تقویٰ ایک نادر خزانہ ہے
اگر تم اس خزانے کو پانے میں کامیاب ہوگئے تو تمہیں اس میں بیش قیمت موتی اور
جواہرات ملیں گے اور علم و دولت روحانی کا بہت بڑا خزانہ ہاتھ لگے گا، ہاتھ آجائے
گا، یوں سمجھو کہ دنیا و آخرت کی بھلائیاں تقویٰ میں جمع کردی گئی ہیں، ذرا قرآن
کریم کو غور سے دیکھو کہیں ارشاد فرمایا گیا کہ اگر تم تقویٰ اختیار کرو گے تو ہر
قسم کی خیر و برکت کو پالو گے،کہیں اجرو ثواب کی نوید،کہیں فرمایا گیا کہ سعادت کا
ذریعہ تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرنا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ
ہے :ترجمہ کنزالایمان، :اور اگر تم بچتے
رہو اور صبر کرو تو یہ بڑی ہمت کا کام ہے (پ ۴، ال عمران ۱۸۶)۔ترجمہ کنزالایمان :بیشک
اللہ ان کے ساتھ ہے جو ڈرتے ہیں اور نیکیاں کرتے ہیں۔
تو خلاصہ یہ ہوا کہ دنیا
و آخرت کی سعادتیں اور بھلائیاں اس ایک تقویٰ میں جمع کردی گئی ہیں اس لیےاے دوست ! تقویٰ اختیار کر، اور حسب استطاعت اس سے
فائدہ حاصل کر۔
بیان کردہ تقوی کے فوائد
میں سے یہ تین امور خاص عبادت سے تعلق رکھتے ہیں۔
اول :عبادت کی توفیق اوراس میں اعانت و مدد،(پ ۲، ابقرہ ع ۱۸۴)
قال
اللہ و تعالیٰ : ان اللہ مع المتقین (۱۹۴) (پ ۲، البقرہ ع ۱۹)
ثانی :اعمال کی اصلاح و درستی
اور عبادت کی خامیوں کو پورا کرنا۔
قال
اللہ تعالیٰ :یصلح لکم اعمالکم (پ ۲۲، الاحزاب ، ۷۱)
ثالث : قبولیت اعمال، قبولیت اعمال کو فضیلت بھی اہل تقویٰ کو نصیب ہوتی ہے۔
قال
اللہ تعالیٰ ، انما یتقبل اللہ من المتقین (۲۷) (پ ۶، المائدہ ۲۷)
اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اہل
تقویٰ کے اعمال مقبول ہوتے ہیں اور عبادت کا دار مدار بھی ان تین امورپر ہے:
اولاً: توفیق ِعبادت ،تاکہ اس کی بندگی کی جاسکے، پھر اس میں جو کمی رہ جائے اس کی
اصلاح کی جائے اور پھر اس عبادت کا بارگاہِ حق تعالیٰ میں مقبول ہونا، یہ تین امور:
یعنی توفیق ِعبادت ، اصلاح ِاعمال اور
قبول ِاعمال ، وہ چیزیں ہیں جنہیں عابد و متقی لوگ اپنی دعاؤں میں رو رو کر مانگتے
ہیں۔
ربنا
وفقنا لطاعتک و اتمم تقصیرنا و تقبل منا ۔ترجمہ :اے ہمارے پروردگار
ہمیں عبادت کی توفیق دے، اور ہماری کوتاہیوں سے در گزر کر اور ہماری اس اطاعت کو
اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمایا۔اٰمین
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہانے فرمایا: رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے دنیا کے کسی شے یا انسان کو پسند
نہیں فرماتے تھے مگر صاحبِ تقویٰ کو۔(مسند امام اعظم ، 9/341حدیث: 2425)
حضرت قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی
ہے کہ تورات شریف میں مذکور ہے: اے انسان تو متقی بن یا پھر جہاں چاہے سو۔
مدنی پھول:
جو شخص اللہ تعالیٰ سے
ڈرتا ہے، وہی نفع والی شے حاصل کرتا ہے۔
قبر میں انسان کے ساتھ
صرف تقویٰ اور عملِ صالح ہی جاتے ہیں۔
سن لو تقویٰ ہی عزت و
بزرگی ہے، دنیا کی محبت تو ذلت اوررسوال ہے۔
دولت سے انسان کو کب عزت
ماقبل حاصل ہوسکتی ہے، عزت تو سب تقویٰ سے
وابستہ ہے۔
تقویٰ ایک نہایت ہی عظیم
شے ہے، اس کی تمثیل ضروری ہے، اوراس کی
معرفت حاصل کیے بغیر چارہ کار نہیں لیکن تمہیں معلوم ہے کہ جس قدر کوئی شے اعلیٰ و
مفید ہوتی ہے اسی قدر اس کا حصول دشوار ہوتا ہے، اور اس کا حصول اتنی ہی محنت و
مشقت اور بلند ہمتی چاہتا ہے، لہذا جس طرح یہ تقویٰ ایک نفیس و اعلیٰ چیز ہے اسی
طرح اس کے حصول کے لیے عظیم مجاہد اور شدید جدوجہد کی ضرورت ہے، نیز اس کے حقوق و
آداب کا بھی لحاظ رکھنا اشدضروری ہے، کیونکہ درجات بسبب مجاہدہ عطا ہوتے ہیں اور
جس درجے کی کوشش کی جاتی ہے اسی درجے کا ثمرہ اور پھل ملتا ہے۔قرآن مجید میں فرمایا:والذین
جاھدوا ۔الآیہ
(پ ۲۱، العنکبوت 69)تَرجَمۂ کنز الایمان:اور جنہوں نے ہماری راہ
میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھادیں گے اور بے شک اللہ نیکوں کے ساتھ
ہے۔
تقویٰ کے
مراتب:علمائے
کرام فرماتے ہیں کہ تقویٰ کے تین مراتب ہیں۔
۱۔ شرک سے تقوی
۲۔بدعت سے تقویٰ
۳۔ گناہوں سے تقویٰ
امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، میں کہتا ہوں
کہ میں نے تقویٰ کا ایک اور معنی بھی پایا ہے، اور یہ معنی حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی مشہور حدیث سے مروی ہے :
حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔انما
سمی المتقون متقین ، لترکھم مالا باس بہ حذرا اعمال من باس
مفہوم حدیث۔ یعنی متقیوں
کو متقی اس لیے کہا گیا کہ انہوں نے اس کام کو بھی ترک کردیا جس میں شرعا کوئی حرج
نہیں، یہ احتیاط کرتے ہوئے اس کے ذریعے ایسے کام میں نہ پڑ جائیں جس میں حرج
و گناہ ہو
تمہیں معلوم نہیں کہ بخار
میں مبتلا شخص جب ہر اس چیز سے پرہیزکرے جو اس کی صحت کے لیے مضر
ہو، جیسے کھانا، پینا، پھل وغیرہ تو اسے حقیقی پرہیز کرنے والا کہتے ہیں، اسی طرح
جو شخص بر خلاف شرع امر سے اجتناب کرے تو ایسا ہی شخص درحقیقت متقی کہلانے کا
حقدار ہے،
خلاصہ :نفس کو پورے عزم و
استقامت سے ہر مصیبت سے روکا جائے، اور ہر طرح کے فضول ِحلال سے دور رکھا جائے، ایسا
کرنے سے بدن کے ظاہری و باطنی اعضا صفت تقویٰ سے موصوف ہوجائیں گے، آنکھ، کان،
زبان، دل ، پیٹ، شرمگاہ اور باقی جملہ اعضا اور اجزائے بدن میں تقویٰ پیدا ہوجائے
گا، اور نفس تقویٰ کی صفت سے منصف متصف ہوجائے گا۔