معاشرہ افراد سے مِل کر بنتا ہے اور معاشرہ میں رہنے والے لوگوں کے باہمی مراسم و تعلقات کبھی نہایت خوشگوار اور کبھی بہت زیادہ ناروا ہو جاتے ہیں۔ جس طرح شریعتِ مطہرہ نے ہر معاملے میں ہماری راہنمائی کی ہے، اسی طرح جب لوگوں کے آپسی معاملات اگر ناخوشگوار صورت اختیار کر جائیں تو ہمیں کیا فریضہ سر انجام دینا چاہیے، اس پر بھی بڑے عمدہ انداز میں دینِ اسلام ہماری تربیت کرتا ہے۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ جب بھی ایسا معاملہ دیکھیں تو حکمتِ عملی کے ساتھ ان دونوں کے درمیان صلح کروائیں کہ قرآن و احادیث میں مختلف مقامات پر صلح کروانے کا حکم اور اس کے فضائل بیان کیے ہیں، چنانچہ اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۠(۱۰) ترجمۂ کنزالایمان: مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔ (پ26، الحجرات:10)

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کروائے گا، اللہ عزوجل اُس کا معاملہ درست فرمادے گا اور اُسے ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔ (الترغیب و الترہیب، کتاب الادب، الترغیب فی الاصلاح بین الناس، 3/321، حدیث: 9، دار الکتب العلمیہ بیروت) کس قدر خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جو اپنی کوشش اور کاوش سے دو بچھڑے ہوئے مسلمانوں کو ملا دیتا ہے کہ اسے ہر کلمہ پر ایک غلام کی آزادی اور صلح کروانےکے بعد لوٹنے پر مغفرت سے نوازے جانے کی بشارت عطا کی ہے۔ ایک اور مقام پر نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان عرض کرنے لگے:یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ضرور بتائیں۔ ارشاد فرمایا: وہ عمل آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرانا ہے، کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے۔(ابو داود، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین، 4/365، حدیث: 4919 دار احیاء التراث العربی بیروت)

ان روایات سے صلح کروانے کی اہمیت اور فضیلت معلوم ہوئی، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ جب بھی دو مسلمانوں کے درمیان رنجش دیکھیں تو اُن کے درمیان صلح کروانے کی بھرپور کوشش کریں۔ بعض اوقات جب کوئی شخص دو بندوں کے درمیان ناراضی کو دیکھتا ہے تو ان کے درمیان صلح کروانے سے اس لیے پیچھے ہٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ماننا تو ہے نہیں تو میرے سمجھانے سے کیا فائدہ ہوگا یہ شیطان کا وسوسہ ہے اس کو فوراً دور کیجئے اور اپنا ذہن بنایئے کہ سمجھانا کبھی بھی فائدے سے خالی نہیں ہوتا کیونکہ اللہ کریم نے ارشاد فرمایا:وَّ ذَ كِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ(۵۵) ترجمۂ کنز الایمان:اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔(پ27، الذٰریٰت: 55) اگر اس طرح اپنا ذہن بنائیں گے تو اللہ پاک کی رحمت سے امید ہے کہ شیطان کے اس وسوسے سے چھٹکارا مل جائے گا۔ صلح کروانے کی کس قدر اہمیت ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ویسے تو جھوٹ بولنا گناہِ کبیرہ ہے اور دینِ اسلام میں جھوٹ بولنے کی سخت مذمت بیان کی ہے، لیکن چند مقامات ایسے ہیں جہاں واقع کے خلاف بات کرنا (یعنی جھوٹ بولنا) جائز ہے، ان میں سے ایک مقام وہ ہے کہ جب دو مسلمان ناراض ہو جائیں تو ان کے درمیانی نفرتوں کو محبتوں میں تبدیل کرنے کے لیے جھوٹ بولنے کی اجازت ہے، مثلاً صلح کروانے والا دو ناراض بندوں میں سے کسی ایک کے پاس جائے اور اس سے کہے کہ فلاں جو تم سے ناراض ہے وہ تو تمہاری تعریف کر رہا تھا یا تمہیں سلام کہہ رہا تھا اسی طرح دوسرے شخص سے بھی کہے تاکہ ان کے درمیان صلح ہو جائے۔(بہارِ شریعت، 3/517، مکتبۃ المدینہ) لیکن آج اگر معاشرے پر نگاہ ڈالیں تو صورتِ حال اِس کے برعکس نظر آتی ہے کہ صلح کروانے کے بجائے ایک دوسرے کو مزید لڑانے کے لیے چھوٹی چھوٹی باتوں کو بگاڑ کر دوسرے کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ بحیثیتِ مسلمان ہمیں اس بات کی طرف توجہ کرنی چاہیے کہ جب شریعتِ مطہرہ نے صلح کروانے کی اس قدر تاکید کی ہے تو پوری کوشش کر کے لوگوں کے دلوں میں اپنے بھائیوں کی محبت و الفت کو بٹھائیں اور نفرتیں دور کریں۔

اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں صلح کروا کر اس کے فضائل پانے کی توفیق عطا فرمائے۔