پرفیسر حامد صاحب لیکچر دے رہے تھے،کچھ طلباء توجہ سے سن رہے تھے اور کچھ وقت کے ختم ہونے کے
منتظر تھے کہ کب یہ پوائنٹ ختم ہو اور انہیں پر فیسر صاحب سے نجات ملے ۔
دراصل پروفیسر حامد اپنے لیکچر زمیں نصیحت آموز باتیں ضرور شامل فرماتے تھے
اور کچھ نوجوان طلباء ان کی نصیحتوں سے
بیزاری محسوس کرتے تھے ۔
کاشف نے پوائنٹ ختم ہونے پر شکر ادا کرتے ہوئے قاسم سے
کہا شکر ہے یار جان چھوٹی پروفیسر حامد تو جان کو آجاتے ہیں ۔ قاسم لیکچر میں شامل اس آیت کے بارے میں سوچ رہا تھا
جس میں متقین کے لیے جنت میں داخلے کی نوید سنائی گئی ہے ۔لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتٌ
تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ
تَرجَمۂ کنز الایمان: پرہیز گاروں کے لیے ان کے
رب کے پاس جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں رواں (آل
عمران ۔ 15)
کاشف نے قاسم کے کندھے کو ہلایا تو قاسم نے پوچھا یار یہ
متقین کون ہوتے ہیں ؟ کاشف نے کہا ارے یار
تم پروفیسر صاحب کی باتوں کو دل پر مت لو وہ اپنی عمر تو گزار چکے اب ہمیں نصیحتں
کرنے چلے آتے ہیں ۔ مگر قاسم نے دل میں تہیہ کر لیا کہ وہ جان کہ رہے گا کہ متقین
کوگ کون ہوتے ہیں؟
سر حامد کے کمرے میں داخلے کی اجازت چاہتے ہوئے قاسم نے
کہا سر کیا میں اندر آسکتا ہوں ؟
پروفیسر صاحب نے کہا: جی بیٹا آئیے ۔ قاسم نے کہ سر میں
آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں ، آپ
نے کہا کہ اللہ
تعالی نے فرمایا ہے کہ متقین کے لئے جنت ہے تو آخر متقین کون
لوگ ہیں ؟ اور ہمیں جنت کیسے مل سکتی ہے ؟
سر حامد نے کہا بیٹا متقین وہ ہیں جنہوں نے معمولی شے پر
قناعت کرکے رات کی تاریکی میں اپنے مولی
کی بارگاہ میں قیام کیا ، محبوبِ حقیقی کی خاطر مشقتین برداشت کیں ، آفات کی
کڑواہٹ پر صبر کیا ، دھوکہ دہی اور نا فرمانی سے بچتے رہے صبر پر استقامت کے ساتھ
قائم رہے اور اپنا جان و مال اللہ کی راہ مین قربان کر دیا ۔
قاسم نے کچھ سمجھتے اور کچھ نا سمجھی کے انداز میں سوال
کیا کہ آخر تقوی ہے کیا ؟
سر حامد نے بتایا : امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :قرآن مجید میں تقوی کا اطلاق
3معانی پر کیا گیا ہے ۔
1۔ڈر اور خوف 2۔ طاعت و عبادت 3۔ دل کو گناہوں سے پاک رکھنا اور یہ
تقوی کا حقیقی معنی ہے۔
بہر حال اللہ عزوجل کے احکامات کی بجا آوری اور ممنوعات سے
روگردانی کر کے اسکی ناراضی و عذاب سے بچنے کام تقوی ہے ۔
اور حقیقی تقوی یہ ہے کہ تیرا پروردگار تجھے وہاں نہ
یکھے جہاں جانے سے اس نے تجھے روکا ہے اور اس مقام سے غیر حاضر نہ پائے جہاں حاضر ہونے کا اس نے حکم دیا ہے ۔ (اچھے برے اعمال ،
25)
قاسم نے کہا کہ یہ وہاں نہ دیکھے جہاں جانے سے اس نے
تجھے روکا ہے سے کیا مراد ہے اور غیر حاضر
نہ پائے سے کیا مطلب ہے ؟
سر حامد نے مزید سمجھاتے ہوئے کہا: وہاں نہ دیکھے جہاں
جانے سے اس نے روکا ہے ۔ اس میں تمام ممنوعات شامل ہونگے یعنی حرام ،مکروہ تحریمی وتنزیہی اور مشتبہ
اعمال مثلا شراب نوشی ،والدین کی نافرمانی ،سود ،جھوٹ غیبت ،چغلی ،حسد تکبر وعدہ
خلافی شماتت وغیرہا ۔
اور غیر حاضر نہ پائے سے مراد یہ ہے کہ اس میں تمام عبادات شامل ہو گی یعنی فرائض وسنن و مستحبات مثلا نماز ، روزہ ،
زکوۃ ،حج صدقہ ،خوش اخلاقی ،صدق ، عدل ، صلہ رحمی ، خیر خواہی اور ذکر الہی وغیرہ یہی حصول تقوی کے ماخذ ہیں جن کے ذریعے انسان
مقام قبولیت پا لیتا ہے ۔
قاسم نے پوچھا : مقام قبولیت کیا ہوتا ہے ؟
سر حامد نے کہا: اسکا جواب تمہیں اس واقعے میں ملے گا ۔
منقول ہے کہ ایک چور رات کے وقت حضر سیدتنا رابعہ بصریہ
کے گھر داخل ہوا اس نے پورے گھر کی تلاشی لی لیکن سوائے ایک لوٹے کے کوئی چیز نہ پائی ۔ جب اس نے نکلنے
کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر تم
چالاک و ہوشیار چور ہوتو کوئی چیز لئے بغیر نہ جاؤ گے اس نے کہا مجھے تو کوئی شے نہیں ملی آپ نے فرمایا : اس لوٹے سے
وضو کر کے کمرے میں داخل ہوجا اور دو رکعت نماز ادا کر یہاں سے کچھ نہ کچھ لے کر جائے گا ۔ اس
نے آپ کے کہنے کے مطابق وضو کیا اور جب نماز کے لیے کھڑا ہوا تو حضرت رابعہ نے
دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے ، اے میرے آقا و مولی یہ شخص میرے پاس آیا لیکن اس کو
کچھ نہ ملا اب میں نے اسے تیری بارگاہ کھڑا کر دیا ہے اسے اپنےفضل و کرم سے محروم نہ
کرنا ۔
وہ رات کے آخری حصے تک نماز میں مشغول رہا ،آپ نے
پوچھا بھائی رات کیسی گزری ؟ بولا خیریت سے گذری عاجزی و انکساری سے میں اپنے رب کی بارگاہ میں کھڑا رہا تو اس نے میرے
ٹیڑھے پن کو درست کر دیا میرا عذر قبول فرما لیا اور میرے گناہوں کو بخش دیا اور مجھے میرے
مطلوب و مقصود تک پہنچا دیا پھر وہ شخص چہرے پر حیرانی و پریشانی کے آثار لیے چلا گیا ۔
رابعہ نے عرض کی اے میرے مولایہ شخص تیری بارگاہ میں ایک
گھڑی کھڑا ہوا اور تو نے اسے قبول فرما لیا ؟ اور میں کب سے تیری بارگاہ میں کھڑی
ہو ں کیا تو نے مجھے بھی قبول فرما لیا؟ اچانک آپ نے دل کے کانوں سے سنا اے رابعہ! ہم
نے اسے تیرے ہی وجہ سے قبول کیا اور تیری ہی وجہ سے اپنا قرب عطا کیا ۔
قاسم نے تشکر بھری نگاہوں سے سر حامد سے کہا : سر آپ نے
آج مجھے وقت دے کر مجھ پر بہت احسان فرمایا ہے مجھے تقوی و پرہیزگاری کا مطلب بھی سمجھ آگیا اور اسکا فائدہ
بھی اور یہ بھی کہ اسے کیسے پانا ہے ؟
سر حامد نے
خوش ہوتے ہوئے کہاں : اچھا طالب علم وہی
ہے جو اپنے استاد کی باتوں کو نہ صرف
سمجھتے بلکہ اس پر عمل بھی کرے ،