صلح کروانا ہمارے آقا ومولا، سیّد المرسلین، خاتم النبیین، رحمۃ اللعالمین، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے، اس لئے جو اپنے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیارا امتی، سچا عاشقِ رسول ہوگا، وہ صلح کروانے والا ہوگا، اسی طرح جو لڑائی کروانے والا ہوگا، وہ شیطان کا دوست ہوگا، کیونکہ لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑا کروانا، فتنہ فساد برپا کروانا شیطان کا کام ہے اور جو جس سے محبت کرتا ہو، وہ ان کے بتائے ہوئے ہی کام کرتا ہے۔

اس لئے ہمیں اپنے پیارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنانا چاہئے اور اس کو زندہ بھی رکھنا چاہئے، اس لئے جب کبھی موقع ملے تو ضرور کوشش کرکے دو اسلامی بہنوں یا دو خاندانوں میں صلح کروا دیں، آج کل اس فتنے بھرے دور میں یہ شیطانی کام نہ صرف گھروں میں ہوتا ہے، یعنی یہ لڑائی جھگڑا کروانا نہ صرف گھروں تک محدود رہا ہے، بلکہ یہ بُرا عمل دین کا کام کرنے والوں میں بھی لڑائی کروانے کا باعث بنتا ہے، کیونکہ شیطان کبھی بھی یہ نہیں چاہتا کہ دین کا کام سر بلند ہو اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کبھی بھی ایک جھنڈے کے نیچے نہ جمع ہوں۔ اس لئے ان علماء کرام کو چاہئے کہ جن میں اختلافات ہیں، وہ اپنے اختلافات کو ختم کر کے ایک دوسرے سے مل بیٹھ کر لڑائی جھگڑے اور شیطان کے وار سے خود کو اور دین کو حاسدوں کے حسد اور شریروں کے شر سے بچائے اور آپس میں صلح کر کے امن سے مل کر دین کا کام کریں، قرآن پاک میں صلح کروانے والوں کے درج ذیل فضائل بیان ہوئے ہیں، ارشادِ ربّانی ہے:

ترجمہ کنزالایمان:"ان کے اکثر مشوروں میں کچھ بھلائی نہیں، مگر جو حکم دے خیرات یا اچھی بات یا لوگوں میں صلح کرنے کا اور جو اللہ کی رضامندی کو ایسا کرے، اسے عنقریب ہم بڑا ثواب دیں گے۔"(سورہ نساء، آیت 114)

تفسیر:

اس آیت مبارکہ میں اس گروہ کے لئے نصیحت ہے، جن کے مشورے فضولیات پر مشتمل ہوتے ہیں یا جو معاذاللہ گناہ کو پروان چڑھانے کے لئے مشورے کرتے ہیں، جیسے سینما بنانے، فلمی صنعت کی ترقی کے لئے مشورے کرتے ہیں، یہ مشورے صرف خیرسے خالی نہیں، بلکہ شر سے بھرپور ہیں، ان کے بجائے وہ لوگ جو آپس میں صلح کرواتے ہیں اور نیکی کی دعوت دیتے ہیں، ان کے لئے بڑا ثواب ہے۔

ترجمہ کنزالایمان:"مسلمان، مسلمان بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم پر رحمت ہو۔"(الحجرات:10)

تفسیر:

اس آیت مبارکہ میں صلح کروانے کی فضیلت بتائی گئی ہے کہ اس انسان پر اللہ تعالیٰ رحمت نازل فرماتا ہے، یہ بھی بتایا گیا کہ متقی لوگ وہ ہوتے ہیں، جو لوگوں کے درمیان صُلح کراتے ہیں، کیونکہ انہیں اللہ تعالیٰ کا خوف ہوتا ہے، اس لئے وہ لوگوں میں صلح کرواتے ہیں۔

صلح کروانے والوں کے بارے میں حدیث مبارکہ میں بہت سے فضائل بیان ہوئے ہیں۔

1۔ایک روایت میں حضرت سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:"کہ کیا میں تمہیں ایسے صدقہ کے بارے میں نہ بتاؤں، جسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پسند کرتے ہیں، جب لوگ ایک دوسرے سے ناراض ہو کر روٹھ جائیں تو ان میں صلح کرا دیا کرو ۔"(الترغیب والتر ہیب، کتاب الادب، رقم 7،8،9، جلد 3/321)

شرح:

اس حدیث مبارکہ میں واضح طور پر بتایا گیا کہ سب سے بہترین صدقہ دو ناراض، روٹھے لوگوں میں صلح کروانا ہے۔

2۔حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدارِ رسالت، محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک کی تجارت کے بارے میں نہ بتاؤں؟ انہوں نے عرض کیا، ضرور بتائیے؟ ارشاد فرمایا:جب لوگ جھگڑا کریں تو ان کے درمیان صلح کروا دیا کرو، جب وہ ایک دوسرے سے دوری اختیار کریں تو انہیں قریب کر دیا کرو۔"

شرح:

اس میں بتایا گیا کہ لوگوں کے درمیان صلح کروانا افضل عمل ہے اور دو لوگوں کو محبت، اخوت و بھائی چارے سے رہنے کا درس دینا چاہئے، تاکہ وہ ایک دوسرے سے قریب رہ سکیں۔(الترغیب والتر ہیب، کتاب الادب ، باب الاصلاح بین الناس،رقم 7،8،9، جلد 3/321)

3۔حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"سب سے افضل صدقہ روٹھے ہوئے لوگوں میں صلح کرا دینا ہے۔"

شرح:

اس حدیث مبارکہ میں واضح طور پر بہترین یعنی افضل صدقہ کے بارے میں بتایا گیا کہ دو ناراض، روٹھے ہوئے لوگوں میں صلح کروانا ہے، اس لئے ہمیں چاہئے کہ صلح کروانے کی اس سنت کو زندہ کریں اور اس پر عمل پیرا ہوں۔(الترغیب والتر ہیب، کتاب الادب ، باب الاصلاح بین الناس،رقم 6، جلد 3/321)

محترم قا رئین!ابھی آپ نے صلح کروانے کے فضائل پڑھے، لیکن یاد رکھئے! صلح کروانا وہی افضل اور درست ہے، جو حلال ہو، فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے:"صلح کروانا جائز ہے، مگر وہ صلح جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے، وہ جائز نہیں۔"(ابوداؤد 3/425، ح3594)

سنا آپ نے!صلح کروانا وہی جائز ہے، جو حلال ہو، اس لئے ہمیں بھی روٹھے ہوئے، ناراض لوگوں میں صلح کروانی چاہئے اور اس معاشرے سے فتنہ فساد، لڑائی جھگڑوں کو ختم کیا جائے، تاکہ یہ معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکے اور ایک دوسرے سے مل کر دین کا کام کرنے کا ذہن بنا سکیں، تاکہ دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پرچم کو سربلند کر سکیں اور دین کو تخت پر مل کر لا سکیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں امن و سکون، محبت، اخوت و بھائی چارے سے مل کر رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور صلح کروا کر اس کے فضائل و برکات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین