صلح کروانے کے فضائل: اسلام اخوت و بھائی چارہ کا درس دینے والا پیارا دین ہے، یہ اپنے ماننے والےمسلمان کو آپس میں میل جول رکھنے کا حکم دیتا ہے، امن و سلامتی کے ساتھ رہنے کا درس دیتا ہے، اسلام میں جہاں والدین کے حقوق کا بیان ہے تو وہی اولاد کے حقوق کا بیان ہے جہاں زوجین کے حقوق کا بیان ہے تو وہی رشتہ داروں کے حقوق کا بھی بیان ہے الغرض مسلمان آپس میں متفرق نہ ہوں اس لئے صلح کےفضائل اور قطع تعلقی کی وعیدیں بھی بیان کی گئی اگر تقضائے شریعت پھر بھی کوئی ایک دوسرے سے کسی بات پر جھگڑ پڑے تو دوسرے مسلمانوں کو ان کے مابین صلح کروانے کا درس عظیم دیا گیا چنانچہ اللہ پاک پارہ 26 سورہ حجرات آیت نمبر 09 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا١ۚ

اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کراؤ پھر اگر ایک دوسرے پر زیادتی کریں تو اس زیادتی والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ ان میں اصلاح کر دو اور عدل کرو بے شک عدل والے اللہ کو پیارے ہیں۔ (صراط الجنان، ج 9، پ 26، سورۃ الحجرات، آیت 9)

لَا خَيْرَ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ۔۔۔ الخ ان کے اکثر مشوروں میں کچھ بھلائی نہیں مگر وہ جو حکم دے خیرات یا اچھی بات یا لوگوں میں صلح کرنے کا۔ (پ 5، س النساء، آیت 112)

تفسیر روح البیان میں ہے: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے جو لوگوں میں صلح کرنے کا حکم دے یعنی جب لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑا ہو تو شریعت کی حدود کا خیال رکھتے ہوئے ان کے درمیان صلح کروائے

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ۔۔۔الخ مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو۔ (پ 26، الحجرات، آیت 10)

احادیث مبارکہ:

تعدل بین الاثنین صدقۃ یعنی دو شخصوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا صدقہ ہے۔ (ریاض الصالحین ، حدیث نمبر 248)

کون سی صلح کروانا جائز نہیں؟

ایسی صلح جو حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دے وہ صلح جائز نہیں۔ یاد رکھیے جہاں عدل و انصاف یا دین کامعاملہ ہو وہاں رشتہ داری کا لحاظ نہ کرنے اور اس کے مقابلے میں دین کو ترجیح دینے کا حکم ہے۔ چنانچہ اللہ پاک کا فرمان عالیشان ہے: يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ الخ اللہ کے لیے گواہی دیتے ہوئے انصاف پر خوب قائم ہو جاؤ چاہے تمہارے اپنے یا والدین یارشتہ داروں کے خلاف ہی (گواہی) ہو۔(سورہ نساء، آیت نمبر 135)

قرآن کے چار حروف کی نسبت سے چار مدنی پھول:

1۔ اسلام میں دو لڑنے والوں کے درمیان صلح کروانے کا درس دیا گیا ہے۔

2۔ دو لڑنے والوں میں صلح کروانے کی اتنی اہمیت ہے کہ اگر ان میں جھوٹ بول کر بھی صلح کروانی پڑے اور وہ صلح کریں تو اس کی اجازت ہے۔

3۔ کسی کو دھوکا دینے یا جھوٹ بولنے کی قطعا اجازت نہیں۔

احادیث مبارکہ:

حضرت ام کلثوم بنت عقبہ سے روایت ہےکہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کرائےکہ اچھی بات پہنچاتا ہے یا اچھی بات کہتا ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں مسلمانوں میں صلح کروانے کی توفیق عطا فرمائے گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے خصوصاجھوٹ بولنے اور اس کی تباہ کاریوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین


صلح کروانا ہمارے پیارے آقا، مدینے والے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور مسلمانوں میں لڑائی جھگڑا کروا کر ان کی آپس میں پھوٹ ڈلوانا اور نفرتیں پھیلانا، یہ شیطان کے اہم اہداف میں سے ہے، بسا اوقات شیطان نیکی کی دعوت عام کرنے والوں کے درمیان پھوٹ ڈلوا کر بغض و حسد کی ایسی دیوار کھڑی کر دیتا ہے کہ جسے صلح کے ذریعے مسمار کرنا مشکل ہوتا ہے، صلح کروانے والے کو چاہئے کہ پہلے وہ اللہ عزوجل سے کامیابی کی دعا کرے، پھر ان دونوں کو الگ الگ بٹھا کر ان کی شکایات سنے اور اہم نکات لکھ لے۔

ایک فریق کی بات سن کر کبھی بھی فیصلہ نہ کرے، یہ بھی ممکن ہے جس کی بات سنی، وہ غلطی پر ہو، اس طرح دوسرے کی حق تلفی کا بھی قوی امکان ہے، فریقین کے بات سننے کے بعد ان کو صلح پر آمادہ کرے اور سمجھائے کہ ہمارے مکی مدنی آقا، دو عالم کے داتا صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایذاء دینے والوں، ستانے والوں، بلکہ اپنی جانی دشمنوں کو بھی معاف فرما دیا، فریقین کو صلح کے فضائل اور آپس کے اختلافات کے سبب پیدا ہونے والے لڑائی جھگڑے، بغض و حسد، گالی گلوچ، بے جا غصہ، کینہ وغیرہ کے دینی و دنیوی نقصانات بیان کئے جائیں، مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

تو برائے وصل کردن آمدی

نے برائے فصل کردن آمدی

یعنی تو جوڑ پیدا کرنے کے لئے آیا ہے، توڑپیدا کرنے کے لئے نہیں آیا۔

اللہ پاک نے قرآن کریم میں صلح کروانے کا حکم بھی ارشاد فرمایا:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَؒ۱۰

ترجمہ کنزالایمان:"مسلمان، مسلمان بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم پر رحمت ہو۔"(پ26، حجرات:10)

تفسیر:

اس آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان اپنے مسلمان کا بھائی ہے اور صلح کروانے کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ صلح کروانے والے پر اللہ عزوجل کی رحمت برستی ہے اور یہ نیک صالح عمل ہے۔

فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ١۪ وَ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۤ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۱ترجمہ کنزالایمان:"تو اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس میں (صلح و صفائی) رکھو اور اللہ اور رسول کا حکم مانو، اگر ایمان رکھتے ہو۔"(پارہ 9، سورہ انفال، آیت1)

تفسیر:

اس آیت مبارکہ کے شانِ نزول سے روایات بیان کی گئی ہیں، جن میں ایک یہ ہے، حضرت ابو امامہ باہلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے آیتِ انفال کے بارے میں پوچھا:تو آپ نے فرمایا"اس آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتا ہے، اس کو چاہئے کہ اللہ سے ڈرے اور اپنے مسلمان بھائیوں کے درمیان صلح کروائے، تا کہ اس کے فضائل و برکات پاسکے۔

حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، شہنشاہِ خوش خصال، پیکرِ حسن و جمال، دافعِ رنج وملال، صاحبِ جودونوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کہ سب سے افضل صدقہ روٹھے ہوئے لوگوں میں صلح کروا دینا ہے۔"(الترغیب والتر ہیب، کتاب الادب، باب اصلاح بین الناس، رقم ، جلد 3/321)

شرح:

حدیث مبارکہ میں وضاحت سے بیان ہوا ہے کہ صدقہ کرنا افضل ہے، بہت سے ایسے کام ہیں جن سے صدقہ کیا جا سکتا ہے، جن میں بہترین صدقہ صلح کروانا ہے۔

2۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرورِ ذیشان صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مغفرت نشان ہے:"جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کرائے گا، اللہ عزوجل اس کا معاملہ درست فرمائے گا اور ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔"(الترغیب والتر ہیب، کتاب الادب، باب اصلاح بین الناس، جلد 3/321، رقم9)

شرح:

اس سے صاف ظاہر ہے کہ صلح کروانے والے کے تو وارے ہی نیارے ہیں کہ صلح کروانے میں جو کوشش کر رہا ہے مسلمان بھائیوں کو ملانے کی، صرف اللہ کی رضا کے لئے ہر کلمہ کے بدلے غلام آزاد کرنے کا ثواب اور صلح کرواتے ہی اس کی مغفرت ہو جاتی ہے۔

3۔حضرت سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ فضیلت نشان ہے:"کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتائیے،ارشاد فرمایا:وہ عمل جو آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دیتا ہے، کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے۔(سنن ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین، جلد 4/325، رقم4919)

شرح:

سب سے بہتر عمل صلح کروانا ہے کہ روٹھنے والے نہ صرف آپس میں ناراض ہوتے ہیں، بلکہ ان کے درمیان دلوں میں اور بھی غلط خیالات جیسے بغض، حسد، کینہ جنم لیتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"صلح کروانا جائز ہے، مگر وہ صلح جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے، وہ جائز نہیں۔"(ابوداؤد 3/425، ح3594)

ان آیات و روایات سے صلح کروانے کی اہمیت اور اس کے فضائل و برکات معلوم ہوئے، لہٰذا جب کبھی مسلمانوں میں ناراضگی ہو جائے، ان کے درمیان صلح کروا کر یہ فضائل و برکات حاصل کرنے چاہئے، بعض دفعہ شیطان یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ انہوں نے صلح پر آمادہ نہیں ہونا، سمجھانا بیکار ہے۔

یاد رکھئے! مسلمان کو سمجھانا بیکار نہیں، بلکہ مفید ہے، جیسا کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے:

ترجمہ کنزالایمان:"اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔"(پارہ 27، الذٰریٰت:55)

اللہ عزوجل ہمیں نرمی اپنا نے، ایک دوسرے کو منانے اور لڑائی جھگڑے سے خود کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


صلح کروانا ہمارے آقا ومولا، سیّد المرسلین، خاتم النبیین، رحمۃ اللعالمین، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے، اس لئے جو اپنے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیارا امتی، سچا عاشقِ رسول ہوگا، وہ صلح کروانے والا ہوگا، اسی طرح جو لڑائی کروانے والا ہوگا، وہ شیطان کا دوست ہوگا، کیونکہ لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑا کروانا، فتنہ فساد برپا کروانا شیطان کا کام ہے اور جو جس سے محبت کرتا ہو، وہ ان کے بتائے ہوئے ہی کام کرتا ہے۔

اس لئے ہمیں اپنے پیارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنانا چاہئے اور اس کو زندہ بھی رکھنا چاہئے، اس لئے جب کبھی موقع ملے تو ضرور کوشش کرکے دو اسلامی بہنوں یا دو خاندانوں میں صلح کروا دیں، آج کل اس فتنے بھرے دور میں یہ شیطانی کام نہ صرف گھروں میں ہوتا ہے، یعنی یہ لڑائی جھگڑا کروانا نہ صرف گھروں تک محدود رہا ہے، بلکہ یہ بُرا عمل دین کا کام کرنے والوں میں بھی لڑائی کروانے کا باعث بنتا ہے، کیونکہ شیطان کبھی بھی یہ نہیں چاہتا کہ دین کا کام سر بلند ہو اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کبھی بھی ایک جھنڈے کے نیچے نہ جمع ہوں۔ اس لئے ان علماء کرام کو چاہئے کہ جن میں اختلافات ہیں، وہ اپنے اختلافات کو ختم کر کے ایک دوسرے سے مل بیٹھ کر لڑائی جھگڑے اور شیطان کے وار سے خود کو اور دین کو حاسدوں کے حسد اور شریروں کے شر سے بچائے اور آپس میں صلح کر کے امن سے مل کر دین کا کام کریں، قرآن پاک میں صلح کروانے والوں کے درج ذیل فضائل بیان ہوئے ہیں، ارشادِ ربّانی ہے:

ترجمہ کنزالایمان:"ان کے اکثر مشوروں میں کچھ بھلائی نہیں، مگر جو حکم دے خیرات یا اچھی بات یا لوگوں میں صلح کرنے کا اور جو اللہ کی رضامندی کو ایسا کرے، اسے عنقریب ہم بڑا ثواب دیں گے۔"(سورہ نساء، آیت 114)

تفسیر:

اس آیت مبارکہ میں اس گروہ کے لئے نصیحت ہے، جن کے مشورے فضولیات پر مشتمل ہوتے ہیں یا جو معاذاللہ گناہ کو پروان چڑھانے کے لئے مشورے کرتے ہیں، جیسے سینما بنانے، فلمی صنعت کی ترقی کے لئے مشورے کرتے ہیں، یہ مشورے صرف خیرسے خالی نہیں، بلکہ شر سے بھرپور ہیں، ان کے بجائے وہ لوگ جو آپس میں صلح کرواتے ہیں اور نیکی کی دعوت دیتے ہیں، ان کے لئے بڑا ثواب ہے۔

ترجمہ کنزالایمان:"مسلمان، مسلمان بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم پر رحمت ہو۔"(الحجرات:10)

تفسیر:

اس آیت مبارکہ میں صلح کروانے کی فضیلت بتائی گئی ہے کہ اس انسان پر اللہ تعالیٰ رحمت نازل فرماتا ہے، یہ بھی بتایا گیا کہ متقی لوگ وہ ہوتے ہیں، جو لوگوں کے درمیان صُلح کراتے ہیں، کیونکہ انہیں اللہ تعالیٰ کا خوف ہوتا ہے، اس لئے وہ لوگوں میں صلح کرواتے ہیں۔

صلح کروانے والوں کے بارے میں حدیث مبارکہ میں بہت سے فضائل بیان ہوئے ہیں۔

1۔ایک روایت میں حضرت سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:"کہ کیا میں تمہیں ایسے صدقہ کے بارے میں نہ بتاؤں، جسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پسند کرتے ہیں، جب لوگ ایک دوسرے سے ناراض ہو کر روٹھ جائیں تو ان میں صلح کرا دیا کرو ۔"(الترغیب والتر ہیب، کتاب الادب، رقم 7،8،9، جلد 3/321)

شرح:

اس حدیث مبارکہ میں واضح طور پر بتایا گیا کہ سب سے بہترین صدقہ دو ناراض، روٹھے لوگوں میں صلح کروانا ہے۔

2۔حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدارِ رسالت، محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک کی تجارت کے بارے میں نہ بتاؤں؟ انہوں نے عرض کیا، ضرور بتائیے؟ ارشاد فرمایا:جب لوگ جھگڑا کریں تو ان کے درمیان صلح کروا دیا کرو، جب وہ ایک دوسرے سے دوری اختیار کریں تو انہیں قریب کر دیا کرو۔"

شرح:

اس میں بتایا گیا کہ لوگوں کے درمیان صلح کروانا افضل عمل ہے اور دو لوگوں کو محبت، اخوت و بھائی چارے سے رہنے کا درس دینا چاہئے، تاکہ وہ ایک دوسرے سے قریب رہ سکیں۔(الترغیب والتر ہیب، کتاب الادب ، باب الاصلاح بین الناس،رقم 7،8،9، جلد 3/321)

3۔حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"سب سے افضل صدقہ روٹھے ہوئے لوگوں میں صلح کرا دینا ہے۔"

شرح:

اس حدیث مبارکہ میں واضح طور پر بہترین یعنی افضل صدقہ کے بارے میں بتایا گیا کہ دو ناراض، روٹھے ہوئے لوگوں میں صلح کروانا ہے، اس لئے ہمیں چاہئے کہ صلح کروانے کی اس سنت کو زندہ کریں اور اس پر عمل پیرا ہوں۔(الترغیب والتر ہیب، کتاب الادب ، باب الاصلاح بین الناس،رقم 6، جلد 3/321)

محترم قا رئین!ابھی آپ نے صلح کروانے کے فضائل پڑھے، لیکن یاد رکھئے! صلح کروانا وہی افضل اور درست ہے، جو حلال ہو، فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے:"صلح کروانا جائز ہے، مگر وہ صلح جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے، وہ جائز نہیں۔"(ابوداؤد 3/425، ح3594)

سنا آپ نے!صلح کروانا وہی جائز ہے، جو حلال ہو، اس لئے ہمیں بھی روٹھے ہوئے، ناراض لوگوں میں صلح کروانی چاہئے اور اس معاشرے سے فتنہ فساد، لڑائی جھگڑوں کو ختم کیا جائے، تاکہ یہ معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکے اور ایک دوسرے سے مل کر دین کا کام کرنے کا ذہن بنا سکیں، تاکہ دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پرچم کو سربلند کر سکیں اور دین کو تخت پر مل کر لا سکیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں امن و سکون، محبت، اخوت و بھائی چارے سے مل کر رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور صلح کروا کر اس کے فضائل و برکات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


صلح کروانا ہمارے پیارے پیارے آقا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی پیاری پیاری سنت مبارکہ ہے اور بہت سی آیات مبارکہ، احادیث اور روایات میں بھی صلح کی اہمیت اور اس کے فضائل و برکات بیان ہوئے ہیں، لہذا ہمیں چاہئے کہ جب بھی کوئی مسلمان آپس میں ناراض ہوں، تو ان میں صلح کروا کر ان فضائل و برکات سے حصہ پائیں، جیسا کہ ربّ تعالیٰ صلح کروانے کے متعلق قرآن کریم میں ارشاد فرماتاہے کہ:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَؒ۱۰

ترجمہ کنزالایمان:"مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔"( پ 26 ، سورہ الحجرات:10)

ایک اور جگہ ارشادِ ربّ الانام ہے کہ:

وَ الصُّلْحُ خَيْرٌ١ؕ وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ١ؕ ترجمہ کنزالایمان:"اور صلح خوب ہے اور دل لالچ کے پھندے میں ہیں ۔"(پارہ 5، سورہ نساء:128)

اس طرح بہت سی احادیث میں بھی صلح کروانے کے فضائل ملتے ہیں، نیز صلح کروانا، اللہ پاک کی رضا حاصل کرنےکا ذریعہ ہے اور صلح کروانے سے فرشتوں کو مسرت (یعنی خوشی) ہوتی ہے اور اس سے شیطان کو رنج پہنچتا ہے، نیز صلح کروانے سے آپس میں محبتیں بڑھتی ہیں۔

مولانا روم رحمتہ علیہ القیوم فرماتے ہیں۔

تو برائے وصل کردن آمدی

نے برائے فصل کردن آمدی (صلح کروانے کے فضائل: 9)

"یعنی تو جوڑ پیدا کرنے کے لئے آیا ہے ، توڑ پیدا کرنے کے لئے نہیں آیا۔"

شیخ الحدیث و التفسیر مفتی محمد قاسم عطاری نے تفسیر صراط الجنان میں صلح کروانے کے متعلق درج ذیل احادیث نقل فرمائی ہیں۔

حضرت ام کلثوم، بنتِ عقبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"وہ شخص جھوٹا نہیں، جو لوگوں کے درمیان صلح کروائے کہ اچھی بات پہنچاتا یا اچھی بات کہتا ہے۔"

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں، جو درجے میں روزے، نماز اور زکوة سے بھی افضل ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں نہیں، فرمایا:آپس میں صلح کروا دینا۔"( تفسیر صراط الجنان، ج9)

اللّہ کریم ہمیں ان فضائل سے حصّہ پانے کی توفیق عطا فرمائے۔اللہم آمین

البتہ یاد رہے کہ مسلمانوں میں وہی صلح کرانا جائز ہے، جو شریعت کے دائرے میں ہو، جبکہ ایسی صلح جو حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دے وہ جائز نہیں، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے، چنانچہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"مسلمانوں کے مابین صلح کروانا جائز ہے، مگر وہ صلح (جائز نہیں)، جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے۔"( صراط الجنان، ج 9)

اللہ کریم ہمیں عمل کرتے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اللہم آمین یارب العالمین


تمہید :

صلح کروانا نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنت ہے، صلح کے معنی دو لوگوں میں قطع تعلق کے بعد ان کا آپس میں تعلق جوڑنا، صلح کروانے سے اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے، صلہ رحمی کرنے سے رزق میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے۔

ترجمہ:"اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کراؤ ۔"( قرآن پاک پارہ 26، سورہ الحجرات،آیت نمبر9)

تاجدارِ رسالت، شہنشاہ نبوت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا فرمانِ فضلیت نشان ہے :"کیا میں تمہیں روزہ ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟صحابہ اکرام نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ضرور بتائیں، وہ عمل آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دینا ہے، کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے ۔"( صلح کروانے کے فضائل ، ص 4)

حضرت سیّدنا ابو ہریرہ ایک مرتبہ سرکار مدینہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ بیان فرما رہے تھے، اس دوران فرمایا : "ہر قاطع رحم ہماری محفل سے اٹھ جائے۔" ایک نوجوان اٹھ کر اپنی پھوپھی کے ہاں گیا، جس سے اس کا کئی سال پرانا جھگڑا تھا،جب دونوں ایک دوسرے سے راضی ہو گئے تو اس نوجوان سے پھوپھی نے کہا:" تم جا کر اس کا سبب پوچھو ،آخر ایسا کیوں ہوا ۔" نوجوان نے حاضر ہو کر جب پوچھا تو حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا کہ میں نے حضور انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے:"جس قوم میں قاطعِ رحم(یعنی رشتے داری توڑنے والا) ہو، اس قوم پر اللہ کی رحمت نازل نہیں ہوتی۔"(ہاتھوں ہاتھ پھوپھی سے صلح کرلی ، ص 2 ، الزواجر عن اقتراف لکبائر،ح 2،ص 103)

"اور اگر تم کو میاں بی بی کے جھگڑے کا خوف ہو تو ایک نیچ مرد والوں کی طرف سے بھیجو اور ایک نیچ عورت والوں کی طرف سے، یہ دونوں اگر صلح کرانا چائیں گے تو اللہ ان میں میل جل کر دے گا، بے شک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔“( صراطِ الجنان، پ5، سورہ نساء، آیت 35)

اللہ پاک قرآن پاک میں صلح کی ترغیب دلاتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:"مسلمان، مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو ۔"( پ 26 ، سورۃ الحجرات، آیت 10)


صلح کے فضائل از بنت نیاز

Sat, 10 Sep , 2022
1 year ago

مسلمانوں کے درمیان لڑائی جھگڑا کروا کر ان کی آپس میں پھوٹ ڈلوانا اور نفرتیں بڑھانا شیطان کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے، جبکہ ان میں لڑائی جھگڑا ختم کروا کر ان کے بیچ صلح کروانا ہمارے پیارے آقا مکی مدنی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت ہے، بلکہ خود ربّ کریم کا حکم اور باعثِ نزولِ رحمت ہے، رحمٰن عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے:

ترجمہ کنزالایمان:"مسلمان، مسلمان بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم پر رحمت ہو۔"

شریعت مطہرہ کو مسلمانوں کا آپس میں محبت و اتفاق سے رہنا کس قدر محبوب ہے کہ ان میں صلح کروانے کے لئے جھوٹ تک بولنے کی اجازت مرحمت فرمائی گئی ہے، چنانچہ حضور آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"تین باتوں کے سوا جھوٹ بولنا جائز نہیں، خاوند اپنی بیوی کو راضی کرنے کے لئے کوئی بات کہے، جنگ کے موقع پر جھوٹ بولنا اور لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے جھوٹ بولنا۔"(بہار شریعت، جلد3، صفحہ 517، حصہ 16، مکتبہ المدینہ)

صلح کے فضائل:

اللہ کی رضا کے طالبوں، محبوب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دم بھرنے والوں اور نیکی کا جذبہ رکھنے والوں کو مسلمانوں کے درمیان صلح کروانے کے فضائل و برکات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ان کو سمجھا کر، صلح صفائی کروانی چاہئے اور ان کو فائدہ پہنچانے کے ساتھ ساتھ اپنے لئے بھی آخرت میں راحت کا سامان کرنا چاہئے، ربّ عزوجل فرماتا ہے۔

وَّ ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ۵۵

ترجمہ کنزالایمان:"اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔"(پارہ 27، الذٰریٰت:55) اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:

ترجمہ کنزالعرفان:"اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کراؤ۔"(پارہ 26، سورہ حجرات، آیت 9)

مزید ارشاد فرمایا: وَ الصُّلْحُ خَيْرٌ١ؕ

ترجمہ کنزالایمان:"اور صلح خوب ہے۔"(پارہ 5، سورہ نساء، آیت نمبر 128)


تمہید:

صلح کروانا ہمارے پیارے آقا مکی مدنی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔

صلح کے فضائل و برکات سے متعلق آیات مبارکہ:

قرآن کریم میں صلح کروانے کا حکم ارشاد ہوا، چنانچہ پارہ 26 سورہ حجرات کی آیت نمبر 9 میں خدائے رحمٰن عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے:

وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا١ۚ ترجمہ کنزالایمان:"اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کراؤ۔"

تفسیر و شرح:

اس آیت کریمہ کا شان نزول بیان کرتے صدر الفاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی علی رحمۃ اللہ علیہ نے خزائن العرفان میں فرماتے ہیں:"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دراز گوش پر تشریف لے جا رہے تھے، انصار کی مجلس پر گزرے، جہاں تھوڑا سا توقف فرمایا،اس جگی درازگوش نے پیشاب کیا تو ابن ابی نے اپنی ناک بند کر لی،حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دراز گوش کا پیشاب تیرے مشک سے بہتر خوشبو ہے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے، ان دونوں میں بات بڑھ گئی، اور ان دونوں کی قومیں آپس میں لڑ گئیں اور ہاتھا پائی تک نوبت پہنچی،آقا صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے،ان میں صلح کرا دی، اس معاملے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔

اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ عزوجل کا فرمان عالیشان ہے:

وَ الصُّلْحُ خَيْرٌ١ؕ وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ١ؕ ترجمہ کنزالایمان:"اور صلح خوب ہے اور دل لالچ کے پھندے میں ہیں۔"(پ5، النساء:128)

صلح کے فضائل و برکات سے متعلق حدیث مبارکہ:

احادیث مبارکہ میں صلح کروانے کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں، چنانچہ

1۔حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرورِ ذیشان، رحمتِ عالمیان صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مغفرت نشان ہے:"جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کرائے گا، اللہ عزوجل اس کا معاملہ درست فرما دے گا اور اسےہر کلمہ بولنےپر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔"

2۔ایک اور احادیث پاک میں تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ فضیلت نشان ہے:" کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتائیے،ارشاد فرمایا:وہ عمل جو آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دیتا ہے، کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے۔

ان آیات و روایات سے صلح کروانے کی اہمیت اور اس کے فضائل و برکات معلوم ہوئے، لہذا جب کبھی مسلمانوں میں ناراضگی ہو جائے تو ان کے درمیان صلح کروا کر یہ فضائل و برکات حاصل کرنے چاہئیں۔

کونسی صلح ناجائز ہے؟مسلمانوں کو آپس میں لڑانا اور ان میں فتنہ و فساد برپا کرنا شیطانی کام ہیں، جیسا کہ خدائے رحمٰن عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے:

اِنَّ الشَّيْطٰنَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ١ؕ ترجمہ کنزالایمان:"بے شک شیطان ان کے آپس میں فساد ڈال دیتا ہے۔"(پارہ 15، سورہ بنی اسرائیل:53)

لہذا اس شیطانی کام کو چھوڑ کر اللہ عزوجل کی رضا کے لئے مسلمانوں میں صلح کروا کر اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، ہاں! اگر یہ بغض و کینہ اور عداوت و دشمنی کسی بد مذہب سے ہو تو اس سے صلح نہ کی جائے، کیونکہ بدمذہبوں سے دور رہنے کا ہی شریعت نے حکم دیا ہے اور ان سے کینہ بھی واجب ہے۔(بحوالہ صلح کروانے کے فضائل، صفحہ نمبر 2تا6، مکتبہ المدینہ العلمیہ، دعوت اسلامی)


شریعت کی اصطلاح میں دو جھگڑنے والے افراد کے درمیان پیدا شدہ اختلافات ختم کرنے کے معاہدے کو صلح کہتے ہیں، ارشادِ الہی ہے: وَ الصُّلْحُ خَيْرٌ١ؕ ترجمہ کنزالعرفان:"اور صلح بہتر ہے۔"(پ 4، سورہ نساء، آیت 128)

قرآن پاک میں ارشادِ ربّانی ہے:"اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرادو۔"(ترجمہ کنزالعرفان، سورۃ الحجرات، آیت9)

صلح کروانا ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے اور اس کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں، سیدنا ابو دردہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا میں تمہیں روزے، نماز اور صدقے سے بڑھ کر افضل درجات کے اعمال نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے فرمایا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپس میں میل جول اور روابط کو بہتر بنانا(اور اس کے برعکس) آپس کے میل جول اور روابط میں پھوٹ ڈالنا(دین کو) مونڈ دینے والی خصلت ہے۔"(ابودرداء المحدث، ابو داؤد المصدر، سنن ابی داؤد، صفحہ رقم4919)

حضرت سیدہ عمرہ بنتِ عبدالرحمن، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول نقل کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو جھگڑنے والوں کی آوازیں دروازے پر سنیں، جو بلند ہورہی تھیں، ان میں سے ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ مہربانی کرکے کچھ قرض معاف کر دیں اور دوسرا کہہ رہا تھا کہ واللہ میں نہیں کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کے پاس تشریف لے آئے اور فرمایا: کہ کہاں ہے وہ شخص، جو اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہا تھا کہ میں نیکی نہیں کروں گا؟ اس نے عرض کی:میں ہوں، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میرا ساتھی جو چاہے، میں اسے معاف کر دیتا ہوں۔سبحان اللہ(صحیح بخاری، کتاب الصلح،حدیث2591)

ان آیات اور احادیث مبارکہ سے صلح کروانے کی اہمیت اور اس کے فضائل و برکات معلوم ہوئے، بعض اوقات شیطان وسوسہ ڈالتا ہے کہ انہوں نے صلح پر آمادہ ہونا ہی نہیں، لہذا سمجھانا بیکار ہے، شیطان نیکی کرنے سے روکتا ہے، مسلمانوں میں بدگمانی پیدا کرکے نفرت اور حسد کی دیواریں کھڑی کر دیتا ہے، اس لئے صلح کروانے والے پہلے خود اللہ پاک کی پاک بارگاہ میں سجدہ ریز ہو کر اپنے مسلمان بھائیوں کے حق میں دعائے خیر کرنی چاہئے اور معاملہ فہمی اور حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کی دعا مانگنی چاہئے اور فریقین کو معاف کر دینے اور صلح کرنے پر دنیا و آخرت کی بھلائی اور انعامات کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے پیارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ پر عمل کرنے کا ذہن دینا چاہئے۔

لیکن ایک بات ذہن نشین رہے! کہ مسلمانوں میں صرف وہی صلح کروانا جائز ہے، جس میں شرعی طور پر کوئی برائی نہ ہو، حدیث مبارک میں ہے:"مسلمانوں کے مابین صلح کروانا جائز ہے، مگر وہ صلح (جائز نہیں) جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے۔"(ابوداؤد3/425، حدیث3594)

حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں:زوجین میں اس طرح صلح کرائی جائے کہ خاوند اس عورت کی سوکن (اپنی دوسری بیوی) کے پاس نہ جائے گا یا مسلمان مقروض اس قدر شراب وسود اپنے کافر قرض خواہ کو دے گا، پہلی صورت میں حلال کو حرام کیا گیا اور دوسری صورت میں حرام کو حلال، اس قسم کی صلحیں حرام ہیں، جن کا توڑ دینا واجب ہے۔(مرآۃالمناجیح4/303)

صلح کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مکتبۃالمدینہ کا رسالہ"ہاتھوں ہاتھ پُھوپھی سے صُلح کرلی" پڑھئے۔


دین اسلام وہ واحد عالمگیر دین ہے جو مسلمانوں کی ہر کام میں رہنمائی فرماتا ہے۔ دین اسلام امن و سلامتی کا درس دیتا ہے یہ مسلمانوں کو آپس کے لڑائی ،جھگڑوں،ناراضگیوں ،منافرت و قطع تعلقی سے بچنے اور اتحاد و اتفاق کے ساتھ مل جل کر رہنے کا درس دیتا ہے ۔ اور اگر کبھی کوئی مسلمان کسی معاملے میں دوسرے مسلمان سے لڑ پڑے، ناراض ہو جائے تو دیگر مسلمانوں کو ان میں صلح کروانے کا حکم دیتا ہے  تاکہ مسلمان متحد ہو کر رہیں اور متفرق نہ ہو۔ رضائے الہی کے لئے رشتہ داروں ، پڑوسیوں، دوستوں کے ساتھ ساتھ صلہ رحمی اور ان کی بدسلوکی پر در گزر کرنا ایک عظیم اخلاقی خوبی ہے اور اللہ پاک کے یہاں اس کابڑا ثواب ہے ۔مسلمانوں میں صلح کروانے والوں کے لئے قرآن و حدیث میں کثرت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ ترجمۂ کنزالایمان: مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو۔( پ 26،الحجرات:10)

صلح کی تعریف: جھگڑے کے بعد ان سے مصالحت (صلح) کرنا (کتاب التعریفات،ص124)

(1) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں ایسے عمل کے بارے میں نہ بتاوں جسے اللہ اور اس کا رسول پسند کرتے ہیں؟ وہ یہ کہ جب لوگ ایک دوسرے سے ناراض ہو کر روٹھ جائیں تو ان میں صلح کروا دو۔ ( الترغیب والترھیب،2/8،حدیث:32)

(2) حضرت ابی بن کعب رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے:حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لئے (جنت میں) محل بنایا جائےاور اس کے درجات بلند کئے جائیں، اسے چاہئے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کرے اور جو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس ناطہ ( تعلق ) جوڑے ۔( المستدرک للحاکم ، 3/12،حدیث:3215)

3۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک مرتبہ منبر اقدس پر جلوہ فرما تھے کہ ایک صحابی رضی اللہُ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوگوں میں سب سے اچھا کون ہے؟ فرمایا: لوگوں میں سے وہ شخص سب سے اچھا ہے جو کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کرے ۔ زیادہ متقی ہو ، سب سے زیادہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے والا ہو اور سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا ہو۔ ( مسند امام احمد ،10/402،حدیث:27504)

(4) اور جو مسلمان آپس میں رشتہ توڑ دیتے (یعنی قطع تعلق کر دیتے ) ہیں وہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس فرمان سے عبرت حاصل کریں :حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ ( بخاری، 4/7،حدیث:5784)حضرت علامہ ملا علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں:اس سے مراد یہ ہے کہ جو شخص بغیر کسی سبب اور بغیر کسی شبہ کے اور قطع رحمی کے حرام ہونے کے علم کے باجود اسے حلال اور جائز سمجھتا ہو وہ کافر ہے ہمیشہ جہنم میں رہے گا جنت میں نہیں جائے گا۔ یا یہ مراد ہے کہ پہلے جانے والوں کے ساتھ جنت میں نہیں جائے گا یا یہ مراد ہے کہ عذاب سے نجات پانے والوں کے ساتھ بھی نہیں جائے گا۔ ( پہلے سزا پائے گا پھر جائے گا) ۔(مرقاۃ،7،تحت الحدیث:4922)

(5)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: پیر اور جمعرات کو اللہ پاک کے حضور لوگوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں تو اللہ پاک آپس میں عداوت رکھنے والوں کے علاوہ سب کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ ( المعجم الکبیر للطبرانی ،1/187،حدیث:409)

حضرت سیدنا فقیہ ابو للیث سمر قندی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: صلہ رحمی کرنے کے 10 فائدے ہیں: (۱) اللہ پاک کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ (۲)لوگوں کی خوشی کا سبب ہے ۔ (۳)فرشتوں کو خوشی حاصل ہوتی ہے ۔(۴)مسلمانوں کی طرف سے اس شخص کی تعریف ہوتی ہے ۔(۵)شیطان کو اس سے رنج پہنچتا ہے ۔(۶)بندے کی عمر بڑھتی ہے ۔(۷)رزق میں برکت ہوتی ہے۔ (۸)فوت ہو جانے والے آباؤ اجداد (یعنی مسلمان باپ دادا) خوش ہوتے ہیں۔ (۹)آپس میں محبت بڑھتی ہے ۔(۱۰) وفات کے بعد اس کے ثواب میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔کیونکہ لوگ اس کے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں۔ (تنبیہ الغافلین،ص151)

اللہ پاک ہمیں بھی صلہ رحمی کرنے اور قطع تعلقی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور دوسرے مسلمانوں میں صلح کروانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


صلح کروانا ایک بڑے ثواب کا کام اور سنت رسول صَلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم ہے۔ قرآنِ مجید اور اَحادیثِ مبارکہ میں بکثرت مقامات پر مسلمانوں کو آپس میں صلح رکھنے اور ان کے درمیان صلح کروانے کا حکم دیا گیا اور اس کے بہت فضائل بھی بیان کئے گئے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَاِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَاۚ-فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰى تَفِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِۚ-فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ(۹) ترجمۂ کنز العرفان: اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو اُن میں صلح کراؤ پھر اگر ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس زیادتی والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے پھر اگر پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ ان میں اصلاح کردو اور عدل کرو بیشک عدل والے اللہ کو پیارے ہیں۔ (پ26، الحجرات:9)

اس آیت مبارکہ کا شا نِ نزول: ایک مرتبہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دراز گوش پر سوار ہو کر تشریف لے جارہے تھے،اس دوران انصار کی مجلس کے پاس سے گزرہوا، تووہاں تھوڑی دیر ٹھہرے، اُس جگہ دراز گوش نے پیشاب کیا تو عبداللہ بن اُبی نے ناک بند کرلی۔یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دراز گوش کا پیشاب تیرے مشک سے بہتر خوشبو رکھتا ہے۔ حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تو تشریف لے گئے لیکن ان دونوں میں بات بڑھ گئی اور ان دونوں کی قومیں آپس میں لڑپڑیں۔ اور ہاتھا پائی تک نوبت پہنچ گئی، صورتِ حال معلوم ہونے پر سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم واپس تشریف لائے اور ان میں صلح کرادی، اس معاملے کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا: اے ایمان والو!اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو تم سمجھا کر ان میں صلح کرادو، پھر اگران میں سے ایک دوسرے پر ظلم اور زیادتی کرے اور صلح کرنے سے انکار کر دے تو مظلوم کی حمایت میں اس زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف پلٹ آئے، پھر اگر وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ دونوں گروہوں میں صلح کروادو اور دونوں میں سے کسی پر زیادتی نہ کرو (کیونکہ اس جماعت کو ہلاک کرنا مقصود نہیں بلکہ سختی کے ساتھ راہِ راست پر لانا مقصود ہے) اور صرف اس معاملے میں ہی نہیں بلکہ ہر چیز میں عدل کرو، بیشک اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے تو وہ انہیں عدل کی اچھی جزا دے گا۔(صراط الجنان، 9/414)

اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ بَیْنَ النَّاسِؕ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا(۱۱۴) ترجمۂ کنزُالایمان: ان کے اکثر مشوروں میں کچھ بھلائی نہیں مگر جو حکم دے خیرات یا اچھی بات یا لوگوں میں صلح کرنے کا اور جو اللہ کی رضا چاہنے کو ایسا کرے اسے عنقریب ہم بڑا ثواب دیں گے۔(پ4، النسآء:114)

آیئے! مزید احادیث کریمہ سے صلح کروانے کے فضائل و برکات پڑھتے ہیں:(1)حضرت ِاُمِّ کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے کہ اچھی بات پہنچاتا ہے یا اچھی بات کہتا ہے۔(بخاری، کتاب الصلح، باب لیس الکاذب الذی یصلح بین الناس، 2/210، حدیث: 2692) (2)حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں جو درجے میں روزے،نماز اور زکوٰۃ سے بھی افضل ہو، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کیوں نہیں۔ ارشاد فرمایا: آپس میں صلح کروا دینا۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین، 4/365، حدیث:4919)(3)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو تم سے قَطع تعلق کرے تم اس سے رشتہ جوڑو اور جو تم پر ظلم کرے تم اس سے درگزر کرو۔(شعب الایمان، السادس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، 6/222، حدیث:7957)(4)حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرورِ ذیشان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان مغفرت نشان ہے: جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کرائے گا اللہ عزوجل اس کا معاملہ درست فرمادے گا اور اسے ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلےگناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔(صلح کروانے کے فضائل، صفحہ نمبر 4، الترغیب و الترہیب، کتاب الادب، الترغیب فی الاصلاح بین الناس، 3/321، حدیث: 9، دار الکتب العلمیہ بیروت) (5)حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن میٹھے میٹھے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف فرما تھے کہ اچانک آپ مسکرادیے،حتی کہ آپ کے اوپر کے دو دانت ظاہر ہو گئے، سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے ماں باپ آپ پر قربان! مسکرانے کا سبب کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا: میرے دو امتی اللہ رب العزت کی بار گاہ میں پیش کیے گئے تو ان میں سے ایک نے کہا: اے میرے رب مجھے میرے بھائی سے میر احق دلا۔ اللہ تعالیٰ نے دوسرے سے ارشادفرمایا: اپنے بھائی کو اس کا حق دے۔ کہنے لگا: باری تعالی میری نیکیوں میں سے تو کچھ بھی نہیں بچا۔ اللہ عزوجل نے طلبگار سے فرمایا: اب تم کیا کرو گے اس کی نیکیوں میں سے تو کچھ بھی نہیں بچا؟ اس نے عرض کی: یارب عزوجل! یہ میرے گناہوں میں سے کچھ بوجھ اٹھا لے۔ راوی کہتے ہیں: رحمت عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی چشمان مبارک سے آنسو جاری ہو گئے۔ پھر فرمایا: بے شک وہ بہت بڑادن ہے، ایسا دن جس میں لوگ محتاج ہوں گے کہ کوئی ان کے گناہوں کا بوجھ اٹھالے۔ ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے طلب گار سے فرمایا: اپناسر اٹھا اور جنتوں کو دیکھ۔ چنانچہ اس نے اپنا سر اٹھایا تو کہنے لگا: اے میرے رب! میں چاندی کے بلند شہر اور موتی جڑے سونے کے محلات دیکھ رہاہوں یہ کس نبی اور کس صدیق کے لئے ہیں؟ یا پھر کس شہید کے لئے ہیں؟ اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: اس کے لئے جو مجھے ان کی قیمت دے۔ بندے نے عرض کی: یارب عزوجل! ان کی قیمت کا مالک کون ہو سکتا ہے؟ ارشاد فرمایا: تو ہو سکتا ہے۔ اس نے عرض کی: وہ کیسے ؟ ارشاد ہوا: اپنے بھائی کو معاف کرنے سے۔ طلبگار نے کہا: اے میرے رب! بلاشبہ میں نے اپنے بھائی کو معاف کیا۔ اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ کر اسے جنت میں لے جا۔ اس کے بعد آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اپنے مابین صلح رکھو بے شک اللہ عزوجل مؤمنین کے در میان صلح کرواتا ہے۔ (صلح کروانے کے فضائل صفحہ نمبر 5)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِن روایات اور احادیث شریف سے صلح کروانے کی اہمیت اور فضائل و برکات معلوم ہوئی، لہٰذا جب بھی مسلمانوں میں ناراضی ہوجائے تو ان کے درمیان صلح کرواکر یہ برکات حاصل کرنی چاہئیں۔

بعض اوقات شیطان یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ ان کے درمیان صلح کروانے کا فائدہ نہیں ہے، صلح پے آمادہ نہیں ہونگیں لہٰذا انہیں سمجھانا بے کار ہے۔یاد رکھئے! مسلمانوں کو سمجھانا بے کار نہیں بلکہ فائدہ مند ہے، جیسے اللہ تعالیٰ قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَّ ذَ كِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ(۵۵) ترجمۂ کنز الایمان: اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔ (پ27، الذٰریٰت: 55)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اچھے طریقے سے مسلمانوں کے درمیان صلح کروانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک قراٰنِ مجید میں صلح کروانے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۠(۱۰) ترجمۂ کنز الایمان: مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔ (پ26، الحجرات:10) پیارے اسلامی بھائیو! مسلمانوں میں صلح کروانا سُنّت مبارکہ ہے۔ (صراط الجنان، 9/415ملخصاً) جس کے احادیث مبارکہ میں کئی فضائل آئے ہیں،آئیے ان میں سے چند ملاحظہ کرتے ہیں:

(1)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو شخص لوگوں کے دَرمیان صُلح کرائے گا اللہ پاک اس کا مُعاملہ دُرُست فرما دے گا اور اسے ہر کلمہ بولنے پر ایک غُلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مَغفر ت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔(الترغیب والترہیب، کتاب الادب، باب الترغيب فى اصلاح الناس،ص893،حدیث:9)

(2) حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے اَفضل عمل نہ بتاؤں؟ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی: یارَسُولَ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!ضَرور بتائیے۔ اِرشاد فرمایا: وہ عمل آپس میں روٹھنے والوں میں صُلح کرا دینا ہے۔(ابو داؤد،کتاب الادب، باب فى اصلاح ذات البين، ص771، حدیث: 4919)

(3)سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اللہ سے ڈرو! اور مخلوق میں صلح کرواؤ، بیشک اللہ پاک بھی روزِ قیامت مسلمانوں میں صلح کروائے گا۔(مستدرک، کتاب الاهوال، باب اذا لم يبقى من الحسنات...الخ،5/ 795، حدیث:8758)

(4)حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: صلح کروانا اَفْضَل صدقہ ہے۔(شعب الایمان، باب فى اصلاح الناس اذامرجوا...الخ، 7/490، حدیث: 11092)

(5) حضرت ثور رحمۃُ اللہِ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے تورات میں پڑھا ہے کہ لوگوں میں صلح کروانے والے اللہ پاک کے خاص بندے ہیں۔(حلیۃ الاولیاء، ثور بن يزيد،6/98، رقم: 7948)


ویسے تو ہمیں لڑنا نہیں چاہیے مگر اگر شرعی عذر نہ ہو تو صلح کروانے میں دیر بھی نہیں کرنی چاہیے۔ صلح کروانا بہت ہی اجر وثواب کا کام ہے،صلح کروانا ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت ہے۔

قرآن پاک میں بھی اللہ پاک صلح کروانے کا حکم ارشاد فرماتا ہے، چنانچہ پارہ 26 سورۃُ الحجرات کی آیت نمبر 9 میں خدائے رحمٰن کا فرمان عالیشان ہے: وَاِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَاۚ- ترجمۂ کنز العرفان: اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو اُن میں صلح کراؤ۔(پ26، الحجرات:9) ایک اور مقام پر صلح کی ترغیب دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۠(۱۰) ترجمۂ کنزالایمان: مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔ (پ26، الحجرات:10)

احادیث میں بھی صلح کے بہت فضائل بیان ہوئے ہیں:

(1)مصطفےٰ جان رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان فضیلت نشان ہے: کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟ صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ضرور بتائیے۔ ارشاد فرمایا:وہ عمل آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دینا ہے کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے۔(ابوداؤد، 4/365، حدیث: 4919 احیاء التراث العربی بیروت)

(2)حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکار عالی وقار مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کرائے گا اللہ پاک اس کا معاملہ درست فرما دے گا اور اسے ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔(الترغیب والترہیب،کتاب الادب، 3/321، حدیث:9، دارالکتب العلمیۃ بیروت)

صلح کروانے کا طریقہ: صلح کروانے سے پہلے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں کامیابی کی دعا کرے، پھر ان دونوں کو الگ الگ بٹھا کر ان کی شکایات سنے اور اہم نکات لکھ لے۔ ایک فریق کی بات سن کر کبھی فیصلہ نہ کرے کہ ہو سکتا ہے جس کی بات سنی وہی غلطی پر ہو، اس طرح دوسرے فریق کی حق تلفی کا قوی امکان ہے، دونوں کی بات سننے کے بعد انہیں صلح پر آمادہ کرے، اور حضور کی زندگی کے بارے میں بتائے کے وہ ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے، انہوں نے اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف کر دیا۔

صلح کروانے میں کوئی خلاف واقع بات کہنا:دو مسلمانوں میں صلح کروانے کے لئے خلاف واقع (جھوٹی) بات کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ایک فریق کو کہے کہ وہ تمہیں اچھا جانتا ہے تمہاری تعریف کرتا ہے دوسرے کو بھی ایسا ہی کہے گا تو بغاوت کم ہو جائے گی اور صلح ہو جائے گی۔ جیسا کہ حضرت سیدتنا اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان معظم ہے: تین باتوں کے سوا جھوٹ بولنا جائز نہیں،خاوند اپنی بیوی کو راضی کرنے کے لئے کوئی بات کہے،جنگ کے موقع پر جھوٹ بولنا اور لوگوں کے درمیان صلح کروانے کے لئے جھوٹ بولنا۔(ترمذی،کتاب الصبر والصلۃ، 3/377، حدیث:1945 دارلفکر بیروت)

صلح کے بہت سے دنیاوی اور اخروی فوائد میں سے چند یہ ہیں: دنیاوی فوائد: (1)ذہنی پریشانی سے حفاظت(2)کام لینا آسان ہو جاتا ہے (3)محبت بڑھتی ہے (4)خاندان امن کے گہوارے بنتے ہیں(5)بےجا کوٹ کچہریوں کے اخراجات سے بچت وغیرہ۔ اخروی فوائد:(1)اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا کاسبب (2)حقوق العباد کے معاملے میں آسانی ہوگی (3)جنت کے حصول کا ذریعہ۔

فرمان امیر اہل سنت: کاش کے ہم جوڑنے والے بنیں توڑنے والے نہیں۔

اللہ کرے کہ اس پر ہم سب عمل کرنے والے بن جائیں۔