صلح کروانا ہمارے پیارے پیارے آقا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی پیاری پیاری سنت مبارکہ ہے اور بہت سی آیات مبارکہ، احادیث اور روایات میں بھی صلح کی اہمیت اور اس کے فضائل و برکات بیان ہوئے ہیں، لہذا ہمیں چاہئے کہ جب بھی کوئی مسلمان آپس میں ناراض ہوں، تو ان میں صلح کروا کر ان فضائل و برکات سے حصہ پائیں، جیسا کہ ربّ تعالیٰ صلح کروانے کے متعلق قرآن کریم میں ارشاد فرماتاہے کہ:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَؒ۱۰

ترجمہ کنزالایمان:"مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔"( پ 26 ، سورہ الحجرات:10)

ایک اور جگہ ارشادِ ربّ الانام ہے کہ:

وَ الصُّلْحُ خَيْرٌ١ؕ وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ١ؕ ترجمہ کنزالایمان:"اور صلح خوب ہے اور دل لالچ کے پھندے میں ہیں ۔"(پارہ 5، سورہ نساء:128)

اس طرح بہت سی احادیث میں بھی صلح کروانے کے فضائل ملتے ہیں، نیز صلح کروانا، اللہ پاک کی رضا حاصل کرنےکا ذریعہ ہے اور صلح کروانے سے فرشتوں کو مسرت (یعنی خوشی) ہوتی ہے اور اس سے شیطان کو رنج پہنچتا ہے، نیز صلح کروانے سے آپس میں محبتیں بڑھتی ہیں۔

مولانا روم رحمتہ علیہ القیوم فرماتے ہیں۔

تو برائے وصل کردن آمدی

نے برائے فصل کردن آمدی (صلح کروانے کے فضائل: 9)

"یعنی تو جوڑ پیدا کرنے کے لئے آیا ہے ، توڑ پیدا کرنے کے لئے نہیں آیا۔"

شیخ الحدیث و التفسیر مفتی محمد قاسم عطاری نے تفسیر صراط الجنان میں صلح کروانے کے متعلق درج ذیل احادیث نقل فرمائی ہیں۔

حضرت ام کلثوم، بنتِ عقبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"وہ شخص جھوٹا نہیں، جو لوگوں کے درمیان صلح کروائے کہ اچھی بات پہنچاتا یا اچھی بات کہتا ہے۔"

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں، جو درجے میں روزے، نماز اور زکوة سے بھی افضل ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں نہیں، فرمایا:آپس میں صلح کروا دینا۔"( تفسیر صراط الجنان، ج9)

اللّہ کریم ہمیں ان فضائل سے حصّہ پانے کی توفیق عطا فرمائے۔اللہم آمین

البتہ یاد رہے کہ مسلمانوں میں وہی صلح کرانا جائز ہے، جو شریعت کے دائرے میں ہو، جبکہ ایسی صلح جو حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دے وہ جائز نہیں، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے، چنانچہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"مسلمانوں کے مابین صلح کروانا جائز ہے، مگر وہ صلح (جائز نہیں)، جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے۔"( صراط الجنان، ج 9)

اللہ کریم ہمیں عمل کرتے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اللہم آمین یارب العالمین