متوجہ ہوں

Mon, 2 Mar , 2020
4 years ago

یہ مضامین  نئے لکھاریوں کے ہیں

حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے

ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


پرفیسر حامد صاحب لیکچر دے رہے تھے،کچھ طلباء  توجہ سے سن رہے تھے اور کچھ وقت کے ختم ہونے کے منتظر تھے کہ کب یہ پوائنٹ ختم ہو اور انہیں پر فیسر صاحب سے نجات ملے ۔ دراصل پروفیسر حامد اپنے لیکچر زمیں نصیحت آموز باتیں ضرور شامل فرماتے تھے اور کچھ نوجوان طلباء ان کی نصیحتوں سے بیزاری محسوس کرتے تھے ۔

کاشف نے پوائنٹ ختم ہونے پر شکر ادا کرتے ہوئے قاسم سے کہا شکر ہے یار جان چھوٹی پروفیسر حامد تو جان کو آجاتے ہیں ۔ قاسم لیکچر میں شامل اس آیت کے بارے میں سوچ رہا تھا جس میں متقین کے لیے جنت میں داخلے کی نوید سنائی گئی ہے ۔لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ

تَرجَمۂ کنز الایمان: پرہیز گاروں کے لیے ان کے رب کے پاس جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں رواں (آل عمران ۔ 15)

کاشف نے قاسم کے کندھے کو ہلایا تو قاسم نے پوچھا یار یہ متقین کون ہوتے ہیں ؟ کاشف نے کہا ارے یار تم پروفیسر صاحب کی باتوں کو دل پر مت لو وہ اپنی عمر تو گزار چکے اب ہمیں نصیحتں کرنے چلے آتے ہیں ۔ مگر قاسم نے دل میں تہیہ کر لیا کہ وہ جان کہ رہے گا کہ متقین کوگ کون ہوتے ہیں؟

سر حامد کے کمرے میں داخلے کی اجازت چاہتے ہوئے قاسم نے کہا سر کیا میں اندر آسکتا ہوں ؟

پروفیسر صاحب نے کہا: جی بیٹا آئیے ۔ قاسم نے کہ سر میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں ، آپ نے کہا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ متقین کے لئے جنت ہے تو آخر متقین کون لوگ ہیں ؟ اور ہمیں جنت کیسے مل سکتی ہے ؟

سر حامد نے کہا بیٹا متقین وہ ہیں جنہوں نے معمولی شے پر قناعت کرکے رات کی تاریکی میں اپنے مولی کی بارگاہ میں قیام کیا ، محبوبِ حقیقی کی خاطر مشقتین برداشت کیں ، آفات کی کڑواہٹ پر صبر کیا ، دھوکہ دہی اور نا فرمانی سے بچتے رہے صبر پر استقامت کے ساتھ قائم رہے اور اپنا جان و مال اللہ کی راہ مین قربان کر دیا ۔

قاسم نے کچھ سمجھتے اور کچھ نا سمجھی کے انداز میں سوال کیا کہ آخر تقوی ہے کیا ؟

سر حامد نے بتایا : امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :قرآن مجید میں تقوی کا اطلاق 3معانی پر کیا گیا ہے ۔

1۔ڈر اور خوف 2۔ طاعت و عبادت 3۔ دل کو گناہوں سے پاک رکھنا اور یہ تقوی کا حقیقی معنی ہے۔

بہر حال اللہ عزوجل کے احکامات کی بجا آوری اور ممنوعات سے روگردانی کر کے اسکی ناراضی و عذاب سے بچنے کام تقوی ہے ۔

اور حقیقی تقوی یہ ہے کہ تیرا پروردگار تجھے وہاں نہ یکھے جہاں جانے سے اس نے تجھے روکا ہے اور اس مقام سے غیر حاضر نہ پائے جہاں حاضر ہونے کا اس نے حکم دیا ہے ۔ (اچھے برے اعمال ، 25)

قاسم نے کہا کہ یہ وہاں نہ دیکھے جہاں جانے سے اس نے تجھے روکا ہے سے کیا مراد ہے اور غیر حاضر نہ پائے سے کیا مطلب ہے ؟

سر حامد نے مزید سمجھاتے ہوئے کہا: وہاں نہ دیکھے جہاں جانے سے اس نے روکا ہے ۔ اس میں تمام ممنوعات شامل ہونگے یعنی حرام ،مکروہ تحریمی وتنزیہی اور مشتبہ اعمال مثلا شراب نوشی ،والدین کی نافرمانی ،سود ،جھوٹ غیبت ،چغلی ،حسد تکبر وعدہ خلافی شماتت وغیرہا ۔

اور غیر حاضر نہ پائے سے مراد یہ ہے کہ اس میں تمام عبادات شامل ہو گی یعنی فرائض وسنن و مستحبات مثلا نماز ، روزہ ، زکوۃ ،حج صدقہ ،خوش اخلاقی ،صدق ، عدل ، صلہ رحمی ، خیر خواہی اور ذکر الہی وغیرہ یہی حصول تقوی کے ماخذ ہیں جن کے ذریعے انسان مقام قبولیت پا لیتا ہے ۔

قاسم نے پوچھا : مقام قبولیت کیا ہوتا ہے ؟

سر حامد نے کہا: اسکا جواب تمہیں اس واقعے میں ملے گا ۔

منقول ہے کہ ایک چور رات کے وقت حضر سیدتنا رابعہ بصریہ کے گھر داخل ہوا اس نے پورے گھر کی تلاشی لی لیکن سوائے ایک لوٹے کے کوئی چیز نہ پائی ۔ جب اس نے نکلنے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر تم چالاک و ہوشیار چور ہوتو کوئی چیز لئے بغیر نہ جاؤ گے اس نے کہا مجھے تو کوئی شے نہیں ملی آپ نے فرمایا : اس لوٹے سے وضو کر کے کمرے میں داخل ہوجا اور دو رکعت نماز ادا کر یہاں سے کچھ نہ کچھ لے کر جائے گا ۔ اس نے آپ کے کہنے کے مطابق وضو کیا اور جب نماز کے لیے کھڑا ہوا تو حضرت رابعہ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے ، اے میرے آقا و مولی یہ شخص میرے پاس آیا لیکن اس کو کچھ نہ ملا اب میں نے اسے تیری بارگاہ کھڑا کر دیا ہے اسے اپنےفضل و کرم سے محروم نہ کرنا ۔

وہ رات کے آخری حصے تک نماز میں مشغول رہا ،آپ نے پوچھا بھائی رات کیسی گزری ؟ بولا خیریت سے گذری عاجزی و انکساری سے میں اپنے رب کی بارگاہ میں کھڑا رہا تو اس نے میرے ٹیڑھے پن کو درست کر دیا میرا عذر قبول فرما لیا اور میرے گناہوں کو بخش دیا اور مجھے میرے مطلوب و مقصود تک پہنچا دیا پھر وہ شخص چہرے پر حیرانی و پریشانی کے آثار لیے چلا گیا ۔

رابعہ نے عرض کی اے میرے مولایہ شخص تیری بارگاہ میں ایک گھڑی کھڑا ہوا اور تو نے اسے قبول فرما لیا ؟ اور میں کب سے تیری بارگاہ میں کھڑی ہو ں کیا تو نے مجھے بھی قبول فرما لیا؟ اچانک آپ نے دل کے کانوں سے سنا اے رابعہ! ہم نے اسے تیرے ہی وجہ سے قبول کیا اور تیری ہی وجہ سے اپنا قرب عطا کیا ۔

قاسم نے تشکر بھری نگاہوں سے سر حامد سے کہا : سر آپ نے آج مجھے وقت دے کر مجھ پر بہت احسان فرمایا ہے مجھے تقوی و پرہیزگاری کا مطلب بھی سمجھ آگیا اور اسکا فائدہ بھی اور یہ بھی کہ اسے کیسے پانا ہے ؟

سر حامد نے خوش ہوتے ہوئے کہاں : اچھا طالب علم وہی ہے جو اپنے استاد کی باتوں کو نہ صرف سمجھتے بلکہ اس پر عمل بھی کرے ،

قاسم نے کہا سر میں ضرور عمل کر کے جنت کے حصول کی کوشش کروں گا ۔ 

تقویٰ  یعنی انسان اپنے آپ کو بری خواہشات سے روکے۔اور پرہیزگاری سے مراد ، انسان عبادت گزار رہے۔تقویٰ و پرہیزگاری اللہ پاک کی طرف سے ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں انسان کو چاہیے کہ وہ تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کریں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ ترجمہ: اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو۔(پ22،الاحزاب:70)

ایمان والوں کی یہ صفت ہے کہ وہ ہمیشہ تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں، اور اللہ پاک سے ڈرتے رہتے ہیں۔

تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنے سے انسان گناہوں سے بچا رہتا ہے، آج کل طرح طرح کے گناہ ہیں، انسان کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ کون سے صغیرہ اور کبیرہ گناہ ہیں۔لیکن مومن کسی بھی قسم کے شک و شبہات میں پڑے بغیر تقویٰ و پرہیزگاری کو اپنی عملی زندگی میں لاتا ہے، خود کو اور دوسرے مسلمان بہن بھائیوں کو بھی تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین دیتا ہے۔

تقویٰ اختیار کرنے سے مراد انسان فرض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نوافل بھی ادا کرتا ہے، اور صاف ستھرا رہتا ہے، حرام چیزوں ، بُرے کاموں سے خود کو روکے رکھتا ہے، اور دووسروں کو بھی روکنے کی کوشش کرتا ہے اللہ پاک ہمیں بھی تقویٰ و پرہیزگاری عطا کرے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اگر ہم غور و فکر کریں تو ہماری سب سے اچھی راہنمائی کرنے والی اللہ پاک کی آخری کتاب قرآن مجید ہمارے پاس موجود ہے،اور علمائے کرام جو ہمیں سمجھا سکتے ہیں، بس ہم سب کو ہمت

کرنی ہے اور بھرپور کوشش بھی، کہ ہم بھی تقویٰ و پرہیزگاری کو اپنائیں، قرآن پاک میں تقویٰ و پرہیزگاری کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں، اور بہت سی دینی کتب میں بھی۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اسوة رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مطالعہ کریں او ران کی سنت پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں۔تقوی و پرہیزگاری ہمیں قرآن پاک پڑھنے سے حاصل ہوسکتی ہے۔ قرآن پاک ہی سے ہم تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرسکتے ہیں، ہمیں چاہیے کہ روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کریں، اور قرآن پاک کو ترجمہ وتفسیر کے ساتھ پڑھنے کی بھی کوشش کریں اور سمجھنے کی بھی۔

قرآن پاک کی مدد سے ہم ہدایت پاسکتے ہیں،اور جو ہدایت پا گیا وہی رروزِ محشر سر خرو ہوگا۔، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ۔جس نے تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کی وہی کامیاب ہوگیا دونوں جہاں میں ۔

تقویٰ اختیار کرنے سے انسان بہت سے گناہوں سے بچا رہتا ہے، بہت سی نفسانی خواہشات سے بچا رہتا ہے، اور تقویٰ انسان تب ہی اختیار کرسکتا ہے جب اس کے دل میں اللہ پاک کا ڈر ہو، انسان کو اگر نفس بُری خواہشات کی طرف راغب کریں اور اس کے دل میں اللہ پاک کا خوف آجائے اور وہ اسے چھوڑ دیں، صرف اللہ پاک کی رضا کے لیے انسان کو سب کچھ کرنا چاہیے، بےشک اللہ پاک ہر چیز پر قادر ہے۔ جزاک اللہ خیرا۔

تقویٰ کے معنیٰ: تقوی کے معنی ہیں، نفس کو خوف کی چیز سے بچانا اورشریعت کی اصطلاح میں تقویٰ کا معنی یہ ہے کہ نفس کو ہر اس کام سے بجانا ، جسے کرنے یا نہ کرنے سے کوئی شخص عذاب کا مستحق ہو، جیسے کفر و شرک ، کبیرہ گناہ، بے حیائی کے کاموں سے اپنے آپ کو بچانا، حرام چیز وں کو چھوڑ دینا اور فرائض کو ادا کرنا وغیرہ۔

تقویٰ کے فضائل، قران مجید اور احادیث میں تقویٰ حاصل کرنے اور متقی بننے کی ترغیب اور فضائل کثرت بیان کیے گئے ہیں۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(۱۰۲)

ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ضرور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے۔

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ تمہارا رب عزوجل ارشاد فرماتا ہے، اس بات کا مستحق میں ہی ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے اور جو مجھ سے ڈرے گا تو میری شان یہ ہے کہ میں اسے بخش دوں گا۔

تقویٰ کے مراتب :علمائے کرام نے تقویٰ کے مختلف مراتب بیان فرمائے ہیں جیسے عام لوگوں کا تقویٰ، ایمان لا کر کفر سے بچنا ہے ، متوسط لوگوں کو تقویٰ ( احکامات کی پیروی کرنا ، اور ممنوعات سے رکنا، ہے اور خاص لوگون کاتقویٰ ہر ایسی چیز کو چھوڑ دینا ہے جو اللہ تعالیٰ سے غافل کرے۔

اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ الرحمن کے فرمان کے مطابق تقویٰ کی سات قسمیں ہیں۔۱۔ کفر سے بچنا، ۲۔ بدمذہبی سے بچنا۔۳۔کبیرہ گناہ سے بچنا۔۴۔صغیرہ گناہ سے بچنا، ۵۔شبہات سے پرہیز کرنا۔۶۔نفسانی خواہشآت سے بچنا، ۷۔اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والی ہر چیز کی طرف توجہ کرنے سے بچنا اور قرآن عظیم ان سات مرتبہ کی طرف ہدایت دینے والا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں متقی اورپرہیز گار بننے کی توفیق عطا فرمائے، امین 

تقویٰ کسے کہتے ہیں:تقویٰ و پرہیزگاری کا معنی ہے، کسی چیز سے باز آنا، چھوڑ دینا، نفس کو خوف کی چیزسے بچانا، عرف شرع میں ممنوعات (یعنی منع کی کئی چیزیں) چھوڑ کر نفس کو گناہ سے بچانا ہے۔ تقویٰ و پرہیزگاری کو اللہ کے خوف سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے، یعنی جس کے دل میں جتنا اللہ کا خوف و ڈر ہوگا وہ اتنا ہی متقی ہوگا، اور سب سے بڑ ےمتقی مدینے کے تاجدار محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں۔

قرآن پاک میں تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنے کا حکم دیاگیا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(۱۰۲) ترجمہ کنزالایمان : اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے۔

ایک اور مقام پر ارشاد ہوا:فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ۔ترجمہ کنزالایمان : تو اللہ سے ڈرو جہاں تک ہوسکے۔

تقویٰ مومن کی زینت اور ایمان کا زیور ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ متقی کی پہچان یہ ہے کہ وہ گناہ پر قائم نہیں رہتا اور عبادت پر غرور نہیں کرتا۔

حضرت سیدنا فضیل رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے تو یہ خوف ہر بھلائی کی طرف اس کی راہنمائی کرتا ہے۔

تقویٰ کے 7مراتب و اقسام

1۔کفر سے بچنا

2۔بد مذہبی سے بچنا

3۔ کبیرہ گناہ سے بچنا۔

4۔ صغیرہ گناہوں سے بچنا۔

5۔شبہات ( جس چیز کے حلال و حرام ہونے میں شک ہو) سے بچنا۔

6۔ شہوات(نفسانی خواہشات کی پیروی) سے بچنا۔

7۔ غیر کی طرف التفات سے بچنا، یعنی اللہ کے سوا کسی کی طرف خاص رغبت نہ کرنا، قرآن عظیم ان ساتوں مرتبوں کا ہادی ہے۔

تقویٰ حاصل کرنے کے طریقہ :دعا مانگنا تقویٰ حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے،امام نووی اپنی کتاب ریاض الصالحین باب التقوی حدیث نمبر ۳، میں امام مسلم کی روایت کردہ حدیث نقل کی کہ

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یہ دعا کرتے: اللھم انی اسائلک الھدیٰ والتقیٰ والعفا ف والغِنیٰ یعنی اے اللہ میں تجھ سے ہدایت، پرہیزگاری پاکدامنی اور خوش حالی مانگتا ہوں۔ ( مسلم، حدیث 2721۔ترمذی ، حدیث 4389، ابن ماجہ حدیث 3832)

اس حدیث پاک میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تعلیم امت کے لئے تقوی حاصل کرنے کی دعا کی۔

تقویٰ اور پرہیزگاری حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ اللہ کا خوف ہے، بندہ ہر وقت اس بات کو مدنظر رکھے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے، اسے اپنے ہر عمل کا اللہ کو جواب دینا ہے، کراما کاتبین سے شرم کرنا کہ انہیں ہماری وجہ سے گناہ لکھنے پڑتے ہیں۔نفس کی مخالفت کرنا، اپنے نفس کا محاسبہ کرنا یعنی اپنے اعمال پر غور و فکر کرنا، قرآن پاک کی تلاوت کرنا اور اس کے معانی و مطالب پر غور و فکر کرنا، نیکی اور گناہ سے بچنے کے ثواب پر نظر رکھنا، علم حاصل کرنا موت ، قبر و حشر، میزان وپل صراط کی سختیوں اور جہنم اور اللہ کے عذاب کی شدتوں کو یادرکھنا، بزرگانِ دین کے تقویٰ کے واقعات پڑھناکوئی بھی کام کرنے سے پہلے اپنے آپ سے چند سوال کرنا کہ میں جو کام کررہا ہوں اس سے اللہ عزوجل مجھ سے راضی ہوگا یا ناراض مجھے ثواب ملے گا یا گناہ اگر، اس حال میں مجھے موت آجائے تو میرا نجام اچھا ہوگا یا برا۔

اویس اور عبداللہ مدنی چینل دیکھ رہے تھے اتنے میں اویس کا چھوٹا بھائی بلال آیا، مدنی چینل پر متقین کی فضیلت پر حدیث پاک  بیان کی جارہی تھی کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں ایک آدمی عبادت و مشقت کا ذکر ہوا، اور دوسرے کے تقویٰ کا تو نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ عبادت تقویٰ( پرہیزگاری) کے برابر نہیں ہوسکتی۔ (ترمذی )اتنے میں بلال نے کہا : بھائی تقویٰ کیا ہوتا ہے؟

اویس: تقویٰ کا مطلب خوف و ہیبت ِ خداوندی ہے جیسے قرآن مجید میں باری تعالیٰ نے بیان فرمایا: وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ(۴۱) تَرجَمۂ کنز الایمان: اور مجھی سے ڈرو ۔( البقر ہ ،41)

فورا عبداللہ نے کہا : تقویٰ کا مطلب تو پرہیزگاری ہے، یعنی گناہوں سے بچنے کے ہیں، جیسے قرآن مجید فرقانِ حمید میں اللہعزوجل نے فرمایا:

وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۵۲)

( النور :52)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے اور اللہ سے ڈرے اور پرہیزگاری کرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں۔بلال:اویس بھائی اور عبداللہ بھائی ان دونوں میں سے تقویٰ کا کون سا معنی درست ہے؟پرہیزگاری یا خوفِ خدا ؟عبداللہ : میرے والد صاحب عالم ہیں انہیں اس بارے میں معلوم ہوگا چلیں اس بارے میں ان سے سوال کرتے ہیں کہ تقویٰ کے درست معنی کیا ہیں؟َاویس اور بلال عبداللہ کے ساتھ ان کے گھر گئے، عبداللہ اپنے والد صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے،السلام علیکم باباجان!عبداللہ کے والد : وعلیکم السلام ، اویس اور بلال سے سلام و مصافحہ کرنے کے بعد۔عبداللہ کے والد : اویس اور بلال کو مخاطب کرتے ہوئے کیسے ہیں آپ ؟اویس اور بلال : الحمدللہ !عبداللہ :بابا جان ایک سوال پوچھنا ہے؟عبداللہ کے والد : جی فرمائیے۔عبداللہ :تقویٰ کے معنی پرہیزگاری ہے یا خوفِ خدا ؟ کیونکہ میں نے تقویٰ کا مطلب پرہیزگاری کرنا بتایا اور اویس بھائی نے خوفِ خدا بتایا۔عبداللہ کے والد : تقویٰ کا ذکر قرآن مجید میں کئی جگہ آیا ہے، اور اس کے کئی معنی ہیں جو قرآن مجید میں بیان کیے گئے ہیں ۔

اویس اور آپ نےجو معنی بیان کئے دونوں ہی درست ہیں، بلکہ تقویٰ کا ایک اور معنی ا طاعت (یعنی فرمانبرداری) بھی ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں ارشادِ خداوندی ہے:

یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوا  اتَّقُوا  اللّٰهَ  حَقَّ  تُقٰتِهٖ  ترجمہ ۔ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے۔(آل عمران ۱۰۲)

اویس اور عبداللہ ایک ساتھ جی سمجھ گئے !۔عبداللہ کے والد : ویسے اس سوال کی کیا سوجھی آپ کو؟ اویس، ہم مدنی چینل دیکھ رہے تھے، وہاں حدیث پاک سنی کہ عبادت تقویٰ کے برابر نہیں۔

عبداللہ کے والد : اچھا آپ جانتے ہیں کیا کہ یہ عظیم صفت کیسے حاصل کی جاسکتی ہے؟

اویس اور عبداللہ : نہیں ہمیں نہیں معلوم آپ بتادیجئے۔عبداللہ کے والد : اگر ہم اویس کے بتائے ہوئے معنی، یعنی تقویٰ خوف ِ خدا سے اللہ عزوجل کا خوف دل میں پیدا کرکے اور خود کو جہنم اور اس کے عذاب سے اور قیامت کی ہولناکیوں سے ڈرا کر حاصل کیا جاسکتا ہے اور اس کے علاوہ خائفین یعنی خوفِ خدا رکھنے والوں کی صحبت اختیار کرکے بھی اس کا حصول ممکن ہے۔

عبداللہ : بابا جان میرے بتائے ہوئے تقویٰ کے معنی سے کیسے حاصل ہوگی ؟

عبداللہ کے والد : آپ کے بتائے ہوئے تقویٰ کے معنی یعنی پرہیزگاری سے تقویٰ کو اس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے کہ اللہ عزوجل کی حرام کردہ چیزیں ، اور رب تعالیٰ کی ناپسندیدہ چیزوں، لغو و فضولیات سے پرہیز یعنی اس سے دور رہ کر پا بچ کر۔اویس : اور آپ کے بیان کردہ تقویٰ کے معنی سے کیسے اس صفت کو حاصل کرنا ممکن ہوگا، ؟عبداللہ کے والد: میرے بیان کردہ معنی یعنی طاعت و عبادت سے اس طرح تقویٰ حاصل کیا جاسکتا ہے، کہ اس کی پوری پوری فرمانبرداری کرکے رب عزوجل نے فلاں کلام سے منع فرمایا تو اس کو نہیں کرنا اور جس کا حکم دیا ہے اس کو احسن طریقے سے پورا کرنا۔اویس : عبداللہ کے والد سے : کیا متقین کے کوئی خاص اوصاف بھی ہیں؟ اگر ہیں تو بیان فرمادیجئے تاکہ مزید ہم اس بارے میں معلومات حاصل کرسکیں۔

عبداللہ کے والد : جی ہیں، قرآن مجید میں سورہ آل عمران آیت نمبر17میں متقین کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔

اَلصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْمُنْفِقِیْنَ وَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ(۱۷)

ترجمہ : صبر کرنے والے اور سچے اور فرمانبردار اور راہِ خدا میں خرچ کرنے والے اورر ات کے آخری حصے میں مغفرت مانگنے والے ( ہیں) (آل عمران ۱۷)

اور ان اوصاف کو اختیار کرلینے سے بھی ہم متقی بن سکتے ہیں کہ ہم طاعت اور مصیبتوں پر صبر کریں، نیز گناہوں سے بچیں، ہمارے قول ارادے اور نیتیں سب سچی ہوں اور اللہ کےسچےفرمانبردار ہو جائیں اور اپنے محبوب مال میں سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہو جائیں تو ہم بھی اس صفت کو حاصل کرسکتے ہیں۔عبدالله : کيا تقوی کے شعبہ جات بھی ہیں؟

عبداللہ کے والد : جی ہاں تقویٰ کا ایک شعبہ اپنا محاسبہ کرنا بھی ہے ۔سیدناعمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا محاسبہ نفس یعنی اپنی ذات کا محاسبہ کرنے کے کہ بڑے واقعات مشہور ہیں جیسے چنانچہ امیر المومنین حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ روزانہ اپنا احتساب فرمایا کرتے اور جب رات آتی تو اپنے پاؤں پر دُرا مار کر فرماتے، بتا آج تو نے کیا کیا کیا ہے؟ ( احیا العلومکتاب المراقبہ والمحاسبة المرادیة الرابعة فی مناقبہ النفس علی تقصیر ھا ،ج۵، ص ۱۴۱)

اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کا ایک نسخہ ہمارےپیارے مرشد نے ہمیں عطا فرمایا ہے جیسے نیک بننے کا نسخہ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس پر پابندی سے عمل کرکے اور باقاعدگی سے پُر کرنے کے ذریعے سے ہم بھی متقی و پرہیزگار بن سکتے ہیں۔

تقویٰ کا بہت بڑا تعلق کھانے پینے کی اشیا سے ہے، کہ آدمی حرام اور شبہے ووالی چیزوں سے بچے، یہ دونوں تقویٰ کے ضروری اور درمیانی درجے ہیں، تقویٰ کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ اپنی خواہشات کے بر خلاف چلے کہ کوئی عمدہ چیز آپ کے سامنے ہو اور آپ کھانے کی قدرت کے باوجود اسے نہ کھائیں، کیا میں آپ کو سمجھا پایا ؟ اویس اور عبداللہ:جی۔عبداللہ کے والد :آئیے! نیت کرلیں کہ ہم ان طریقوں کو اختیار کرکے متقی کا درجہ پائیں گے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ

تقویٰ کا معنی !تقویٰ کا معنی ہے’’نفس کو خوف کی چیز سے بچانا‘‘ اور شریعت کی اصطلاح میں تقویٰ کا معنی یہ ہے کہ نفس کو ہر اس کام سے بچانا جسے کرنے یا نہ کرنے سے کوئی شخص عذاب کا مستحق ہو، جیسے کفرو شرک، کبیرہ گناہوں ، بے حیائی کے کاموں سے اپنے آپ کو بچانا، حرام کاموں کو چھوڑ نا اور فرائض کو اداکرنا وغیرہ۔ اور بزرگانِ دین نے یوں بھی فرمایا ہے کہ تقویٰ یہ ہے کہ تیرا خدا تجھے وہاں نہ پائے جہاں اس نے منع فرمایا ہے۔(بحوالہ صراط الجنان،1/62)

تقویٰ کے فضائل:قرآنِ مجید اور احادیث میں تقویٰ حاصل کرنے کی ترغیب اور فضائل بکثرت بیان کیے گئے ہیں۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ0 تَرجَمۂ کنزالعرفان:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے اور کا حق ہے، اور ضرور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے۔(پ4، آل عمران،102)

اور ارشاد فرمایا: هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ0 تَرجَمۂ کنز الایمان:اس میں ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے۔(پ1، البقرۃ:2)

آیت کے اس حصے میں قرآن مجید کا ایک اور وصف بیان کیا گیا کہ یہ کتاب ان تمام لوگوں کو حق کی طرف ہدایت دیتی ہے جو اللہ سے ڈرتےہیں، لیکن قرآن پاک سے حقیقی نفع صرف متقی لوگ حاصل کرتے ہیں، اس لیے یہاں هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ یعنی متقین کے لیے ہدایت فرمایا گیا۔(بحوالہ

تفسیر صراط الجنان،1/61)

حضرت عطیہ سعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:کوئی بندہ اس وقت تک متقین میں شمار نہیں ہوگا جب تک کہ وہ نقصان نہ دینے والی چیز کو کسی دوسری نقصان والی چیز کے ڈر سے نہ چھوڑ دے۔(یعنی کبھی جائز چیز کے ارتکاب سے ممنوع چیز تک نہ پہنچ جائے)(ترمذی،4/204، 205، حدیث:2459)

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا: تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ ایک ہے، تمہارا باپ ایک ہے اور کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ہے، نہ عجمی کو عربی پر فضیلت ہے، نہ گورے کو کالے پر فضیلت ہے، نہ کالے کو گورے پر فضیلت ہے مگر صرف تقویٰ سے۔(معجم الاوسط،3/329،حدیث:4749)

تقویٰ کے مراتب:علما نے تقویٰ کے مختلف مراتب بیان فرمائے ہیں، جیسے عام لوگوں کا تقویٰ”ایمان لا کر کفر سے بچنا ہے“، متوسط لوگوں کا تقویٰ ”احکامات کی پیروی کرنا “ اور ”ممنوعات سے رکنا“ ہے۔اور خاص لوگوں کا تقویٰ ’’ہر ایسی چیز کو چھوڑ دینا جو اللہ تعالیٰ سے غافل کرے۔“

اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن کے فرمان کے مطابق تقویٰ کی سات قسمیں ہیں:(1) کفر سے بچنا (2)بدمذہبی سے بچنا(3) کبیرہ گناہ سے بچنا(4)صغیرہ گناہ سے بچنا(5) شبہات سے پرہیز کرنا(6)نفسانی خواہشات سے بچنا (7)اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والی ہر چیز کی طرف توجہ کرنے سے بچنا اور قرآن عظیم ان ساتوں مرتبوں کی طرف ہدایت دینے والا ہے۔(تفسیر صراط الجنان،1/63)

تقویٰ کیسا ہو ؟حضرت ِ واسطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: تقویٰ یہ ہے کہ اپنے تقویٰ سے بھی بچے یعنی تقویٰ کی ریا کاری سے بچے اور متقی وہ ہے جو حضرت ابن سرین علیہ الرَّحمہ کی طرح ہو، انہوں نے گھی کے چالیس مٹکے خریدے، ان کے غلام نے ایک مٹکے سے چوہا نکالا، انہوں نے پوچھا کہ تم نے کس سے نکالا ہے؟ اس نے کہا مجھے یاد نہیں تو انہوں نے تمام مٹکے زمین پر گرا دیئے۔

(بحوالہ رسالہ قشیریہ، صفحہ 221)

حضرت امام ابوحنیفہ علیہ الرَّحمہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ اپنے مقروض کے درخت کے سائے میں نہیں بیٹھتے تھے اور فرماتے تھے حدیث شریف میں آیا ہے:کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعاً فَھُوَ رِباً ہر وہ قرض جو نفع کھینچے وہ سود ہے۔(بحوالہ رسالہ قشیریہ، ص221)

تقویٰ کے بارے میں بزرگوں کے اقوال!!

حضرت سہل بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہنے فرمایا:اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کوئی مددگار نہیں رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سوا کوئی رہنما نہیں، تقویٰ کے علاوہ کوئی زادِراہ نہیں اور صبر کے علاوہ کوئی عمل نہیں(حقیقی مددگار اللہ ہے)(بحوالہ رسالہ قشیریہ، ص219)

حضرت کتانی علیہ الرَّحمہ فرماتے ہیں:دنیا کی تقسیم آزمائش کے مطابق کی گئی اور آخرت کی تقسیم تقویٰ کے مطابق کی گئی۔

حضرت جریری علیہ الرَّحمہ فرماتے ہیں: جس شخص اور اللہ کے درمیان تقویٰ اور مراقبہ مضبوط نہیں وہ کشف اور مشاہدہ تک نہیں پہنچ سکتا۔(بحوالہ ر سالہ قشیریہ، صفحہ219)

حضرت نصرابازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:تقویٰ یہ ہے کہ انسان اللہ کے سوا ہر چیز سے بچے۔(یہ تقویٰ کا اعلیٰ درجہ ہے)

حضرت سہل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جو شخص چاہتا ہے کہ اسکا تقویٰ درست ہو وہ تمام گناہوں کو چھوڑ دے۔(رسالہ قشیریہ، صفحہ219)

حضرت ابوعبداللہ روز باری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:تقویٰ یہ ہے کہ تم اس چیز سے اجتناب کرو جو تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دور کرتی ہے۔(رسالہ قشیریہ، صفحہ220)

حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:متقی وہ شخص ہے جو اپنے کو خلافِ شریعت کاموں کے ساتھ اورباطن کوقلبی بیماریوں کےساتھ میلا نہ کرے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کی موافقت کے ساتھ قائم رہے۔(رسالہ قشیریہ، صفحہ220)

حضرت ابن عطاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:تقویٰ کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی، اس کا ظاہر حدود کی حفاظت ہے اور باطن نیت اور اخلاص ہے۔

حضرت ابو حفصرحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے: فرماتے ہیں: تقویٰ صرف حلال( مال) سے حاصل ہوتا ہے اس کے غیر سے نہیں۔(رسالہ قشیریہ، صفحہ 220)

حضرت ابوالحسین زنجانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جس شخص کاسرمایہ تقویٰ ہواس کے نفع کے بیان سے زبانیں عاجز ہیں۔(رسالہ قشیریہ، صفحہ220)

حضرت نصرابازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جو شخص تقویٰ کو اختیار کرتا ہے وہ دنیا کو چھوڑنے کا مشتاق ہوتا ہے کیونکہ ارشادِ خداوندی ہے:وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَطاَفَلَا تَعْقِلُوْنَ0 تَرجَمۂ کنز الایمان:اور بے شک پچھلا گھر بھلا ان کے لیے جو ڈرتے ہیں تو کیا تمہیں سمجھ نہیں۔(پارہ ۷، سورۃ الانعام، آیت؛32)

بعض صوفیائے کرام نے فرمایا:جو شخص تقویٰ کی حقیقت تک پہنچ گیا اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے دل پر دنیا سے بچنا آسان کردیتا ہے۔(رسالہ قشیریہ،صفحہ219)

اللہ کریم ہمیں متقی اور پرہیزگار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


تقویٰ ایک نادر خزانہ ہے اگر تم اس خزانے کو پانے میں کامیاب ہوگئے تو تمہیں اس میں بیش قیمت موتی اور جواہرات ملیں گے اور علم و دولت روحانی کا بہت بڑا خزانہ ہاتھ لگے گا، ہاتھ آجائے گا، یوں سمجھو کہ دنیا و آخرت کی بھلائیاں تقویٰ میں جمع کردی گئی ہیں، ذرا قرآن کریم کو غور سے دیکھو کہیں ارشاد فرمایا گیا کہ اگر تم تقویٰ اختیار کرو گے تو ہر قسم کی خیر و برکت کو پالو گے،کہیں اجرو ثواب کی نوید،کہیں فرمایا گیا کہ سعادت کا ذریعہ تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرنا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :ترجمہ کنزالایمان، :اور اگر تم بچتے رہو اور صبر کرو تو یہ بڑی ہمت کا کام ہے (پ ۴، ال عمران ۱۸۶)۔ترجمہ کنزالایمان :بیشک اللہ ان کے ساتھ ہے جو ڈرتے ہیں اور نیکیاں کرتے ہیں۔

تو خلاصہ یہ ہوا کہ دنیا و آخرت کی سعادتیں اور بھلائیاں اس ایک تقویٰ میں جمع کردی گئی ہیں اس لیےاے دوست ! تقویٰ اختیار کر، اور حسب استطاعت اس سے فائدہ حاصل کر۔

بیان کردہ تقوی کے فوائد میں سے یہ تین امور خاص عبادت سے تعلق رکھتے ہیں۔

اول :عبادت کی توفیق اوراس میں اعانت و مدد،(پ ۲، ابقرہ ع ۱۸۴)

قال اللہ و تعالیٰ : ان اللہ مع المتقین (۱۹۴) (پ ۲، البقرہ ع ۱۹)

ثانی :اعمال کی اصلاح و درستی اور عبادت کی خامیوں کو پورا کرنا۔

قال اللہ تعالیٰ :یصلح لکم اعمالکم۲۲، الاحزاب ، ۷۱)

ثالث : قبولیت اعمال، قبولیت اعمال کو فضیلت بھی اہل تقویٰ کو نصیب ہوتی ہے۔

قال اللہ تعالیٰ ، انما یتقبل اللہ من المتقین (۲۷) (پ ۶، المائدہ ۲۷)

اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اہل تقویٰ کے اعمال مقبول ہوتے ہیں اور عبادت کا دار مدار بھی ان تین امورپر ہے:

اولاً: توفیق ِعبادت ،تاکہ اس کی بندگی کی جاسکے، پھر اس میں جو کمی رہ جائے اس کی اصلاح کی جائے اور پھر اس عبادت کا بارگاہِ حق تعالیٰ میں مقبول ہونا، یہ تین امور: یعنی توفیق ِعبادت ، اصلاح ِاعمال اور قبول ِاعمال ، وہ چیزیں ہیں جنہیں عابد و متقی لوگ اپنی دعاؤں میں رو رو کر مانگتے ہیں۔

ربنا وفقنا لطاعتک و اتمم تقصیرنا و تقبل منا ۔ترجمہ :اے ہمارے پروردگار ہمیں عبادت کی توفیق دے، اور ہماری کوتاہیوں سے در گزر کر اور ہماری اس اطاعت کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمایا۔اٰمین

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہانے فرمایا: رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دنیا کے کسی شے یا انسان کو پسند نہیں فرماتے تھے مگر صاحبِ تقویٰ کو۔(مسند امام اعظم ، 9/341حدیث: 2425)

حضرت قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ تورات شریف میں مذکور ہے: اے انسان تو متقی بن یا پھر جہاں چاہے سو۔

مدنی پھول:

جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، وہی نفع والی شے حاصل کرتا ہے۔

قبر میں انسان کے ساتھ صرف تقویٰ اور عملِ صالح ہی جاتے ہیں۔

سن لو تقویٰ ہی عزت و بزرگی ہے، دنیا کی محبت تو ذلت اوررسوال ہے۔

دولت سے انسان کو کب عزت ماقبل حاصل ہوسکتی ہے، عزت تو سب تقویٰ سے وابستہ ہے۔

تقویٰ ایک نہایت ہی عظیم شے ہے، اس کی تمثیل ضروری ہے، اوراس کی معرفت حاصل کیے بغیر چارہ کار نہیں لیکن تمہیں معلوم ہے کہ جس قدر کوئی شے اعلیٰ و مفید ہوتی ہے اسی قدر اس کا حصول دشوار ہوتا ہے، اور اس کا حصول اتنی ہی محنت و مشقت اور بلند ہمتی چاہتا ہے، لہذا جس طرح یہ تقویٰ ایک نفیس و اعلیٰ چیز ہے اسی طرح اس کے حصول کے لیے عظیم مجاہد اور شدید جدوجہد کی ضرورت ہے، نیز اس کے حقوق و آداب کا بھی لحاظ رکھنا اشدضروری ہے، کیونکہ درجات بسبب مجاہدہ عطا ہوتے ہیں اور جس درجے کی کوشش کی جاتی ہے اسی درجے کا ثمرہ اور پھل ملتا ہے۔قرآن مجید میں فرمایا:والذین جاھدوا ۔الآیہ (پ ۲۱، العنکبوت 69)تَرجَمۂ کنز الایمان:اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھادیں گے اور بے شک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے۔

تقویٰ کے مراتب:علمائے کرام فرماتے ہیں کہ تقویٰ کے تین مراتب ہیں۔

۱۔ شرک سے تقوی

۲۔بدعت سے تقویٰ

۳۔ گناہوں سے تقویٰ

امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، میں کہتا ہوں کہ میں نے تقویٰ کا ایک اور معنی بھی پایا ہے، اور یہ معنی حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مشہور حدیث سے مروی ہے :

حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔انما سمی المتقون متقین ، لترکھم مالا باس بہ حذرا اعمال من باس

مفہوم حدیث۔ یعنی متقیوں کو متقی اس لیے کہا گیا کہ انہوں نے اس کام کو بھی ترک کردیا جس میں شرعا کوئی حرج نہیں، یہ احتیاط کرتے ہوئے اس کے ذریعے ایسے کام میں نہ پڑ جائیں جس میں حرج و گناہ ہو

تمہیں معلوم نہیں کہ بخار میں مبتلا شخص جب ہر اس چیز سے پرہیزکرے جو اس کی صحت کے لیے مضر ہو، جیسے کھانا، پینا، پھل وغیرہ تو اسے حقیقی پرہیز کرنے والا کہتے ہیں، اسی طرح جو شخص بر خلاف شرع امر سے اجتناب کرے تو ایسا ہی شخص درحقیقت متقی کہلانے کا حقدار ہے،

خلاصہ :نفس کو پورے عزم و استقامت سے ہر مصیبت سے روکا جائے، اور ہر طرح کے فضول ِحلال سے دور رکھا جائے، ایسا کرنے سے بدن کے ظاہری و باطنی اعضا صفت تقویٰ سے موصوف ہوجائیں گے، آنکھ، کان، زبان، دل ، پیٹ، شرمگاہ اور باقی جملہ اعضا اور اجزائے بدن میں تقویٰ پیدا ہوجائے گا، اور نفس تقویٰ کی صفت سے منصف متصف ہوجائے گا۔


تقویٰ ایک نادر خزانہ ہے اگر تم اس میں کامیاب ہوگئے تو تم قیمتی جوہرہ ، ہر دلعزیز شے، نادر خزانہ، خیر کثیر عزت والا رزق، بڑی غنیمت اور عظیم بادشاہت کو پالو گے، گویا دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں جمع کرکے صرف اس ایک خصلت کے تحت رکھ دی گئی ہیں۔

تقویٰ کی تعریف:تقویٰ کی جامع تعریف یہ ہے کہ دل کو ہر اس شر و برائی سے بچانا کہ اس جیسا شر تم سے پہلے صادر نہ ہو، یعنی ڈر اور خوف رکھنا گناہوں سے پرہیز کرنا وغیرہ وغیرہ۔

تقویٰ کے بارے میں قران مجید کی آیاتِ مبارکہ: اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ۠(۱۲۸) ترجمہ کنزالایمان ۔بے شک اللہ عزوجل ان کے ساتھ ہے جو ڈرتے ہیں اور جو نیکیاں کرتے ہیں۔ (پ 14، النحل: 128)

تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ یعنی اے انسان اگر تو چاہتا ہے کہ میری مدد، میرا فضل اور میری رحمت تیرے شاملِ حال ہو تو تو ان لوگوں میں سے ہوجا جو مجھ سے ڈرتے ہیں اور نیکیاں کرنے والے ہیں۔

تقویٰ والے کو تکلیفوں سے نجات اور حلال رزق نصیب ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ(۲) وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُؕ ۔ترجمہ کنزالایمان:اور جو اللہ عزوجل سے ڈرے اللہ اس کے لیے نجات کی راہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان نہ ہو۔(پ ۲۸، الطلاق ۲، ۳ )

تفسیر نعیمی میں ہے کہ جس سے وه دنیا و آخرت کے غموں سے خلاصی پائے اور ہر نیکی وپرپریشانی سے محفوظ رہے۔

تقویٰ اپنانے والے کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں:ارشاد باری تعالیٰ: وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ- ترجمہ کنزالایمان : اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔(پ ۲۲، الاحزاب ۷۱)

اللہ عزوجل کی محبت نصیب ہوتی ہے:اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ(۴) ترجمہ کنزالایمان:بے شک پرہیزگار اللہ عزوجل کو خوش آتے ہیں۔( پ ۱۰، التوبہ ۷)

اعمال قبول ہوتے ہیں:اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ(۲۷) ترجمہ کنزالایمان :اللہ عزوجل اسی سے قبول کرتا ہے جسے ڈر ہو۔(پ ۶، المائدہ آیت ۲۷)

تقویٰ والے کو عزت و احترام ملتا ہے:اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ- ترجمہ کنزالایمان :بے شک اللہ عزوجل کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جوتم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔(پ ۲۶، الحجرات ۱۳)

ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ رزق، گناہوں کی معافی، اللہ عزوجل کی محبت ، اعمال کی قبولیت اور عزتیں سب اسی تقویٰ ہی کے سبب نصیب ہوتی ہیں تو کیوں نہ ہم تقویٰ کو اپناشعار بنالیں اور اسے اپنانے کی کوشش کریں۔

حدیث مبارکہ اور تقویٰ :حدیث شریف، حضرت سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:

حضور شفیع امت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم دنیا کے کسی چیز سے خوش نہ ہوئے اور متقی و پرہیزگار

شخص کے سوا کسی نے آپ کو خوش نہیں کیا۔(مسند امام احمد ، مسند عائشہ ۹/۳۴۱، حدیث

۲۴۴۵۷)

ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے:حضور علیہ الصلوة والسلام نے ارشاد فرمایا:تقویٰ والوں کو متقی اس لیے کہا گیا کہ انہوں نے ناجائز میں پڑنے کے خوف سے جائز کو بھی چھوڑ دیا۔(ترمذی ، کتاب الموة القیاة، الخ باب ماجا فی صفة الحوض ۴/۲۰۴، حدیث ، ۲۴۵۹)

صوفیاکے نزدیک تقویٰ:میں کہتا ہوں تقویٰ پر اس چیز سے بچنے کو کہتے ہیں جس سے تمہیں اپنے دین میں نقصان کا ڈر ہو۔( منہاج العابدین، امام احمد غزالی علیہ الرحمہ)

الغرض تقویٰ کی اصل یہ ہے اور اس سےحاصل کرنے کاذریعہ یہ ہے کہ جو شخص اللہ عزوجل سے ڈرنا چاہے وہ پانچ اعضا، آنکھ ، کان ، زبان، دل اور پیٹ کا خاص خیال رکھیں۔

تم نفس کے خلاف یہ مضبوط ارادہ کرلو کہ اسے گناہوں سے باز رکھو اور ضرورت سے زائد حلال چیزوں سے بھی بچاؤ ، اگر تم نے ایسا کرلیا تو تم اپنی آنکھ، کان، زبان د ل۔ پیٹ، پاؤں، شرمگاہ ، الغرض تمام اعضا کے معاملے میں اللہ عزوجل سے ڈرنے والے بن جاؤ گے اور انہیں تقویٰ کی لگام دینے میں کامیاب ہوجاؤ گے۔

شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

ما یصنع العبد بعز الغنی

والعز کل العز للمتقی

ترجمہ : بندہ مالداری کی عزت کا کیا کرے گا، عزت تو ساری کی ساری متقی و پرہیزگار کے لیے ہے۔(منہاج العابدین، امام غزالی )


تقویٰ و پرہیزگاری ایسی دولت ہے جس کے ذریعہ انسان اللہ کا قرب پا لیتا ہے۔ حرام کاموں کے اِرتکاب سے گُریز کرتا ہے اور جائز کاموں کی طرف نفس کو لگاتا ہے۔مَنْہِیَّات (شریعت کے منع کردہ کام) سے بچ کرنیکی و بھلائی کے کاموں کی طرف تگ و دو (کوشش) کرتا ہے۔ ایسی عظیم دولت کو کیسے حاصل کیا جائے؟ آئیے!قراٰن و حدیث کے مہکتے مدنی پھولوں سے راہنمائی لیتے ہیں:(1)عدل و انصاف سے: اللہ پاک ارشاد فرماتاہے:﴿¼OiZZ'ϸ"™ó2 تَرجَمۂ کنز الایمان: انصاف کرو وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے۔ (پ6 ،المائدۃ :8 )عدل و انصاف کا تعلُّق انسانی حقوق سے ہے اور انسانی حقوق کے تحفُّظ کا تقویٰ میں سب سے بڑا دخل ہے، اسی لیے عدل کو ”OiZZ'Ï“فرمایا ہے۔(تفسیر ِ مظہری ،تحت الآیۃ: 8، 4/315)

(2)پیارےآقاصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی بارگاہ کا ادب کرنے سے: خالقِ کائنات کا ارشادِ عظیمہے: %…„"á"?>"lk^#"»“*ï {"½'SÞ?>"s2

œOi تَرجَمۂ کنز الایمان: بے شک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسولُ اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ (کھول دیا ،کشادہ کردیا،فی القاموس) لیا ہے۔ (26،الحجرات:3)علما فرماتے ہیں :جس طرح حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حیاتِ طیّبہ میں آپ کے سامنے بلند آواز سے بولنا مکروہ تھا، اسی طرح قبر مبارک کے پاس بھی مکروہ ہے۔( تفسیر ابن کثیر ،تحت الآیۃ:3،4/615)

(3)نیک اور سچوں کی صحبت سے :اللہ کریم نے پہلے تقویٰ اختیار کرنے کا حکم فرمایا، پھر طریقہ بتایا کہ سچوں کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ©""÷""øŸ?>"CB ŸuÞ"“"e›6تَرجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو۔ (پ11، التوبۃ:119)

(4)نبی ِّکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کامل اتباع سے:اللہپاک فرماتا ہے :﴿ x’F>"6 MãT 6 ASÈ"qlk^·èkتَرجَمۂ کنز الایمان:اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں۔ (پ24، الزمر:33)سچ لے کر تشریف لانے سے مراد حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمہیں اورتصدیق(پیروی )کرنے والےتمام مؤمنین مراد ہیں۔(تفسیرِ کبیر ،تحت الآیۃ:33،9/452)

(5)روزے رکھنے سے:اللہپاک نے قراٰنِ کریم میں روزے کی فرضیت کے احکام صادر فرما کر اس کا مقصود تقویٰ قرار دیا کیونکہ روزے اورتقوی کا چولی دامن کا ساتھ ہے،اورروزہ متقین کا شِعار ہے۔ قراٰن مجید میں ارشاد ہوا:﴿Ÿ?>"CB É

mßSJIHc?>"òÉa&ý"$

تَرجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے ۔ ( پ2،البقرۃ:183)

(6)رضائے الہی کی خاطر عبادت کرنے سے : قراٰن کریم میں ارشاد ہوتاہے:﴿"uD"̘"CB E* 5SJIHc?>"6GF>"تَرجَمۂ کنز الایمان:

اے لوگو ! اپنے رب کو پوجو(عبادت کرو)جس نے تمہیں اور تم سے اگلوں کو پیدا کیایہ امید کرتے ہوئے کہ تمہیں پرہیزگاری ملے ۔(پ1،البقرۃ:21)

(7)تقویٰ کی دعا مانگنےسے:حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دعا فرماتے تھے :اے اللہ! میں تجھ سےتیری پناہ میں آتا ہوں،عاجز ہو جانے، سستی، بزدلی، بخل، سخت بڑھاپے اور عذابِ قبر سے ۔ اے اللہ! میرے دل کو تقویٰ دے، اس کو پاکیزہ کر دے ۔(صحیح مسلم ، 2 / 315،حدیث:6906)


تقویٰ پرہیزگاری حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے علم کا ہونا ضروری ہے کہ بندے کو اگر معلوم ہو کہ اس کو اپنانے میں کیا کیا فوائد اور کیا کیا نقصانات ہیں تو اس چیز کو حاصل کرنے کا ایک شوق وجذبہ پیدا ہوتا ہے، اسی وجہ سے  تقویٰ و پرہیزگاری حاصل کرنے کے لیے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے کیا کیا فوائد اور کیا کیا نقصانات ہیں۔

تو آئیے ہم اپنے رب عزوجل کے پاک کلام قرآن مجید سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں، قرآن پاک کی سورہ المائدہ میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ،ترجمہ : اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو۔

حدیث کا خلاصہ ہے کہ گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر اور عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی برتری حاصل نہیں بلکہ برتری تو اسے حاصل ہے جو زیاد ہ متقی ہے۔

پیارے اور محترم اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے کہ اللہ پاک ہمیں ڈرنے کا حکم عطا فرماتا ہے اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ گورے کو کالے پر برتری نہیں بلکہ برتری تو اسے حاصل ہے جو زیادہ متقی ہےتو ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی تقویٰ و پرہیزگاری کو اختیار کریں۔

پیارے اور محترم اسلامی بھائیو! تقویٰ و پرہیزگاری حاصل کرنے کا ایک مزید ذریعہ نیک متقی و پرہیزگار لوگوں کی محبت کو اختیار کرنا ہےآپ بھی تقویٰ و پرہیزگاری حاصل کرنے اور نیک بننے کے لیے دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہوجائیے۔اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں

اے دعوتِ اسلامی تیری دھوم مچی ہو

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! آج میں آپ کو تقویٰ کے حوالے سے بتاتا ہوں کہ یہ کیا ہے اور اس کی فضیلت کیا ہے، پیارے پیارے اسلامی بھائیو آج 2020 میں سب سے زیادہ  عام طور پر جو توجہ دی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ بس کامیابی مل جائے میں کامیاب ہوجاؤں میں لوگوں کی نظر میں ایک اچھی شخصیت بن جاؤں تو وہ شخص پوری کوشش کرتا ہے کامیاب ہونے کی تو سوال یہ ہے کہ اگر ایک مسلمان کامیاب ہونا چاہتا ہے ہمیشہ کے لیے اپنے رب اور دنیا والوں کے نزدیک اچھا بننا چاہتا ہے تو کیا اس کا کوئی طریقہ ہے؟ جی ہاں ہے بالکل ہے ۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پ ۲۶، الحجرات آیت ۱۳ میں فرماتا ہے کہ ؛ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ- تَرجَمۂ کنز الایمان:بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔

آئیے ! کامیابی کے حوالے سےایک قول ان کا سنتے ہیں جن کو کافر صادق و امین کہا کرتے تھے۔

چنانچہ پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ پاک نے تم سے جاہلیت کا غرور اور خاندانی فخر دور کردیا ہے، اب یا تو مومن نیکوکار ہوں گے یا بد بخت و بدکار۔ (ترمذی ، کتاب المناقب ، باب فی فضل الشا والیمن 497/1حدیث 3981)

پیارے اسلامی بھائیو ہمیں بھی تقویٰ کی تعریف بیان کی کہ اس کو مختصر دیکھیں تو وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہر اس کام کو ترک کردینا جس سے رب ناراض ہوتا ہے، اور ہر وہ کام کرنا، وہی کام کرنے کی کوشش کرنا جس سے رب راضی ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہم کو تقویٰ و پرہیزگاری والی زندگی اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم