اللہ
پاک کےمحبوب دانائے غیوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وقتاً فوقتاً اپنے
اصحاب کو قبلِ قیامت وقوع پذیر ہونےوالی نشانیوں کے متعلق خبر دی۔ جن میں سے بیشتر
کا ظہور ہو چکا اور کچھ اس زمانے میں ظاہر ہیں اور کچھ کا ظاہر ہوناباقی
ہے۔ جو قیامت کی نشانیاں اس دور میں ظاہر
ہیں ان میں سےپانچ کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔
(1)علم
اٹھ جائےگا اور جہالت پھیل جاے گی:نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا:قیامت
کی نشانیوں میں سے علم کا اٹھ جانا اور جہالت کی کثرت ہونا ہے۔(بخاری،3/472،حدیث:5231)
علم
سے مراد علمِ دین، جہل سے مراد اس سے غفلت ہے۔
(مراٰة
المناجیح،7/254،ملتقطاً)
علم کےاٹھنے کا ذریعہ یہ نہ ہوگا کہ لوگ پڑھا
ہوا بھول جائیں گے بلکہ علماء وفات پاتے رہیں گے اور بعد میں انکے جانشین پیدا
نہ ہوں گے۔ جیسا کہ اس دور میں ہو رہا ہے
علماء ربانیاس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں اور ان کے بعد ویسے علماء پیدا نہیں
ہورہے ہیں۔ ایسے علماء کی کمیابی ہی کی وجہ سے پورے عالم میں جہالت کی کثرت ہو رہی
ہے۔ لوگ دنیاوی علوم و فنونکے لئے اپنا
مال اپنا وقت اور اپنی پوری قوت لگا رہے ہیں مگر علمِ دین سے مکمل طور پر دوری اختیار
کئے ہوئے ہیں۔ دنیاوی علوم بہت ترقی پر ہیں مگر علمِ حدیث، تفسیر، فقہ بہت کمہو
رہے ہیں۔
(2)وقت
میں برکت نہ ہوگی: سال مہینے کی طرح، مہینا ہفتے کی طرح، ہفتہ دن کی طرح اور دن ایسے
ہو جائے گا جیسے کسی چیز کو آگ لگ گئی اور جلد بھڑک کر ختم ہو گئی۔
(بہار شریعت حصہ 1/118ملخصاً)
یعنی
اس زمانے میں عیش و آرام بہت زیادہ ہوگا اور عیش و آرام کا
وقت
محسوس نہیں ہوتا۔(مراٰةالمناجیح،7/260)اِس زمانے میں بھی لوگوں کے وقت میں برکت
نہیں رہی ہے۔ اتنی ساری جدید ٹیکنالوجی اور جدید آلات کا روز مرہ کی زندگی میں
استعمال کے باوجود لوگوں کے کام وقت پر مکمل نہیں ہو پا رہے۔جس شخص کو دیکھئے وہ ”وقت
نہیں ہے“ کا وِرد اپنی زبان پر جاری رکھے ہو ئے ہے۔
(3)علمِ
دین پڑھیں گے مگر دین کے لئے نہیں۔(ترمذی،4/90،حدیث:2218)
یعنی
دینی علوم صرف دنیا کمانے کیلئے حاصل کریں گے۔ یہ نشانی بھی اس دور میں ظاہر ہے۔
اب تحصیلِ علومِ دین کو محض ذریعہ آمدنی بنا لیا گیا ہے۔ علم ِدین کے ذریعے تبلیغِ
دین،اشاعتِ دین، خدمتِ دین کے بجائے ایک طبقہ اسسے مال ودولت اور جاہ و حشمت حاصل
کرنے کا ذریعہ سمجھنے لگا ہے۔ بعض طلبہ صرف وعظ گوئی کیلئے کتابیں پڑھتے ہیں۔
(4)
لوگ مسجدوں میں دنیا کی باتیں کریں گے۔
(شعب
الایمان،3/87،حدیث:2962)
جیسا کہ آج دیکھا جا رہا ہے لوگوں نے مساجد کو
دنیوی اجلاس کا مقام بنا لیا ہے۔مساجد میں اپنے ذاتی،کاروباری مسائل پر بھی گفتگو
کرنے سے گریز نہیں کرتے بلکہ اب تو مساجد میں بیٹھ کر موبائل کے ذریعے کئی طرح کے
معاملات انجام دے رہے ہوتے ہیں۔
(5)
گانے باجے کی کثرت ہوگی۔ (بہار شریعت،1/119)
یہ
نشانی بھی آج بالکل ظاہر ہے۔ گھر، بازار،
ہوٹل، گاڑی، بس، ریل، ہوائی جہاز، الغرضاب کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں گانے باجے
اور موسیقی عام نہ ہو۔ بازاروں اور موسیقی کے اڈے تو اپنی جگہ اب تو مساجد میں
بھی نمازیوں کے موبائل سے موسیقی اور گانے باجے کی آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں۔