تقویٰ کا معنی !تقویٰ کا معنی ہے’’نفس کو خوف کی چیز سے بچانا‘‘ اور شریعت کی اصطلاح میں تقویٰ کا معنی یہ ہے کہ نفس کو ہر اس کام سے بچانا جسے کرنے یا نہ کرنے سے کوئی شخص عذاب کا مستحق ہو، جیسے کفرو شرک، کبیرہ گناہوں ، بے حیائی کے کاموں سے اپنے آپ کو بچانا، حرام کاموں کو چھوڑ نا اور فرائض کو اداکرنا وغیرہ۔ اور بزرگانِ دین نے یوں بھی فرمایا ہے کہ تقویٰ یہ ہے کہ تیرا خدا تجھے وہاں نہ پائے جہاں اس نے منع فرمایا ہے۔(بحوالہ صراط الجنان،1/62)

تقویٰ کے فضائل:قرآنِ مجید اور احادیث میں تقویٰ حاصل کرنے کی ترغیب اور فضائل بکثرت بیان کیے گئے ہیں۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ0 تَرجَمۂ کنزالعرفان:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے اور کا حق ہے، اور ضرور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے۔(پ4، آل عمران،102)

اور ارشاد فرمایا: هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ0 تَرجَمۂ کنز الایمان:اس میں ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے۔(پ1، البقرۃ:2)

آیت کے اس حصے میں قرآن مجید کا ایک اور وصف بیان کیا گیا کہ یہ کتاب ان تمام لوگوں کو حق کی طرف ہدایت دیتی ہے جو اللہ سے ڈرتےہیں، لیکن قرآن پاک سے حقیقی نفع صرف متقی لوگ حاصل کرتے ہیں، اس لیے یہاں هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ یعنی متقین کے لیے ہدایت فرمایا گیا۔(بحوالہ

تفسیر صراط الجنان،1/61)

حضرت عطیہ سعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:کوئی بندہ اس وقت تک متقین میں شمار نہیں ہوگا جب تک کہ وہ نقصان نہ دینے والی چیز کو کسی دوسری نقصان والی چیز کے ڈر سے نہ چھوڑ دے۔(یعنی کبھی جائز چیز کے ارتکاب سے ممنوع چیز تک نہ پہنچ جائے)(ترمذی،4/204، 205، حدیث:2459)

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا: تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ ایک ہے، تمہارا باپ ایک ہے اور کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ہے، نہ عجمی کو عربی پر فضیلت ہے، نہ گورے کو کالے پر فضیلت ہے، نہ کالے کو گورے پر فضیلت ہے مگر صرف تقویٰ سے۔(معجم الاوسط،3/329،حدیث:4749)

تقویٰ کے مراتب:علما نے تقویٰ کے مختلف مراتب بیان فرمائے ہیں، جیسے عام لوگوں کا تقویٰ”ایمان لا کر کفر سے بچنا ہے“، متوسط لوگوں کا تقویٰ ”احکامات کی پیروی کرنا “ اور ”ممنوعات سے رکنا“ ہے۔اور خاص لوگوں کا تقویٰ ’’ہر ایسی چیز کو چھوڑ دینا جو اللہ تعالیٰ سے غافل کرے۔“

اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن کے فرمان کے مطابق تقویٰ کی سات قسمیں ہیں:(1) کفر سے بچنا (2)بدمذہبی سے بچنا(3) کبیرہ گناہ سے بچنا(4)صغیرہ گناہ سے بچنا(5) شبہات سے پرہیز کرنا(6)نفسانی خواہشات سے بچنا (7)اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والی ہر چیز کی طرف توجہ کرنے سے بچنا اور قرآن عظیم ان ساتوں مرتبوں کی طرف ہدایت دینے والا ہے۔(تفسیر صراط الجنان،1/63)

تقویٰ کیسا ہو ؟حضرت ِ واسطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: تقویٰ یہ ہے کہ اپنے تقویٰ سے بھی بچے یعنی تقویٰ کی ریا کاری سے بچے اور متقی وہ ہے جو حضرت ابن سرین علیہ الرَّحمہ کی طرح ہو، انہوں نے گھی کے چالیس مٹکے خریدے، ان کے غلام نے ایک مٹکے سے چوہا نکالا، انہوں نے پوچھا کہ تم نے کس سے نکالا ہے؟ اس نے کہا مجھے یاد نہیں تو انہوں نے تمام مٹکے زمین پر گرا دیئے۔

(بحوالہ رسالہ قشیریہ، صفحہ 221)

حضرت امام ابوحنیفہ علیہ الرَّحمہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ اپنے مقروض کے درخت کے سائے میں نہیں بیٹھتے تھے اور فرماتے تھے حدیث شریف میں آیا ہے:کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعاً فَھُوَ رِباً ہر وہ قرض جو نفع کھینچے وہ سود ہے۔(بحوالہ رسالہ قشیریہ، ص221)

تقویٰ کے بارے میں بزرگوں کے اقوال!!

حضرت سہل بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہنے فرمایا:اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کوئی مددگار نہیں رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سوا کوئی رہنما نہیں، تقویٰ کے علاوہ کوئی زادِراہ نہیں اور صبر کے علاوہ کوئی عمل نہیں(حقیقی مددگار اللہ ہے)(بحوالہ رسالہ قشیریہ، ص219)

حضرت کتانی علیہ الرَّحمہ فرماتے ہیں:دنیا کی تقسیم آزمائش کے مطابق کی گئی اور آخرت کی تقسیم تقویٰ کے مطابق کی گئی۔

حضرت جریری علیہ الرَّحمہ فرماتے ہیں: جس شخص اور اللہ کے درمیان تقویٰ اور مراقبہ مضبوط نہیں وہ کشف اور مشاہدہ تک نہیں پہنچ سکتا۔(بحوالہ ر سالہ قشیریہ، صفحہ219)

حضرت نصرابازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:تقویٰ یہ ہے کہ انسان اللہ کے سوا ہر چیز سے بچے۔(یہ تقویٰ کا اعلیٰ درجہ ہے)

حضرت سہل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جو شخص چاہتا ہے کہ اسکا تقویٰ درست ہو وہ تمام گناہوں کو چھوڑ دے۔(رسالہ قشیریہ، صفحہ219)

حضرت ابوعبداللہ روز باری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:تقویٰ یہ ہے کہ تم اس چیز سے اجتناب کرو جو تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دور کرتی ہے۔(رسالہ قشیریہ، صفحہ220)

حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:متقی وہ شخص ہے جو اپنے کو خلافِ شریعت کاموں کے ساتھ اورباطن کوقلبی بیماریوں کےساتھ میلا نہ کرے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کی موافقت کے ساتھ قائم رہے۔(رسالہ قشیریہ، صفحہ220)

حضرت ابن عطاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:تقویٰ کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی، اس کا ظاہر حدود کی حفاظت ہے اور باطن نیت اور اخلاص ہے۔

حضرت ابو حفصرحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے: فرماتے ہیں: تقویٰ صرف حلال( مال) سے حاصل ہوتا ہے اس کے غیر سے نہیں۔(رسالہ قشیریہ، صفحہ 220)

حضرت ابوالحسین زنجانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جس شخص کاسرمایہ تقویٰ ہواس کے نفع کے بیان سے زبانیں عاجز ہیں۔(رسالہ قشیریہ، صفحہ220)

حضرت نصرابازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جو شخص تقویٰ کو اختیار کرتا ہے وہ دنیا کو چھوڑنے کا مشتاق ہوتا ہے کیونکہ ارشادِ خداوندی ہے:وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَطاَفَلَا تَعْقِلُوْنَ0 تَرجَمۂ کنز الایمان:اور بے شک پچھلا گھر بھلا ان کے لیے جو ڈرتے ہیں تو کیا تمہیں سمجھ نہیں۔(پارہ ۷، سورۃ الانعام، آیت؛32)

بعض صوفیائے کرام نے فرمایا:جو شخص تقویٰ کی حقیقت تک پہنچ گیا اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے دل پر دنیا سے بچنا آسان کردیتا ہے۔(رسالہ قشیریہ،صفحہ219)

اللہ کریم ہمیں متقی اور پرہیزگار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم