یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ ترجمہ: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے۔

تقویٰ کا لفظی معنی اور مفہوم:تقویٰ کا لغوی معنی ڈرنا، بچنا، اور مفہوم یہ ہے کہ حضرت انسان کے دل میں اس بات کا خوف اور احساس ہو کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ میر ی ہرچیز کو دیکھ رہا ہے جس کے مطابق مجھے سزا و جزا دی جائے گی۔

تقویٰ کی حقیقت :تقویٰ کا تعلق انسان کے اندرونی حصے دل کے ساتھ ہے، جب انسان میں یہ کیفیت پیدا ہوجائے تو وہ اللہ او راس کے رسول کی نافرمانی نہیں کرتا، اللہ کے رسول نے دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:تقویٰ یہاں ہوتا ہے۔

واقعہ:حضرت عمر فاروق اور حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہما :ایک دفعہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے تقویٰ کی حقیقت دریافت کی،فرمایا: اے امیرُالمؤمنین!کبھی آپ کا کسی ایسے راستے سے گزر ہوا جہاں میں ہر طرف خارد ار جھاڑیاں ہوں۔فرمایا: جی!جب میں اپنے باپ کے اونٹ چرایا کرتا تھا۔فرمایا: آپ وہ راستے کس طرح پار کرتے۔ فرمایا: اپنے کپڑے سمیٹ لیتا، ایک طرف راستے سے کپڑے بچاتا، دوسری طرف راستے سے کپڑے اور کانٹے ہٹاتا۔ اور بہت آئستہ آئستہ قدم رکھنا۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے تقویٰ کی مثال دے کر سمجھا دیا۔ فرمایا: یہی تقویٰ ہے۔

آیتِ قرآنی اور وضاحت:اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ0

ترجمہ: سن لو! بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ ہی وہ لوگ غمگین ہوں گے۔

ولی اللہ کو خوف اور غم کیوں نہیں؟اس لئے کہ وہ لوگ تقویٰ کی دولت سے مالامال ہوتے ہیں۔

تقویٰ کا حصول:تقویٰ کا حصول اتنا آسان نہیں ہے یقیناً آپ پہلے بزرگانِ دین کی کتب کامطالعہ کرکے دیکھئے کہ ان لوگوں نے تقویٰ والی سعادت حاصل کی تو کیسے کی۔