یوں تو کئی ساری قیامت کی ایسی نشانیاں ہیں جو موجودہ دور میں  پائی جاتی ہیں بطور خاص پانچ کا ذکر کیا جاتا ہے۔

قالَ رَسُولُ اللَّهِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: «يَتَقارَبُ الزَّمانُ، ويَنْقُصُ العَمَلُ، ويُلْقى الشُّحُّ، ويَكْثُرُ الهَرْجُ» قالُوا: وما الهَرْجُ؟ قالَ: «القَتْلُ القَتْلُ»

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: زمانہ مختصر ہو جائے گا نیک عمل کی کمی ہوگی بخل پیدا ہوجائے گا اور کثرت سے ھرج ہوگا صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ھرج کا ہے : فرمایا کہ قتل کرنا قتل کرنا ۔

اس حدیث پاک میں قیامت کی چار نشانیاں بیان کی گئی ہیں اگر ہم غور کریں تو پتا چلے گا کہ مذکورہ چاروں نشانیاں موجودہ دور میں پائی جاتی ہیں

1۔۔ زمانے کا جلد گزرنا ،وقت میں برکت نہیں ،بہت تیزی کے ساتھ وقت گزرتا جارہا ہے یہ ایک قیامت کی نشانی ہے

2۔۔ بخل کنجوسی کرنا ایسی بڑی بیماری ہے جس کو قیامت کی نشانی فرمایا گیا اللہ پاک فرماتا ہے:

﴿ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹)﴾ (پ 28الحشر 9)

ترجمہ کنز العرفان : جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی لوگ کامیاب ہیں۔

میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: واتَّقُوا الشُّحَّ؛ فَإنَّ الشُّحَّ أهْلَكَ مَن كانَ قَبْلَكُمْ۔بخل سے بچو کہ بخل نے تم سے پہلے والوں کا ہلاک کردیا ۔

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 4/‏1321 )

3۔۔ قتل کا عام ہونا اب معاشرے میں قتل کتنا عام ہوچکا ہے آئے دن شوشل میڈیا پر خبریں آتی ہیں فلاں کو قتل کردیا گیا تو فلاں کو ماردیا گیا۔ یہ کتنا عظیم گناہ ہے اس کا اندازہ اس آیت سے لگائیں ،اللہ پاک فرماتا ہے:

مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-ترجمہ کنزالایمان:جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔(پ 6،المائدہ 32)

رَسُولَ اللَّهِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم يَقُولُ: «لا تَقُومُ السّاعَةُ أوْ مِن شَرائِطِ السّاعَةِ، أنْ يُرْفَعَ العِلْمُ، ويَكْثُرَ الجَهْلُ، ويُشْرَبَ الخَمْرُ، ويَظْهَرَ الزِّنى، ويَقِلَّ الرِّجالُ، وتَكْثُرَ النِّساءُ، حَتّى يَكُونَ لِخَمْسِينَ امْرَأةً قَيِّمٌ واحِدٌ» (صحيح ابن حبان 15/171، رقم الحدیث:7678)

یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ قیامت قائم نہ ہوگی ،یا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ علم اٹھ جائے گا ، جہالت زیادہ ہوگی، شراب پی جائے گی، زنا کی کثرت ہوگی ، مرد کم ہوں گے عورتیں زیادہ ہوں گی حتی کی پچاس عورتوں کا ایک نگران ہوگا۔

4۔۔ شراب کا عام ہونا :اب تو شراب ایسی عام ہو گئی ہے کہ ان کو غلط بھی سمجھا نہیں جارہا ہے شراب پینا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جو دنیا میں شراب پیئے گا وہ جنت کی پاکیزہ شراب سے محروم رہے گا ۔(صحيح البخاري 7/104)

5۔۔ زنا کی کثرت بےحیائی عام ہوگی عورتوں نے پردہ ختم کردیا عورت مرد کے شانہ بشانہ چلنے میں اپنا وقار سمجھنے لگیں عورتوں نے یہ نعرہ لگایا کہ میرا جسم میری مرضی، زنا گاہ آباد ہوگئے، مختلف ناموں سے زنا کی کثرت ہونے لگی۔ کہیں مساج سینٹر کے نام سے تو کہیں گلفرنڈ بوائےفرینڈ کے نام پر دوستی کا بہانہ بناکر زنا کیا جارہا ہے۔

نبی کریم صَلَّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لا يَزْنِي الزّانِي حِينَ يَزْنِي وهُوَ مُؤْمِنٌ

زانی زنا کرتے وقت مومن نہیں رہتا ۔(سنن ابن ماجہ 2/‏1298 )

اللہ پاک ہم سب کو تمام گناہوں سے محفوظ فرمائے اور حسنِ خاتمہ عطا فرمائے ۔

اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم

اللہ پاک کے‌محبوب دانائے غیوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وقتاً فوقتاً اپنے اصحاب کو قبلِ قیامت وقوع پذیر ہونے‌والی نشانیوں کے متعلق خبر دی۔ جن میں سے بیشتر کا ظہور ہو چکا اور کچھ اس زمانے‌ میں ظاہر ہیں‌ اور کچھ کا ظاہر ہونا‌باقی ہے۔  جو قیامت کی نشانیاں اس دور میں ظاہر ہیں ان میں سے‌پانچ کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔

(1)علم اٹھ جائےگا اور جہالت پھیل جاے گی:نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے‌‌فرمایا:قیامت کی نشانیوں میں سے علم کا اٹھ جانا اور جہالت کی کثرت ہونا ہے۔(بخاری،3/472،حدیث:5231)

علم سے مراد علمِ دین‌، جہل‌ سے مراد اس‌ سے‌ غفلت ہے۔

(مراٰة المناجیح،7/254،ملتقطاً)

علم‌ کے‌اٹھنے کا ذریعہ یہ نہ ہوگا کہ لوگ پڑھا ہوا بھول‌ جائیں گے بلکہ علماء وفات پاتے رہیں گے اور بعد میں ان‌کے جانشین پیدا نہ ہوں گے۔ جیسا کہ اس‌ دور میں ہو رہا ہے علماء ربانی‌اس دنیا سے رخصت ہو رہے‌ ہیں‌ اور ان کے بعد ویسے علماء پیدا‌ نہیں ہورہے ہیں۔ ایسے علماء کی کمیابی ہی کی وجہ سے پورے عالم میں جہالت کی کثرت ہو رہی ہے۔ لوگ دنیاوی علوم‌ و فنون‌کے لئے اپنا مال اپنا وقت اور اپنی پوری قوت لگا رہے‌ ہیں مگر علمِ دین سے مکمل طور پر دوری اختیار کئے ہوئے ہیں۔ دنیاوی علوم بہت ترقی پر ہیں مگر علمِ حدیث، تفسیر، فقہ بہت کم‌ہو رہے ہیں۔

(2)وقت میں برکت نہ ہوگی: سال‌ مہینے کی طرح، مہینا ہفتے کی طرح، ہفتہ دن کی طرح اور دن ایسے ہو جائے گا جیسے کسی چیز کو آگ لگ گئی اور جلد بھڑک کر ختم ہو گئی۔

(بہار شریعت حصہ 1/118ملخصاً)

یعنی اس‌ زمانے میں عیش و‌ آرام بہت زیادہ ہوگا اور عیش و آرام کا

وقت محسوس نہیں ہوتا۔(مراٰةالمناجیح،7/260)اِس‌ زمانے میں بھی لوگوں کے وقت میں برکت نہیں‌ رہی ہے۔ اتنی ساری جدید ٹیکنالوجی اور جدید آلات کا روز مرہ کی زندگی میں استعمال کے باوجود لوگوں کے کام وقت پر مکمل نہیں ہو پا رہے۔جس شخص کو دیکھئے وہ ”وقت نہیں ہے“ کا وِرد اپنی زبان پر جاری رکھے ہو ئے ہے۔

(3)علمِ دین پڑھیں گے مگر دین کے لئے نہیں۔(ترمذی،4/90،حدیث:2218)

یعنی دینی علوم صرف دنیا کمانے کیلئے حاصل کریں گے۔ یہ نشانی بھی اس دور میں ظاہر ہے۔ اب تحصیلِ علومِ دین کو محض ذریعہ آمدنی بنا لیا ‌گیا ہے۔ علم ِدین کے ذریعے تبلیغِ دین،اشاعتِ دین، خدمتِ دین کے بجائے ایک طبقہ اس‌سے مال ودولت اور جاہ و حشمت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھنے لگا ہے۔ بعض طلبہ صرف وعظ گوئی کیلئے کتابیں پڑھتے ہیں۔

(4) لوگ مسجدوں میں دنیا کی باتیں کریں گے۔

(شعب الایمان،3/87،حدیث:2962)

جیسا کہ آج‌ دیکھا جا رہا ہے لوگوں نے مساجد کو دنیوی اجلاس کا مقام بنا لیا ہے۔مساجد میں اپنے ذاتی،کاروباری مسائل پر بھی گفتگو کرنے سے گریز نہیں کرتے بلکہ اب تو مساجد میں بیٹھ کر موبائل‌ کے ذریعے کئی طرح کے معاملات انجام دے رہے ہوتے ہیں۔

(5) گانے باجے کی کثرت ہوگی۔ (بہار شریعت،1/119)

یہ نشانی بھی آج‌ بالکل ظاہر ہے۔ گھر، بازار، ہوٹل، گاڑی، بس‌، ریل، ہوائی جہاز، الغرض‌اب کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں گانے باجے اور موسیقی عام نہ ہو۔ بازاروں اور‌ موسیقی کے اڈے‌ تو اپنی‌ جگہ اب تو مساجد میں بھی نمازیوں کے موبائل سے موسیقی اور گانے باجے کی آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں۔


عرب میں  ایک چیز یا شخصیت کے متعدد نام رکھنے کا رواج ہے ا ن کے یہاں یہ بات معروف ہے کہ جس ذات کے جتنے کثیر اسماء ہوں گے وہ اتنی ہی زیادہ معظم و مکرم ہے ، ان زائد اسماء کو لقب یا صفت کہا جاتا ہے، اللہ پاک کا ذاتی نام ”اللہ“ ہے مگر صفاتی نام بہت ہیں۔ پاک و ہند میں اللہ پاک کے 99 نام معروف ہیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےذاتی نام ”محمد و احمد“ ہیں جبکہ صفاتی نام کثیر ہیں۔ ان موضوعات پر علمائے اسلام نے کئی کتب و رسائل لکھے ہیں جن میں اسمائے صفاتیہ کی وجوہات و حکمتوں پر کلام کیا گیا ہے۔ زیر نظر مضمون میں بھی ہم رسول اللہ ﷺکے ایک ایسے ہی اسم صفت کے معانی اور اس میں موجود حکمت کے بارے میں پڑھے گئے۔

لفظ ’’اُمّی ‘‘ کا لغوی معنی:

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمائے صفاتیہ میں سے ایک صفت ”اُمّی“ بھی ہے ۔

چونکہ یہ ایک عربی لفظ ہے اس لئے سب سے پہلے لغت عرب سے اس کا معنی دیکھتے ہیں :

اُمّی ، اُم سے نکلا ہے اس کا ایک معنیٰ ہے اصل ،

اُمّی کا ایک معنیٰ ہے جو اپنی جبلتِ اولیٰ پر ہو یعنی جیسا پیدا ہوا ویسا ہی رہے یعنی لکھنے پڑھنے والا نہ ہو،

اُمّی کا ایک معنیٰ ام القریٰ جو کہ مکہ معظمہ ہی کا ایک نام ہے ۔

اُمّی کا ایک معنیٰ ہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو ۔ (قاموس، تاج العروس و صحاح وغیرہم)

قرآن کریم میں لفظ ’’امی ‘‘ کا استعمال

قرآن کریم میں بھی لفظ اُمی مختلف مقامات پر حسب حال مختلف معانی میں مستعمل ہے مثلاً:

سورہ بقرہ آیت نمبر 78 میں ارشاد ہوا: وَ مِنْهُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ

اور ان میں کچھ اَن پڑھ ہیں کہ جو کتاب کو نہیں جانتے مگر زبانی پڑھ لینا یا کچھ اپنی من گھڑت اور وہ نرے گمان میں ہیں

اسی طرح سورہ جمعہ کی آیت نمبر 2 میں فرمایا:

هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ

وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا کہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں

قرآن کریم میں سورۂ اعراف کے 2 مقامات پر رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’امی ‘‘ کے لقب سے ملقب فرمایا گیا

ایک آیت نمبر 157 میں:

اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ٘

وہ جو غلامی کریں گے اس رسول بے پڑھے غیب کی خبریں دینے والے کی جسے لکھا ہوا پائیں گے اپنے پاس توریت اور انجیل میں

اور دوسرا مقام اسی سے اگلی آیت نمبر 158 میں :

فَآمِنُواْ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُون

تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر جونبی ہیں ، ( کسی سے) پڑھے ہوئے نہیں ہیں ،اللہ اور اس کی تمام باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پالو۔

حدیث پاک میں لفظ ’’امی ‘‘ کا استعمال

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اپنی زبان مبارک سے لفظ امی کے معنیٰ کی وضاحت فرمائی امام بخاری نے حضرت عبداللہ بن عمر سے حدیث نقل فرمائی حضور انور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ارشاد فرمایا:

إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ ، لاَ نَكْتُبُ وَلاَ نَحْسُبُ “ یعنی ہم اہل عرب امی قوم ہیں ہم نہ لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں (بخاری، 1/ 631، حدیث: 1913، دارالکتب العلمیہ بیروت)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ” إِنِّي بُعِثْتُ إِلَى أُمَّةٍ أُمَيَّةٍ “ یعنی مجھے امی قوم کی طرف (نبی بنا کر) بھیجاگیا۔ (صحیح ابن حبان، 3/ 14 حدیث: 739موسسۃ الرسالہ بیروت)

شارحین کا بیان کردہ معنیٰ

ان دونوں احادیث پر امام ابوالسعادات مبارك بن محمد جزری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

آپ علیہ السلام کی مراد یہ تھی کہ ہماری طرح اپنی پہلی جبلت پر ہیں جس پر پیدا ہوئے تھے، اور (اُمّی کا) ایک معنیٰ یہ بھی بیان کیا گیا کہ اُمّی وہ ہوتا ہے جو لکھتا نہ ہو مزید فرماتے ہیں یہاں امی سے اہلِ عرب مراد ہیں کیونکہ ان کے ہاں لکھنے لکھانے کا رواج بہت ہی کم تھا یا بالکل ہی نہیں تھا۔ (النہایۃ فی غریب الاثر، 1/ 69، دارالکتب العلمیہ بیروت)

شیخ امام عبدالرحمٰن جوزی رحمہ اللہ آخری حدیث کے تحت فرماتے ہیں: لفظ امیۃ سے مراد وہ قوم ہے جو لکھنا نہ جانتی ہو (غریب الحدیث لابن جوزی ، 1/ 41، دار الکتب العلمیہ بیروت)

معنیٰ عشق و محبت

لفظ اُمّی کا ایک معنیٰ ہے ”اصل“۔ اس معنیٰ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کائنات کی اصل بنا کر بھیجے گئے، باقی سب تو آپ کی فروعات (یعنی اولاد/امتی /آپ ہی کے دم قدم سے ہے) ہیں ۔

اسی طرح لفظ امام کی اصل بھی یہی مادہ ہے امام کہتے ہیں اس ذات کو جس کی طرف مقتدی جھکیں، جو وہ اشارہ کریں اس کی پابندی کریں غرض ہر معاملے میں وہی رہبر و رہنما ہے ۔

امام عشق و محبت ، امام اہل سنت سیدی امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ اس تخیل کو کیسے خوبصورت انداز میں بصورت شعری فرماتے ہیں:

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں

اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

(حدائقِ بخشش، ص 206، مکتبۃ المدینۃ)

توجہ طلب بات

اب تک کی گفتگو سے اتنا ثابت ہوا کہ امی اسے کہتے ہیں جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو، اس معنی کے عموم کو لے کر ایک غلط فہمی یہ پیدا ہوئی معاذ اللہ رسول مکرم علیہ السلام پوری زندگی ایسے ہی رہے جو کہ سراسر خلافِ واقعہ بات ہے، ان لوگوں کو لفظِ امی کا معنیٰ سمجھنے میں غلطی ہوئی وہ لفظ جسے صفتِ محمودہ کے طور پر قرآنِ کریم نے بیان کیا اس سے لوگ ایک مذموم معنیٰ نکال کر حضور کے لئے ثابت کرتے ہیں، حالانکہ حضور کے امی لقب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کسی سکھانے والے کے سکھائے سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھے یہ معنیٰ نہیں کہ ربِ تعالیٰ نے آپ کو ایسا ہی رہنے دیا بلکہ وہ رب اپنے محبوب کی شان میں فرماتا ہے :

وَ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا (۱۱۳)

اور اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت اُتاری اور تمہیں سکھادیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے (النساء ، آیت:4)

صدرالافاضل مفتی سید محمد نعیم الدین مرادآبادی اس آیت کے تحت خزائن العرفان میں لکھتے ہیں:

اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام کائنات کے علوم عطا فرمائے اور کتاب و حکمت کے اَسرارو حقائق پر مطلع کیا اوریہ مسئلہ قرآن کریم کی بہت آیات اور احادیث کثیرہ سے ثابت ہے۔

وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ(۴۸)

اور اس (نزولِ قرآن) سے پہلے تم کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے یوں ہوتا تو باطل والے ضرور شک لاتے (العنکبوت، آیت:48)

ان آیات سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ پاک نے نزولِ قرآن سے قبل ہی تمام علوم عطا فرمادئے

نزول قرآن سے قبل امی ہونے کی حکمتیں

ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ نزولِ قرآن سے قبل آپ کو صفتِ امِیَّت پر رکھنے میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں ، اب وہ حکمتیں بیان کی جاتی ہیں:

(01)ابھی جو آیت کریمہ گزری اس میں ہی ایک حکمت موجود ہے کہ رسول اللہ اگر آپ لکھتے پڑھتے تو یہود آپ کی ضرور تکذیب کرتے اس لئے کہ ان کی کتب میں آخری نبی کی ایک نشانی اُمی ہونا بیان کی گئی تھی، مگر انہیں شک کا موقع اس لئے نہ مل سکا کہ حضور انور علیہ السلام میں یہ نشانی موجود تھی۔

(02)ایک حکمت یہ تھی کہ رسول اللہ کی رسالت، آپ پر وحی کا نزول اور قرآن پاک کے کلام اللہ ہونے پر کسی کو کوئی اعتراض نہ رہے چونکہ یہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلےسے لکھنا پڑھنا جانتے ہیں تو یہ جسے قرآن اور وحی کہتے ہیں وہ خود ان کا اپنا کلام ہے، آپ کے بڑے بڑے دشمنوں تک نے تکذیبِ وحی کے سلسلے میں یہ اعتراض نہ کیا گویا دل سے وہ بھی مانتے تھے کہ یہ جو قرآن پیش کرتے ہیں وہ واقعی کلام اللہ ہے کسی بشر کا کلام نہیں ہوسکتا۔

ہاں مگر کچھ مستشرقین نے تعصب میں آکر رسول اللہ کے اساتذہ کو ثابت کرنے کی سعی لاحاصل ضرور کی مگر ان کا یہ اعتراض اور ان کی یہ تحقیقات کسی قابل نہیں، جب وہ لوگ کہ جو نبی پاک ﷺکو لوگوں کی نظر میں غلط ثابت کرنے کے لئے کسی بھی قسم کا الزام لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے انہوں نے بھی ایسا کوئی اعتراض ذاتِ گرامی پر نہیں کیا تو صدیوں بعد آنے والے محققین کی تحقیقات کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔

خلاصہ کلام

پورے مضمون کا خلاصہ یہ نکلا کہ رسول اللہ امی تھے مگر اس معنیٰ میں کہ آپ کا کوئی دنیاوی استاد نہ تھا آپ کو تمام علوم آپ کے رب کریم نے عطا فرمائے۔

دوسری بات یہ معلوم ہوئی لقبِ اُمّی میں بہت حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اُمّی ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتِ محمودہ ہے۔

امام اہل السنۃ مجد د المائۃ الحاضرۃ والسابقہ سیدی امام احمد رضا خان قادری رحمہ اللہ کیا خوب فرماتے ہیں:

ایسا اُمّی کس لئے منت کشِ استاد ہو

کیا کفایت اس کو اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمْ نہیں

(حدائق بخشش، ص 106)

از:محمد حسین بشیر حنفی فریدی

ریسرچ اسکالر المدینۃ العلمیۃ (اسلامک ریسرچ سینٹر)


 قیامت اس دن میں اٹھنے کو کہتے ہیں جس دن اللہ تبارک و تعالی مخلوق کو فنا کرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے گا۔

قرآن و احادیث اس پر ناطق بیان ہیں چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے:

وَ هُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ وَ هُوَ اَهْوَنُ عَلَیْهِؕ-

ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہی ہے کہ اوّل بناتا ہے پھر اسے دوبارہ بنائے گا اور یہ تمہاری سمجھ میں اس پرزیادہ آسان ہونا چاہیے ۔(پ 21،الروم 27)

قیامت کا منکر کافر ہے کہ یہ نص قطعی کا انکار کرنا ہے۔ اور جو کچھ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی علامتوں کی خبر دی وہ سب حق ہیں۔

علامت قیامت دو قسم کی ہیں (1) ایک تو وہ ہیں جو جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے لے کر تا ظہور امام مہدی رضی اللہ عنہ آئے گی۔ ان کو علامات صغری کہتے ہیں۔

(2) وہ علامتیں جو بعد ظہور امام مہدی رضی اللہ عنہ سے لے کر تا نفخ صور اول آئیں گے۔ اس کو علامت کبری کہتے ہیں۔

پہلے قسم کے لحاظ سے موجودہ دور میں علامات قیامت کچھ یہ ہیں:۔

*جہل زیادہ ہوگا علماء اٹھ جائیں گے۔

* زنا ،شراب خوری اور مزامیر ( گانے باجوں )کی کثرت ہونا۔

* مرد بیوی کی مانے گا والدین کی نافرمانی کرے گا ۔

* باپ کو دور ڈال دے اور یاروں سے دوستی کر لے۔

* مسجد میں شور گل ،چلانا اور دنیوی باتوں کا ہونا۔

* قبیلے کے سردار کا فاسق ہونا ۔

* موجودہ زمانے والے گزرے ہوئے زمانے والوں پرلعنت کرنا ۔

* حیا و شرم کا اٹھ جانا ۔

* ظلم و ستم اور قتل و غارت کا عام ہونا۔

* جھوٹی احادیث اور بدعات شنیعہ یعنی بری بدعتیں کا شیوع (عام) ہونا۔

* اس طرح مال کی کثرت بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے وہ کہ موجودہ دور میں مال کی کثرت عام ہے۔

خالق لم یزل ہمیں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تبارک و تعالی ہمیں موجودہ دور کے فتنوں اور آزمائشوں سے امان میں رکھیں ۔

یقینا فی زمانہ علماء سے دوری ،والدین کی نافرمانی، گانوں باجو کی شہرت اور مسجدوں کے اندر شور و غل بالکل عام ہو چکا ہے۔ اللہ عزوجل ہمیں مسجدوں کی ادب کرنے اور اس کی خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔


یہ وسیع مضمون ہیں بہار شریعت کے پہلے حصے میں قیامت کی بہت سی نشانیاں لکھی ہوئی ہیں ان میں سے کئی نشانیاں ظاہر ہوگئی ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ عالیہ میں ایک شخص نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کب آئے گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا :تم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ تو اس نے عرض کی: تیاری تو کچھ نہیں کی مگر میں اللہ پاک اور اس کے رسول سے محبت کرتا  ہوں۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا :تم جس سے محبت کرتے ہو اسی کے ساتھ رہو گے۔ حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہمیں کبھی اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی خوشی اس دن ہوئی۔( ترمذی)

قیامت کی نشانیاں معلوم کرنا اور ان کے بارے میں پڑھنا منع نہیں ہے۔ اگر کسی کو قیامت کی نشانی معلومات ہو تو اس سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ تفریح کے طور پر اس کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے۔ میں موجودہ دور میں پائی جانے والی چند نشانیاں عرض کرتا ہوں۔ اللہ پاک ہمیں قیامت کی بھرپور انداز میں تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

موجودہ دور میں پائی جانےقیامت کی پانچ نشانیاں:

(1) علم اٹھا لیا جائے گا اور جہالت بڑھ جائے گی:

علم سے مراد علم دین ہے اور جہل سے مراد علم دین سے غفلت۔ آج یہ علامت شروع ہو چکی ہے۔ دنیاوی علوم بہت ترقی پر ہیں مگر علوم تفسیر، حدیث، فقہ بہت کم رہ گئے ۔علماء اٹھتے جا رہے ہیں ۔ان کے جانشین پیدا نہیں ہوتے۔ مسلمانوں نے علم دین سیکھنا قریبا چھوڑ دیا۔ یہ سب کچھ اس پیشنگوئی کا ظہور ہے۔ جو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا :کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہےکہ ان یرفع العلم و یکثر الجہل یعنی علم اٹھا لیا جائے گا اور جہالت بڑھ جائے گی۔( مسلم ،بخاری)

(2) زنا اور شراب خوری بڑھ جائے گی:

زنا کی زیادتی کے اسباب عورتوں کی بے پردگی، سکولوں، کالجوں، لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم، سینما وغیرہ کی بے حیائی، گانے، ناچنے کی زیادتیاں یہ سب آج موجود ہیں۔ان وجوہ سے زنا بڑھ رہا ہے اور شراب کی بھی کثرت بہت زیادہ ہوگئی ہے۔

(3) علم دین پڑھیں گے مگر دین کے نہیں:

طلباء علم دین پڑھیں گے مگر تبلیغ دین کے لئے نہیں بلکہ دنیا کمانے کے لیے۔ جیسے آج مولوی، عالم فاضل، درس میں فقہ ،تفسیرو حدیث داخل ہے تو امتحان دینے والے یہ کتابیں پڑھ تو لیتے ہیں مگر صرف امتحان میں پاس ہو کر نوکریاں حاصل کرنے کے لئے بعض طلباء صرف وعظ گوئی کے لیے دینی کتابیں پڑھتے ہیں۔

(4) گانے باجے کی کثرت ہوگی:

یہ والی بھی نشانی آج ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ چھوٹا ہو یا بڑا مرد ہو یا عورت۔ اکثر اس برائی میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا موسیقی مسلمانوں کی نس نس میں اترتی چلی جا رہی ہے۔ تقریبا ہر جگہ کوئی موسیقی کی دھنی سنی جاتی ہے۔ ہوٹل ہو یا مکان، دکان ہو یا گودام، کار ہو یا بس، ٹیکسی ہو یا سوزوکی ،ہر جگہ میں مسلمان اس بری آفت کا شکار نظر آتے ہیں۔

(5)زکوٰۃ دینا لوگوں پر گرا ہوگا اور اس کو تاوان سمجھیں گے:

یہ والی بھی قیامت کی نشانی بہت زیادہ ہمارے معاشرے میں عام ہوگئی ہے۔ لوگ ادا کرتے ہی نہیں جو لوگ ادا کرتے ہیں وہ بھی کچھ مکمل نصاب کے مطابق نہیں دیتے۔ امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں کہ اگر لوگ شرعی نصاب کے مطابق زکوۃ ادا کر کرتے تو ہمارے معاشرے سے غربت ختم ہو سکتی ہیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں قیامت آنے سے پہلے اس کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ایمان کی حالت میں اس جہانِ فانی سے اٹھائے۔ آمین


قاعدہ ہے کہ کسی شئے کی  عظمت اس کے ناموں کی کثرت سے ہوتی ہے اور قیامت کے اسماء ابن کثیر نے البنایہ والنہایہ جلد اول میں 8 زائد گنوائے ہیں۔ چند ثابت شدہ اسماء قرآن مجید سے یہ ہے:۔

الساعۃ : اللہ تعالی نے فرمایا بے: اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِیَةٌ لَّا رَیْبَ فِیْهَا

ترجمہ کنزالایمان:بے شک قیامت ضرور آنے والی ہے اس میں کچھ شک نہیں۔

( پ 24،المومن 59)

الصاخۃ: اللہ تعالی نے فرمایا : فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّةُ٘(۳۳)

ترجمہ کنزالایمان:پھر جب آئے گی وہ کان پھاڑنے والی چنگھار۔(پ 30،عبس :33)

قرآن پاک میں ہے: فَقَدْ جَآءَ اَشْرَاطُهَاۚ

ترجمہ کنزالایمان:اس کی علامتیں تو آہی چکی ہیں۔(پ 26،محمد 18)

صراط الجنان میں اس کے تحت لکھا ہے مثلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اور چاند کا دو ٹکڑا ہونا۔

احادیث کی روشنی میں موجودہ دور میں پائی جانے والی قیامت کی نشانیاں:

قیامت کی علامات اور نشانیوں سے ہے اولاد کا غلیظ ہونا اور بارش کی کثرت، شرپسندوں اور شرارتوں کی بھرمار ۔

اس حدیث شریف میں تین نشانیاں بتائی گئی ہیں۔

1۔ اولاد والے جانتے ہیں کہ کوئی خوش قسمت ماں باپ ہوں گے جن کی اولاد والدین کے اشارہ پر ہو ورنہ اکثر کا حال ظاہر ہے کہ کیسے ماں باپ کے دل جلائے جاتے ہیں اور جا رہے ہیں۔

2۔ بارش کی کثرت ہونا ۔یہ گندم کاٹنے کے وقت منظر دیکھیں گے۔

3۔ شرپسندوں اور شرارتوں کی بھرمار ۔یہ بھی ہمارے دورمیں پورے جوبن پرہے جیسے دہشت گردی اور دہشت گردوں کا راج ہے جس سے پوری دنیانالاں و فریاد کناں ہے۔

4۔ قیامت کی نشانی ہے کہ آدمی مسجد میں سے گزرے گا لیکن دو رکعت نہیں پڑھے گا۔ آج کل عموما مسلمان مسجد سے گزرتے ہوئے دو رکعت نفل کے لیے مسجدمیں آنا تو بڑی بات ہے۔ مسجد میں کسی کام کے لیے آتے تو دو رکعت نہیں پڑھتے۔ عوام تو ہیں عوام اور خواص میں سے اکثر اس سعادت مندی سے محروم ہیں۔ (قیامت کی نشانیاں ص 373)


 قیامت کی نشانیوں سے کیا مراد ہے؟

اس سے مراد دنیا کے فنا ہونے سے پہلے ظاہر ہونے والی چھوٹی،بڑی نشانیاں ہیں، جن میں سے بعض ظاہر ہو چکی ہیں اور کچھ باقی ہیں۔ (بہار شریعت ۔1/116)

جیسا کہ علاوہ بڑے دجال کے تیس دجال ہوں گے جو سب نبی ہونے کا دعوی کریں گے ۔حالانکہ نبوت ختم ہو چکی ہے۔ ہمارے پیارے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ ان دجالوں میں سے بہت سے گزر چکے ہیں۔ جیسے مسیلمہ کذّاب، مرزا علی حسین بہاء اللہ، مرزا غلام احمد قادیانی وغیرہ اور جو باقی ہیں وہ ضرور ہوں گے۔

( ماخوذ از قانون شریعت ص 51)

اب ہم بات کریں گے موجودہ دور میں پائی جانے والی قیامت کی نشانیاں:۔

نمبر 1۔ زکوٰۃ دینا لوگوں پر گرا ں ہوگا ،اس کو تاوان سمجھیں گے۔

(بہار شریعت، 1/119)

نمبر 2۔ علم دین پڑھیں گے مگر دین کے لیے نہیں۔(بہار شریعت، 1/119)

نمبر 3۔ اپنے احباب سے میل جول رکھے گا اور ماں باپ سے جدائی۔

(بہار شریعت، 1/119)

نمبر 4 ۔ وقت میں برکت نہ ہوگی یہاں تک کہ سال مثل مہینے کے مہینہ مثل ہفتہ کے اور ہفتہ مثل دن کے اور دن ایسا ہوگا جیسے کسی چیز کو آگ لگی اور جلد بھڑک کے ختم ہوگئی یعنی بہت جلد وقت گزرے گا۔(بہار شریعت، 1/118)(سنن الترمذی 4/115،حدیث:2267)

نمبر 5۔ گانے باجے کی کثرت ہوگی۔(بہار شریعت، 1/119)

اگر بیٹا کسی اونچی پوسٹ پہ چلا جائے اگر پوسٹ پر نہ بھی جائے۔ گھر سے باہر دوست احباب میں ہنس ہنس کر بات کریں گے۔ گھر آیا تو باپ یا ماں نے کچھ سمجھا دیا تو اس طرح ٹوٹ پڑیں گے کہ ماں باپ ان کے بہت بڑے دشمن ہیں۔

دنوں میں برکت نہیں سال کا تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ پچھلے دنوں میں 2020 ءآیا پھر 21 ء اب 2022 ءآنے والا ہے۔پتہ ہی نہ چلا اس طرح دو سال گزر گئے ۔

گانے باجے کثرت آج کل شادی بیاہ میں گانا باجا بچایا جاتا ہے اور کسی بھی فنکشن میں ماں باپ نے یا کسی بھی مفتی صاحب نے کہا کہ ڈھول نہ بجایا جائے تو آگے سے جواب آتا ہے :او جی خوشی کے موقع پہ سب چلتا ہے۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ قیامت کتنی قریب ہوتی جا رہی ہے اور کیا کیا رونما ہوتا جا رہا ہے۔ احادیث نبوی کی روشنی یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی علم غیب پر بھی دلالت کرتا ہے کہ حضور نے جو ارشاد فرمایا وہ ہوتا جا رہا ہے۔ بس اللہ ہمیں آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین


مسلمانوں کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدہ قیامت کا قائم ہونا ہے۔ یہ عقیدہ ضروریات دین میں سے ہیں جو اس کا منکر ہوگا وہ کافر ہو جائے گا۔ اس پر ایمان لانے کا حکم قرآن پاک میں ہے۔

" بلکہ اصل نیکی وہ ہے جو ایمان لائے اللہ پر اور آخرت کے دین پر" ۔

(پ2،سورہ بقرہ:177)

کفار قیامت کے قائم ہونے کا انکار کرتے ہیں اور اس کےقائم ہونے کا سوال کرتے ہیں۔

"آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کے قائم ہونے کا وقت کب ہے؟ تم فرماؤ :اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے۔(پ 9،اعراف:187)

صحیح وقت تو نہیں بتایا مگر اس کے قائم ہونے سے پہلے چند نشانیاں ظاہر ہوگی ان میں سے چند نشانیاں ایسی ہیں جو موجودہ میں پائی جاتی ہیں۔

(1) ۔ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ دین پر صبر کرنے والا والے کا حال ایسے ہوگا جیسے انگارہ ہاتھ میں رکھے نے والے کا۔(رواہ الترمذی عن انس)

اگر گراتا ہے تو دین جاتا ہے اگر رکھتا ہے تو ہاتھ جلتا ہے۔یعنی دینی امور میں موافقت و معاونت کرنے والا نہ ملے گا تنہا دین کے لیے کو شاں ہوگا۔

(2)۔ قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ لوگ مساجد کے بارے میں فخر کریں گے۔

(رواہ احمد عن انس)

ہمارے دور میں شہروں اور دیہاتوں میں مساجد کا تعمیراتی کام زوروں پر ہے اور اکثر کا حال بھی ظاہر ہے کہ اپنی اپنی مسجد کی تعمیر پر فخر کرتے نہیں تھکتے۔

(3)۔ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ بری بات کرنا ،بدکلامی کرنا ،قطع رحمی، امین کا خیانتی ہونا اور خیانتی کا امانت دار ہونا۔(رواہ الطبرانی عن انس)

بری بات کرنا اور بدکلامی میں کون سی کمی رہ گئی اور قطع رحمی کا یہ حال ہے کہ اقارب کالعقارب یعنی رشتہ دار بچھو بنے ہوئے ہیں ۔آپس میں بیاہ ونکاح کرنا دشمنی خرید کرنا ہے۔وغیرہ وغیرہ

(4)۔ بارش کی کثرت ،کھیتوں کی کمی،قراء (علماء و حفاظ) کی بہتات، قلت فقہاء،کثرت امراء اور امانت داروں کی کمی ۔(رواہ الطبرانی عن عبد الرحمٰن بن عمر)

اللہ ہمیں آخرت کی فکر اور اس کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


عام دستور ہے کہ ہر اہم شے کے آنے سے پہلے اس کی نشانیاں ظاہر ہوتی ہے۔ مثلاً بارش سے پہلے کالے بادلوں کا چھا جانا،بڑھاپے سے پہلے بالوں کی سفیدی اعضاء کی کمزوری وغیرہ۔ ٹھیک اسی طرح قیامت جیسی عظیم شے کے قائم ہونے کیلئے بھی بہت سی نشانیاں ہیں۔ بعض نشانیاں "علامات صغریٰ" کہلاتی ہیں اور بعض "علامات کبریٰ"۔

فی زمانہ پائی جانے والی کثیر نشانیوں میں سے پانچ (5) علامات و نشانیاں ملاحظہ ہوں:

1: شرابوں کا نام بدل کر پیا جانا:

ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے اور اس کا نام کچھ دوسرا رکھ لیں گے۔

مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:

یعنی آخری زمانہ میں لوگ شراب کے نام بدل دیں گے اور اسے حلال سمجھ کر پئیں گے حالانکہ وہ نشہ والی ہوگی۔ (مراۃ المناجيح ج 6 ص 139)

2:ذلیل لوگوں کا باعزت ہونا:

ایک طویل حدیث میں یہ بھی ہے: اور تم ننگے پاؤں ننگے بدن والے فقیروں،بکریوں کے چرواہوں کو (بڑے بڑے) محلوں میں فخر کرتے دیکھو گے(صحیح مسلم حدیث 93)

3:جہالت عام ہونا:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا اور جہالت بڑھ جائے گی۔(صحیح البخاري ، کتاب النکاح، باب:يقل الرجال ویکثر النساء، الحدیث :5231 ،ج 3 ،ص472 ،ملتقطاً)

4: دين پر چلنا دشوار ہونا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ان میں اپنے دین پر صبر کرنے والا آدمی ایسا ہو گا جیسے ہاتھ میں انگارہ پکڑنے والا“۔

(سنن الترمذي، کتاب الفتن، الحدیث : 2267 ، ج 4، ص 115)

5:وقت میں ہے برکتی ہونا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: قیامت قائم نہ ہوگی حتی کہ زمانہ جلد گزرنے لگے گا تو ایک سال ایک مہینہ کی طرح ہوگا اور مہینہ ہفتہ کی طرح اور ہفتہ ایک دن کی طرح اور دن ایک گھڑی کی طرح ہوگا اور گھڑی آگ سلگانےکی طرح“۔(جیسے کسی چیز کو آگ لگی اور جلد بھڑک کر ختم ہوگئی )(سنن الترمذي، کتاب الفتن، الحدیث: 2339 ، ج 4 ، ص 149)

اللہ تعالیٰ ہمارے حال و زار پر رحم فرمائے۔آمین 


بے شک زمین و آسمان اور جن و انس سب ایک دن فنا ہونے والے ہیں ۔صرف اللہ کے لئے ہمیشگی اور بقا ہے ۔اور باقی سب مخلوق کو فنا ہے جب سب کچھ فنا ہوجائے گا پھر قیامت برپا ہوگی ۔ جس کا منظر بہت ہولناک ہوگا لیکن اس کے آنے کا صحیح  وقت صرف اللہ کو ہی معلوم ہے ۔

جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىهَاؕ-قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْۚ- ترجمہ: وہ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ وہ کب قائم ہوگی آپ فرمادیجیے کہ اس کا علم صرف میرے رب کے پاس ہے ۔(پ 9،اعراف 187)

پھر اسی آیت میں ارشاد فرمایا:

لَا تَاْتِیْكُمْ اِلَّا بَغْتَةًؕ- ترجمہ: وہ تمہارے پاس اچانک آئے گی

لہذا ہم اپنے اندازے سے یہ نہیں کہ سکتے کہ قیامت کب آئے گی ہاں اس کے آنے سے پہلے چند ایسی باتوں کا ظہور ہوگا جو اس کے قریب ہونے پر دلالت کریں گی جنہیں قیامت کی نشانیاں کہتے ہیں جن میں سے کثیر نشانیاں ہمیں آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے 1400 سال پہلے بتلادی تھیں ۔اور ان میں سے اکثر اس زمانے میں ظاہر ہوچکی ہیں اگر زمانہ حال کی طرف نظر کی جاے تو بخوبی معلوم ہوتا ہے کی یقینا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا ایک ایک فرمان صداقت کا نشان ہے ۔

ان نشانیوں میں سے پانچ کا ذکر یہاں کیا جاتاہے  :

(1) جہالت کی کثرت ہوگی:         

حدیث پاک میں ہے:انّ من اشتراط الساعة ان يرفع العلم ويكثر الجهل

(صحیح بخاری ۔ج 3 ۔ص 476)

ترجمہ: قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کی علم اٹھا لیا جائے گا اور جہالت کی کثرت ہوگی    

(2) تیس نبوت کے دعویدار ہونگے جن کا فتنہ بہت سخت ہوگا۔جن میں سے بعض گزر گئے ۔

جیسے 1)مسیلمہ کذاب 2)طلیحہ بن خویلد 3) غلام احمد قادیانی اور بعض ضرور آئے گے۔

حدیث پاک میں ہے: وانه سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انه نبی وانا خاتم النبیین لا نبی بعدی(سنن ابی داؤد ج 4۔ص 133)

ترجمہ: ضرور میری امت میں تیس کذاب ہونگے ان میں سے ہر ایک خود کو نبی گمان کرے گا حالانکہ میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

(3) زکوة دینا لوگوں پر گراں ہوگا کہ لوگ اسے تاوان سمجھیں گے۔

حدیث پاک میں ہے:اذااتخذ الفيء دولا . والأمانة مغنما۔ والزکاة مغرما۔

ترجمہ:جب لوگ مال فئے کو دولت ۔امانت کو مال غنیمت ۔اور زکوۃ کو ٹیکس سمجھیں گے۔

(سنن الترمذی ج4 ۔ ص90)

(4) مرد ماں باپ کی نا فرمانی کرے گا:

حدیث پاک میں ہے:وعق امه    (سنن الترمذی ج 4 ۔ص 90)

ترجمہ:اور مرد اپنی ماں کی نا فرمانی کرےگا

(5) گانے باجے کی کثرت ہوگی :

حدیث پاک میں ہے:وظھرت القینات والمعازف  (سنن الترمذی ج 4 ۔ص 90)

ترجمہ:گانے باجے کے طرح طرح کے آلات ایجاد ہونگے

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں یقینا یہ فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم چمکتے سورج کی طرح حق نظر آتے ہیں ۔

اعلی حضرت احمد رضا خان بریلوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:

اور کوئی غیب کیا تم سے نِہاں ہو بھلا

جب نہ خُدا ہی چھپا تم پہ کروڑوں دُرُود

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین       


اس ذاتِ پاک کا کروڑہا کروڑ احسان کہ جس نے ہمیں ایمان کی دولت سے سرفراز فرمایا۔

وہ ذات کہ جس نے تخلیقِ انسان کے ساتھ ساتھ اس کی تربیت، رہن سہن اور زندگی گزارنے کے لیے تعلیم بھی عطا فرمائی۔

اس ربِّ ذوالجلال نے اپنے بندوں کو جہالت اور ضلالت ( گمراہی) سے بچانے اور اپنی بندگی کے احکام انسان تک پہنچانے کے لیے کم و بیش سوا لاکھ پیغمبر صحیفوں اور کتابوں کے ساتھ بھیجے ۔

جب ربِّ غفَّار عزوجلّ نے خاتَمُ النَّبِیِّین خاتم المُرسَلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بندوں کی طرف مبعوث فرمایا تو کتابِ عظیم قرآنِ کریم عطا فرمائی۔اور ہمارے پیارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تمام احکام (جو اللہ عزوجل نے عطا فرمائے) بندوں تک پہنچا دیئے اور بد دینی کے گڑھے سے نکالا ۔ لیکن اس دنیا کے آخری زمانے میں (قُربِ قیامت) گمراہی، بد دینی پھر سے پھیلنا شروع ہو گی اور آہستہ آہستہ اسلام کی روشنی بجھتی چلی جائے گی ۔

قیامت سے پہلے کچھ علامات کا ظہور ہوگا جن میں سے بعض تو زمانۂ حال میں ظاہر ہو چکی ہیں اور عروج پا رہی ہیں۔

موجودہ دور میں پائی جانے والی کچھ نشانیاں ذکر کرتے ہیں۔

(1): دین پر قائم رہنا اتنا دشوار ہو گا جیسے مٹھی میں انگارا لینا، یہاں تک کہ آدمی قبرستان میں جا کر تمنا کرے گا کہ کاش میں اس قبر میں ہوتا۔ ( بہارِ شریعت حصہ 1 صفحہ 118)

(2): ماں باپ کی نافرمانی کرے گا۔ (بہارِ شریعت حصہ 1 صفحہ 119)

(3): گانے باجے کی کثرت ہوگی۔ (بہارِ شریعت حصہ 1 صفحہ 119)

واقعی آج اکثر جگہوں پر یہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ جس طرف جائیں گانے چلائے ہوتے ہیں۔ دکانوں،گاڑیوں، گھروں حتیٰ کہ شادی بیاہ کے موقع پر تو اکثر لوگوں نے گانے باجے کو رواج بنا لیا ہے۔

(4): اگلوں پر لوگ لعنت کریں گے، ان کو برا کہیں گے۔

(فیضانِ فرض علوم حصہ اول صفحہ 86)

یہ حقیقت ہے کہ آجکل لوگ اکثر اپنے بڑوں پر لعن طعن کرتے ہوئے نظر آتے ہیں

(5): علم اٹھ جائے گا یعنی علماء اٹھا لیے جائیں گے، یہ مطلب نہیں کہ علماء تو باقی رہیں گے اور ان کے دلوں سے علم محو کر لیا جائے گا۔ (صحیح البخاری، کتاب العلم، الحدیث 100)


قیامت ایک اٹل حقیقت ہے، اس کا انکار کرنے والا  کافر ہے۔ قیامت کب قائم ہوگی اس کا علم اللہ رب العزت اور اس کے بتائے سے مصطفیٰ جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کے کے قیام کے بارے میں قطعی وقت تو نہیں بتایا مگر چند ایسی نشانیاں بتا دیں کہ جن کا وقوع قرب قیامت میں ہوگا۔ کچھ نشانیاں تو وقوع پذیر ہوچکی ہیں جبکہ کچھ کا ظاہر ہونا ابھی باقی ہے۔

وہ علامات کہ جو ظاہر ہو چکیں متعدد ہیں جن میں سے پانچ یہ ہیں۔

1: علم دین اٹھ جائے گا یعنی علماء اٹھا لیے جائیں گے:

اس نشانی کے ظہور کا آغاز بھی ہو چکا ہے ، صرف 2020ء میں اس دار ناپائیدار کو الوداع کہنے والے علماء کی فہرست اٹھا کر دیکھ لی جائے تو اس کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ کتنی تیزی سے اہل علم اس جہاں سے اٹھتے جارہے ہیں ۔

2: جہالت کی کثرت:

آج کے اس نام نہاد جدیدیت پسند دور میں بھی جہالت کی بپھری موجیں ہمارے سروں سے گزر چکی ہیں، آئے روز اخبار وغیرہ کے ذریعے ایسی عجیب و غریب خبریں سننے ،پڑھنے کو ملتی ہیں کہ عقل جنہیں تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوتی ، کبھی باپ بیٹا ،بیٹی اور بیوی کو قتل کر رہا ہوتا ہے تو کبھی ماں اپنے خاندان کو ہمیشہ کی نیند سلا رہی ہوتی ہے، کبھی مرنے والے کی وصیت کے مطابق اس کے جنازے میں بینڈ باجے بجائے جارہے ہوتے ہیں تو کبھی بیٹی پیدا ہونے کے "جرم" میں سفاک باپ، ماں اور بیٹی دونوں کو موت کی گھاٹ اتار دیتا ہے الغرض چار دانگ عالم میں جہالت کی تیرگی نے اپنے ڈیرے جما رکھے ہیں۔

3: اگلوں پر لعنت کرنا:

آج کل آپ کو ایسے لوگ بکثرت ملیں گے جو کسی نہ کسی بات کو بنیاد بنا کر اپنے بڑوں کے بارے میں اول فول بکتے ہوں گے بلکہ یہ لوگ اتنے گر چکے کہ اسلام کی بزرگ ہستیاں مثلاً صحابہ کرام و اہل بیت اطہار علیہم الرضوان تک کو بھی نہیں چھوڑتے ، آئے روز بسیار گوئی اور دشنام طرازی سے آلودہ کلپس کہیں نہ کہیں سے سننے کو ملتے رہتے ہیں۔

4: مسجد میں شور شرابہ کرنا:

آئے روز مساجد سے شور و غل کی آوازیں سنائی دیتی ہیں ، کسی نہ کسی بات کا سہارا لے کر خوب غل غپاڑہ کیا جاتا ہے ، کبھی شرارتی بچوں کو سمجھانا ہو تو پوری مسجد کو سر پر اٹھا لیں گے ، وضو خانے میں پانی ختم ہو جائے تو مسجد کی ادب کو پس پشت ڈال کر جم کے واویلا کریں گے۔

5: وقت میں برکت نہ ہونا:

یعنی وقت بہت جلد گزرے گا حتی کہ سال مثل مہینہ کے ، مہینہ مثل ہفتہ کے ، ہفتہ مثل دن کے اور دن ایسا گزرے گا جیسے کسی چیز کو آگ لگی اور جلد بھڑک کر ختم ہوگئی یعنی وقت بہت تیزی سے گزرے گا۔

اللہ پاک ہمیں قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین