تقویٰ ایک نادر خزانہ ہے اگر تم اس میں کامیاب ہوگئے تو تم قیمتی جوہرہ ، ہر دلعزیز شے، نادر خزانہ، خیر کثیر عزت والا رزق، بڑی غنیمت اور عظیم بادشاہت کو پالو گے، گویا دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں جمع کرکے صرف اس ایک خصلت کے تحت رکھ دی گئی ہیں۔

تقویٰ کی تعریف:تقویٰ کی جامع تعریف یہ ہے کہ دل کو ہر اس شر و برائی سے بچانا کہ اس جیسا شر تم سے پہلے صادر نہ ہو، یعنی ڈر اور خوف رکھنا گناہوں سے پرہیز کرنا وغیرہ وغیرہ۔

تقویٰ کے بارے میں قران مجید کی آیاتِ مبارکہ: اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ۠(۱۲۸) ترجمہ کنزالایمان ۔بے شک اللہ عزوجل ان کے ساتھ ہے جو ڈرتے ہیں اور جو نیکیاں کرتے ہیں۔ (پ 14، النحل: 128)

تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ یعنی اے انسان اگر تو چاہتا ہے کہ میری مدد، میرا فضل اور میری رحمت تیرے شاملِ حال ہو تو تو ان لوگوں میں سے ہوجا جو مجھ سے ڈرتے ہیں اور نیکیاں کرنے والے ہیں۔

تقویٰ والے کو تکلیفوں سے نجات اور حلال رزق نصیب ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ(۲) وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُؕ ۔ترجمہ کنزالایمان:اور جو اللہ عزوجل سے ڈرے اللہ اس کے لیے نجات کی راہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان نہ ہو۔(پ ۲۸، الطلاق ۲، ۳ )

تفسیر نعیمی میں ہے کہ جس سے وه دنیا و آخرت کے غموں سے خلاصی پائے اور ہر نیکی وپرپریشانی سے محفوظ رہے۔

تقویٰ اپنانے والے کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں:ارشاد باری تعالیٰ: وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ- ترجمہ کنزالایمان : اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔(پ ۲۲، الاحزاب ۷۱)

اللہ عزوجل کی محبت نصیب ہوتی ہے:اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ(۴) ترجمہ کنزالایمان:بے شک پرہیزگار اللہ عزوجل کو خوش آتے ہیں۔( پ ۱۰، التوبہ ۷)

اعمال قبول ہوتے ہیں:اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ(۲۷) ترجمہ کنزالایمان :اللہ عزوجل اسی سے قبول کرتا ہے جسے ڈر ہو۔(پ ۶، المائدہ آیت ۲۷)

تقویٰ والے کو عزت و احترام ملتا ہے:اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ- ترجمہ کنزالایمان :بے شک اللہ عزوجل کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جوتم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔(پ ۲۶، الحجرات ۱۳)

ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ رزق، گناہوں کی معافی، اللہ عزوجل کی محبت ، اعمال کی قبولیت اور عزتیں سب اسی تقویٰ ہی کے سبب نصیب ہوتی ہیں تو کیوں نہ ہم تقویٰ کو اپناشعار بنالیں اور اسے اپنانے کی کوشش کریں۔

حدیث مبارکہ اور تقویٰ :حدیث شریف، حضرت سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:

حضور شفیع امت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم دنیا کے کسی چیز سے خوش نہ ہوئے اور متقی و پرہیزگار

شخص کے سوا کسی نے آپ کو خوش نہیں کیا۔(مسند امام احمد ، مسند عائشہ ۹/۳۴۱، حدیث

۲۴۴۵۷)

ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے:حضور علیہ الصلوة والسلام نے ارشاد فرمایا:تقویٰ والوں کو متقی اس لیے کہا گیا کہ انہوں نے ناجائز میں پڑنے کے خوف سے جائز کو بھی چھوڑ دیا۔(ترمذی ، کتاب الموة القیاة، الخ باب ماجا فی صفة الحوض ۴/۲۰۴، حدیث ، ۲۴۵۹)

صوفیاکے نزدیک تقویٰ:میں کہتا ہوں تقویٰ پر اس چیز سے بچنے کو کہتے ہیں جس سے تمہیں اپنے دین میں نقصان کا ڈر ہو۔( منہاج العابدین، امام احمد غزالی علیہ الرحمہ)

الغرض تقویٰ کی اصل یہ ہے اور اس سےحاصل کرنے کاذریعہ یہ ہے کہ جو شخص اللہ عزوجل سے ڈرنا چاہے وہ پانچ اعضا، آنکھ ، کان ، زبان، دل اور پیٹ کا خاص خیال رکھیں۔

تم نفس کے خلاف یہ مضبوط ارادہ کرلو کہ اسے گناہوں سے باز رکھو اور ضرورت سے زائد حلال چیزوں سے بھی بچاؤ ، اگر تم نے ایسا کرلیا تو تم اپنی آنکھ، کان، زبان د ل۔ پیٹ، پاؤں، شرمگاہ ، الغرض تمام اعضا کے معاملے میں اللہ عزوجل سے ڈرنے والے بن جاؤ گے اور انہیں تقویٰ کی لگام دینے میں کامیاب ہوجاؤ گے۔

شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

ما یصنع العبد بعز الغنی

والعز کل العز للمتقی

ترجمہ : بندہ مالداری کی عزت کا کیا کرے گا، عزت تو ساری کی ساری متقی و پرہیزگار کے لیے ہے۔(منہاج العابدین، امام غزالی )