اویس اور عبداللہ مدنی چینل دیکھ رہے تھے اتنے میں اویس کا چھوٹا بھائی بلال آیا، مدنی چینل پر متقین کی فضیلت پر حدیث پاک  بیان کی جارہی تھی کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں ایک آدمی عبادت و مشقت کا ذکر ہوا، اور دوسرے کے تقویٰ کا تو نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ عبادت تقویٰ( پرہیزگاری) کے برابر نہیں ہوسکتی۔ (ترمذی )اتنے میں بلال نے کہا : بھائی تقویٰ کیا ہوتا ہے؟

اویس: تقویٰ کا مطلب خوف و ہیبت ِ خداوندی ہے جیسے قرآن مجید میں باری تعالیٰ نے بیان فرمایا: وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ(۴۱) تَرجَمۂ کنز الایمان: اور مجھی سے ڈرو ۔( البقر ہ ،41)

فورا عبداللہ نے کہا : تقویٰ کا مطلب تو پرہیزگاری ہے، یعنی گناہوں سے بچنے کے ہیں، جیسے قرآن مجید فرقانِ حمید میں اللہعزوجل نے فرمایا:

وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۵۲)

( النور :52)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے اور اللہ سے ڈرے اور پرہیزگاری کرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں۔بلال:اویس بھائی اور عبداللہ بھائی ان دونوں میں سے تقویٰ کا کون سا معنی درست ہے؟پرہیزگاری یا خوفِ خدا ؟عبداللہ : میرے والد صاحب عالم ہیں انہیں اس بارے میں معلوم ہوگا چلیں اس بارے میں ان سے سوال کرتے ہیں کہ تقویٰ کے درست معنی کیا ہیں؟َاویس اور بلال عبداللہ کے ساتھ ان کے گھر گئے، عبداللہ اپنے والد صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے،السلام علیکم باباجان!عبداللہ کے والد : وعلیکم السلام ، اویس اور بلال سے سلام و مصافحہ کرنے کے بعد۔عبداللہ کے والد : اویس اور بلال کو مخاطب کرتے ہوئے کیسے ہیں آپ ؟اویس اور بلال : الحمدللہ !عبداللہ :بابا جان ایک سوال پوچھنا ہے؟عبداللہ کے والد : جی فرمائیے۔عبداللہ :تقویٰ کے معنی پرہیزگاری ہے یا خوفِ خدا ؟ کیونکہ میں نے تقویٰ کا مطلب پرہیزگاری کرنا بتایا اور اویس بھائی نے خوفِ خدا بتایا۔عبداللہ کے والد : تقویٰ کا ذکر قرآن مجید میں کئی جگہ آیا ہے، اور اس کے کئی معنی ہیں جو قرآن مجید میں بیان کیے گئے ہیں ۔

اویس اور آپ نےجو معنی بیان کئے دونوں ہی درست ہیں، بلکہ تقویٰ کا ایک اور معنی ا طاعت (یعنی فرمانبرداری) بھی ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں ارشادِ خداوندی ہے:

یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوا  اتَّقُوا  اللّٰهَ  حَقَّ  تُقٰتِهٖ  ترجمہ ۔ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے۔(آل عمران ۱۰۲)

اویس اور عبداللہ ایک ساتھ جی سمجھ گئے !۔عبداللہ کے والد : ویسے اس سوال کی کیا سوجھی آپ کو؟ اویس، ہم مدنی چینل دیکھ رہے تھے، وہاں حدیث پاک سنی کہ عبادت تقویٰ کے برابر نہیں۔

عبداللہ کے والد : اچھا آپ جانتے ہیں کیا کہ یہ عظیم صفت کیسے حاصل کی جاسکتی ہے؟

اویس اور عبداللہ : نہیں ہمیں نہیں معلوم آپ بتادیجئے۔عبداللہ کے والد : اگر ہم اویس کے بتائے ہوئے معنی، یعنی تقویٰ خوف ِ خدا سے اللہ عزوجل کا خوف دل میں پیدا کرکے اور خود کو جہنم اور اس کے عذاب سے اور قیامت کی ہولناکیوں سے ڈرا کر حاصل کیا جاسکتا ہے اور اس کے علاوہ خائفین یعنی خوفِ خدا رکھنے والوں کی صحبت اختیار کرکے بھی اس کا حصول ممکن ہے۔

عبداللہ : بابا جان میرے بتائے ہوئے تقویٰ کے معنی سے کیسے حاصل ہوگی ؟

عبداللہ کے والد : آپ کے بتائے ہوئے تقویٰ کے معنی یعنی پرہیزگاری سے تقویٰ کو اس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے کہ اللہ عزوجل کی حرام کردہ چیزیں ، اور رب تعالیٰ کی ناپسندیدہ چیزوں، لغو و فضولیات سے پرہیز یعنی اس سے دور رہ کر پا بچ کر۔اویس : اور آپ کے بیان کردہ تقویٰ کے معنی سے کیسے اس صفت کو حاصل کرنا ممکن ہوگا، ؟عبداللہ کے والد: میرے بیان کردہ معنی یعنی طاعت و عبادت سے اس طرح تقویٰ حاصل کیا جاسکتا ہے، کہ اس کی پوری پوری فرمانبرداری کرکے رب عزوجل نے فلاں کلام سے منع فرمایا تو اس کو نہیں کرنا اور جس کا حکم دیا ہے اس کو احسن طریقے سے پورا کرنا۔اویس : عبداللہ کے والد سے : کیا متقین کے کوئی خاص اوصاف بھی ہیں؟ اگر ہیں تو بیان فرمادیجئے تاکہ مزید ہم اس بارے میں معلومات حاصل کرسکیں۔

عبداللہ کے والد : جی ہیں، قرآن مجید میں سورہ آل عمران آیت نمبر17میں متقین کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔

اَلصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْمُنْفِقِیْنَ وَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ(۱۷)

ترجمہ : صبر کرنے والے اور سچے اور فرمانبردار اور راہِ خدا میں خرچ کرنے والے اورر ات کے آخری حصے میں مغفرت مانگنے والے ( ہیں) (آل عمران ۱۷)

اور ان اوصاف کو اختیار کرلینے سے بھی ہم متقی بن سکتے ہیں کہ ہم طاعت اور مصیبتوں پر صبر کریں، نیز گناہوں سے بچیں، ہمارے قول ارادے اور نیتیں سب سچی ہوں اور اللہ کےسچےفرمانبردار ہو جائیں اور اپنے محبوب مال میں سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہو جائیں تو ہم بھی اس صفت کو حاصل کرسکتے ہیں۔عبدالله : کيا تقوی کے شعبہ جات بھی ہیں؟

عبداللہ کے والد : جی ہاں تقویٰ کا ایک شعبہ اپنا محاسبہ کرنا بھی ہے ۔سیدناعمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا محاسبہ نفس یعنی اپنی ذات کا محاسبہ کرنے کے کہ بڑے واقعات مشہور ہیں جیسے چنانچہ امیر المومنین حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ روزانہ اپنا احتساب فرمایا کرتے اور جب رات آتی تو اپنے پاؤں پر دُرا مار کر فرماتے، بتا آج تو نے کیا کیا کیا ہے؟ ( احیا العلومکتاب المراقبہ والمحاسبة المرادیة الرابعة فی مناقبہ النفس علی تقصیر ھا ،ج۵، ص ۱۴۱)

اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کا ایک نسخہ ہمارےپیارے مرشد نے ہمیں عطا فرمایا ہے جیسے نیک بننے کا نسخہ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس پر پابندی سے عمل کرکے اور باقاعدگی سے پُر کرنے کے ذریعے سے ہم بھی متقی و پرہیزگار بن سکتے ہیں۔

تقویٰ کا بہت بڑا تعلق کھانے پینے کی اشیا سے ہے، کہ آدمی حرام اور شبہے ووالی چیزوں سے بچے، یہ دونوں تقویٰ کے ضروری اور درمیانی درجے ہیں، تقویٰ کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ اپنی خواہشات کے بر خلاف چلے کہ کوئی عمدہ چیز آپ کے سامنے ہو اور آپ کھانے کی قدرت کے باوجود اسے نہ کھائیں، کیا میں آپ کو سمجھا پایا ؟ اویس اور عبداللہ:جی۔عبداللہ کے والد :آئیے! نیت کرلیں کہ ہم ان طریقوں کو اختیار کرکے متقی کا درجہ پائیں گے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ