فطری طور پر ہر انسان کا اپنا الگ مزاج ہے۔ ہم ہر روز دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں مختلف اختلافات یا غلط فہمیاں، ناچاقی اور قطع تعلقی کا باعث بن جاتی ہیں۔ باہمی معاملات میں اکثر اوقات غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور یہ غلط فہمیاں بڑھتے بڑھتے نفرت و عداوت، قطع کلامی و قطع تعلقی تک جا پہنچتی ہیں۔ نتیجتاً معاشرے میں فساد شروع ہوجاتا ہے، تو انسانی نظامِ زندگی تباہ ہو کر رہ جاتا ہے، حتیٰ کہ خاندانوں کے خاندان اجڑ جاتے ہیں۔ ان سارے فتنوں سے بچاؤ کیلئے اسلام میں باہمی صلح و صفائی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید اور اَحادیثِ مبارکہ میں بکثرت مقامات پر مسلمانوں کو آپس میں صلح صفائی رکھنے اور ان کے درمیان صلح کروانے کا حکم دیا گیا اور اس کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَهُمَا صُلْحًاؕ-وَ الصُّلْحُ خَیْرٌؕ- ترجمۂ کنز الایمان: اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی زیادتی یا بے رغبتی کا اندیشہ کرے تو ان پر گناہ نہیں کہ آپس میں صلح کرلیں اور صلح خوب ہے ۔(پ5، النسآء:128)

حضرت اُمِّ کلثوم بنت عقبہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے کہ اچھی بات پہنچاتا ہے یا اچھی بات کہتا ہے۔(بخاری، کتاب الصلح، باب لیس الکاذب الذی یصلح بین الناس، 2/210، حدیث:2692)

حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں جو درجے میں روزے، نماز اور زکوٰۃ سے بھی افضل ہو۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! کیوں نہیں۔ ارشاد فرمایا: آپس میں صلح کروا دینا۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین، 4/365، حدیث: 4919)

پیارے اسلامی بھائیو! صلح کروانا افضل عبادت ہے لیکن صلح کرواتے وقت یہ بات ذہن میں رہے کہ مسلمانوں میں صرف وہی صلح کروانا جائز ہے جس میں شرعی طور پر کوئی برائی نہ ہو چنانچہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مسلمانوں کے مابین صلح کروانا جائز ہے مگر وہ صلح (جائز نہیں) جو حرام کو حلال کردے یا حلال کو حرام کر دے۔(ابوداؤد، 3/ 425، حدیث: 3594)

مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: زوجین میں اس طرح صلح کرائی جائے کہ خاوند اس عورت کی سوکن(اپنی دوسری بیوی)کے پاس نہ جائے گا یا مسلمان مقروض اس قدر شراب و سود اپنے کافر قرض خواہ کو دے گا۔ پہلی صورت میں حلال کو حرام کیا گیا، دوسری صورت میں حرام کو حلال، اس قسم کی صلحیں حرام ہیں جن کا توڑ دینا واجب ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 4/ 303)


اسلام ایک ایسا آفاقی مذہب ہے جو مسلمانوں کو آپس میں پیار محبت امن اور رواداری کا درس دیتا ہے، اگر کسی کا باہم لڑائی جھگڑا ہو جائے تو دوسرے کو صلح کروانے کی تلقین اور اس پر اجر کی نوید (خوشخبری) سناتا ہے اور بندہ مؤمن کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ صلح کروانا ہمارے پیارے آقا و مولیٰ امام الانبیاء صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت ہے، آپ نے دشمنیاں ختم کیں، خونی بدلے معاف کیے، ایک دوسرے کو معاف کرنے کا ہنر سکھایا، صلح کے ستون پر معاشرے کی عمارت قائم فرمائی۔

مسلمان بھائیوں میں صلح کرواؤ: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۠(۱۰) ترجمۂ کنزالایمان: مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔ (پ26، الحجرات:10)

عبادات سے افضل عمل:حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں جو درجے میں روزے، نماز اور زکوٰۃ سے بھی افضل ہو۔صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کیوں نہیں۔ ارشاد فرمایا: آپس میں صلح کروا دینا۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین، 4/ 345، حدیث: 4919)

کونسی صلح جائز نہیں؟ حضورِ اَقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:مسلمانوں کے مابین صلح کروانا جائز ہے مگر وہ صلح (جائز نہیں) جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے۔(ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فی الصلح، 3/ 425، حدیث: 3594)

اللہ کا پسندیدہ قدم:امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: اللہ عزوجل کو سب سے زیادہ وہ قدم پسند ہیں جو مسلمانوں میں صلح اور باہمی تعلقات کی اصلاح کے لیے اٹھیں۔(تفسیر قرطبی، 7/129، النسآء، تحت الآیہ: 114)

امیر اہل سنت کی صلح میں پہل:ہمارے بڑوں کے آپس میں کچھ مسائل ہوئے ہوں گے جس کی وجہ سے میری (یعنی امیرِ اہلِ سنّت کی) خالہ کے ہاں ہم لوگوں کا آنا جانا بند تھا اور نہ ہی وہ آتی تھیں۔ کھارادر میں شہید مسجد کے پاس خالہ کا گھر تھا اور میں اسی مسجد میں امامت کرتا تھا، اللہ کے کرم سے مجھے توفیق مل گئی اور میں ہمت کرکے خالہ کے گھر چلا گیا(میرا تو ویسے بھی ان سے کوئی جھگڑا نہیں تھا)، مجھے دیکھ کر وہ لوگ حیران ہوگئے اور کہنے لگے: تُم؟ میں نے کہا: ہاں! میں صلح کرنے آیا ہوں، مُعاف کردو! خالو سے ملا تو انہوں نے کہا کہ تُم اتنے بڑے آدمی ہوگئے ہو اورہم سے خود ملنے آئے ہو!(یہ ان دنوں کی بات ہے جب دعوتِ اسلامی کو بنےہوئے تھوڑا عرصہ ہوا تھا لیکن دعوتِ اسلامی کی وجہ سے میرا نام ہوگیا تھا)، یوں ان سے صلح کرکے میں گھر آیا اور اپنی بہن وغیرہ کو سمجھا بُجھا کر کہا کہ میں راہ ہموار کرکے آیا ہوں لہٰذا تم لوگ خالہ کے ہاں چلے جاؤ اور اَلحمدُلِلّٰہ وہ لوگ بھی ان کے ہاں چلے گئے اور اللہ پاک کے کرم سے خالہ کے ہاں ہمارے آنے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔( مدنی مذاکرہ رَمَضانُ المبارَک1441ھ کی 25ویں شب)

مولانا روم فرماتے ہیں:

تو برائے وصل کردن آمدی نے برائے فضل کردن آمدی

یعنی تو جوڑ پیدا کرنے کیلئے آیا ہے، توڑ پیدا کرنے کیلئے نہیں آیا۔(مثنوی شریف دفتر دوم، ص173)


صلح بمعنی درستی و مصالحت ہے اس کا مقابل فساد ہے بمعنی لڑائی و جھگڑا۔ (مراٰة المناجیح، باب الصلح)

دینِ اسلام کی بہت ساری خصوصیات میں سے ایک خاصیت یہ ہے کہ یہ مذہب امن و سلامتی کو قائم کرنے کا بہترین درس دیتا ہے۔ اسلام ہر طرح کے فتنہ و فساد سے نہ صرف خود بچنے کا حکم دیتا ہے بلکہ لوگوں کے مابین ہونے والے جھگڑوں کو بھی احسن انداز سے روکنے کی تلقین کرتا ہے، جس کا حکم خود اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۠(۱۰) ترجمۂ کنزالایمان: مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔ (پ26، الحجرات:10) معاشرے کی خوبصورتی اس کے امن و امان میں پوشیدہ ہے اور امن و امان کو قائم کرنے اور باقی رکھنے کے لیے ایسے لوگوں کا موجود ہونا ضروری ہے جو لوگوں کے درمیان پائے جانے والے معاملات کا درست فیصلہ کریں اور حتی الامکان فریقین کے مابین صلح کرانے کی کوشش کریں۔ احادیثِ مبارکہ میں صلح کرانے کے بہت سے فضائل موجود ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں:

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں جو درجے میں روزے،نماز اور زکوٰۃ سے بھی افضل ہو؟ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کیوں نہیں۔ ارشاد فرمایا: آپس میں صلح کروا دینا۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین، 4/365، حدیث: 4919)

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں ایسے عمل کے بارے میں نہ بتاؤں جسے اللہ اور اس کا رسول پسند کرتے ہیں؟ وہ یہ ہے کہ جب لوگ ایک دوسرے سے ناراض ہو کر روٹھ جائیں تو ان میں صلح کروادو۔(الترغیب والترھیب، 3/ 321، حدیث: 8)

صلح کرانے میں اگر جھوٹ کا سہارا بھی لینا پڑے تو لیا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت ِاُمِّ کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے کہ اچھی بات پہنچاتا ہے یا اچھی بات کہتا ہے۔ (بخاری، کتاب الصلح، باب لیس الکاذب الذی یصلح بین الناس،2/210، حدیث:2692)

صلح کرانے میں ایک شرط کا خیال رکھنا لازم ہے کہ صلح ایسی ہو جو شریعت سے ٹکراتی نہ ہو۔ حلال کو حرام کرنے یا حرام کو حلال کرنے کے لیے صلح کروانا ناجائز و گناہ ہے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اَقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کے مابین صلح کرواناجائز ہے مگر وہ صلح (جائز نہیں) جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے۔(ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فی الصلح، 3/425، 3594)

لہٰذا ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے جو تین طلاقیں قائم ہونے کے بعد بھی شوہر و بیوی کے درمیان صلح کروا رہے ہوتے ہیں جبکہ تین طلاقوں کے بعد وہ عورت اس مرد پر حرام ہو جاتی ہے اور اس ناجائز صلح کرانے کے بعد ان دونوں کا اکٹھے رہنا حرام اور اس کا گناہ نہ صرف شوہر و بیوی کو ہوگا بلکہ ناجائز صلح کروانے والوں کو بھی ہوگا۔

صلح کرانے کے طریقے: صلح کرانے کے بہت سے طریقے ہیں جیسے اگر دو شخصوں کے مابین کوئی رنجش ہو تو ان دونوں کو اکیلے میں ایک دوسرے کے بارے میں کہا جائے کہ ”فلاں آپ سے محبت رکھتا ہے یا آپکے بارے میں دل صاف رکھتا ہے“ وغیرہ۔ یا کوئی تحفہ لے کر دیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ یہ فلاں کی طرف سے ہے تو اس طرح دونوں کے درمیان احساس کا جذبہ اٹھے گا اور آپسی معاملات کو حل کرنے میں آسانی ہوگی۔ اسی طرح اگر دونوں کو اچھے ماحول بالخصوص عاشقانِ رسول کی تبلیغِ قرآن و سنت کی عالمگیر دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ کرادیا جائے تو اچھوں کی صحبت ملنے سے دل نرم ہو جائیں گے اور جلد صلح کرنےکا جذبہ بھی بیدار ہوجائے گا، ان شآء اللہ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے صلح کرنے والا اور کروانے والا بننے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


معاشرہ افراد سے مِل کر بنتا ہے اور معاشرہ میں رہنے والے لوگوں کے باہمی مراسم و تعلقات کبھی نہایت خوشگوار اور کبھی بہت زیادہ ناروا ہو جاتے ہیں۔ جس طرح شریعتِ مطہرہ نے ہر معاملے میں ہماری راہنمائی کی ہے، اسی طرح جب لوگوں کے آپسی معاملات اگر ناخوشگوار صورت اختیار کر جائیں تو ہمیں کیا فریضہ سر انجام دینا چاہیے، اس پر بھی بڑے عمدہ انداز میں دینِ اسلام ہماری تربیت کرتا ہے۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ جب بھی ایسا معاملہ دیکھیں تو حکمتِ عملی کے ساتھ ان دونوں کے درمیان صلح کروائیں کہ قرآن و احادیث میں مختلف مقامات پر صلح کروانے کا حکم اور اس کے فضائل بیان کیے ہیں، چنانچہ اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۠(۱۰) ترجمۂ کنزالایمان: مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔ (پ26، الحجرات:10)

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کروائے گا، اللہ عزوجل اُس کا معاملہ درست فرمادے گا اور اُسے ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔ (الترغیب و الترہیب، کتاب الادب، الترغیب فی الاصلاح بین الناس، 3/321، حدیث: 9، دار الکتب العلمیہ بیروت) کس قدر خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جو اپنی کوشش اور کاوش سے دو بچھڑے ہوئے مسلمانوں کو ملا دیتا ہے کہ اسے ہر کلمہ پر ایک غلام کی آزادی اور صلح کروانےکے بعد لوٹنے پر مغفرت سے نوازے جانے کی بشارت عطا کی ہے۔ ایک اور مقام پر نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان عرض کرنے لگے:یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ضرور بتائیں۔ ارشاد فرمایا: وہ عمل آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرانا ہے، کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے۔(ابو داود، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین، 4/365، حدیث: 4919 دار احیاء التراث العربی بیروت)

ان روایات سے صلح کروانے کی اہمیت اور فضیلت معلوم ہوئی، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ جب بھی دو مسلمانوں کے درمیان رنجش دیکھیں تو اُن کے درمیان صلح کروانے کی بھرپور کوشش کریں۔ بعض اوقات جب کوئی شخص دو بندوں کے درمیان ناراضی کو دیکھتا ہے تو ان کے درمیان صلح کروانے سے اس لیے پیچھے ہٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ماننا تو ہے نہیں تو میرے سمجھانے سے کیا فائدہ ہوگا یہ شیطان کا وسوسہ ہے اس کو فوراً دور کیجئے اور اپنا ذہن بنایئے کہ سمجھانا کبھی بھی فائدے سے خالی نہیں ہوتا کیونکہ اللہ کریم نے ارشاد فرمایا:وَّ ذَ كِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ(۵۵) ترجمۂ کنز الایمان:اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔(پ27، الذٰریٰت: 55) اگر اس طرح اپنا ذہن بنائیں گے تو اللہ پاک کی رحمت سے امید ہے کہ شیطان کے اس وسوسے سے چھٹکارا مل جائے گا۔ صلح کروانے کی کس قدر اہمیت ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ویسے تو جھوٹ بولنا گناہِ کبیرہ ہے اور دینِ اسلام میں جھوٹ بولنے کی سخت مذمت بیان کی ہے، لیکن چند مقامات ایسے ہیں جہاں واقع کے خلاف بات کرنا (یعنی جھوٹ بولنا) جائز ہے، ان میں سے ایک مقام وہ ہے کہ جب دو مسلمان ناراض ہو جائیں تو ان کے درمیانی نفرتوں کو محبتوں میں تبدیل کرنے کے لیے جھوٹ بولنے کی اجازت ہے، مثلاً صلح کروانے والا دو ناراض بندوں میں سے کسی ایک کے پاس جائے اور اس سے کہے کہ فلاں جو تم سے ناراض ہے وہ تو تمہاری تعریف کر رہا تھا یا تمہیں سلام کہہ رہا تھا اسی طرح دوسرے شخص سے بھی کہے تاکہ ان کے درمیان صلح ہو جائے۔(بہارِ شریعت، 3/517، مکتبۃ المدینہ) لیکن آج اگر معاشرے پر نگاہ ڈالیں تو صورتِ حال اِس کے برعکس نظر آتی ہے کہ صلح کروانے کے بجائے ایک دوسرے کو مزید لڑانے کے لیے چھوٹی چھوٹی باتوں کو بگاڑ کر دوسرے کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ بحیثیتِ مسلمان ہمیں اس بات کی طرف توجہ کرنی چاہیے کہ جب شریعتِ مطہرہ نے صلح کروانے کی اس قدر تاکید کی ہے تو پوری کوشش کر کے لوگوں کے دلوں میں اپنے بھائیوں کی محبت و الفت کو بٹھائیں اور نفرتیں دور کریں۔

اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں صلح کروا کر اس کے فضائل پانے کی توفیق عطا فرمائے۔


حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نور کے پیکر تمام نبیوں کے سرور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کیا میں تمہیں روزے، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ضرور بتائیے۔ فرمایا کہ وہ عمل آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دینا ہے کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والے فساد خیر کو کاٹ دیتے ہیں۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین،4/365، حدیث:4919)

حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ پیکر حسن و جمال بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سب سے افضل صدقہ روٹھے ہوئے لوگوں میں صلح کرا دینا ہے۔(الترغیب والترہیب، کتاب الآداب، باب اصلاح بین الناس، 3/321، رقم:6)

حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین رحمۃ اللعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لوگوں کے ہر جوڑ پر ہر اس دن میں جس میں سورج طلوع ہوتا ہے ایک صدقہ ہے، دو آدمیوں کے درمیان انصاف کرنا صدقہ ہے کسی شخص کی مدد کے لیے اسے اپنی سواری پر سوار کرنا یا اس کا سامان اپنی سواری پر لانا صدقہ ہے اچھی بات کہنا صدقہ ہے نماز کے لیے ہر قدم چلنے صدقہ ہے اور راستے سے تکلیف دہ چیز کو دور کر دینا صدقہ ہے۔(صحیح بخاری، کتاب الجہاد، باب من اخز بالرکاب ونحو، 2/302، حدیث: 2989 بتغیر قلیل)

حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کیا میں تمہیں ایک تجارت کے بارے میں نہ بتاؤں؟ انہوں نے عرض کیا ضرور بتائیں۔ ارشاد فرمایا: جب لوگ جھگڑا کریں تو ان کے درمیان صلح کروا دیا کرو، ایک دوسرے سے دوری اختیار کریں تو انہیں قریب کر دیا کرو۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے فرمایا: میں تمہیں ایسے صدقہ کے بارے میں نہ بتاؤں جسے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پسند کرتے ہیں، جب لوگ ایک دوسرے سے ناراض ہو کر لوٹ جائیں تو ان میں صلح کروا دیا کرو۔(الترغیب والترہیب، کتاب الآداب، باب اصلاح بین الناس، رقم:7، 8، 9، 3/321)

حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نور کے پیکر تمام انبیاء کی سرور دو جہاں کے تاجدار سلطان بحر و بر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کرائے گا اللہ تعالیٰ اس کے معاملے درست فرما دے گا، اس کے ہر کلمہ بولنے پر اسلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور وہ جب لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔(الترغیب والترہیب، کتاب الآداب، باب اصلاح بین الناس، 3/321)


پیارے اسلامی بھائیو! اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں ہر شے کا واضح بیان ہے ان ہی میں سے ایک صلح بھی ہے۔آئیے صلح کے بارے میں چند باتیں آپ بھی پڑھئے:اللہ پاک فرماتا ہے   : ﴿لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ بَیْنَ النَّاسِؕ﴾ ترجَمۂ کنزُ الایمان: ان کے اکثر مشوروں میں کچھ بھلائی نہیں مگر جو حکم دے خیرات یا اچھی بات یا لوگوں میں صلح کرنے کا۔ (پ 5، النسآء: 114) ایک جگہ اور ارشاد فرمایا: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۠(۱۰)﴾ ترجَمۂ کنزُا لایمان: مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔(پ26،الحجرات:10)

(1)بخاری شریف میں حضرت اُمِّ کُلثوم بنتِ عقبہ رضی اللہُ عنہا سے مروی ہے:رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمفرماتے ہیں: وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے کہ اچھی بات پہنچاتا ہے یا اچھی بات کہتاہے۔(بخاری،2/210، حدیث: 2692) (2)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مسلمانوں کے مابین صلح جائز ہے مگر وہ صلح کے حرام کو حلال کردے یا حلال کو حرام کردے۔(ابوداؤد،3/425،حدیث:3594) (3)اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سب سے افضل صدقہ روٹھے ہوئے لوگوں میں صلح کرادینا ہے۔(الترغیب والترھیب،3 /321،حدیث:6)

مذکورہ بالا آیات اور احادیثِ مقدسہ سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ آپس میں پیار و محبت سے رہنا چاہئے کبھی بھی لڑائی جھگڑے وغیرہ نہیں کرنے چاہئیں،آپس میں بھائی بھائی بن کے رہنا چاہئے اور اگر کسی کے آپس میں اختلافی معاملات ہوں تو انہیں آپس میں حل کرکے صلح کر لینی چاہئے، اللہ پاک ہم سب کو آپس میں اتفاق و اتحاد نصیب فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم