مسلمانوں کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدہ قیامت کا قائم
ہونا ہے۔ یہ عقیدہ ضروریات دین میں سے ہیں جو اس کا منکر ہوگا وہ کافر ہو جائے گا۔
اس پر ایمان لانے کا حکم قرآن پاک میں ہے۔
" بلکہ اصل نیکی وہ ہے جو ایمان لائے اللہ پر اور آخرت
کے دین پر" ۔
(پ2،سورہ بقرہ:177)
کفار قیامت کے قائم
ہونے کا انکار کرتے ہیں اور اس کےقائم ہونے کا سوال کرتے ہیں۔
"آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کے قائم
ہونے کا وقت کب ہے؟ تم فرماؤ :اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے۔(پ 9،اعراف:187)
صحیح وقت تو نہیں
بتایا مگر اس کے قائم ہونے سے پہلے چند نشانیاں ظاہر ہوگی ان میں سے چند نشانیاں ایسی
ہیں جو موجودہ میں پائی جاتی ہیں۔
(1) ۔ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ دین پر صبر کرنے والا والے
کا حال ایسے ہوگا جیسے انگارہ ہاتھ میں رکھے نے والے کا۔(رواہ الترمذی عن انس)
اگر گراتا ہے تو دین جاتا ہے اگر رکھتا ہے تو ہاتھ جلتا ہے۔یعنی
دینی امور میں موافقت و معاونت کرنے والا
نہ ملے گا تنہا دین کے لیے کو شاں ہوگا۔
(2)۔ قیامت قائم نہ
ہوگی یہاں تک کہ لوگ مساجد کے بارے میں فخر کریں گے۔
(رواہ احمد عن انس)
ہمارے دور میں
شہروں اور دیہاتوں میں مساجد کا تعمیراتی کام زوروں پر ہے اور اکثر کا حال بھی
ظاہر ہے کہ اپنی اپنی مسجد کی تعمیر پر فخر کرتے نہیں تھکتے۔
(3)۔ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ بری بات کرنا ،بدکلامی
کرنا ،قطع رحمی، امین کا خیانتی ہونا اور خیانتی کا امانت دار ہونا۔(رواہ الطبرانی
عن انس)
بری بات کرنا اور بدکلامی میں کون سی کمی رہ گئی اور قطع
رحمی کا یہ حال ہے کہ اقارب کالعقارب یعنی
رشتہ دار بچھو بنے ہوئے ہیں ۔آپس میں بیاہ ونکاح کرنا دشمنی خرید کرنا ہے۔وغیرہ وغیرہ
(4)۔ بارش کی کثرت ،کھیتوں کی کمی،قراء (علماء و حفاظ) کی
بہتات، قلت فقہاء،کثرت امراء اور امانت داروں کی کمی ۔(رواہ الطبرانی عن عبد
الرحمٰن بن عمر)
اللہ ہمیں آخرت کی فکر اور اس کی تیاری کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین