صلح کروانا ایک بڑے ثواب کا کام اور
سنت رسول صَلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم ہے۔ قرآنِ مجید اور اَحادیثِ مبارکہ میں
بکثرت مقامات پر مسلمانوں کو آپس میں صلح رکھنے اور ان کے درمیان صلح کروانے کا
حکم دیا گیا اور اس کے بہت فضائل بھی بیان کئے گئے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد
فرماتا ہے: وَاِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا
بَیْنَهُمَاۚ-فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ
تَبْغِیْ حَتّٰى تَفِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِۚ-فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا
بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ(۹) ترجمۂ کنز العرفان: اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں
لڑیں تو اُن میں صلح کراؤ پھر اگر ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس زیادتی والے سے
لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے پھر اگر پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ
ان میں اصلاح کردو اور عدل کرو بیشک عدل والے اللہ کو پیارے ہیں۔ (پ26، الحجرات:9)
اس آیت مبارکہ کا شا
نِ نزول: ایک مرتبہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم دراز گوش پر سوار ہو کر تشریف لے جارہے تھے،اس دوران انصار کی مجلس
کے پاس سے گزرہوا، تووہاں تھوڑی دیر ٹھہرے، اُس جگہ دراز گوش نے پیشاب کیا تو
عبداللہ بن اُبی نے ناک بند کرلی۔یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ
نے فرمایا:حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دراز گوش کا پیشاب تیرے
مشک سے بہتر خوشبو رکھتا ہے۔ حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تو تشریف
لے گئے لیکن ان دونوں میں بات بڑھ گئی اور ان دونوں کی قومیں آپس میں لڑپڑیں۔ اور
ہاتھا پائی تک نوبت پہنچ گئی، صورتِ حال معلوم ہونے پر سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم واپس تشریف لائے اور ان میں صلح کرادی، اس معاملے کے بارے میں
یہ آیت نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا: اے ایمان والو!اگر مسلمانوں کے دو گروہ
آپس میں لڑپڑیں تو تم سمجھا کر ان میں صلح کرادو، پھر اگران میں سے ایک دوسرے پر
ظلم اور زیادتی کرے اور صلح کرنے سے انکار کر دے تو مظلوم کی حمایت میں اس زیادتی
کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف پلٹ آئے، پھر اگر وہ
اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ دونوں گروہوں میں صلح کروادو
اور دونوں میں سے کسی پر زیادتی نہ کرو (کیونکہ اس جماعت کو ہلاک کرنا مقصود نہیں
بلکہ سختی کے ساتھ راہِ راست پر لانا مقصود ہے) اور صرف اس معاملے میں ہی نہیں
بلکہ ہر چیز میں عدل کرو، بیشک اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے تو
وہ انہیں عدل کی اچھی جزا دے گا۔(صراط الجنان، 9/414)
اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد
فرماتا ہے: لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ
نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ
بَیْنَ النَّاسِؕ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ
نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا(۱۱۴) ترجمۂ کنزُالایمان: ان کے اکثر
مشوروں میں کچھ بھلائی نہیں مگر جو حکم دے خیرات یا اچھی بات یا لوگوں میں صلح
کرنے کا اور جو اللہ کی رضا چاہنے کو ایسا کرے اسے عنقریب ہم بڑا ثواب دیں گے۔(پ4،
النسآء:114)
آیئے! مزید احادیث کریمہ سے صلح
کروانے کے فضائل و برکات پڑھتے ہیں:(1)حضرت
ِاُمِّ کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے کہ
اچھی بات پہنچاتا ہے یا اچھی بات کہتا ہے۔(بخاری، کتاب الصلح، باب لیس الکاذب الذی یصلح
بین الناس، 2/210، حدیث:
2692) (2)حضرت
ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں جو درجے میں روزے،نماز اور زکوٰۃ
سے بھی افضل ہو، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کیوں نہیں۔ ارشاد فرمایا: آپس میں صلح کروا دینا۔(ابو داؤد،
کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین، 4/365، حدیث:4919)(3)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو تم سے قَطع تعلق کرے تم اس سے رشتہ
جوڑو اور جو تم پر ظلم کرے تم اس سے درگزر کرو۔(شعب الایمان، السادس والخمسون من
شعب الایمان۔۔۔ الخ، 6/222، حدیث:7957)(4)حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرورِ
ذیشان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان مغفرت نشان ہے: جو شخص لوگوں کے
درمیان صلح کرائے گا اللہ عزوجل اس کا معاملہ درست فرمادے گا اور اسے ہر کلمہ
بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے
پچھلےگناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔(صلح کروانے کے فضائل، صفحہ نمبر 4، الترغیب
و الترہیب، کتاب الادب، الترغیب فی الاصلاح بین الناس، 3/321، حدیث: 9، دار الکتب
العلمیہ بیروت) (5)حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن میٹھے میٹھے
آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف فرما تھے کہ اچانک آپ مسکرادیے،حتی کہ آپ
کے اوپر کے دو دانت ظاہر ہو گئے، سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یارسول اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے ماں باپ آپ پر قربان! مسکرانے کا سبب کیا ہے ؟
ارشاد فرمایا: میرے دو امتی اللہ رب العزت کی بار گاہ میں پیش کیے گئے تو ان میں
سے ایک نے کہا: اے میرے رب مجھے میرے بھائی سے میر احق دلا۔ اللہ تعالیٰ نے دوسرے
سے ارشادفرمایا: اپنے بھائی کو اس کا حق دے۔ کہنے لگا: باری تعالی میری نیکیوں میں
سے تو کچھ بھی نہیں بچا۔ اللہ عزوجل نے طلبگار سے فرمایا: اب تم کیا کرو گے اس کی
نیکیوں میں سے تو کچھ بھی نہیں بچا؟ اس نے عرض کی: یارب عزوجل! یہ میرے گناہوں میں
سے کچھ بوجھ اٹھا لے۔ راوی کہتے ہیں: رحمت عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
چشمان مبارک سے آنسو جاری ہو گئے۔ پھر فرمایا: بے شک وہ بہت بڑادن ہے، ایسا دن جس
میں لوگ محتاج ہوں گے کہ کوئی ان کے گناہوں کا بوجھ اٹھالے۔ ارشاد فرمایا: اللہ
تعالیٰ نے طلب گار سے فرمایا: اپناسر اٹھا اور جنتوں کو دیکھ۔ چنانچہ اس نے اپنا
سر اٹھایا تو کہنے لگا: اے میرے رب! میں چاندی کے بلند شہر اور موتی جڑے سونے کے
محلات دیکھ رہاہوں یہ کس نبی اور کس صدیق کے لئے ہیں؟ یا پھر کس شہید کے لئے ہیں؟
اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: اس کے لئے جو مجھے ان کی قیمت دے۔ بندے نے عرض کی:
یارب عزوجل! ان کی قیمت کا مالک کون ہو سکتا ہے؟ ارشاد فرمایا: تو ہو سکتا ہے۔ اس
نے عرض کی: وہ کیسے ؟ ارشاد ہوا: اپنے بھائی کو معاف کرنے سے۔ طلبگار نے کہا: اے
میرے رب! بلاشبہ میں نے اپنے بھائی کو معاف کیا۔ اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: اپنے
بھائی کا ہاتھ پکڑ کر اسے جنت میں لے جا۔ اس کے بعد آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اپنے مابین صلح رکھو بے شک اللہ عزوجل
مؤمنین کے در میان صلح کرواتا ہے۔ (صلح کروانے کے فضائل صفحہ نمبر 5)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِن
روایات اور احادیث شریف سے صلح کروانے کی اہمیت اور فضائل و برکات معلوم ہوئی،
لہٰذا جب بھی مسلمانوں میں ناراضی ہوجائے تو ان کے درمیان صلح کرواکر یہ برکات
حاصل کرنی چاہئیں۔
بعض اوقات شیطان یہ وسوسہ ڈالتا ہے
کہ ان کے درمیان صلح کروانے کا فائدہ نہیں ہے، صلح پے آمادہ نہیں ہونگیں لہٰذا
انہیں سمجھانا بے کار ہے۔یاد رکھئے! مسلمانوں کو سمجھانا بے کار نہیں بلکہ فائدہ
مند ہے، جیسے اللہ تعالیٰ قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَّ ذَ كِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ(۵۵) ترجمۂ کنز الایمان: اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو
فائدہ دیتا ہے۔ (پ27، الذٰریٰت: 55)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اچھے
طریقے سے مسلمانوں کے درمیان صلح کروانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی
الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم