قیامت اس دن میں اٹھنے کو کہتے ہیں جس دن اللہ
تبارک و تعالی مخلوق کو فنا کرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے گا۔
قرآن و احادیث اس
پر ناطق بیان ہیں چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے:
وَ
هُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ وَ هُوَ اَهْوَنُ عَلَیْهِؕ-
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور
وہی ہے کہ اوّل بناتا ہے پھر اسے دوبارہ بنائے گا اور یہ تمہاری سمجھ میں اس
پرزیادہ آسان ہونا چاہیے ۔(پ 21،الروم 27)
قیامت کا منکر کافر ہے کہ یہ نص قطعی کا انکار کرنا ہے۔ اور
جو کچھ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی علامتوں کی خبر دی وہ سب حق ہیں۔
علامت قیامت دو قسم کی ہیں (1) ایک تو وہ ہیں جو جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کی پیدائش سے لے کر تا ظہور امام مہدی رضی اللہ عنہ آئے گی۔ ان کو علامات صغری کہتے
ہیں۔
(2) وہ علامتیں جو بعد ظہور امام مہدی رضی اللہ عنہ سے لے
کر تا نفخ صور اول آئیں گے۔ اس کو علامت
کبری کہتے ہیں۔
پہلے قسم کے لحاظ
سے موجودہ دور میں علامات قیامت کچھ یہ ہیں:۔
*جہل زیادہ ہوگا علماء اٹھ جائیں گے۔
* زنا ،شراب خوری اور مزامیر ( گانے باجوں )کی
کثرت ہونا۔
* مرد بیوی کی مانے
گا والدین کی نافرمانی کرے گا ۔
* باپ کو دور ڈال
دے اور یاروں سے دوستی کر لے۔
* مسجد میں شور گل ،چلانا اور دنیوی باتوں کا ہونا۔
* قبیلے کے سردار
کا فاسق ہونا ۔
* موجودہ زمانے والے گزرے ہوئے زمانے والوں پرلعنت کرنا ۔
* حیا و شرم کا اٹھ جانا ۔
* ظلم و ستم اور قتل و غارت کا عام ہونا۔
* جھوٹی احادیث اور
بدعات شنیعہ یعنی بری بدعتیں کا شیوع (عام) ہونا۔
* اس طرح مال کی
کثرت بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے وہ کہ موجودہ دور میں مال کی کثرت
عام ہے۔
خالق لم یزل ہمیں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ
تبارک و تعالی ہمیں موجودہ دور کے فتنوں اور آزمائشوں سے امان میں رکھیں ۔
یقینا فی زمانہ علماء سے دوری ،والدین کی نافرمانی، گانوں
باجو کی شہرت اور مسجدوں کے اندر شور و غل بالکل عام ہو چکا ہے۔ اللہ عزوجل ہمیں
مسجدوں کی ادب کرنے اور اس کی خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔