اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ طبے شک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو پرہیزگار زیادہ ہے۔
حضرت ابوسعید خذری رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ایک شخص آقا علیہ
السَّلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھے کچھ وصیت کیجئے، آپ نے فرمایا:عَلَيْكَ بِتَقْوَى اللَّهِ فَاِنَّهُ جِمَاعُ كُلِّ خَيْرٍ، عَلَيْكَ
بِالْجِهَادِ فَاِنَّهُ رَهْبَانِيَّةُ الْمُسْلِمِينَ، عَلَيْكَ بِذِكْرِ اللَّهِ
وَتِلَاوَةِ كِتَابِهِ فَاِنَّهُ نُورٌ لَكَ یعنی تم پر تقویٰ لازم ہے، بےشک
یہ تمام بھلائیوں کا جامع ہے، تم پر جہاد لازم ہے، یہ مسلمانوں کی رہبانیت ہے اور
تم پر اللہ عزوجل کا ذکر لازم ہے، بے شک وہ تمہارے لیے روشنی ہے۔
تقویٰ کی حقیقت یہ
ہے کہ آدمی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کے ساتھ اس کے عذاب سے بچے۔
تقویٰ کی اصل شرک سے
بچنا ہے،پھر گناہوں اور برائیوں سے بچنا، پھر اس کے بعد شبہات سے بچنا اور اس کے
بعد فضول باتوں کو ترک کرنا۔ اگر شرک سے بچے گا گناہوں سے بچنے کے ساتھ ساتھ
مذکورہ کاموں سے بچے تو تقویٰ حاصل ہوگا۔ اور اللہ کا قرب ملے گا۔
تقویٰ کے بارے میں بزرگوں کے اقوال:
(1)حضرت نصراباذی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں:تقویٰ یہ ہے کہ انسان اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا ہر چیز سے بچے (یہ تقویٰ کا اعلیٰ درجہ
ہے)۔
(2)حضرت سہل فرماتے
ہیں: جو شخص چاہتا ہے کہ اس کا تقویٰ درست ہو، وہ تمام گناہوں کو چھوڑ دے۔
(3) حضرت کتانی
فرماتے ہیں:دنیا کی تقسیم آزمائش کے مطابق کی گئی اور آخرت کی تقسیم تقویٰ کے
مطابق کی گئی۔
(4)حضرت ابوعبداللہ روز باری فرماتے ہیں: تقویٰ یہ ہے کہ تم اس چیز سے اجتناب کرو جو تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دور کرتی ہے۔
(5)حضرت ابن عطاء رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں:تقویٰ کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی، اس کا ظاہر حدود کی حفاظت
ہے اور باطن نیت اور اخلاص ہے۔