تقویٰ کیسے حاصل ہو؟یہ جاننے سے پہلے اس کی تعریف جاننا مناسب ہے لہذا تقویٰ کا معنی شریعت کی اصطلاح میں یہ ہے کہ ہر اس کام سے اپنے آپ کو بچانا جسے کرنے یا نہ کرنے سے کوئی عذاب کا مستحق ہو(۱) ، جیسے حرام چیزوں کو چھوڑ دینا، فرائض کو ادا کرنا وغیرہ نیز علما نے تقویٰ کے مختلف مراتب بیان فرمائے ہیں عام لوگوں کا تقویٰ ایمان لا کر کفر سے بچنا ہے ہوسکتا ہے متوسط لوگوں (یعنی درمیانے لوگوں) کا تقویٰ احکام کی پیروی کرنا اور ممنوعات سے بچنا اور خاص لوگوں کا تقویٰ ہر اس چیز کو چھوڑ دینا جو اللہ تعالیٰ سے غافل کردے۔(۲)

پرہیزگاری کا مرکز دل ہے جسے حدیث پاک میں ہے آگاہ رہو کہ جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ ٹھیک ہوجائے تو سارا جسم ٹھیک ہوجاتا ہے اور جب وہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے خبردار وہ دل ہے۔(۳)

لہذا ہمیں تقویٰ حاصل کرنے کے لیے دل کی اصلاح کی طرف آنا ہوگا اور دل کا تقویٰ حاصل کرنے کا ایک طریقہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں بیان فرمایا ہے : و من یعظم شعائر اللہ۔۔الآیہ تَرجَمۂ کنز الایمان: اور جو اللہ کے نشانوں کی تعظیم کرے، تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے۔(۴)

یہاں شعار اللہ کی تعظیم کا ذکر ہوا، شعائر اللہ کے بارے میں فرمان رب تعالیٰ ہے: ان الصفا و المروۃ ۔۔الآیہ تَرجَمۂ کنز الایمان : بیشک صفا اور مروہ اللہ کے نشانوں سے ہے۔(۵)

اس کی تفسیر میں ہے کہ شعائر اللہ سے دین کی نشانیاں مراد ہیں خواہ وہ مکانات ہوں جیسے کعبہ، عرفات وغیرہ یا وہ شعائر زمانے ہوں جسے رمضان، عیدالفطر وغیرہا یا وہ شعائر دوسری علامات ہوں جیسے اذان جمعہ وغیرہ ۔(۶)صفا اور مروہ حضرت ہاجرہ رحمۃ اللہ علیہاکی وجہ سے اللہ کی نشانی ہوئی ہیں۔ (۷)بعداز معلوم ہوا دین کی نشانیوں اور اللہ والوں سے نسبت رکھنے والی چیزوں کی تعظیم کرنے سے بھی دل کا تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔اس کے علاوہ چند دیگر چیزیں ذکر کی جاتیں ہیں جن کو اپنانے سے تقویٰ و پرہیزگاری حاصل ہوسکتے ہیں۔

(1)تقویٰ و پرہیزگاری کی اہمیت دل میں پیدا کرنی ہوگی اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے جس میں ہایبل کا قول ذکر کیا گیا کہ : کہا اللہ اسی سے قبول کرتا ہے جسے ڈر ہے (۸) ۔ لہذا عمل کی مقبولیت کے لیے تقویٰ اختیار کرنا ہوگا۔

(2)تقویٰ و پرہیزگاری کے فضائل اور انعامات پر غور کیا جائے،

چند فضائل ذکر کیے جاتے ہیں جو قرآن پاک میں مذکور ہیں٠ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت والا وہ ہے جو متقی ہو،٠اللہ تعالی متقی لوگوں کے ساتھ ہے،٠ جنت متقیوں کے لیے تیار کی گئی ،٠اللہ پاک متقی لوگوں کا مددگار ہے۔(9)

(3) متقی لوگوں کی صحبت اختیار کی جائےتو تقویٰ حاصل ہوگا کہ صحبت اثر انداز ہوتی ہے۔

(4)متقی لوگوں کی صفات پیدا کی جائیں چند صفات ذکر کی جاتی ہیں۔

٠متقی لوگ طاعتوں اور مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں نیز گناہوں سے بچنے پر ڈٹے رہتے

ہیں،٠متقی لوگ اللہ تعالی کے سچے فرمانبردار ہوتے ہیں٠ متقی لوگوں کے قول ، ارادے اور نیتیں سب سچی ہوتی ہیں۔ (۱۰)

(5) اس پرفتن دور میں تقویٰ حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ مدنی انعامات (۱۱)پر عمل کرنا ہے کیونکہ تقویٰ کے حصول کے لیے نفس کا محاسبہ ( حساب دینا) ضروری ہے اورمحاسبہ نفس کا بہترین طریقہ فکرِ مدینہ کرنا ہے۔(۱۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ (صراط الجنان جلد ۱، صفحہ ۶۶)

۲۔ (صراط الجنان جلد ۱، صفحہ ۶۷)

۳۔ (بخاری ، کتاب الایمان ۱/۳۳۔، الحدیث)

(۴) پارہ ۱۷ سورہ الحج، آیت ۳۲)

(۵) (پارہ ۲، سورہ البقرہ ، آیت ۱۵۸)

۶۔ (تفسیر صراط الجنان جلد۱، صفحہ ۲۹۱)

(۷) ایضا)

(۸) پارہ ۶، سورہ المائدہ ، آیت ۲۷)

(۹) (صراط الجنان جلد آٹھ ۔ صفحہ ۴۹۶)

(۱۰) (صراط الجنان جلد ۱، ص ۵۱۲)

(۱۱)امیر اہلسنت کے دیئے ہوئے وہ سوالات جو انہوں نے نیک بننے کے لیے رسالہ میں بیان فرمائے۔

(۱۲) مدنی انعامات کے رسالہ کو پُر کرنا دعوت اسلامی کی اصطلاح میں فکرِ مدینہ کہلاتا ہے۔()متقی لوگوں کے ساتھ ہے، (۲) جنت

۔کسی بھی چیز کے حصول کے لیے اس کی اہمیت کا اندازہ ہونا بہت ضروری ہے،لہذا تقویٰ حاصل کرنے کے لیے بھی اس کی اہمیت کا اندازہ ہونا ایک اہم چیز ہےاس لیے ابتدا میں ہی تقویٰ کی اہمیت کو جاننا چاہیے۔

تقویٰ اختیار کرنے والوں کی کیا شان ہے کہ ایک بار نہیں بار بار اللہ عزوجل نے متقین سے محبت کا بیان قرآن پاک میں فرمایا: اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ(۴) ترجمہ کنزالالعرفان۔ بے شک اللہ پرہیزگاروں سے محبت فرماتا ہے۔( 74 توبہ آیت 4)

اور متقین کے لیے انعامات کا ذکر بھی کیا گیا ہے ۔اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ مَقَامٍ اَمِیْنٍۙ(۵۱) ترجمہ کنزالعرفان ۔بیشک ڈروالے امن والی جگہ میں ہوں گے۔( دخان ، آیت51)

ان آیات کو پیش نظر رکھ کر تقویٰ حاصل کرنا قدرے آسان ہوگا کیونکہ ان کے ذریعے تقویٰ کی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔

2۔ تقویٰ حاصل کرنے کا دوسرا ذریعہ تقویٰ پر مطالعہ بھی ہے جیسا کہ امام غزالی علیہ الرحمہ کے یہ قول کا مطالعہ بھی حصول تقویٰ میں مددگار ہے کہ (دونوں جہاں کی ہر بھلائی اور سعادت تقویٰ میں پوشیدہ ہے)۔ )منہاج العابدین ص 123 مکتبہ المدینہ(

یہ ایک قول ہی تقویٰ حاصل کرنے میں کافی مددگار ہے تو اندازہ لگائیے کہ تقویٰ پر مستقل باب کتنا مفید ہوگا۔

نوٹ:تقویٰ پر مطالعے کے لیے منہاج العابدین میں تقویٰ کا باب مفید ہے٠

3۔ حصولِ تقویٰ کا تیسرا اہم ترین ذریعہ مدنی انعامات بھی ہیں۔ (امیر اہل سنت نے جس کا مقصد ہی تقویٰ بیان فرمایا) مدنی انعامات پرہیز گاری حاصل کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔ اس میں اعمال کا محاسبہ کیا جاتا ہے جوکہ بزرگان دین کے اعمال میں سے ایک ہے اور دنیاوی اصول بھی ہے کہ دکاندار کامیاب وہی ہے جو اپنی دکان و کاروبار کا محاسبہ کرتا رہے تو اس کا حساب کرنا اس کو مفید ہوتا ہے ۔ اس پر ایک روایت ملاحظہ ہو :

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:اے لوگو! اپنے اعمال کا حساب لو اس سے پہلے کہ (قیامت آجائے اور) ان کا احساب لیا جائے۔ ( احیا العلوم الدین کتاب المراقبة ۳۸۰/4،دارالکتب علمیہ بیروت 2008)

مدنی انعامات کی تو کیا بات ہے کہ اعمالِ بزرگان دین سے تو ہے ہی اس کے ضمن میں اس کے دنیاوی فوائد بھی موجود ہیں جن میں سےایک عرض کرتا ہوں۔ہر پیر شریف کا روزہ (یا رہ جانے کی صورت میں کسی بھی دن)معدے کی تکالیف اور بیماریوں میں مفید ہے کہ روزہ رکھنے سے نظام ہضم بہتر ہوگا۔(رسالہ مدنی انعامات ص 33 مکتبہ المدینہ)معلوم ہوا کہ تقویٰ حاصل کرنے میں مدنی انعامات پر عمل مفید و معین(مددگار ) ہے۔

4۔تقویٰ حاصل کرنے کا چوتھا اور اہم ذریعہ پیر کامل بھی ہے،کہ پیر کی صحبت و تربیت سے بھی تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔جس پر مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ نے ایک مثال سے سمجھایا۔فرماتے ہیں۔ دل گویا پتہ ہے دنیا بڑا میدان اور صحبتیں تیز ہوائیں، اگر یہ پتہ کسی بھاری پتھر کے نیچے آجائے تو ہواؤں کے زور سے محفوظ رہتا ہے اگر ہم گنہگار کسی شے کی پناہ میں آجائیں تو ان شا ء اللہ بے دینی سے محفوظ رہیں گے۔(مراة المناجیح ج 1 ص 104)

بفضل خدا امید ہے ان باتوں پر عمل تقویٰ حاصل کرنے میں مددگار ہوگا اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں  ہر اس چیز اور کام سے بچنے کا نام تقوی ہے جس سے دین میں نقصان پہنچنے کا خوف و اندیشہ ہو۔ (منہاج العابدین، ص ۶۰)

تقوی وپرہیزگاری وہ عظیم وصف ہے جس کی نصیحت اللہ پاک عزوجل نے تمام اگلوں پچھلوں کو فرمائی ہے ، پارہ :۴ سورہ النساء کی آیت نمبر : ۱۳۱ میں ارشاد فرماتا ہے : وَ لَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ اِیَّاكُمْ اَنِ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-۔تَرجَمۂ کنز الایمان: : اور بے شک تاکید فرمادی ہے ہم نے ان سے جو تم سے پہلے کتاب دئیے گئے اور تم کو کہ اللہ سے ڈرتے رہو.

لہذا ہمیں بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے اس فرمان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اب سوال یہ ہے کہ تقوی وپرہیزگاری کیسے حاصل ہو؟

اس ضمن میں حضرت سیدنا امام غزالی رحمۃاللہ تعالی علیہ حصول تقوی کا طریقہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: نفس کو پورے عزم وثبات سے ہر معصیت اور ہر طرح کے فضول حلال سے دور رکھا جائے۔

تقوی وپرہیزگاری کے حصول کا ایک طریقہ پرہیزگاروں کی صحبت اختیار کرنا بھی ہے لہذا ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات میں شرکت،اجتماعاتِ ذکرونعت ،مدرسۃالمدینہ بالغان، اور بالخصوص شیخ طریقت امیر اہلسنت حضرت علّامہ ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے ہفتہ وار مدنی مذاکروں شرکت کرنا بالیقین اچھوں کی صحبت پانے کا بہترین ذریعہ وتقوی وپرہیزگاری کے حصول کا ایک طریقہ بھی ہے۔

تقوی وپرہیزگاری کو حاصل کرنے کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ اس کے متعلق علم حاصل کرنا بھی ہے کیونکہ علم کے ساتھ عمل کرنا زیادہ سہل وقوی ہوتا ہے لہذا تقوی وپرہیزگاری کے متعلق بزرگان دین کی تصنیفات کا مطالعہ بہت کارآمد ثابت ہوگا۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں اپنے متقی بندوں کی فہرست میں شامل فرمائے ۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ طبے شک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو پرہیزگار زیادہ ہے۔

حضرت ابوسعید خذری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ایک شخص آقا علیہ السَّلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھے کچھ وصیت کیجئے، آپ نے فرمایا:عَلَيْكَ بِتَقْوَى اللَّهِ فَاِنَّهُ جِمَاعُ كُلِّ خَيْرٍ، عَلَيْكَ بِالْجِهَادِ فَاِنَّهُ رَهْبَانِيَّةُ الْمُسْلِمِينَ، عَلَيْكَ بِذِكْرِ اللَّهِ وَتِلَاوَةِ كِتَابِهِ فَاِنَّهُ نُورٌ لَكَ یعنی تم پر تقویٰ لازم ہے، بےشک یہ تمام بھلائیوں کا جامع ہے، تم پر جہاد لازم ہے، یہ مسلمانوں کی رہبانیت ہے اور تم پر اللہ عزوجل کا ذکر لازم ہے، بے شک وہ تمہارے لیے روشنی ہے۔

تقویٰ کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کے ساتھ اس کے عذاب سے بچے۔

تقویٰ کی اصل شرک سے بچنا ہے،پھر گناہوں اور برائیوں سے بچنا، پھر اس کے بعد شبہات سے بچنا اور اس کے بعد فضول باتوں کو ترک کرنا۔ اگر شرک سے بچے گا گناہوں سے بچنے کے ساتھ ساتھ مذکورہ کاموں سے بچے تو تقویٰ حاصل ہوگا۔ اور اللہ کا قرب ملے گا۔

تقویٰ کے بارے میں بزرگوں کے اقوال:

(1)حضرت نصراباذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:تقویٰ یہ ہے کہ انسان اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا ہر چیز سے بچے (یہ تقویٰ کا اعلیٰ درجہ ہے)۔

(2)حضرت سہل فرماتے ہیں: جو شخص چاہتا ہے کہ اس کا تقویٰ درست ہو، وہ تمام گناہوں کو چھوڑ دے۔

(3) حضرت کتانی فرماتے ہیں:دنیا کی تقسیم آزمائش کے مطابق کی گئی اور آخرت کی تقسیم تقویٰ کے مطابق کی گئی۔

(4)حضرت ابوعبداللہ روز باری فرماتے ہیں: تقویٰ یہ ہے کہ تم اس چیز سے اجتناب کرو جو تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دور کرتی ہے۔

(5)حضرت ابن عطاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:تقویٰ کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی، اس کا ظاہر حدود کی حفاظت ہے اور باطن نیت اور اخلاص ہے۔

بزرگوں کا تقویٰ:حضرت واسطی فرماتے ہیں:تقویٰ یہ ہے کہ اپنے تقویٰ کی ریا کاری سے بچے اور متقی وہ ہے جو حضرت ابن سیرین کی طرح ہو، انہوں نے گھی کے چالیس مٹکے خریدے ان کے غلام نے ایک مٹکے سے چوہا نکالا،انہوں نے پوچھا کہ تم نے کس مٹکے سے نکالا ہے، اس نے کہا: مجھے یاد نہیں تو انہوں نے تمام مٹکے زمین پر گرادیئے۔

اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ اپنے مقروض (یعنی جس نے قرض دینا ہو) کے درخت کے سائے میں نہیں بیٹھتے تھے اور فرماتے تھے کہ حدیث پاک میں آیا ہے:كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً، فَهُوَ رِبًا ہر وہ قرض جو نفع کھینچے سود ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں امام اعظم اور امام غزالی جیسا تقویٰ عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ ترجمہ: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے۔

تقویٰ کا لفظی معنی اور مفہوم:تقویٰ کا لغوی معنی ڈرنا، بچنا، اور مفہوم یہ ہے کہ حضرت انسان کے دل میں اس بات کا خوف اور احساس ہو کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ میر ی ہرچیز کو دیکھ رہا ہے جس کے مطابق مجھے سزا و جزا دی جائے گی۔

تقویٰ کی حقیقت :تقویٰ کا تعلق انسان کے اندرونی حصے دل کے ساتھ ہے، جب انسان میں یہ کیفیت پیدا ہوجائے تو وہ اللہ او راس کے رسول کی نافرمانی نہیں کرتا، اللہ کے رسول نے دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:تقویٰ یہاں ہوتا ہے۔

واقعہ:حضرت عمر فاروق اور حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہما :ایک دفعہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے تقویٰ کی حقیقت دریافت کی،فرمایا: اے امیرُالمؤمنین!کبھی آپ کا کسی ایسے راستے سے گزر ہوا جہاں میں ہر طرف خارد ار جھاڑیاں ہوں۔فرمایا: جی!جب میں اپنے باپ کے اونٹ چرایا کرتا تھا۔فرمایا: آپ وہ راستے کس طرح پار کرتے۔ فرمایا: اپنے کپڑے سمیٹ لیتا، ایک طرف راستے سے کپڑے بچاتا، دوسری طرف راستے سے کپڑے اور کانٹے ہٹاتا۔ اور بہت آئستہ آئستہ قدم رکھنا۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے تقویٰ کی مثال دے کر سمجھا دیا۔ فرمایا: یہی تقویٰ ہے۔

آیتِ قرآنی اور وضاحت:اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ0

ترجمہ: سن لو! بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ ہی وہ لوگ غمگین ہوں گے۔

ولی اللہ کو خوف اور غم کیوں نہیں؟اس لئے کہ وہ لوگ تقویٰ کی دولت سے مالامال ہوتے ہیں۔

تقویٰ کا حصول:تقویٰ کا حصول اتنا آسان نہیں ہے یقیناً آپ پہلے بزرگانِ دین کی کتب کامطالعہ کرکے دیکھئے کہ ان لوگوں نے تقویٰ والی سعادت حاصل کی تو کیسے کی۔

پیارے اسلامی بھائیو! قرآنِ مجید تقویٰ و پرہیزگاری کے فضائل سے بھرا ہوا ہے اور کئی مقامات پر رحمٰن عَزَّوَجَلَّ نے اپنے بندوں کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ ایک ارشاد ملاحظہ ہو:وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ0 تَرجَمۂ کنز الایمان:اور مجھ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔

نہ صرف قرآنِ مجید بلکہ احادیث طیبہ بھی تقویٰ و پرہیزگاری کے فضائل اور ان کو اختیار کرنے کے دینی و دنیوی فوائد سے مالامال ہیں۔اب ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ تقویٰ و پرہیزگاری کی قرآن حدیث میں بہت ترغیب موجود ہے تو آخر کار تقویٰ کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے؟ تو آئیے جانتے ہیں کہ کن چیزوں کے ذریعے ہم تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرسکتے ہیں۔

(1)قرآن و حدیث اور ارشادات علمائے امت کو پڑھئے جن میں تقویٰ کے فضائل، تقویٰ اختیار نہ کرنے کے کے نقصانات ہوں۔انبیاء کرام و صحابہ عظام اور اولیاء کرام کے تقویٰ و پرہیزگاری کے شاندار واقعات بھی پڑھئے، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس سے تقویٰ اختیار کرنے کا جذبہ بڑھے گا، کیونکہ انسان کی فطرت لالچی ہے یہ ہر اس چیز کی طرف مائل ہوتی ہے جس میں اس کو کوئی فائدہ دکھتا ہے جب آپ کو تقویٰ کے دنیوی و اخروی اجر کا معلوم ہوگا تو آپ کی طبیعت اس کو اختیار کرنے کی جانب مائل ہوگی اوپر ذکر کی گئی چیزوں کو پڑھنے کے لئے آپ ان کتابوں سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔ احیاء العلوم جلد4، منھاج العابدین، مکاشفۃ القلوب، خوفِ خدا، بیانات عطاریہ وغیرہ (یہ تمام کتب مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ہیں)۔

(2)تقویٰ و پرہیزگاری کو اختیار کرنے میں سنجیدگی سے کام لے اور جس طرح ہم دنیاوی مقاصد کے لئے کوشش جاری رکھتے ہیں اسی طرح نیک بننے کی کوشش جاری رکھیں، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے جیسا کہ رب تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا۔ تَرجَمۂ کنز الایمان:اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھادیں گے۔(پ21،العنکبوت:69)

(3)اچھی صحبت اختیار کریں کہ اس سے نیک بننے اور تقویٰ کی طرگ لے جانے والی چیزیں حاصل ہوتی ہیں، جیسا کہ فرمانِ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہے کہ توبہ کرنے والوں کی صحبت میں بیٹھو کہ وہ سب سے زیادہ نرم دل ہوتے ہیں۔(مصنف ابن ابی شیبۃ) اس کے لئے دعوتِ اسلامی کے مدنی قافلے کے مسافر بنئے اور شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت کی صحبت حاصل کرنے کے لئے مدنی مذاکرے میں شرکت فرمائیے۔

(4)دعا و شکر ادا کرے: رب عَزَّوَجَلَّسے گڑ گڑا کر دعا مانگے اور شکر ادا کرے، آپ کی تقویٰ کی نعمت میں اضافہ ہوگا کیونکہ ایمان بھی ایک قسم کا تقویٰ ہے جب آپ رب عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کریں گے تو وہ اپنے وعدے کے مطابق آپ کی نعمت میں اضافہ فرمائے گا۔

(5)مدنی انعامات پر عمل کہ اس کے ذریعے آپ کو معلوم ہوگا کہ میں تقویٰ و پرہیزگاری تک لے جانے والے کاموں پر عمل کرتا ہوں اور اگر عمل کرتا ہوں تو کتنے پر استقامت ہے اور میں کہاں تک پہنچا؟

اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں تقویٰ کی لازوال دولت سے مزین فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

تقوی و پرہیزگاری کی اہمیت اور فوائد سے کون واقف نہیں ۔ لیکن اسے اختیار کرنے میں ، اسے اپنانے میں ، اپنے نفس کو اسکا عادی بنانے میں اکثر لوگ ناکام ہو جاتے ہیں۔ وجہ، علم نہیں ہوتا، ہوتا ہے تو عمل نہیں کرتے۔ اس لیے جو نکات آگے بیان کیے جائیں گے ان پر عمل کریں گے تو ان شاء اللہ ہمیں بھی بزرگانِ دین کے تقوی میں سے حصہ ملے گا۔

تو سب سے پہلے :

(1) علم حاصل کریں : تقوی کیا ہے؟ اس کا معنی کیا ہے؟ اس کے درجات(levels) کیا ہیں؟ اس کے فوائد و فضائل کیا ہیں؟ اس کے لیے امام غزالی رحمة الله علیہ کی کتاب "منہاج العابدین" میں تقوی کا بیان پڑھ لیں۔

(2) حرام کے ساتھ ضرورت سے زائد حلال سے بھی بچیں : حرام کھانے کے علاوہ حلال بھی بھوک سے کم کھائیں، آنکھیں ضرورت کے وقت ہی استعمال کریں بلا ضرورت ادھر ادھر نہ دیکھیں، زبان، ہاتھ پیر وغیرہ اعضاء بدن کو اچھے اور نیک کاموں ہی میں صرف کریں اور فالتو استعمال نہ کریں۔

(3) بالخصوص پانچ اعضا پر توجہ دیں : جسم میں ان پانچ اعضا پر خصوصی توجہ دینے سے سارا بدن بھی تقوی و پرہیزگاری میں آپکا ساتھ دیگا۔

(iآنکھ : اکثر نگاہیں نیچی رکھیں۔ جن چیزوں کو دیکھنا حرام ہے انہیں دیکھنے سے بچیں۔ جن کی طرف دیکھنا جائز ہے وہاں دیکھنے سے پہلے سوچھ لیجیے کیوں دیکھ رہا ہوں؟ کوئی اخروی فائدہ ہے؟ نہیں تو نہ دیکھیں۔

(ii) کان: جو سننا ناجائز ہے اسے نہ سنیں، کان میں انگلی ڈالیں، اس جگہ سے چلیں جائیں۔

(iii) زبان: جو بولنا ناجائز ہے اس سے تو زبان بند ہی رکھنی ہے جسے بولنا جائز ہے اس سے بھی اپنی زبان کو روکیں۔ کم سے کم بولیں۔ لکھ کر گفتگو کریں یا اشارہ سے کرلیں۔

(iv) پیٹ : حرام کھانے پینے سے بچیں۔ حلال میں بھی کم کھائیں اتنا کہ بھوک سے تھوڑا کم ہو۔

(v) دل: لمبی امید رکھنے سے بچیں۔ جلد بازی سے بچیں۔ حسد اور تکبر سے بچیں۔

(4) ظاہر کے ساتھ اپنے باطن کو بھی ستھرا کریں : یہ بات ذہن میں ضرور رکھیے کہ یہ سب صرف ظاہری طور پر نہیں کرنا یا کسی کو دکھانے کیلیے کرنا ہے۔ بلکہ اخلاص کے ساتھ اپنے دل سے یہ سب کریں۔ ظاہر بدل رہے ہیں تو ساتھ اپنے باطن کو بھی بدلیں۔ نہیں تو محنت بے کار جائے گی۔

(5) محنت و کوشش کو جاری رکھیں : یہ بھی یاد رہے کہ یہ راہ اللہ کی راہ ہے۔ اس میں مشکلیں پریشانیاں اور تکلیفیں آئیں گی جو آپ کے امتحان کیلیے ہوں گی۔ تو اس پر ثابت رہے تو بس پھر کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔

متقی لوگوں کی صحبت اپنائیں : اور یہ سب تب ہوگا جب دل میں مضبوط نیت و ارادہ ہوگا۔ اور ساتھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو اس راہ پر چل رہے ہیں۔ یہ آپ کی مدد کریں گے ان کے ہوتے آپ اکیلاپن محسوس نہیں کریں گے اور بلند ہمتی کے ساتھ اس راہ کو پار کرلیں گے۔

تقویٰ انسانی زندگی کاشرف ہےاور تقویٰ انسانی زندگی میں وہ صفت ہے جو تمام انبیاء کی تعلیم کا نچوڑ ہے۔اور یہ وہ قیمتی سرمایہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور قرب آسان ہوجاتاہے ۔قرآن میں سینکڑوں آیات تقویٰ کی اہمیت وفادیت پر وارد ہوئی ہیں ۔تمام عبادات کا بنیادی مقصد بھی انسان کے دل میں اللہ کا خوف اور تقویٰ پیدا کرنا ہےتقویٰ کا مطلب ہے پرہیزگاری ، نیکی اور ہدایت کی راہ۔ تقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہو جانے کے بعد دل کو گناہوں سے جھجک معلوم ہونے لگتی ہے اور نیک کاموں کی طرف اس کو بے تابانہ تڑپ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو تقویٰ پسند ہے۔ ذات پات یا قومیت وغیرہ کی اس کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے قابل عزت و احترام وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔

تقویٰ، دینداری اور راہ ہدایت پر چلنے سے پیدا ہوتا ہے۔ بزرگانِ دین کا اولین وصف تقویٰ رہا ہے۔ قرآن پاک متقی لوگوں کی ہدایت کے لیے ہے۔افعال و اقوال کے عواقب و انجام پر غوروخوض کرنا تقویٰ کو فروغ دیتا ہے۔اور روزہ تقویٰ حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ روزے، خدا ترسی کی طاقت انسان کے اندر محکم کر دیتے ہیں۔ جس کے باعث انسان اپنے نفس پر قابو پا لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی عزت اور عظمت اس کے دل میں ایسی جاگزیں ہو جاتی ہے کہ کوئی جذبہ اس پر غالب نہیں آتا اور یہ ظاہر ہے کہ ایک مسلمان اللہ کے حکم کی وجہ سے حرام ناجائزاور گندی عادتیں چھوڑ دے گا اور ان کے ارتکاب کی کبھی جرات نہ کرے گا۔

تقویٰ اصل میں وہ صفت عالیہ ہے جو تعمیر سیرت و کردار میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ عبادات ہوں یا اعمال و معاملات۔ اسلام کی ہر تعلیم کا مقصود و فلسفہ، روحِ تقویٰ کے مرہون ہے۔ خوفِ الٰہی کی بنیاد پر حضرت انسان کا اپنے دامن کا صغائر و کبائر گناہوں کی آلودگی سے پاک صاف رکھنے کا نام تقویٰ ہے۔

تقویٰ کیسے حاصل ہو؟

Tue, 25 Feb , 2020
4 years ago

آپ کو کوئی بھی صفت اپنے اندر پیدا کرنی ہے تو رغبت چاہیے، رغبت کا ایک سبب اس کے فوائد کا علم اس میں غور و فکر ہے۔انسان جس شئی کے ملنے میں اپنے  فوائد دیکھتا ہے تو اس کو حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوتا ہے اور یہ شوق سبب بنتا ہے کچھ پانے کا، انسان کی اکثر مصروفیات Bright Future سکون و آرام کے ليے هوں تو غلط نا ہوگا، ايک بڑی تعداد رزق کے تلاش ميں کوئی عزت پانے کی کوشش، کوئی بڑے لوگوں سے مدد حاصل کرنے کی کوشش ميں، کوئی تکاليف کم کرنے ميں مشغول ، کوئی اخلاق اچھے کرنے میں مصروف تو کوئی عہدے والوں کو اپنا بنانے میں لگا ہواہے۔

ایک ایسی شئے کہ اگر وہ حاصل ہوجائے تو کیا کیا ملےگا ، وہ شئی اتنی عظیم کہ جس کی تعریف اللہ نے فرمائی ،کہاں؟ اپنے پاک کلام میں ،بلاشبہ یوں سمجھیں کہ ایک Doctorکی بات جو سمجھ میں آئے نہ آئے پوری کرنے کی کوشش کرتے رہیں، اگرچہ تکلیف ہو، ناپسند ہو، پرہیز کرتے ہیں۔

کچھ حاصل کرنے کے لئے رغبت چاہئے اور رغبت کا ایک ذریعہ Benefits معلوم کرناہے۔

وہ شئی کہ جب ملے تو کیا کیا حاصل ہو ، سنو وہ شئی اختیار کرنے والوں کی تعریف و توصیف ہوتی ہے، اس کا ذکر سورہ آل عمران آیت ۱۸۶ میں آیاہے ،ایسے شخص کو عزت و احترام ملتا ہے، جیسا کہ سورہ الحجرات آیت ۱۳ میں سے ذکر ہوا، وہاں سے اس کو رزق حلال ملتا ہے جہاں اس کا گمان نہ ہو اس کا ذکرسورہ الطلاق : ۔۔،اس کی دشمنوں سے حفاظت کی جاتی ہے جیسا کہ سورہ آل عمران آیت ۱۲۰ میں ہے۔ اس کی تائید بھی کی جاتی ہے جیسا کہ سورہ النحل آیت ۱۲۸میں ذکر ۔ اللہ پاک کی محبت نصیب ہوتی ہے جیسا کہ سورہ التوبہ آیت 10میں ذکر، جہنم سے نجات ملتی ہے جیسا کہ مریم ۷۲ میں ایسے کو جس میں ہمیشہ ہمیشہ رہنا نصیب ہوتا ہے۔

امام محمد بن محمد بن محمد غزالی دورانِ بیان تقویٰ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں : ترجمہ: دونوں چیز ایک ، فوائد اتنے زیادہ، اتنے اعلیٰ سبحان اللہ عزت ملے مدد ملے تعریف ملے وغیرہ کہ جن کے حصول میں لوگوں نے عمر یں برباد کیں، یہ سب اور بہت کچھ صرف ایک شے کے ملنے سے مل جائے، وہ ہے کیا ؟ سن لو! وہ تقویٰ ہے، یہ کیا ہے ؟ کیسے حاصل ہو، منہاج العابدین جو کہ مکتبہ المدینہ کی شائع کردہ ہے، صفحہ 132 پر ہے۔

تقویٰ کی جامع تعریف : دین کو نقصان پہنچانے والی ہر چیز سے بچنا۔

کیسے حاصل ہو؟:حصول تقویٰ کا طریقہ بیان کرتے ہوئے امام محمد بن محمد بن محمد غزالی فرماتے ہیں:نفس کو پورے عزم و ثبات سے ہر محبین اور ہر طرح کے حصول جلال سے دور رکھا جائے ایسا کرنے سے بدن کے ظاہری و باطنی اعضا صفت تقوی سے موصوف ہوجائیں گے آنکھ کھان،کان ، زبان دل پیٹ شرمگاہ اور باقی جملہ اعضا اور اجزائے بدن میں تقویٰ پیدا ہوجائے گا۔(فیضانِ ریاض الصالحین )

تقویٰ حاصل کرنے میں مدد گار کام:فوائد و فضائل کا علم حاصل کیا جائے جیسا کہ

ایک اور فائدہ امام غزالی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یوں سمجھو کہ دنیا و آخرت کی بھلائیاں نقدی ہیں جمع کردی گئی ہیں، (ایضا)

اچھا تصوراچھی سوچ بھی حصولِ تقویٰ میں مددگار جیسے کہ یہ تصور کہ اللہ دیکھ رہا ہے، جسے یہ بات مستحضر رہتی ہو تو وہ کبھی بھی گناہ پر دلیر نہ ہوگا، اور بعینہ رب کی رضا حاصل کرنے والے اعمال کرے گا۔(ایضا517)

۱یک بہت پیارا آسان عظیم میں تقویٰ حاصل کرنے کا وہ ہے صحبت:جیسی تیری صحبت ہے تو ویسے ترے آثارجیسے تیرے افکار تو ویسا ترا کردار

۱۔ ایک اور اعلیٰ طریقہ وہ یہ کہ آقا مولا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر درود پاک کی کثرت کی عادت بنالے۔

۲۔ کسی شیخ کامل سے مرید ہوجانا ، ان کے فرامین پے عمل کرنا تقویٰ کے حصول کا ایک سبب وطریقہ ہے اس بات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہیں تو میرے مرشد امیر اہلسنت ابوالبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی کی پیاری مدنی تحریک میں دیکھ لیجئے، مال سامان ، لوٹنے والوں کو عشقِ رسول کا وہ جام پلایا کہ اپنا وقت اپنا مال اللہ اوراس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی راہ میں لٹانے والے بن گئے۔

تقویٰ سے متعلق مزید معلومات کے لیے دیکھیں کتاب منہاج العابدین و احیا العلوم و فیضانِ ریاض الصالحین۔

اے اللہ ہمیں ایسا بناہ دے جیسا تجھ کو اور تیرے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو پسند ہے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم