقت میں برکت نہ ہوگی ( ترمذی حدیث 2339)

اس کا تجربہ تو ہر خاص و عام کو ہےکہ وقت یوں تیزی سے گزر رہا ہے کہ سال مثل مہینے کے اور مہینہ مثل ہفتہ کے اور ہفتہ مثلے دن کے گزرتے نظر آ رہے ہیں۔

4۔ ماں باپ کی نافرمانی کی جائے گی: (ترمذی 2218)

یہ ہمارے معاشرے میں پکے دینداروں کے گھروں کے علاوہ شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس میں ماں باپ کی نافرمانی نہ کی جا رہی ہو ۔

5۔گانے باجے کی کثرت ہوگی (ترمذی حدیث 2218)

یہ علامت موجودہ دور میں اس کثرت سے پائی جا رہی ہے کہ بظاہر شریف دین دار نظر آنے والے بھی کسی نہ کسی ذرائع سے سے میوزک کی دُھن میں ملوث نظر آتے ہیں۔

یہ چند وہ علامتیں تھیں جو ہمارے موجودہ دور میں بکثرت پائی جا رہی ہیں ان کے علاوہ اور بھی کثیر قیامت کی نشانیاں کتب احادیث میں‌ مذکور ہیں۔

(مزید نشانیوں کی معلومات کے لئے بہار شریعت حصہ 1 کا مطالعہ فرمائیے)

اللہ تبارک و تعالی ہمیں قیامت کے فتنوں اور اسکی سختیوں سے محفوظ فرمائے اور قیامت کے دن کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم۔


نمبر1 جب لوگ نماز کو ضائع کریں گے :قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اللہ کے آخری نبی مکی مدنی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص جان بوجھ کر  ایک وقت کی نماز چھوڑ دیتا ہے تو اللہ تبارک و تعالی اس شخص کا نام جہنم کے اس دروازے پر لکھ دیتا ہے جس سے وہ داخل جہنم ہوگا۔

نمبر 2 جب معاشرے میں بے حیائی پھیلے گی: اللہ اکبر آج کل معاشرے میں تیزی کے ساتھ بے حیائی بے پردگی اور نہ جانے ایسی برے کام ہو رہے ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔

نمبر 3 جب عورتیں مردوں سے مشابہت رکھے گی اور مرد عورتوں سے مشابہت رکھے گے :فی زمانہ یہ نشانی بہت تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے اللہ کے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے نے ایسے شخص پر لعنت فرمائی ہے ہے جو مرد عورت سے مشابہت رکھے اور عورت مرد سے مشابہت رکھے ۔

نمبر 4جب غیر اللہ کی قسم کھائی جائے گی: حدیث مبارک میں آیا ہے جب قسم کھانے کا ارادہ کرے تو اللہ کی کھائے ورنہ چپ رہے ۔( فیض القدیر جلد 2 صفحہ207)

نمبر 5 اولاد جب ماں باپ کی نافرمانی کرے گی: یہ بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ یہ دنیا میں میں تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے ۔

اللہ کریم کریم ہمارے حال پر رحمت کی نظر فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


یوں تو کئی ساری قیامت کی ایسی نشانیاں ہیں جو موجودہ دور میں  پائی جاتی ہیں بطور خاص پانچ کا ذکر کیا جاتا ہے۔

قالَ رَسُولُ اللَّهِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: «يَتَقارَبُ الزَّمانُ، ويَنْقُصُ العَمَلُ، ويُلْقى الشُّحُّ، ويَكْثُرُ الهَرْجُ» قالُوا: وما الهَرْجُ؟ قالَ: «القَتْلُ القَتْلُ»

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: زمانہ مختصر ہو جائے گا نیک عمل کی کمی ہوگی بخل پیدا ہوجائے گا اور کثرت سے ھرج ہوگا صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ھرج کا ہے : فرمایا کہ قتل کرنا قتل کرنا ۔

اس حدیث پاک میں قیامت کی چار نشانیاں بیان کی گئی ہیں اگر ہم غور کریں تو پتا چلے گا کہ مذکورہ چاروں نشانیاں موجودہ دور میں پائی جاتی ہیں

1۔۔ زمانے کا جلد گزرنا ،وقت میں برکت نہیں ،بہت تیزی کے ساتھ وقت گزرتا جارہا ہے یہ ایک قیامت کی نشانی ہے

2۔۔ بخل کنجوسی کرنا ایسی بڑی بیماری ہے جس کو قیامت کی نشانی فرمایا گیا اللہ پاک فرماتا ہے:

﴿ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹)﴾ (پ 28الحشر 9)

ترجمہ کنز العرفان : جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی لوگ کامیاب ہیں۔

میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: واتَّقُوا الشُّحَّ؛ فَإنَّ الشُّحَّ أهْلَكَ مَن كانَ قَبْلَكُمْ۔بخل سے بچو کہ بخل نے تم سے پہلے والوں کا ہلاک کردیا ۔

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 4/‏1321 )

3۔۔ قتل کا عام ہونا اب معاشرے میں قتل کتنا عام ہوچکا ہے آئے دن شوشل میڈیا پر خبریں آتی ہیں فلاں کو قتل کردیا گیا تو فلاں کو ماردیا گیا۔ یہ کتنا عظیم گناہ ہے اس کا اندازہ اس آیت سے لگائیں ،اللہ پاک فرماتا ہے:

مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-ترجمہ کنزالایمان:جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔(پ 6،المائدہ 32)

رَسُولَ اللَّهِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم يَقُولُ: «لا تَقُومُ السّاعَةُ أوْ مِن شَرائِطِ السّاعَةِ، أنْ يُرْفَعَ العِلْمُ، ويَكْثُرَ الجَهْلُ، ويُشْرَبَ الخَمْرُ، ويَظْهَرَ الزِّنى، ويَقِلَّ الرِّجالُ، وتَكْثُرَ النِّساءُ، حَتّى يَكُونَ لِخَمْسِينَ امْرَأةً قَيِّمٌ واحِدٌ» (صحيح ابن حبان 15/171، رقم الحدیث:7678)

یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ قیامت قائم نہ ہوگی ،یا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ علم اٹھ جائے گا ، جہالت زیادہ ہوگی، شراب پی جائے گی، زنا کی کثرت ہوگی ، مرد کم ہوں گے عورتیں زیادہ ہوں گی حتی کی پچاس عورتوں کا ایک نگران ہوگا۔

4۔۔ شراب کا عام ہونا :اب تو شراب ایسی عام ہو گئی ہے کہ ان کو غلط بھی سمجھا نہیں جارہا ہے شراب پینا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جو دنیا میں شراب پیئے گا وہ جنت کی پاکیزہ شراب سے محروم رہے گا ۔(صحيح البخاري 7/104)

5۔۔ زنا کی کثرت بےحیائی عام ہوگی عورتوں نے پردہ ختم کردیا عورت مرد کے شانہ بشانہ چلنے میں اپنا وقار سمجھنے لگیں عورتوں نے یہ نعرہ لگایا کہ میرا جسم میری مرضی، زنا گاہ آباد ہوگئے، مختلف ناموں سے زنا کی کثرت ہونے لگی۔ کہیں مساج سینٹر کے نام سے تو کہیں گلفرنڈ بوائےفرینڈ کے نام پر دوستی کا بہانہ بناکر زنا کیا جارہا ہے۔

نبی کریم صَلَّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لا يَزْنِي الزّانِي حِينَ يَزْنِي وهُوَ مُؤْمِنٌ

زانی زنا کرتے وقت مومن نہیں رہتا ۔(سنن ابن ماجہ 2/‏1298 )

اللہ پاک ہم سب کو تمام گناہوں سے محفوظ فرمائے اور حسنِ خاتمہ عطا فرمائے ۔

اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم

اللہ پاک کے‌محبوب دانائے غیوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وقتاً فوقتاً اپنے اصحاب کو قبلِ قیامت وقوع پذیر ہونے‌والی نشانیوں کے متعلق خبر دی۔ جن میں سے بیشتر کا ظہور ہو چکا اور کچھ اس زمانے‌ میں ظاہر ہیں‌ اور کچھ کا ظاہر ہونا‌باقی ہے۔  جو قیامت کی نشانیاں اس دور میں ظاہر ہیں ان میں سے‌پانچ کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔

(1)علم اٹھ جائےگا اور جہالت پھیل جاے گی:نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے‌‌فرمایا:قیامت کی نشانیوں میں سے علم کا اٹھ جانا اور جہالت کی کثرت ہونا ہے۔(بخاری،3/472،حدیث:5231)

علم سے مراد علمِ دین‌، جہل‌ سے مراد اس‌ سے‌ غفلت ہے۔

(مراٰة المناجیح،7/254،ملتقطاً)

علم‌ کے‌اٹھنے کا ذریعہ یہ نہ ہوگا کہ لوگ پڑھا ہوا بھول‌ جائیں گے بلکہ علماء وفات پاتے رہیں گے اور بعد میں ان‌کے جانشین پیدا نہ ہوں گے۔ جیسا کہ اس‌ دور میں ہو رہا ہے علماء ربانی‌اس دنیا سے رخصت ہو رہے‌ ہیں‌ اور ان کے بعد ویسے علماء پیدا‌ نہیں ہورہے ہیں۔ ایسے علماء کی کمیابی ہی کی وجہ سے پورے عالم میں جہالت کی کثرت ہو رہی ہے۔ لوگ دنیاوی علوم‌ و فنون‌کے لئے اپنا مال اپنا وقت اور اپنی پوری قوت لگا رہے‌ ہیں مگر علمِ دین سے مکمل طور پر دوری اختیار کئے ہوئے ہیں۔ دنیاوی علوم بہت ترقی پر ہیں مگر علمِ حدیث، تفسیر، فقہ بہت کم‌ہو رہے ہیں۔

(2)وقت میں برکت نہ ہوگی: سال‌ مہینے کی طرح، مہینا ہفتے کی طرح، ہفتہ دن کی طرح اور دن ایسے ہو جائے گا جیسے کسی چیز کو آگ لگ گئی اور جلد بھڑک کر ختم ہو گئی۔

(بہار شریعت حصہ 1/118ملخصاً)

یعنی اس‌ زمانے میں عیش و‌ آرام بہت زیادہ ہوگا اور عیش و آرام کا

وقت محسوس نہیں ہوتا۔(مراٰةالمناجیح،7/260)اِس‌ زمانے میں بھی لوگوں کے وقت میں برکت نہیں‌ رہی ہے۔ اتنی ساری جدید ٹیکنالوجی اور جدید آلات کا روز مرہ کی زندگی میں استعمال کے باوجود لوگوں کے کام وقت پر مکمل نہیں ہو پا رہے۔جس شخص کو دیکھئے وہ ”وقت نہیں ہے“ کا وِرد اپنی زبان پر جاری رکھے ہو ئے ہے۔

(3)علمِ دین پڑھیں گے مگر دین کے لئے نہیں۔(ترمذی،4/90،حدیث:2218)

یعنی دینی علوم صرف دنیا کمانے کیلئے حاصل کریں گے۔ یہ نشانی بھی اس دور میں ظاہر ہے۔ اب تحصیلِ علومِ دین کو محض ذریعہ آمدنی بنا لیا ‌گیا ہے۔ علم ِدین کے ذریعے تبلیغِ دین،اشاعتِ دین، خدمتِ دین کے بجائے ایک طبقہ اس‌سے مال ودولت اور جاہ و حشمت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھنے لگا ہے۔ بعض طلبہ صرف وعظ گوئی کیلئے کتابیں پڑھتے ہیں۔

(4) لوگ مسجدوں میں دنیا کی باتیں کریں گے۔

(شعب الایمان،3/87،حدیث:2962)

جیسا کہ آج‌ دیکھا جا رہا ہے لوگوں نے مساجد کو دنیوی اجلاس کا مقام بنا لیا ہے۔مساجد میں اپنے ذاتی،کاروباری مسائل پر بھی گفتگو کرنے سے گریز نہیں کرتے بلکہ اب تو مساجد میں بیٹھ کر موبائل‌ کے ذریعے کئی طرح کے معاملات انجام دے رہے ہوتے ہیں۔

(5) گانے باجے کی کثرت ہوگی۔ (بہار شریعت،1/119)

یہ نشانی بھی آج‌ بالکل ظاہر ہے۔ گھر، بازار، ہوٹل، گاڑی، بس‌، ریل، ہوائی جہاز، الغرض‌اب کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں گانے باجے اور موسیقی عام نہ ہو۔ بازاروں اور‌ موسیقی کے اڈے‌ تو اپنی‌ جگہ اب تو مساجد میں بھی نمازیوں کے موبائل سے موسیقی اور گانے باجے کی آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں۔


عرب میں  ایک چیز یا شخصیت کے متعدد نام رکھنے کا رواج ہے ا ن کے یہاں یہ بات معروف ہے کہ جس ذات کے جتنے کثیر اسماء ہوں گے وہ اتنی ہی زیادہ معظم و مکرم ہے ، ان زائد اسماء کو لقب یا صفت کہا جاتا ہے، اللہ پاک کا ذاتی نام ”اللہ“ ہے مگر صفاتی نام بہت ہیں۔ پاک و ہند میں اللہ پاک کے 99 نام معروف ہیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےذاتی نام ”محمد و احمد“ ہیں جبکہ صفاتی نام کثیر ہیں۔ ان موضوعات پر علمائے اسلام نے کئی کتب و رسائل لکھے ہیں جن میں اسمائے صفاتیہ کی وجوہات و حکمتوں پر کلام کیا گیا ہے۔ زیر نظر مضمون میں بھی ہم رسول اللہ ﷺکے ایک ایسے ہی اسم صفت کے معانی اور اس میں موجود حکمت کے بارے میں پڑھے گئے۔

لفظ ’’اُمّی ‘‘ کا لغوی معنی:

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمائے صفاتیہ میں سے ایک صفت ”اُمّی“ بھی ہے ۔

چونکہ یہ ایک عربی لفظ ہے اس لئے سب سے پہلے لغت عرب سے اس کا معنی دیکھتے ہیں :

اُمّی ، اُم سے نکلا ہے اس کا ایک معنیٰ ہے اصل ،

اُمّی کا ایک معنیٰ ہے جو اپنی جبلتِ اولیٰ پر ہو یعنی جیسا پیدا ہوا ویسا ہی رہے یعنی لکھنے پڑھنے والا نہ ہو،

اُمّی کا ایک معنیٰ ام القریٰ جو کہ مکہ معظمہ ہی کا ایک نام ہے ۔

اُمّی کا ایک معنیٰ ہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو ۔ (قاموس، تاج العروس و صحاح وغیرہم)

قرآن کریم میں لفظ ’’امی ‘‘ کا استعمال

قرآن کریم میں بھی لفظ اُمی مختلف مقامات پر حسب حال مختلف معانی میں مستعمل ہے مثلاً:

سورہ بقرہ آیت نمبر 78 میں ارشاد ہوا: وَ مِنْهُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ

اور ان میں کچھ اَن پڑھ ہیں کہ جو کتاب کو نہیں جانتے مگر زبانی پڑھ لینا یا کچھ اپنی من گھڑت اور وہ نرے گمان میں ہیں

اسی طرح سورہ جمعہ کی آیت نمبر 2 میں فرمایا:

هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ

وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا کہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں

قرآن کریم میں سورۂ اعراف کے 2 مقامات پر رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’امی ‘‘ کے لقب سے ملقب فرمایا گیا

ایک آیت نمبر 157 میں:

اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ٘

وہ جو غلامی کریں گے اس رسول بے پڑھے غیب کی خبریں دینے والے کی جسے لکھا ہوا پائیں گے اپنے پاس توریت اور انجیل میں

اور دوسرا مقام اسی سے اگلی آیت نمبر 158 میں :

فَآمِنُواْ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُون

تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر جونبی ہیں ، ( کسی سے) پڑھے ہوئے نہیں ہیں ،اللہ اور اس کی تمام باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پالو۔

حدیث پاک میں لفظ ’’امی ‘‘ کا استعمال

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اپنی زبان مبارک سے لفظ امی کے معنیٰ کی وضاحت فرمائی امام بخاری نے حضرت عبداللہ بن عمر سے حدیث نقل فرمائی حضور انور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ارشاد فرمایا:

إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ ، لاَ نَكْتُبُ وَلاَ نَحْسُبُ “ یعنی ہم اہل عرب امی قوم ہیں ہم نہ لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں (بخاری، 1/ 631، حدیث: 1913، دارالکتب العلمیہ بیروت)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ” إِنِّي بُعِثْتُ إِلَى أُمَّةٍ أُمَيَّةٍ “ یعنی مجھے امی قوم کی طرف (نبی بنا کر) بھیجاگیا۔ (صحیح ابن حبان، 3/ 14 حدیث: 739موسسۃ الرسالہ بیروت)

شارحین کا بیان کردہ معنیٰ

ان دونوں احادیث پر امام ابوالسعادات مبارك بن محمد جزری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

آپ علیہ السلام کی مراد یہ تھی کہ ہماری طرح اپنی پہلی جبلت پر ہیں جس پر پیدا ہوئے تھے، اور (اُمّی کا) ایک معنیٰ یہ بھی بیان کیا گیا کہ اُمّی وہ ہوتا ہے جو لکھتا نہ ہو مزید فرماتے ہیں یہاں امی سے اہلِ عرب مراد ہیں کیونکہ ان کے ہاں لکھنے لکھانے کا رواج بہت ہی کم تھا یا بالکل ہی نہیں تھا۔ (النہایۃ فی غریب الاثر، 1/ 69، دارالکتب العلمیہ بیروت)

شیخ امام عبدالرحمٰن جوزی رحمہ اللہ آخری حدیث کے تحت فرماتے ہیں: لفظ امیۃ سے مراد وہ قوم ہے جو لکھنا نہ جانتی ہو (غریب الحدیث لابن جوزی ، 1/ 41، دار الکتب العلمیہ بیروت)

معنیٰ عشق و محبت

لفظ اُمّی کا ایک معنیٰ ہے ”اصل“۔ اس معنیٰ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کائنات کی اصل بنا کر بھیجے گئے، باقی سب تو آپ کی فروعات (یعنی اولاد/امتی /آپ ہی کے دم قدم سے ہے) ہیں ۔

اسی طرح لفظ امام کی اصل بھی یہی مادہ ہے امام کہتے ہیں اس ذات کو جس کی طرف مقتدی جھکیں، جو وہ اشارہ کریں اس کی پابندی کریں غرض ہر معاملے میں وہی رہبر و رہنما ہے ۔

امام عشق و محبت ، امام اہل سنت سیدی امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ اس تخیل کو کیسے خوبصورت انداز میں بصورت شعری فرماتے ہیں:

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں

اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

(حدائقِ بخشش، ص 206، مکتبۃ المدینۃ)

توجہ طلب بات

اب تک کی گفتگو سے اتنا ثابت ہوا کہ امی اسے کہتے ہیں جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو، اس معنی کے عموم کو لے کر ایک غلط فہمی یہ پیدا ہوئی معاذ اللہ رسول مکرم علیہ السلام پوری زندگی ایسے ہی رہے جو کہ سراسر خلافِ واقعہ بات ہے، ان لوگوں کو لفظِ امی کا معنیٰ سمجھنے میں غلطی ہوئی وہ لفظ جسے صفتِ محمودہ کے طور پر قرآنِ کریم نے بیان کیا اس سے لوگ ایک مذموم معنیٰ نکال کر حضور کے لئے ثابت کرتے ہیں، حالانکہ حضور کے امی لقب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کسی سکھانے والے کے سکھائے سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھے یہ معنیٰ نہیں کہ ربِ تعالیٰ نے آپ کو ایسا ہی رہنے دیا بلکہ وہ رب اپنے محبوب کی شان میں فرماتا ہے :

وَ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا (۱۱۳)

اور اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت اُتاری اور تمہیں سکھادیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے (النساء ، آیت:4)

صدرالافاضل مفتی سید محمد نعیم الدین مرادآبادی اس آیت کے تحت خزائن العرفان میں لکھتے ہیں:

اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام کائنات کے علوم عطا فرمائے اور کتاب و حکمت کے اَسرارو حقائق پر مطلع کیا اوریہ مسئلہ قرآن کریم کی بہت آیات اور احادیث کثیرہ سے ثابت ہے۔

وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ(۴۸)

اور اس (نزولِ قرآن) سے پہلے تم کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے یوں ہوتا تو باطل والے ضرور شک لاتے (العنکبوت، آیت:48)

ان آیات سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ پاک نے نزولِ قرآن سے قبل ہی تمام علوم عطا فرمادئے

نزول قرآن سے قبل امی ہونے کی حکمتیں

ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ نزولِ قرآن سے قبل آپ کو صفتِ امِیَّت پر رکھنے میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں ، اب وہ حکمتیں بیان کی جاتی ہیں:

(01)ابھی جو آیت کریمہ گزری اس میں ہی ایک حکمت موجود ہے کہ رسول اللہ اگر آپ لکھتے پڑھتے تو یہود آپ کی ضرور تکذیب کرتے اس لئے کہ ان کی کتب میں آخری نبی کی ایک نشانی اُمی ہونا بیان کی گئی تھی، مگر انہیں شک کا موقع اس لئے نہ مل سکا کہ حضور انور علیہ السلام میں یہ نشانی موجود تھی۔

(02)ایک حکمت یہ تھی کہ رسول اللہ کی رسالت، آپ پر وحی کا نزول اور قرآن پاک کے کلام اللہ ہونے پر کسی کو کوئی اعتراض نہ رہے چونکہ یہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلےسے لکھنا پڑھنا جانتے ہیں تو یہ جسے قرآن اور وحی کہتے ہیں وہ خود ان کا اپنا کلام ہے، آپ کے بڑے بڑے دشمنوں تک نے تکذیبِ وحی کے سلسلے میں یہ اعتراض نہ کیا گویا دل سے وہ بھی مانتے تھے کہ یہ جو قرآن پیش کرتے ہیں وہ واقعی کلام اللہ ہے کسی بشر کا کلام نہیں ہوسکتا۔

ہاں مگر کچھ مستشرقین نے تعصب میں آکر رسول اللہ کے اساتذہ کو ثابت کرنے کی سعی لاحاصل ضرور کی مگر ان کا یہ اعتراض اور ان کی یہ تحقیقات کسی قابل نہیں، جب وہ لوگ کہ جو نبی پاک ﷺکو لوگوں کی نظر میں غلط ثابت کرنے کے لئے کسی بھی قسم کا الزام لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے انہوں نے بھی ایسا کوئی اعتراض ذاتِ گرامی پر نہیں کیا تو صدیوں بعد آنے والے محققین کی تحقیقات کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔

خلاصہ کلام

پورے مضمون کا خلاصہ یہ نکلا کہ رسول اللہ امی تھے مگر اس معنیٰ میں کہ آپ کا کوئی دنیاوی استاد نہ تھا آپ کو تمام علوم آپ کے رب کریم نے عطا فرمائے۔

دوسری بات یہ معلوم ہوئی لقبِ اُمّی میں بہت حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اُمّی ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتِ محمودہ ہے۔

امام اہل السنۃ مجد د المائۃ الحاضرۃ والسابقہ سیدی امام احمد رضا خان قادری رحمہ اللہ کیا خوب فرماتے ہیں:

ایسا اُمّی کس لئے منت کشِ استاد ہو

کیا کفایت اس کو اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمْ نہیں

(حدائق بخشش، ص 106)

از:محمد حسین بشیر حنفی فریدی

ریسرچ اسکالر المدینۃ العلمیۃ (اسلامک ریسرچ سینٹر)


 قیامت اس دن میں اٹھنے کو کہتے ہیں جس دن اللہ تبارک و تعالی مخلوق کو فنا کرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے گا۔

قرآن و احادیث اس پر ناطق بیان ہیں چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے:

وَ هُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ وَ هُوَ اَهْوَنُ عَلَیْهِؕ-

ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہی ہے کہ اوّل بناتا ہے پھر اسے دوبارہ بنائے گا اور یہ تمہاری سمجھ میں اس پرزیادہ آسان ہونا چاہیے ۔(پ 21،الروم 27)

قیامت کا منکر کافر ہے کہ یہ نص قطعی کا انکار کرنا ہے۔ اور جو کچھ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی علامتوں کی خبر دی وہ سب حق ہیں۔

علامت قیامت دو قسم کی ہیں (1) ایک تو وہ ہیں جو جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے لے کر تا ظہور امام مہدی رضی اللہ عنہ آئے گی۔ ان کو علامات صغری کہتے ہیں۔

(2) وہ علامتیں جو بعد ظہور امام مہدی رضی اللہ عنہ سے لے کر تا نفخ صور اول آئیں گے۔ اس کو علامت کبری کہتے ہیں۔

پہلے قسم کے لحاظ سے موجودہ دور میں علامات قیامت کچھ یہ ہیں:۔

*جہل زیادہ ہوگا علماء اٹھ جائیں گے۔

* زنا ،شراب خوری اور مزامیر ( گانے باجوں )کی کثرت ہونا۔

* مرد بیوی کی مانے گا والدین کی نافرمانی کرے گا ۔

* باپ کو دور ڈال دے اور یاروں سے دوستی کر لے۔

* مسجد میں شور گل ،چلانا اور دنیوی باتوں کا ہونا۔

* قبیلے کے سردار کا فاسق ہونا ۔

* موجودہ زمانے والے گزرے ہوئے زمانے والوں پرلعنت کرنا ۔

* حیا و شرم کا اٹھ جانا ۔

* ظلم و ستم اور قتل و غارت کا عام ہونا۔

* جھوٹی احادیث اور بدعات شنیعہ یعنی بری بدعتیں کا شیوع (عام) ہونا۔

* اس طرح مال کی کثرت بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے وہ کہ موجودہ دور میں مال کی کثرت عام ہے۔

خالق لم یزل ہمیں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تبارک و تعالی ہمیں موجودہ دور کے فتنوں اور آزمائشوں سے امان میں رکھیں ۔

یقینا فی زمانہ علماء سے دوری ،والدین کی نافرمانی، گانوں باجو کی شہرت اور مسجدوں کے اندر شور و غل بالکل عام ہو چکا ہے۔ اللہ عزوجل ہمیں مسجدوں کی ادب کرنے اور اس کی خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔


یہ وسیع مضمون ہیں بہار شریعت کے پہلے حصے میں قیامت کی بہت سی نشانیاں لکھی ہوئی ہیں ان میں سے کئی نشانیاں ظاہر ہوگئی ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ عالیہ میں ایک شخص نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کب آئے گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا :تم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ تو اس نے عرض کی: تیاری تو کچھ نہیں کی مگر میں اللہ پاک اور اس کے رسول سے محبت کرتا  ہوں۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا :تم جس سے محبت کرتے ہو اسی کے ساتھ رہو گے۔ حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہمیں کبھی اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی خوشی اس دن ہوئی۔( ترمذی)

قیامت کی نشانیاں معلوم کرنا اور ان کے بارے میں پڑھنا منع نہیں ہے۔ اگر کسی کو قیامت کی نشانی معلومات ہو تو اس سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ تفریح کے طور پر اس کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے۔ میں موجودہ دور میں پائی جانے والی چند نشانیاں عرض کرتا ہوں۔ اللہ پاک ہمیں قیامت کی بھرپور انداز میں تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

موجودہ دور میں پائی جانےقیامت کی پانچ نشانیاں:

(1) علم اٹھا لیا جائے گا اور جہالت بڑھ جائے گی:

علم سے مراد علم دین ہے اور جہل سے مراد علم دین سے غفلت۔ آج یہ علامت شروع ہو چکی ہے۔ دنیاوی علوم بہت ترقی پر ہیں مگر علوم تفسیر، حدیث، فقہ بہت کم رہ گئے ۔علماء اٹھتے جا رہے ہیں ۔ان کے جانشین پیدا نہیں ہوتے۔ مسلمانوں نے علم دین سیکھنا قریبا چھوڑ دیا۔ یہ سب کچھ اس پیشنگوئی کا ظہور ہے۔ جو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا :کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہےکہ ان یرفع العلم و یکثر الجہل یعنی علم اٹھا لیا جائے گا اور جہالت بڑھ جائے گی۔( مسلم ،بخاری)

(2) زنا اور شراب خوری بڑھ جائے گی:

زنا کی زیادتی کے اسباب عورتوں کی بے پردگی، سکولوں، کالجوں، لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم، سینما وغیرہ کی بے حیائی، گانے، ناچنے کی زیادتیاں یہ سب آج موجود ہیں۔ان وجوہ سے زنا بڑھ رہا ہے اور شراب کی بھی کثرت بہت زیادہ ہوگئی ہے۔

(3) علم دین پڑھیں گے مگر دین کے نہیں:

طلباء علم دین پڑھیں گے مگر تبلیغ دین کے لئے نہیں بلکہ دنیا کمانے کے لیے۔ جیسے آج مولوی، عالم فاضل، درس میں فقہ ،تفسیرو حدیث داخل ہے تو امتحان دینے والے یہ کتابیں پڑھ تو لیتے ہیں مگر صرف امتحان میں پاس ہو کر نوکریاں حاصل کرنے کے لئے بعض طلباء صرف وعظ گوئی کے لیے دینی کتابیں پڑھتے ہیں۔

(4) گانے باجے کی کثرت ہوگی:

یہ والی بھی نشانی آج ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ چھوٹا ہو یا بڑا مرد ہو یا عورت۔ اکثر اس برائی میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا موسیقی مسلمانوں کی نس نس میں اترتی چلی جا رہی ہے۔ تقریبا ہر جگہ کوئی موسیقی کی دھنی سنی جاتی ہے۔ ہوٹل ہو یا مکان، دکان ہو یا گودام، کار ہو یا بس، ٹیکسی ہو یا سوزوکی ،ہر جگہ میں مسلمان اس بری آفت کا شکار نظر آتے ہیں۔

(5)زکوٰۃ دینا لوگوں پر گرا ہوگا اور اس کو تاوان سمجھیں گے:

یہ والی بھی قیامت کی نشانی بہت زیادہ ہمارے معاشرے میں عام ہوگئی ہے۔ لوگ ادا کرتے ہی نہیں جو لوگ ادا کرتے ہیں وہ بھی کچھ مکمل نصاب کے مطابق نہیں دیتے۔ امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں کہ اگر لوگ شرعی نصاب کے مطابق زکوۃ ادا کر کرتے تو ہمارے معاشرے سے غربت ختم ہو سکتی ہیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں قیامت آنے سے پہلے اس کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ایمان کی حالت میں اس جہانِ فانی سے اٹھائے۔ آمین


قاعدہ ہے کہ کسی شئے کی  عظمت اس کے ناموں کی کثرت سے ہوتی ہے اور قیامت کے اسماء ابن کثیر نے البنایہ والنہایہ جلد اول میں 8 زائد گنوائے ہیں۔ چند ثابت شدہ اسماء قرآن مجید سے یہ ہے:۔

الساعۃ : اللہ تعالی نے فرمایا بے: اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِیَةٌ لَّا رَیْبَ فِیْهَا

ترجمہ کنزالایمان:بے شک قیامت ضرور آنے والی ہے اس میں کچھ شک نہیں۔

( پ 24،المومن 59)

الصاخۃ: اللہ تعالی نے فرمایا : فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّةُ٘(۳۳)

ترجمہ کنزالایمان:پھر جب آئے گی وہ کان پھاڑنے والی چنگھار۔(پ 30،عبس :33)

قرآن پاک میں ہے: فَقَدْ جَآءَ اَشْرَاطُهَاۚ

ترجمہ کنزالایمان:اس کی علامتیں تو آہی چکی ہیں۔(پ 26،محمد 18)

صراط الجنان میں اس کے تحت لکھا ہے مثلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اور چاند کا دو ٹکڑا ہونا۔

احادیث کی روشنی میں موجودہ دور میں پائی جانے والی قیامت کی نشانیاں:

قیامت کی علامات اور نشانیوں سے ہے اولاد کا غلیظ ہونا اور بارش کی کثرت، شرپسندوں اور شرارتوں کی بھرمار ۔

اس حدیث شریف میں تین نشانیاں بتائی گئی ہیں۔

1۔ اولاد والے جانتے ہیں کہ کوئی خوش قسمت ماں باپ ہوں گے جن کی اولاد والدین کے اشارہ پر ہو ورنہ اکثر کا حال ظاہر ہے کہ کیسے ماں باپ کے دل جلائے جاتے ہیں اور جا رہے ہیں۔

2۔ بارش کی کثرت ہونا ۔یہ گندم کاٹنے کے وقت منظر دیکھیں گے۔

3۔ شرپسندوں اور شرارتوں کی بھرمار ۔یہ بھی ہمارے دورمیں پورے جوبن پرہے جیسے دہشت گردی اور دہشت گردوں کا راج ہے جس سے پوری دنیانالاں و فریاد کناں ہے۔

4۔ قیامت کی نشانی ہے کہ آدمی مسجد میں سے گزرے گا لیکن دو رکعت نہیں پڑھے گا۔ آج کل عموما مسلمان مسجد سے گزرتے ہوئے دو رکعت نفل کے لیے مسجدمیں آنا تو بڑی بات ہے۔ مسجد میں کسی کام کے لیے آتے تو دو رکعت نہیں پڑھتے۔ عوام تو ہیں عوام اور خواص میں سے اکثر اس سعادت مندی سے محروم ہیں۔ (قیامت کی نشانیاں ص 373)