شریعت کی اصطلاح میں دو جھگڑنے والے افراد کے درمیان پیدا شدہ اختلافات ختم کرنے کے معاہدے کو صلح کہتے ہیں، ارشادِ الہی ہے: وَ الصُّلْحُ خَيْرٌ١ؕ ترجمہ کنزالعرفان:"اور صلح بہتر ہے۔"(پ 4، سورہ نساء، آیت 128)

قرآن پاک میں ارشادِ ربّانی ہے:"اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرادو۔"(ترجمہ کنزالعرفان، سورۃ الحجرات، آیت9)

صلح کروانا ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے اور اس کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں، سیدنا ابو دردہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا میں تمہیں روزے، نماز اور صدقے سے بڑھ کر افضل درجات کے اعمال نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے فرمایا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپس میں میل جول اور روابط کو بہتر بنانا(اور اس کے برعکس) آپس کے میل جول اور روابط میں پھوٹ ڈالنا(دین کو) مونڈ دینے والی خصلت ہے۔"(ابودرداء المحدث، ابو داؤد المصدر، سنن ابی داؤد، صفحہ رقم4919)

حضرت سیدہ عمرہ بنتِ عبدالرحمن، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول نقل کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو جھگڑنے والوں کی آوازیں دروازے پر سنیں، جو بلند ہورہی تھیں، ان میں سے ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ مہربانی کرکے کچھ قرض معاف کر دیں اور دوسرا کہہ رہا تھا کہ واللہ میں نہیں کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کے پاس تشریف لے آئے اور فرمایا: کہ کہاں ہے وہ شخص، جو اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہا تھا کہ میں نیکی نہیں کروں گا؟ اس نے عرض کی:میں ہوں، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میرا ساتھی جو چاہے، میں اسے معاف کر دیتا ہوں۔سبحان اللہ(صحیح بخاری، کتاب الصلح،حدیث2591)

ان آیات اور احادیث مبارکہ سے صلح کروانے کی اہمیت اور اس کے فضائل و برکات معلوم ہوئے، بعض اوقات شیطان وسوسہ ڈالتا ہے کہ انہوں نے صلح پر آمادہ ہونا ہی نہیں، لہذا سمجھانا بیکار ہے، شیطان نیکی کرنے سے روکتا ہے، مسلمانوں میں بدگمانی پیدا کرکے نفرت اور حسد کی دیواریں کھڑی کر دیتا ہے، اس لئے صلح کروانے والے پہلے خود اللہ پاک کی پاک بارگاہ میں سجدہ ریز ہو کر اپنے مسلمان بھائیوں کے حق میں دعائے خیر کرنی چاہئے اور معاملہ فہمی اور حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کی دعا مانگنی چاہئے اور فریقین کو معاف کر دینے اور صلح کرنے پر دنیا و آخرت کی بھلائی اور انعامات کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے پیارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ پر عمل کرنے کا ذہن دینا چاہئے۔

لیکن ایک بات ذہن نشین رہے! کہ مسلمانوں میں صرف وہی صلح کروانا جائز ہے، جس میں شرعی طور پر کوئی برائی نہ ہو، حدیث مبارک میں ہے:"مسلمانوں کے مابین صلح کروانا جائز ہے، مگر وہ صلح (جائز نہیں) جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے۔"(ابوداؤد3/425، حدیث3594)

حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں:زوجین میں اس طرح صلح کرائی جائے کہ خاوند اس عورت کی سوکن (اپنی دوسری بیوی) کے پاس نہ جائے گا یا مسلمان مقروض اس قدر شراب وسود اپنے کافر قرض خواہ کو دے گا، پہلی صورت میں حلال کو حرام کیا گیا اور دوسری صورت میں حرام کو حلال، اس قسم کی صلحیں حرام ہیں، جن کا توڑ دینا واجب ہے۔(مرآۃالمناجیح4/303)

صلح کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مکتبۃالمدینہ کا رسالہ"ہاتھوں ہاتھ پُھوپھی سے صُلح کرلی" پڑھئے۔