تقویٰ کیسے حاصل ہو؟یہ جاننے سے پہلے اس کی تعریف جاننا مناسب ہے لہذا تقویٰ کا معنی شریعت کی اصطلاح میں یہ ہے کہ ہر اس کام سے اپنے آپ کو بچانا جسے کرنے یا نہ کرنے سے کوئی عذاب کا مستحق ہو(۱) ، جیسے حرام چیزوں کو چھوڑ دینا، فرائض کو ادا کرنا وغیرہ نیز علما نے تقویٰ کے مختلف مراتب بیان فرمائے ہیں عام لوگوں کا تقویٰ ایمان لا کر کفر سے بچنا ہے ہوسکتا ہے متوسط لوگوں (یعنی درمیانے لوگوں) کا تقویٰ احکام کی پیروی کرنا اور ممنوعات سے بچنا اور خاص لوگوں کا تقویٰ ہر اس چیز کو چھوڑ دینا جو اللہ تعالیٰ سے غافل کردے۔(۲)

پرہیزگاری کا مرکز دل ہے جسے حدیث پاک میں ہے آگاہ رہو کہ جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ ٹھیک ہوجائے تو سارا جسم ٹھیک ہوجاتا ہے اور جب وہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے خبردار وہ دل ہے۔(۳)

لہذا ہمیں تقویٰ حاصل کرنے کے لیے دل کی اصلاح کی طرف آنا ہوگا اور دل کا تقویٰ حاصل کرنے کا ایک طریقہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں بیان فرمایا ہے : و من یعظم شعائر اللہ۔۔الآیہ تَرجَمۂ کنز الایمان: اور جو اللہ کے نشانوں کی تعظیم کرے، تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے۔(۴)

یہاں شعار اللہ کی تعظیم کا ذکر ہوا، شعائر اللہ کے بارے میں فرمان رب تعالیٰ ہے: ان الصفا و المروۃ ۔۔الآیہ تَرجَمۂ کنز الایمان : بیشک صفا اور مروہ اللہ کے نشانوں سے ہے۔(۵)

اس کی تفسیر میں ہے کہ شعائر اللہ سے دین کی نشانیاں مراد ہیں خواہ وہ مکانات ہوں جیسے کعبہ، عرفات وغیرہ یا وہ شعائر زمانے ہوں جسے رمضان، عیدالفطر وغیرہا یا وہ شعائر دوسری علامات ہوں جیسے اذان جمعہ وغیرہ ۔(۶)صفا اور مروہ حضرت ہاجرہ رحمۃ اللہ علیہاکی وجہ سے اللہ کی نشانی ہوئی ہیں۔ (۷)بعداز معلوم ہوا دین کی نشانیوں اور اللہ والوں سے نسبت رکھنے والی چیزوں کی تعظیم کرنے سے بھی دل کا تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔اس کے علاوہ چند دیگر چیزیں ذکر کی جاتیں ہیں جن کو اپنانے سے تقویٰ و پرہیزگاری حاصل ہوسکتے ہیں۔

(1)تقویٰ و پرہیزگاری کی اہمیت دل میں پیدا کرنی ہوگی اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے جس میں ہایبل کا قول ذکر کیا گیا کہ : کہا اللہ اسی سے قبول کرتا ہے جسے ڈر ہے (۸) ۔ لہذا عمل کی مقبولیت کے لیے تقویٰ اختیار کرنا ہوگا۔

(2)تقویٰ و پرہیزگاری کے فضائل اور انعامات پر غور کیا جائے،

چند فضائل ذکر کیے جاتے ہیں جو قرآن پاک میں مذکور ہیں٠ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت والا وہ ہے جو متقی ہو،٠اللہ تعالی متقی لوگوں کے ساتھ ہے،٠ جنت متقیوں کے لیے تیار کی گئی ،٠اللہ پاک متقی لوگوں کا مددگار ہے۔(9)

(3) متقی لوگوں کی صحبت اختیار کی جائےتو تقویٰ حاصل ہوگا کہ صحبت اثر انداز ہوتی ہے۔

(4)متقی لوگوں کی صفات پیدا کی جائیں چند صفات ذکر کی جاتی ہیں۔

٠متقی لوگ طاعتوں اور مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں نیز گناہوں سے بچنے پر ڈٹے رہتے

ہیں،٠متقی لوگ اللہ تعالی کے سچے فرمانبردار ہوتے ہیں٠ متقی لوگوں کے قول ، ارادے اور نیتیں سب سچی ہوتی ہیں۔ (۱۰)

(5) اس پرفتن دور میں تقویٰ حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ مدنی انعامات (۱۱)پر عمل کرنا ہے کیونکہ تقویٰ کے حصول کے لیے نفس کا محاسبہ ( حساب دینا) ضروری ہے اورمحاسبہ نفس کا بہترین طریقہ فکرِ مدینہ کرنا ہے۔(۱۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ (صراط الجنان جلد ۱، صفحہ ۶۶)

۲۔ (صراط الجنان جلد ۱، صفحہ ۶۷)

۳۔ (بخاری ، کتاب الایمان ۱/۳۳۔، الحدیث)

(۴) پارہ ۱۷ سورہ الحج، آیت ۳۲)

(۵) (پارہ ۲، سورہ البقرہ ، آیت ۱۵۸)

۶۔ (تفسیر صراط الجنان جلد۱، صفحہ ۲۹۱)

(۷) ایضا)

(۸) پارہ ۶، سورہ المائدہ ، آیت ۲۷)

(۹) (صراط الجنان جلد آٹھ ۔ صفحہ ۴۹۶)

(۱۰) (صراط الجنان جلد ۱، ص ۵۱۲)

(۱۱)امیر اہلسنت کے دیئے ہوئے وہ سوالات جو انہوں نے نیک بننے کے لیے رسالہ میں بیان فرمائے۔

(۱۲) مدنی انعامات کے رسالہ کو پُر کرنا دعوت اسلامی کی اصطلاح میں فکرِ مدینہ کہلاتا ہے۔()متقی لوگوں کے ساتھ ہے، (۲) جنت