غلام نبی عطّاری (درجۂ دورۂ حدیث،جامعۃُ المدینہ
فیضانِ مدینہ حیدرآباد پاکستان)
دین اسلام وہ واحد عالمگیر دین ہے جو
مسلمانوں کی ہر کام میں رہنمائی فرماتا ہے۔ دین اسلام امن و سلامتی کا درس دیتا ہے
یہ مسلمانوں کو آپس کے لڑائی ،جھگڑوں،ناراضگیوں ،منافرت و قطع تعلقی سے بچنے اور
اتحاد و اتفاق کے ساتھ مل جل کر رہنے کا درس دیتا ہے ۔ اور اگر کبھی کوئی مسلمان
کسی معاملے میں دوسرے مسلمان سے لڑ پڑے، ناراض ہو جائے تو دیگر مسلمانوں کو ان میں
صلح کروانے کا حکم دیتا ہے تاکہ مسلمان
متحد ہو کر رہیں اور متفرق نہ ہو۔ رضائے الہی کے لئے رشتہ داروں ، پڑوسیوں، دوستوں
کے ساتھ ساتھ صلہ رحمی اور ان کی بدسلوکی پر در گزر کرنا ایک عظیم اخلاقی خوبی ہے
اور اللہ پاک
کے یہاں اس کابڑا ثواب ہے ۔مسلمانوں میں صلح کروانے والوں کے لئے قرآن و حدیث میں
کثرت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ
فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ ترجمۂ کنزالایمان: مسلمان مسلمان بھائی
ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو۔( پ
26،الحجرات:10)
صلح کی تعریف: جھگڑے کے بعد ان سے مصالحت (صلح) کرنا (کتاب
التعریفات،ص124)
(1) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں ایسے عمل کے بارے میں نہ بتاوں جسے اللہ
اور اس کا رسول پسند کرتے ہیں؟ وہ یہ کہ جب لوگ ایک دوسرے سے ناراض ہو کر روٹھ جائیں تو ان میں صلح کروا دو۔ ( الترغیب
والترھیب،2/8،حدیث:32)
(2) حضرت ابی بن کعب رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے:حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان
ہے: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لئے (جنت میں) محل بنایا جائےاور اس کے درجات بلند
کئے جائیں، اسے چاہئے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کرے اور جو اسے محروم کرے
یہ اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس ناطہ ( تعلق ) جوڑے ۔( المستدرک
للحاکم ، 3/12،حدیث:3215)
3۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک مرتبہ منبر اقدس پر جلوہ فرما تھے کہ ایک صحابی رضی اللہُ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوگوں میں سب سے اچھا کون ہے؟ فرمایا: لوگوں میں سے وہ
شخص سب سے اچھا ہے جو کثرت سے قرآن کریم
کی تلاوت کرے ۔ زیادہ متقی ہو ، سب سے
زیادہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے والا ہو اور سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا ہو۔ ( مسند امام احمد ،10/402،حدیث:27504)
(4) اور جو مسلمان آپس میں رشتہ توڑ دیتے
(یعنی قطع تعلق کر دیتے ) ہیں وہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس فرمان سے عبرت حاصل کریں :حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ (
بخاری، 4/7،حدیث:5784)حضرت علامہ ملا علی
قاری رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں:اس سے مراد یہ ہے کہ جو
شخص بغیر کسی سبب اور بغیر کسی شبہ کے اور
قطع رحمی کے حرام ہونے کے علم کے باجود اسے حلال اور جائز سمجھتا ہو وہ کافر ہے
ہمیشہ جہنم میں رہے گا جنت میں نہیں جائے
گا۔ یا یہ مراد ہے کہ پہلے جانے والوں کے ساتھ جنت میں نہیں جائے گا یا یہ مراد ہے
کہ عذاب سے نجات پانے والوں کے ساتھ بھی نہیں جائے گا۔ ( پہلے سزا پائے گا پھر
جائے گا) ۔(مرقاۃ،7،تحت الحدیث:4922)
(5)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: پیر اور جمعرات کو اللہ پاک کے حضور لوگوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں تو اللہ پاک
آپس میں عداوت رکھنے والوں کے علاوہ سب کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ ( المعجم الکبیر
للطبرانی ،1/187،حدیث:409)
حضرت سیدنا فقیہ ابو للیث سمر قندی رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں: صلہ رحمی کرنے کے 10 فائدے ہیں: (۱) اللہ پاک کی رضا حاصل
ہوتی ہے۔ (۲)لوگوں کی خوشی کا سبب ہے ۔ (۳)فرشتوں کو خوشی حاصل ہوتی ہے ۔(۴)مسلمانوں
کی طرف سے اس شخص کی تعریف ہوتی ہے ۔(۵)شیطان کو اس سے رنج پہنچتا ہے ۔(۶)بندے کی
عمر بڑھتی ہے ۔(۷)رزق میں برکت ہوتی ہے۔ (۸)فوت ہو جانے والے آباؤ اجداد (یعنی
مسلمان باپ دادا) خوش ہوتے ہیں۔ (۹)آپس میں محبت بڑھتی ہے ۔(۱۰) وفات کے بعد اس
کے ثواب میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔کیونکہ لوگ اس کے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں۔
(تنبیہ الغافلین،ص151)
اللہ پاک
ہمیں بھی صلہ رحمی کرنے اور قطع تعلقی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور دوسرے مسلمانوں میں صلح کروانے کی توفیق
عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم