تمہید
:
صلح
کروانا نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنت ہے، صلح کے معنی دو لوگوں میں قطع
تعلق کے بعد ان کا آپس میں تعلق جوڑنا، صلح کروانے سے اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے، صلہ رحمی کرنے سے رزق میں برکت ہوتی ہے، اللہ
تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے۔
ترجمہ:"اور
اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کراؤ ۔"( قرآن پاک پارہ
26، سورہ الحجرات،آیت نمبر9)
تاجدارِ
رسالت، شہنشاہ نبوت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا فرمانِ فضلیت نشان ہے :"کیا میں
تمہیں روزہ ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟صحابہ اکرام نے عرض کی:یا رسول اللہ
صلی اللّٰہ علیہ وسلم ضرور بتائیں، وہ عمل آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دینا
ہے، کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے ۔"( صلح
کروانے کے فضائل ، ص 4)
حضرت
سیّدنا ابو ہریرہ ایک مرتبہ سرکار مدینہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ بیان
فرما رہے تھے، اس دوران فرمایا : "ہر قاطع رحم ہماری محفل سے اٹھ
جائے۔" ایک نوجوان اٹھ کر اپنی پھوپھی
کے ہاں گیا، جس سے اس کا کئی سال پرانا جھگڑا تھا،جب دونوں ایک دوسرے سے راضی ہو
گئے تو اس نوجوان سے پھوپھی نے کہا:" تم جا کر اس کا سبب پوچھو ،آخر ایسا کیوں
ہوا ۔" نوجوان نے حاضر ہو کر جب پوچھا تو حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا کہ میں نے
حضور انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے:"جس قوم میں قاطعِ رحم(یعنی
رشتے داری توڑنے والا) ہو، اس قوم پر اللہ کی رحمت نازل نہیں ہوتی۔"(ہاتھوں
ہاتھ پھوپھی سے صلح کرلی ، ص 2 ، الزواجر عن
اقتراف لکبائر،ح 2،ص 103)
"اور
اگر تم کو میاں بی بی کے جھگڑے کا خوف ہو تو ایک نیچ مرد والوں کی طرف سے بھیجو
اور ایک نیچ عورت والوں کی طرف سے، یہ دونوں اگر صلح کرانا چائیں گے تو اللہ ان میں
میل جل کر دے گا، بے شک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔“( صراطِ الجنان، پ5، سورہ
نساء، آیت 35)
اللہ
پاک قرآن پاک میں صلح کی ترغیب دلاتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:"مسلمان، مسلمان
بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو
۔"( پ 26 ، سورۃ الحجرات، آیت 10)